عیدالضحیٰ کے موقع پر ملا اختر منصور کا متنازع بیان

Latif Usman

محفلین
افغان طالبان کے امیر ملا اختر محمد منصور نے ملا عمر کی موت کی خبر کو خفیہ رکھا اور نائب کے طور پر ملا عمر کے پیغام بھی جاری کرتے رہے اور واضح طور پر انکی نگرانی کے تحت ہی افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان طے شدہ مذاکرات کا پہلا دور طے پایا مگر ملا عمر کی وفات کی خبر کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور مؤخر کر دیا گیا تھا۔ واضح طور سے ملا اختر منصور نے ہی بطور نائب مذاکرات کی منظوری دی تھی اور بعد از بھی کہا جا رہا تھا کہ افغان طالبان کے نئے لیڈر ملا اختر منصور مذاکرات کے حامی ہیں اور ملک میں امن قائم کرنے کے لئے کابل حکومت کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔

عیدالضحیٰ کے موقع پر طالبان لیڈر کے طور سے ملا اختر منصور کا یہ پہلا پیغام ہے جس میں انکا کہنا ہے کہ اگر ملک پر بیرونی تسلط نہ ہو تو افغان اپنے تمام معاملات باہمی افہام و تفہیم سے ہی ڈھونڈ نکالیں گے۔ تا ہم انکا کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا تک ملک میں امن نہیں ہوسکتا۔ ملا اختر منصور کی منافقت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ جو پہلے افغان حکومت سے مذاکرات کے حق میں تھے اچانک سے انکے بیان میں تبدیلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا غیر ملکی حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی کو نائب مقرر سے ملا اختر منصور نے اپنا بیانتبدیل کر لیا ہے۔ دہشتگرد تنظیم کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہسراج الدین حقانیدہشتگردانہ ظلم و بربریت کا چہرہ تھا اور افغانستان میں طالبان کے خود کش حملوں کے آغاز کا سہرا بھی حقانی نیٹ ورک کے سر باندھتے ہیں۔ سراج الدین حقانی بطور نائبافغانستان میں دہشتگردی کو پروان چڑھانا چاہتا ہے اور کبھی بھی امن مذکرات کے لیے آمادہ نہیں ہوگا ۔ میرا سوال ہے کہ کیاعیدُ ا لا ضحیٰ نام ہے عظیم قربانی کی یاداشت کا، پھر کیا یہ ضروری نہ تھا کہ عید کے موقعہ پر عوام کو پیار، محبت اور امن و سلامتی کا پیغام دیا جاتا؟
 
Top