غائبستان میں بلوچ

سعود الحسن

محفلین
بی بی سی اردو

بدھ کو کراچی آرٹس کونسل میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایچ آر سی پی کی شائع کردہ کتاب ’غائبستان میں بلوچ‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ ہوا۔ ’غائبستان میں بلوچ‘ ان لوگوں سے ملاقاتوں کا احوال ہے جنھوں نے اپنے ان انتہائی قریبی عزیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے جنھیں مبینہ طور پر ریاستی ادارے اُٹھا کر لے گئے اور جن کی بازیابی کے لیے ہر کوشش ہر سطح پر ناکام ہوئی۔
آرٹس کونسل میں منعقد کیے جانے والے مذاکرے میں ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرہ یوسف، وائس آف بلوچ مسنگ پیپلز کی سکریٹری فرزانہ مجید، سابق وزیر جان محمد بلیدی اور محمد حنیف شریک تھے۔
اس مذاکرے میں مذکورہ لوگوں کو اغوا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کی زیادہ ذمے داری پاکستانی فوج کے اداروں انٹرسروسز انٹیلی جنس، آئی ایس آئی اور ایم آئی پر ڈالی گئی۔
لاپتا لوگوں کے اِن عزیزوں سے یہ ملاقاتیں ایچ آر سی پی کے لیے محمد حنیف نے کیں۔ ملاقاتوں کے دوران بیان کی گئی تفصیلات کو پہلے انگریزی میں’دی بلوچ ہُو از ناٹ مسنگ اینڈ ادرز ہُو آر‘ کے نام سے اور اب اردو میں ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اسے اردو میں وسعت اللہ اور کاشف رضا نے کیا ہے۔
محمد حنیف، ایک عرصے سے بی بی سی اردو سے وابستہ ہیں اور اس دوران اپنی ناول نگاری سے عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ وسعت اللہ بھی خاصے عرصے سے بی بی اردو سے وابستہ ہیں۔ کاشف رضا جیو ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ شاعری بھی کرتے ہیں اور ادبی ترجمے بھی، ان کے دو شعری مجموعے آ چکے ہیں۔
زہرہ یوسف کتاب کی تفصیل بتانے کہ بعد کہا کہ ایچ آر سی پی نے سفارش کی ہے کہ پاکستان میں ’جبری گمشدی‘ کو ایک جرم تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔ اغوا کا یہ جرم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور پاکستان لاپتہ افراد کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کو توثیق کرے۔ لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندانوں کو تحفظ اور معاوضہ دیا جائے۔
محمد حنیف نے کہا اب یہ روزانہ کی بات ہو گئی ہے لیکن جیسے اور جتنے عرصے سے ان لاپتا لوگوں کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں اور جیسے ان کے لیے کوئٹہ، اسلام آباد اور کراچی میں کیمپ لگائے جاتے ہیں اور لگائے جا رہے ہیں، اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں اور ملے۔ یہ کوششیں کتنی موثر ہوئیں ہیں، اس کے نتیجے میں ان واقعات کوئی کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے، اس سے قطع نظر معاملہ یہ کہ جو اغوا کر لیا جاتا ہے یا جسے اٹھا لیا جاتا ہے وہ تو خیر اٹھا ہی لیا جاتا ہے، لیکن اس کے پیچھے رہ جانے والے ان کی عزیزوں پر کیا گذرتی ہے۔ اس کا اندازہ کرنا اتنا آسان نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ ذرا تصور کریں کہ آپ کا بچہ سکول جاتا ہے، اس کے لوٹنے کا ایک وقت ہے، آپ اس وقت تک انتظار کرتے ہیں، جب یہ وقت گذر جاتا ہے تو آپ کو تشویش ہوتی ہے، آپ سکول سے پتا کرتے ہیں۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ بچہ سکول ختم ہونے کے بعد گھر جا چکا ہے۔ اس کے بعد آپ تلاش شروع کرتے ہیں، ایک دن، ایک ہفتہ، ایک مہینہ اور پھر کئی مہینے۔ آپ کو کچھ پتا نہیں چلتا۔ تو وہ ایک دن، ہفتہ اور پھر مہینہ آپ پر کیسا گذرے گا؟ یہ سب ظاہر ہے اتنا آسان نہیں ہوتا جتنی آسانی سے اسے چند جملوں میں کہا جا سکتا ہے۔ اس عرصے کا ہر دن اور ہر دن کا ہر لمحہ آپ کو اپنے گذرنے کا احساس دلاتے ہوئے گذرتا ہے۔
