غبار خاطر صفحہ نمبر 179

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر179
اس علاقے میں عام طورپر سردی بہت ہلکی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں ، کبھی اس طرف بھی آپ کا گزر ہوا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوا ہے تو کس موسم میں ؟ لیکن پونا تو آپ بار ہا گئے ہوں گے۔ دسمبر۱۹۱۵ء کا سفر مجھے یاد ہے، جب مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاس کے موقع پر آپ سے وہاں ملاقات ہوئی تھی۔ پونا یہاں سے ۲؎ صرف اسی میل کی مسافت پر واقع ہے اور دکن کا یہ تمام حصہ ایک ہی سطح مرتفع ہے۔ اس لیے یہاں کی موسمی حالت کو پونا پر قیاس کر لیجئے۔ علاوہ بریں وقت کے زندانی کچھ پونا میں رکھے گئے ہیں ، کچھ یہاں؛ اس لیے ویسے بھی اہل قیاس کے نزدیک بقول عرفی دونوں کا حکم ایک ہی ہوا:
(۲۹۲)
یکے ست نسبتِ شیرازی و بدخشانی ۳؎
فیضی ۴؎ ؔ کو اکبر نے جب سفارت پر یہاں بھیجا تھا تو معاملات کی پیچیدگیوں نے اسے دو سال تک ہلنے نہیں دیا اور یہاں کے ہر موسم کے تجربے کا موقعہ ملا ۔ اس نے اپنے مکاتیب میں احمد نگر کی آب و ہوا کے اعتدال کی بہت تعریف کی تھی۔ فیضی سے بہت پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ ملک التجار شیرازی نے مولانا جامی کو دکن آنے کی دعوت دی تھی اور لکھا تھا کہ اس ملک میں باہ مہینے ہوائے معتدل کا لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔ خیر بارہ مہینا کہنا تو صریح مبالغہ تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ یہاں گرمی کے دن بہت کم ہوتے ہیں اور یہاں کی برسات مالوہ کی برسات کی طرح بہت ہی پر لطف ہوتی ہے ۔ غالباً ۱۹۰۵ کی بات ہے کہ بمبئی میں مرزا فرصت شیرازی ۵ؔ صاحب آثار العجم سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ برسات کا موسم پونا میں بسر کر کے لوٹے تھے اور کہتے تھے پونا کی ہوا کے اعتدال نے ہوائے شیراز کی یاد تازہ کردی:
(۲۹۳)
اے گل بتو خرسندم ، تو بوئے کس داری ۶؎
میرا ذاتی تجربہ معالمہ کویہاں تک نہیں لے جاتا لیکن بہرحال میں شیراز میں مسافر تھا اور مرزائے موصوف صاحب البیت تھے۔ وصاحب البیت ادریٰ بما فہیا! ۷؎
اورنگ زیب جب دکن آیا تھا تو یہاں کے برشگال کا اعتدال اس کی طبع خش کو بھی تر کیے بغیر نہ رہا تھا ۔ آپ نے تاریخ خوافی خاں اور مآثر الامراء وغیرہ میں جا بجا پڑھا ہوگا کہ برسات کا موسم اکثر احمد نگر یا
 
Top