عورت معاشرہ اور مرد

zaryab sheikh

محفلین
مرد نے عورت کو ایک عرصے تک اپنی جسمانی خواہش پوری کرنے کا زریعہ ہی سمجھا اسے پیروں کی جوتی کی طرح استعمال کیا اس کی شرم اور حیاء کو ہی جلا کر راکھ کردیا ایسا وقت بھی آیا بیٹی کو زندہ درگورکرنا اچھا سمجھا جاتا تھا لیکن پھر اللہ کی لاٹھی حرکت میں آئی اور اسلام نے اس معصوم کو عزت کی چادر پہنائی بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا جس عورت کو اس کے خاص ایام میں بھی یہودو نصاری اپنی درندگی کا نشانہ بناتے تھے اور ہندو پلید سمجھ کر کمرے میں بند کردیتے تھے اسلام نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور بتایا کہ خبرداران دنوں میں عورت کے پاس نہ جاؤ کیونکہ وہ تکلیف میں ہوتی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ اچھوت نہیں سب کے ساتھ مل جل کر رہے گی گھر کے کام بھی کرے گی یہ ہی اسلام ہے جس نے عورت کے جسم پر غیر کی نظر پڑنے پر تنبیہ کی اور مرد کو کہا نظریں نیچی کرو ساتھ عورت کو بھی کہا تم تو امانت ہو خود بھی پردہ کرکے گھر سے نکلو یہ ہی اسلام ہے کہ مرد کو کہا کہ تم حق حلال کماؤ اور اپنی بیوی کو کھلاؤ اس کا خیال رکھو اس کی آنکھ میں آنسو نہ آنے دو سب حقوق پورے کرو اسلام ہی ہے جس نے عورت کو تنبیہ کی کہ تمھارا جسم اپنے شوہر کی امانت ہے اس میں خیانت نہ کرنا خود کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کو مت دکھانا اور سب سے بڑھ کر اسلام نے عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی بیٹی کو رحمت قرار دیدیا، ، عورت کو بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کیا نا محرم سے لہجے میں سختی رکھ کر بات کرنے کی تلقین کی، بیٹی کو اجازت دی کہ وہ پسند سے شادی کرے اگر رشتہ نہیں پسند تو انکار کردے
..
وقت گزرتا گیا جب تک مرد عورت کے حقوق پورے کرتا رہا عورت بھی ایمانداری کا مطاہرہ دکھاتی رہی جب مرد نے ڈنڈی مارنا شروع کی تو عورت بھی باغی ہونے لگی، یہاں تک کہ مرد نے عورت کو شادی کے بعد اپنی جسمانی خواہش ، بچے پیدا کرنے کی مشین اور گھر میں کام کرنے والی ایک نوکرانی سمجھنا شروع کردیا، شادی کے وقت سب سے پہلا سوال یہ ہی پوچھا جاتا ہے کہ بیٹی کو کھانا بنانا آتا ہے گھرسنبھالنا آتا ہے جبکہ کوئی مرد سے یہ نہیں پوچھتا کہ مرد کو بھی عزت کرنی آتی ہے حقوق پورے کرنے آتے ہیں یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور پھر یہ وقت آ گیا کہ عورت ڈپریشن کا شکار ہونے لگی اس کا شوہر اسے وقت ہی نہیں دیتا تھا مرد نے بس یہ ہی سمجھ لیا کہ اس کیلئے کمانا اور بیوی کو پیسے دے دینا یہ ہی کافی ہے اور جب اپنا دل کیا حاجت پوری کرلی اور جب بیوی کو ضرورت ہو تب شوہر کے پاس وقت ہی نہیں اگر بیوی کچھ کہے تو شوہر کا ایک جملہ ہوتا تھا بیوی کو شوہر کا فرمانبردار ہونا چاہیئے شوہر کو ناراض کرو گی تو اللہ ناراض ہوگا اور طلاق کی دھمکی دی جانے لگی بیوی بے چاری دب دب کر زنگی گزارنے کی عادی ہوتی چلی گئی جس سے برداشت نہ ہوا اس نے خود کشی کرلی ، کسی نے ہمت کی تو طلاق لے اور کوئی کسی سے ناجائز تعلق بنا بیٹھی اور تب بھی سکون نہ ملا اور غیرت کے نام پر قتل کردی گئی، بیٹی کو اپنی مرضی کی شادی کی اجازت نہ مل سکی بس جہاں ماں باپ نے کہہ دیا سر جھکا کر چلی گئی
۔
اسلام نے تو مرد کو بھی یہ ہی سکھایا کہ بیوی کی عزت کرو اس کی ہر جائز خواہش کا خیال رکھو لیکن مرد نے حقوق کو صرف اپنی زات تک محدود کردیا اور بیوی کے حققوق کو کہیں دفن کرکے رکھ دیا، اسلام نے جو شان اور مرتبہ عورت کو دیا وہ مرتبہ ایک بار پھر مرد نے چھین لیا، مرد نے خود کو اتنا آزاد کرلیا کہ جب چاہا کسی لڑکی سے تعلق بنا لیا عیاشی بھی کرلی اور زندگی کے مزے لیتا رہا لیکن دوسری جانب عورت گھر میں کڑھتی رہی اس کے دل بہلانے کیلئے بچے تو تھے لیکن بچے شوہر کا نعم البدل تو نہیں تھے جن کے ہاں بچے نہیں تھے وہ کچھ کہنے سے ڈرتی تھیں کہ کہیں طلاق ہی نہ ہو جائے ، عورت نے پھر سے ڈر ڈر کر جینا شروع کردیا جس بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا اسی کو پھر سے زحمت قرار دیدیا گیا ، بیٹیاں پیدا ہونے پرعورت کو طعنے دے دے کر جینا مشکل بنا دیا گیا، عورت پھر سے مرد کی راہ تکنے لگی کہ شاید اسے دوبارہ وہ مقام ملے جو اللہ نے دیا تھا
۔
جب یہ سلسلہ یوں ہی چلا تو آزادی نسواں کے علمبرداروں نے اسلام کو تنگ نظر مذہب قرار دیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام نے تو عورت کو قید کر رکھا ہے بے جا سختیاں کر رکھی ہیں اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی کسی سے بات نہیں کر سکتی یوں عورت کے اندر ایک باغی تحریک کا آغاز ہوا جو عورت گھر میں پیسوں اور محبت کیلئے ترس رہی تھی اس نے گھر سے باہر قدم رکھنے کی ٹھانی ، اپنی مرضی سے جینے کی کوشش شروع کردی، لڑکیوں نے نوکریاں شروع کردیں یوں ایک وقت ایسا آیا کہ میاں بیوی دونوں ہی کمانے لگے ، کچھ کو تو مہنگائی نے کمانے پر مجبور کیا کچھ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی خواہش میں گھر سے نکلیں اور اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان جو توازن رکھا تھا وہ بگڑ گیا، بیویوں کا رویہ بھی شوہروں کے رویے جیسا ہوگیا، گھر میں کام کیلئے نوکرانی رکھ لی گئی اور بچوں کو ماں کی شفقت سے بھی محروم ہونا پڑا اور ایک ایسا معاشرہ بن گیا جس کو حقوق کا بالکل بھی علم نہیں تھا اسلام نے خوبصورت گھرانے کا جو تصور دیا تھا وہ پوری طرح بکھر گیا، طلاقیں بڑھنے لگیں ، لڑکیاں گھروں سے بھاگنے لگیں، شادی سے پہلے لڑکیاں عزت گنوانے لگیں، جو عزت کی چادر اسلام نے عورت کے سر پر ڈالی تھی وہ مرد کی غلطیوں سے تار تار ہو کر رہ گئی
۔
عجیب بات ہے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مرد عورت کو ہی ذمہ دار ٹھراتا ہے خود تو جس لڑکی سے بھی چاہے بات کرلے لیکن بیوی پر پابندیاں لگاتا ہے اس نے عورت کو نہ تو ابھی تک اعتبار کے قابل سمجھا نہ ہی اسے قابل سمجھا اسے یہ لگتا ہے کہ عورت ایک بے وقوف سی مخلوق ہے جس کا کام بس اپنے مرد کے آگے جی حضؤر کرنا ہے ، آج معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ مرد اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے مرد اپنا وہ مقام کھوتا جا رہا ہے جو اللہ نے اسے دیا جس مرد نے عورت کو بے مقام کیا آج خود بھی کہیں کھو کر رہ گیا ہے، مرد کو اپنا مقام پانے کیلئے عورت کو وہ ہی مقام دینا ہوگا جو اللہ نے دینے کا حکم دیا ہے، ایک مرد کیلئے اس کی بیوی سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دنیا کی ساری عورتیں بھلے کتنی ہی اچھی ہوں لیکن شوہر کیلئے اس کی بیوی ہی اچھی ہے خدارا عورت کو اس کا حق دیں یہ نہ ہو کہ مرد بھی عورت کیلئے بس جسم کی ضرورت بن جائے
۔
زریاب شیخ
زریابیاں
 

