عمران سیریز نمبر 7

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
(۱)​

نیمور اینڈ بارٹلے کا آفس پوری عمارت میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔! اس فرم کے علاوہ اس عمارت میں اور کسی کا کاروبار نہیں تھا!۔۔۔ اسی بنا پر یہ عمارت کوبرا مینشن کے نام سے مشہور ہو گئی تھی! ویسے اس کا نام کچھ اور تھا!

نیمور اینڈ بارٹلے ی فرم سانپ کی کھالوں کی تجارت کرتی تھی!۔۔۔ کاروبار بہت بڑا تھا۔ دفتر میں درجنوں کلرک تھے مختلف شعبوں کے مینجر الگ الگ تھے اور ان کی تعداد بارہ سے کسی طرح کم نہ تھی!۔۔۔ تین درجن شکاری تھے!۔۔۔ جن کے ذمے سانپوں کی فراہمی کا کام تھا!۔۔۔ لیکن یہ سپیرے نہیں تھے۔۔۔۔ اور نہ اس کے قائل تھے کہ بین سن کر سانپ جھومنے لگتے ہیں! یہ تعلیم یافتہ لوگ تھے اور سانپوں کے شکار کے سلسلے میں ان کا طریقہ کار سائنٹفک ہوتا تھا! انہیں بڑی بڑی تنخواہیں ملتی تھیں اور ان کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کا پیشہ اتنا حقیر اور گندہ ہوگا!

کوبرا مینشن کا ہال فرم کا شو روم تھا! یہاں نہ صرف صدہا قسم کے سانپوں کی کھالیں موجود تھیں بلکہ مختلف اقسام سے تعلق رکھنے والے زندہ سانپ بھی کثیر تعداد میں تھے! ہفتے میں دو دن یہ شو روم پبلک میوزیم بن جایا کرتا تھا! یعنی ہفتے میں دو دن ہر آدمی کسی روک ٹوک کے بغیر وہاں تک جا سکتا تھا۔۔۔!

آج اتوار تھا۔۔۔ اور کوبرا مینشن کے اس بڑے ہال میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی!۔۔۔ آج کچھ غیر ملکی سانپ نمائش کے لئے رکھے گئے تھے جن میں جنوبی امریکہ کے جارا کاکا۔۔۔۔ اور افریقہ کے بلیک مومبا بھی تھے!

راضیہ صرف انہی دو اقسام کے سانپوں دیکھنے کے لئے یہاں آئی تھی ورنہ اور سب تو اس کے دیکھے ہوئے تھے!۔۔۔ اسے سانپ بہت اچھے لگتے تھے!۔۔۔ اس کے پاس صدہا قسم کے سانپوں کی تصویریں تھیں اور اس کے ذہن پر بھی سانپ مسلط تھے! وہ جب بھی آنکھیں بند کرتی اسے بیک وقت ہزاروں سانپوں کی کلبلاہٹ محسوس ہونے لگتی!۔۔۔ خواب میں اسے سانپ نظر آتے۔۔۔ جب وہ سونے کے لئے پلنگ پر لیٹتی تو غنودگی کے عالم میں اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے سارے جسم پر ٹھنڈے ٹھنڈے سانپ رینگتے پھر رہے ہوں! لیکن اس سے اسے وحشت نہیں ہوتی تھی! بلکہ وہ ایک عجیب قسم کی آسودگی اور طمانیت محسوس کرتی!۔۔۔ اس پر خود اسے بھی حیرت تھی۔

وہ کافی دیر تک کوبرا مینشن کے شو روم میں رہی۔۔۔ وہ اتنی محو تھی کہ اسے پانچ بجنے کی بھی خبر نہ ہوئی! حالانکہ یہ وقت اس کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا تھا!۔۔۔ وہ جہاں کہیں بھی ہو روزانہ ٹھیک پانچ بجے شام کو اس کا ارشاد منزل پہنچنا ضروری تھا!۔۔۔ رات اسے وہیں بسر کرنی پڑتی تھی!۔۔۔

