عورت از کیفی اعظمی

یاز

محفلین
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیفی اعظمی کی ایک نظم پیشِ خدمت ہے۔ نظم کا عنوان ہی "عورت" ہے۔

عورت
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خمِ گیسو میں نہیں
جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں
اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لئے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لئے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لئے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لئے
رُت بدل ڈال اگر پھلنا پھولنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل
ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل
نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل
راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
(کیفی اعظمی)
 
Top