حنیف نے بتایا کہ اس چھوٹی سے کتاب میں ان لمحوں سے گذرنے والے کچھ لوگوں کی بیان کردہ باتوں کی تھوڑی سی تفصیل ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔
وائس آف بلوچ مسنگ پیپلز کی سکریٹری فرزانہ مجید بتاتی ہیں کہ ان کا بھائی ذاکر مجید، جو ان سے تین سال چھوٹا ہے، ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے نائب صدر بھی۔ اسے 2008 میں مستونگ سے آتے ہوئے اٹھایا گیا۔
ان کا کہنا تھا وہ چار سال سے اس معاملے کو اٹھا رہی ہیں اور ان کا مطالبے صرف اتنا ہے کہ ذاکر کو سامنے لایا جائے۔ اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر مقدمہ چلایا جائے لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ چار سال کہنا بہت آسان ہے لیکن یہ وقت کتنا ہوتا ہے، کیسے گذرتا ہے یہ بتانا آسان نہیں۔
فرزانہ نے کہا ایچ آر سی پی نے بہت کچھ کیا ہے لیکن وہ محسوس کرتی ہیں کہ جیسے وہ دوسرے معاملوں کو اٹھاتے ہیں ویسے انھوں نے اس معاملے کو نہیں اٹھایا، نہ ہی وہ سرگرمی دکھائی ہے۔ یہی حال بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا بھی ہے۔ کیوں وہ محسوس نہیں کرتے وہ جو اپنے بھائی کی بازیابی کی کوششیں کر رہی ہیں، انھی کی بہن اور بیٹی ہیں اور جسے بازیاب کرانے کی جد وجہد کر رہی ہیں وہ ان کا بیٹا یا بھائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسے محسوس نہیں کیا جاتا۔ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس لیے کے اب تک کسی سیاستدان کا بھائی اور بیٹا نہیں اٹھایا گیا۔ اسی لیے وہ دوسروں سے زیادہ انھیں بھی اس کا ذمے دار سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی کسی ٹارچر سیل میں ہے اور یہ سلسلہ اُس پر ختم نہیں ہوا۔ ابھی عبدالرزاق بلوچ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے چار طالب علموں کو کراچی سے اٹھایا گیا، ان میں سے دو کی تو لاشیں بھی مل چکی ہیں۔
جان محمد بلیدی نے کہا کہ وہ اور ان کی پارٹی اس سارے عمل کے خلاف ہیں اور پوری طرح خلاف ہیں۔ وہ جس درد اور تکلیف میں ہیں اُسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے خیال میں اِس وقت پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔ لیکن اس پر وہ ردِ عمل سامنے نہیں آتا جو آنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس تناسب سے بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں اس تناسب سے اگر لاہور میں ملتیں تو صورتِ حال بالکل مختلف ہوتی۔ بلوچستان میں گذشتہ دو سال کے دوران پانچ سو لاشیں ملی ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں جن کے عزیز ایسے اٹھائے جاتے ہیں اور جو انھیں تلاش کرتے رہتے ہیں ان پر اور جن کے عزیزوں کی لاشیں ملتی ہیں ان پر کیا گذرتی ہو گی؟ ان کا کہنا تھا کہ جب کسی کی لاش ملتی ہے تو اس کے ساتھ اس کا نام اور گھر کا پتا بھی ملتا ہے۔ یہ مہربانی کیوں کی جاتی ہے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
 
Top