بوڑھا ارشاد اس کا دادا تھا۔۔۔ کروڑوں کی دولت کا مالک! اس کے تین بیٹے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی ارشاد منزل میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا!۔۔۔ حتٰی کہ خود راضیہ کا باپ بھی نہیں ان کا کنبہ بہت بڑا تھا!۔۔۔ لیکن راضیہ کے علاوہ اور کوئی بھی بوڑھے ارشاد سے قریب نہیں تھا!۔۔۔۔ ارشاد اسے بہت پسند کرتا تھا۔۔۔۔ اور وہ اس کے معاملات میں بہت زیادہ دخیل تھی۔۔۔ لیکن یہ ڈیوٹی اسے بھی بہت کھلتی تھی۔۔۔۔ خواہ کچھ ہو اس کا پانچ بجے شام کو بوڑھے ارشاد کے پاس پہنچنا بہت ضروری تھا!

آج وہ ساڑھے پانچ بجے پہنچی! ارشاد جھنجھلایا ہوا تھا! اسے دیکھتے ہی برس پڑا۔۔۔

"میں نے ابھی چائے نہیں پی!" وہ غرایا! "تم جانتی ہو کہ میں ٹھیک سوا پانچ بجے چائے پیتا ہوں اور تم ہر حال میں میرے ساتھ ہوتی ہو۔۔۔"

"جی۔۔۔! وہ میری۔۔۔ ایک سہیلی۔۔۔!"

"سہیلی۔۔۔! مجھ سے زیادہ تھی۔۔۔!"

"جی۔۔۔ وہ۔۔۔ دیکھئے۔۔۔!"

"کچھ نہیں۔۔۔! جاؤ۔۔۔ اب یہاں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔۔۔!" ارشاد نے کہا لیکن لہجے میں تحکم کی بجائے شکوے کا سا انداز تھا!

"دادا جان۔۔۔ آپ تو سمجھتے نہیں۔۔۔ وہ میری۔۔۔ سہیلی!"

"میں نے ابھی چائے نہیں پی۔۔۔!"

"تو میں منگواتی ہوں چائے۔۔۔!" راضیہ کمرے سے چلی گئی۔۔۔!

ارشاد کی عمر اسی سال سے کم نہیں تھی! دبلا پتلا پلپلے جسم کا آدمی تھا!۔۔۔ چہرے پر بیشمار گہری جھریاں تھیں۔۔۔ لیکن وہ روزانہ شیو کرنے کا عادی تھا۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
لوگ اسے جھکی سمجھتے تھے!۔۔۔ ارشاد منزل میں وہ تنہا رہتا تھا!۔۔۔ کنبے کے دوسرے افراد شہر کے مختلف حصوں میں مقیم تھی۔۔۔ ان کا کفیل ارشاد ہی تھا! لیکن انہیں ارشاد منزل میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی!۔۔۔ اس کی وجہ خود ان لوگوں کو بھی معلوم نہیں تھی۔

ارشاد منزل ایک بہت بڑی عمارت تھی اور شائد شہر کی خوبصورت ترین عمارتوں میں اس کا شمار ہوتا تھا! وہاں ایک دو نہیں بلکہ پورے پندرہ عدد نوکروں کی فوج رہتی تھی۔۔۔ لاتعداد پالتو پرندے تھے۔۔۔ درجنوں بلیاں تھیں۔۔۔ اور اتنے ہی خرگوش اور کبھی کبھی راضیہ یہ سمجھنے لگتی تھی کہ وہ بھی انہیں پالتو جانوروں میں سے ہے! اس خیال کا محرک ارشاد کا برتاؤ تھا! وہ اسے ایک ننھی سی بچی سمجھتا تھا اور اسے اپنی مرضی کا پابند بنائے رکھنا چاہتا تھا!۔۔۔ اس کی ذرا ذرا سی باتوں کی ٹوہ میں رہتا۔۔۔ اور اس وقت تو راضیہ کو سچ مچ غصہ آجاتا، جب وہ اس کا وینٹی بیگ ٹٹولنے لگتا! اسے کھول کر اس میں رکھی ہوئی چیزیں الٹ پلٹ ڈالتا۔

اس وقت بھی وہ یہی حرکت کر رہا تھا! راضیہ چائے کے لئے اس کے کمرے سے چلی گئی تھی! اور وہ میز سے اس کا وینٹی بیگ اٹھا کر اپنے زانو پر رکھے سے کھول رہا تھا۔