arifkarim

معطل
جب یہ سلسلہ یوں ہی چلا تو آزادی نسواں کے علمبرداروں نے اسلام کو تنگ نظر مذہب قرار دیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام نے تو عورت کو قید کر رکھا ہے بے جا سختیاں کر رکھی ہیں اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی کسی سے بات نہیں کر سکتی یوں عورت کے اندر ایک باغی تحریک کا آغاز ہوا
یہاں بھی سارا قصور حقوق نسواں کے علمبرداروں یعنی عورتوں کا ہی ہے جنہوں نے اس تنگ نظر اسلامی معاشروں کیخلاف بغاوت کی اور گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھا۔ آفرین ہے ایسی بہترین تحریر پر۔
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم زریاب صاحب

السلام علیکم ۔۔۔

ایک اچھی تحریر جس میں معاشرے کی ناہمواری کے بارے میں جائزہ لیا گیا ہے ۔ ایک طرف آپ نے مرد ے فرائض اور کوتاہیاں بتائیں اور اسی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشرتی بیماریاں ۔۔۔ جو ناسور کی طرح معاشرے کو کھائے جارہی ہیں ۔ تاہم میں سمجھتی ہوں اس تحریر میں ادارت کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس پیغام سے لی جانی والی روشنی مناسب الفاظ کے استعمال سے الجھاؤ کا شکار نہ ہو ۔

بہت شکریہ
 

zaryab sheikh

محفلین
جی ضرور ۔۔ میں ویسے چھوٹے مضامین لکھتا ہوں پہلی بار اتنا لمبا لکھا میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں وقت کے ساتھ مزید بہتر ہو جاؤں گا
 

arifkarim

معطل
جی ضرور ۔۔ میں ویسے چھوٹے مضامین لکھتا ہوں پہلی بار اتنا لمبا لکھا میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں وقت کے ساتھ مزید بہتر ہو جاؤں گا
آپکی تحریر میں تضادات ہیں اور بعض مقامات پر بغض کے اثرات بھی ملے جیسے ’’حقوق نسواں کے علمبردار‘‘۔ باقی سب ٹھیک ہے۔
 
Top