عید کی خوشی

یہ غالباً 5 سال پہلے کی بات ہے۔ تب نانی اماں حیات تھیں اور ہم سنتے رہتے تھے کہ ان کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی ہے۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹروں کو دکھایا، 10مختلف قسم کے ٹیسٹ ہوئے، سی ٹی اسکین بھی کیا گیا ، ای سی جی اور ای ٹی ٹی بھی کرالی گئی، لیکن ان کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی۔ ہلکا بخار عموماً انفیکشن کی علامت گردانا جاتا ہے تاہم انہیں ہلکے بخار کے باوجود کہیں انفیکشن نہیں تھا۔ اندر ہی اندر کہیں وہ کلستی شاید بیماری کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ انہی دنوں میرا پنجاب جانا ہوا۔ وہاں قیام نانی اماں ہی کے گھر رہا۔ وہاں میں نے محسوس کیا کہ نانی اماں غیر معمولی طور پر تنہائی کا شکار ہیں۔ نانا ابو کا انتقال ہوئے 6سال گزر چکے تھے، ان کا ایک بیٹا باہر، ایک دوسرے علاقے میں رہتا تھا، جبکہ ایک بیٹا ان کے ساتھ تھا، مگر اسے بھی صبح سے شام تک غم روزگار میں گھلنا ہوتا تھا۔ دو پوتے بھی باہر جاچکے تھے، وہ اپنی پوتیوں اور بہو کے رحم و کرم پر تھیں، سب ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے سے گریزاں تھے، میں وہاں 15دن رہا، اس دوران میں نے انہیں خوب کمپنی دی، انہیں لطیفے سناتا، انہیں دفتر کے واقعات بتاتا، ان سے کچھ معاملات پر ہلکی پھلکی بحث کرتا، ان سے اپنی خوشیاں شیئر کرتا، سب نے نانی اماں میں تبدیلی محسوس کی۔
اس کے بعد کافی عرصے تک ان کی طبیعت بحال رہی۔ ساری زندگی میں یہی وہ ایام تھے، جو ان کی اصل خدمت میں گزارے اور شاید یہی میرا اثاثہ ثابت ہوں۔

اصل بات یہی ہے کہ انسان کی 50فیصد بیماریاں غم اور اداسی سے کشید کی جاتی ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ بیماریوں کا انسان کے مزاج اور جذبات سے گہرا تعلق ہے۔ غم کا عنصر ہر انسان کی زندگی کا لازمی جزو ہے ، لیکن اس کا زیادہ دیر تک رہنا زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔ خوشیاں زندگی میں بہار لاتی ہیں اور ان کا زیادہ دیر تک رہنا انسان کو 50فیصد بیماریوں سے دور کردیتا ہے۔

اسلام دین فطرت ہے ، لہٰذا اس نے اس فطری تقاضے پر بہت زور دیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی طرف مسکراکردیکھنے کو بھی صدقہ بتایا اور صدقہ ایسی چیز ہے جس سے اللہ کا غضب ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ یہ صدقہ کیوں ہے، اس لیے کہ اس سے مسلمان کو راحت ملتی ہے۔ پھر فرمایاکہ وہ شخص تو مسلمان ہی نہیں ہوسکتا جس سے دوسرے مسلمان کو کسی سطح پر تکلیف پہنچ رہی ہو۔ اسلام نے خوشی پر اس حد تک زور دیا کہ ہر سال خوشیوں کے دو دن مسلمانوں پر فرض کردیے۔

غور کیا جائے تو عید الفطر اور عید الاضحی دونوں کا ایک ہی پیغام ہے کہ خوشیاں صرف خود تک محدود نہ رکھی جائیں، انہیںبانٹا جائے، شیئر کیا جائے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی اور غم شیئر کرنے سے کم ہوجاتے ہیں۔ عید الفطر پر صدقۃ الفطر واجب کرنے کے پیچھے فلاسفی یہی ہے کہ اس طرح خوشیاں ان کے حصے میں بھی آجاتی ہیں ، غم جن کی جان ہی نہیں چھوڑ رہے ہوتے۔ عید الاضحی پر قربانی کا فریضہ بھی اسی لیے ہے کہ خوشیوں کا سندیسہ ہر گھر میں پہنچے یہاں تک کہ بعض مقامات پر غیر مسلم گھرانے بھی قربانی کے گوشت سے مستفید ہوجاتے ہیں۔

یہ وہ حسین روایات ہیں جنہیں جاری و ساری رکھنے کی ضرورت ہے، انہیں اس دھوکے کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے کہ قربانی کی رقم غریبوں میں بانٹ دی جائے تو وہ زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔ قربانی کی شکل میں یہ خوشی اللہ نے فرض کی ہے، یہ خوشی اسی انداز میں بانٹی جائے جیسا اللہ چاہتا ہے ، تب ہی ثمر دے گی ورنہ بے اثر ہوجائے گی، اور بے اثر خوشیوں اور بے تحاشا غم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دونوں ہی پریشان کرتے، ڈپریشن کا مریض بناتے، انسان کو زندگی سے دور کرتے چلے جاتے ہیں۔
 
Top