اچانک اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ وینٹی بیگ کو پرے جھٹک کر کرسی سمیت دوسری طرف الٹ گیا!۔۔۔

وینٹی بیگ سے ایک چھوٹا سا سانپ نکل کر فرش پر لہریں لے رہا تھا!۔۔۔

بوڑھا ارشاد بڑی پھرتی سے فرش سے اٹھا۔۔۔ لیکن نہ تو اس نے شور مچایا اور نہ کسی کو اپنی مدد کے لئے آواز دی!۔۔۔

سانپ کی رفتار میں سرعت نہیں تھی! وہ آہستہ آہستہ فرش پر رینگ رہا تھا!۔۔۔ ارشاد نے اپنی واکنگ سٹک سے بہ آسانی اس کا سر کچل دیا! تھوڑی دیر بعد وہ پھر بہت اطمینان سے اسی کرسی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا!۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ فرش پر رینگ رہا تھا!۔۔۔ ارشاد نے اپنی واکنگ سٹک سے بہ آسانی اس کا سر کچل دیا! تھوڑی دیر بعد وہ پھر بہت اطمینان سے اسی کرسی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا!۔۔۔ راضیہ کا وینٹی بیگ اس نے وہیں رکھ دیا تھا جہاں سے اٹھایا تھا!

تقریباً دس منٹ بعد راضیہ خود ہی چائے کی ٹرے اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔!

ارشاد نے اپنی کرسی میز کی طرف کھسکا لی!۔۔۔ اچانک راضیہ کی نظر مردہ سانپ پر پڑی۔۔۔ وہ چائے کی ٹرے میز پر رکھ چکی تھی!

"ارے۔۔۔ یہ سانپ!"

بوڑھا اسے گھورنے لگا۔۔۔ لیکن راضیہ کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔۔۔

"یہ یہاں!"

"پھر! پھر اسے کہاں ہونا چاہئے تھا!" ارشاد نے آہستہ سے پوچھا!

"میں کیا جانوں۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔ یہ یہاں کمرے میں تھا۔۔۔!"

"میں نے اسے مار ڈالا۔۔۔!" ارشاد اس کا چہرہ غور سے دیکھتا ہوا بولا!

"مگر یہ یہاں کیسے آیا۔۔۔!"

"تم لائی تھیں!" ارشاد بدستور اس کے چہرے پر نظر جمائے رہا۔ راضیہ ہنسنے لگی!۔۔۔ لیکن ارشاد کی سنجیدگی میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آیا۔

"میں اسے اسپرٹ میں رکھوں گی! یہ کتنا خوش رنگ ہے۔۔۔!"

راضیہ نے ارشاد کے لئے چائے انڈیلتے ہوئے کہا!

دونوں تھوڑی دیر تک خاموشی سے چائے پیتے رہے، پھر ارشاد نے کہا!

"تم مجھ سے تنگ آگئی ہو!۔۔۔ کیوں؟"

"نہیں تو۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں!"

"میں۔۔۔ میں محسوس کر رہا ہوں!"

"اس معاملے میں، میں آپ سے لڑ جاؤں گی! آخر آپ کس بنا پر ایسا کہہ رہے ہیں!"

"اس لئے کہ میں سچ مچ تم پر ظلم کرتا ہوں!۔۔۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
"میں تو ایسا نہیں سمجھتی! آخر آج آپ یہ جھگڑا کیوں لے بیٹھے ہیں!"

"ضرورتاً۔۔۔! آج میری ذرا سی غفلت مجھے موت کے گھاٹ اتار دیتی۔۔۔۔ یہ سانپ تمہارے وینٹی بیگ میں تھا۔۔۔!"

"نہیں!" راضیہ بوکھلا کر کھڑی ہوگئی!

"بیٹھ جاؤ۔۔۔ یہ حقیقت ہے!۔۔۔ یہ واقعی ایک نازیبا بات ہے کہ میں تمہارے وینٹی بیگ میں ہاتھ ڈال دیا کرتا ہوں۔۔۔!"

"ارے۔۔۔ دادا جان۔۔۔ خدا کی قسم! میرے فرشتوں کو بھی۔۔۔ علم نہیں!"

راضیہ کا چہرہ زرد ہو گیا تھا اور اس کا سینہ دھونکنی کی طرف پھول اور پچک رہا تھا! وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی!

"بیٹھ جاؤ۔۔۔ چائے پیئو!" ارشاد نے نرم لہجے میں کہا!۔

راضیہ بیٹھ گئی!۔۔۔ لیکن اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا!۔۔۔ ارشاد نے ایک بار پھر اسے غور سے دیکھ کر پوچھا! "یہ سانپ تمہارے وینٹی بیگ میں کس نے رکھا ہوگا!"

"میں۔۔۔ میں۔۔۔ اس کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔۔۔ لیکن۔۔۔!"

"ہاں۔۔۔ لیکن کیا۔۔۔!"

"ابھی میں نے۔۔۔ آپ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کی تھی۔۔۔!"

"کیا؟"

"میں کسی سہیلی کے گھر نہیں گئی تھی۔۔۔ بلکہ میں تیمور اینڈ بارٹلے کے شو روم سے سیدھی ادھر آئی ہوں!"

"وہاں تم کیوں گئی تھیں!"

"مم۔۔۔ مجھے سانپوں سے دلچسپی ہے۔۔۔!"

"میں جانتا ہوں!"

"گھر سے جب میں چلی ہوں تو۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وینٹی بیگ میں سانپ نہیں تھا۔۔۔۔ کیونکہ میں نےراستے میں بھی ایک جگہ اسے کھولا تھا!"

"شو روم میں تمہارے ساتھ اور کون تھا!"

"کوئی بھی نہیں! میں تنہا گئی تھی! مجھے اطلاع ملی تھی کہ وہاں آج دو بالکل نئی قسم کے سانپ نمائش کے لئے رکھے جائیں گے!"

ارشاد تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا!۔۔۔ پھر بولا۔ "میری اس بری عادت سے سبھی واقف ہوں گے کہ میں تمہارا وینٹی بیگ کھول کر دیکھا کرتا ہوں!"

"جج۔۔۔ جی۔۔۔ ہاں۔۔۔!"

"تم نے شکایتاً۔۔۔ لوگوں سے تذکرہ کیا ہوگا۔۔۔!"

"اوہ۔۔۔ وہ۔۔۔ دیکھئے۔۔۔!"

"میں برا نہیں مانتا۔۔۔ صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ اس سے واقف ہیں یا نہیں!"

"صرف گھر والے۔۔۔"

"گھر سے مراد صرف تمہارا گھر ہے نا۔۔۔ یا جواد اور امجاد کے گھر والے بھی جانتے ہیں!"

"جی ہاں انہیں بھی علم ہے!"

ارشاد ایک طویل سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹک گیا!۔۔۔

وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی جھریاں کچھ اور زیادہ گہری معلوم ہونے لگی تھیں!
 

قیصرانی

لائبریرین
"دادا جان آپ یقین کیجئے۔۔۔!"

"میں یہ نہیں کہتا کہ حرکت تمہاری ہے۔۔۔!" بوڑھے نے آہستہ سے کہا!۔۔۔

"آپ نے یہ کیوں پوچھا کہ وینٹی بیگ کے متعلق کون کون جانتا ہے۔۔۔!"

"میں پھر یہی کہتا ہوں کہ یہ حرکت تمہاری نہیں ہوسکتی۔۔۔"

"تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ خاندان کے کسی دوسرے فرد پر شبہ کر رہے ہیں!"

"کیوں نہ کروں۔۔۔! کیا آدمی کی وقعت دولت سے زیادہ ہوتی ہے۔۔۔!"

"اوہو!" یک بیک راضیہ کا چہرہ سرخ ہوگیا! "تب تو یہ حرکت میری بھی ہو سکتی ہے!"

"نہیں تم ایسا نہیں کرسکتیں! مجھے یقین ہے۔۔۔!"

"اسی لئے آپ خاندان والوں کو یہاں نہیں رکھتے!" راضیہ نے پوچھا! اس کے لہجے میں تلخی تھی اور چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسے یک بیک غصہ آگیا ہے!

"ہاں اس کی وجہ یہی ہے!"

"پھر آپ کو مجھ پر اتنا اعتماد کیوں ہے!"

"بس یونہی۔۔۔!"

"نہ ہونا چاہیے!۔۔۔ اب میں یہاں کبھی نہیں آؤں گی! کبھی نہیں! میں گریجویٹ ہوں اور اپنی روزی خود کما سکتی ہوں!"

"میں اسی لئے تمہیں پسند کرتا ہوں! اسی لئے مجھے تم پر اعتماد ہے!" بوڑھا ارشاد مسکرا کر بولا۔ "تم میری خوشامد نہیں کرتیں!۔۔۔ صاف گوئی سے کام لیتی ہو!۔۔۔"

"لیکن میں اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ آپ والد صاحب پر کسی قسم کا شبہ کریں!"

"اس سے میری اپنی پسند پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا!۔"

"بہرحال آپ کھلے ہوئے الفاظ میں والد صاحب پر اپنا شبہ ظاہر کر رہے ہیں!"

ارشاد کچھ نہیں بولا!۔۔۔ وہ خاموشی سے چائے پی رہا تھا اور راضیہ کی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی!۔۔۔ اس نے ابھی تک ایک گھونٹ نہیں پیا تھا۔۔۔!

ارشاد خیالات میں کھویا ہوا تھا! اس نے اس کی طرف دھیان نہ دیا!۔۔۔

"پھر اب میری یہاں کیا ضرورت ہے!" راضیہ اٹھتی ہوئی بولی۔ "کیونکہ سانپ کے بچے سنپولئے کہلاتے ہیں! والد صاحب اگر آپ کو ختم کر کے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس میں میرا بھی حصہ ہوگا۔۔۔ اور دولت کے متعلق ابھی آپ ہی اظہار خیال فرما چکے ہیں!"

"تم ہر بات میں میری ماں سے مشابہ ہو!" ارشاد نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔ "وہی صورت شکل۔۔۔ وہی انداز گفتگو ویسا ہی مزاج۔۔ پھر بتاؤ۔۔۔ مگر تم کیا جانو۔۔۔ یہ بات تہمارے والدین کے علم میں نہیں ہے کوئی نہیں جانتا۔۔۔ سوائے میرے۔۔۔!"

"کونسی بات۔۔۔!"

"لیکن میں تمہیں ضرور بتاؤں گا! مجھے تم پر اب بھی اعتماد ہے!"

راضیہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔

"آؤ۔۔۔ میرے ساتھ!" بوڑھا ارشاد اٹھتا ہوا بولا۔ "میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں!"

وہ اسے عمارت کے ایک حصے میں لایا، جہاں کے مقفل کمروں میں کسی کا گذر نہیں ہوتا تھا، خود راضیہ بھی نہیں جانتی تھی کہ ان میں کیا ہے اور وہ مقفل کیوں رکھے جاتے ہیں۔

ارشاد نے ایک کمرے کا قفل کھول کر دروازے کو دھکا دیا!۔۔۔ کمرے میں تاریکی تھی! دروازہ کھلتے ہی راضیہ نے کچھ اس قسم کی بو محسوس کی جیسے وہ کمرہ سالہا سال سے تازہ ہوا سے محروم رہا ہو!۔۔۔ اسی بو میں چمگادڑوں کی بیٹ کی بدبو بھی شامل تھی۔

تھوڑی دیر میں جب اس کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں تو اس نے دیکھا کہ کمرے کا فرش گرد سے اٹا ہوا ہے اور دیواروں پر بھی گرد کی کافی موٹی تہہ موجود ہے! یہاں اسے کسی قسم کا سامان نظر
 

قیصرانی

لائبریرین
نہیں آیا۔۔۔۔ البتہ سامنے ہی دیوار پر ایک بڑا سا فریم آویزاں تھا اور اس کے شیشے پر اتنی گرد جمی ہوئی تھی کہ وہ بالکل تاریک ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔!

پھر اس نے ارشاد کو شیشے کی گرد صاف کرتے دیکھا!۔۔۔ اس فریم میں ایک تصویر تھی!۔۔۔ لیکن اس کمرے میں اسے اپنے باپ نوشاد کی تصویر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی! آخر وہ اس تیرہ و تار کمرے میں کیوں لگائی گئی تھی!

"یہ کون ہے! ارشاد نے راضیہ کی طرف مڑ کر پوچھا!

"آخر اس سے آپ کا مقصد کیا ہے!" راضیہ نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔

"یہ کس کی تصویر ہے! ارشاد نے پھر پوچھا۔

"اب کیا میں والد صاحب کو بھی نہ پہچانوں گی!" راضیہ نے بے دلی سے کہا!

"خوب غور سے دیکھو۔۔۔!"

"دیکھ رہی ہوں!۔۔۔؟ تو پھر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ والد صاحب کی تصویر نہیں ہے!"

"ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں!" ارشاد مسکرا کر بولا۔۔۔!

"تب پھر مجھے سمجھنا چاہئے کہ آج آپ مجھے چڑانے پر تل گئے ہیں!"

"نہیں ننھی بچی!" ارشاد نے سنجیدگی سے کہا۔ "یہ نوشاد نہیں ہے!۔۔۔ یہ میرے ایک چچا کی تصویر ہے۔۔۔ اور میرے تینوں لڑکے نوشاد، جواد اور امجاد اس سے مشابہت رکھتے ہیں اور تمہارا باپ تو ہوبہو اسی کی تصویر ہے!"

راضیہ آگے جھک کر بغور تصویر کی طرف دیکھنے لگی!۔۔۔ اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔۔۔ اگر صاحب تصویر کے جسم پر قدیم وضع کا لباس نہ ہوتا تو وہ اپنے دادا کے بیان پر کبھی یقین نہ کرتی!۔۔۔ وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے ارشاد سے کہا۔

"اگر! میں تسلیم بھی کر لوں۔۔۔ تو پھر۔۔۔!"

"تو پھر۔۔۔ میں کہوں گا کہ میں اسی مشابہت کی بنا پر اپنے تینوں لڑکوں سے دور ہی دور رہنا پسند کرتا ہوں۔۔۔!"

راضیہ کا اشتیاق بڑھ گیا! اس نے کہا۔ "میں کچھ نہیں سمجھی!"

"میں ابھی سمجھاتا ہوں!" ارشاد نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔۔! وہ دونوں اس کمرے سے نکل آئے۔۔۔ ارشاد نے اسے پھر مقفل کر دیا۔۔۔! پھر ارشاد نے کہا!

"تم یہیں ٹھہرو!۔۔۔ ٹارچ کے بغیر کام نہیں بنے گا۔۔۔ میں ٹارچ لے کر آتا ہوں۔۔۔!"

وہ راضیہ کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا!۔۔۔ آج وہ بوڑھا راضیہ کو حد درجہ پراسرار معلوم ہو رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد ارشاد واپس آگیا!۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔۔۔ اس نے برابر کے دوسرے کمرے کا قفل کھولا!۔۔۔ اس کمرے میں تاریکی گندگی اور بدبو ہی کا راج تھا!۔۔۔ لیکن راضیہ کو یہاں کچھ بھی نظر نہیں آیا!

ارشاد اس سے کہہ رہا تھا۔ "تم ہر معاملے میں بالکل اپنی پردادی ہی کی طرح ہو! مجھے توقع ہے کہ انہیں کی طرح ایک مضبوط کردار کی مالک ہوگی!"

"کیا اب آپ۔۔۔ کوئی بہت ڈراؤنی چیز سامنے لانا چاہتے ہیں!" راضیہ نے پوچھا!

"ہاں۔۔۔ بات کچھ ایسی ہی ہے۔۔۔! میں آج تمہیں سب کچھ بتا دینا چاہتا ہوں! یہ راز میرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا!۔۔۔ لیکن تم اسے ہمیشہ راز ہی رکھو گی! ہمیشہ۔۔۔! مجھے یقین ہے کہ تم اپنی پردادی کی طرح مضبوط کردار رکھتی ہو!"

"میں نہیں ڈروں گی!۔۔۔ مجھے بتائیے۔۔۔!"

"اچھا۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔!" ارشاد نے کمرے کے ایک گوشے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا!

راضیہ وہیں کھڑی رہی!۔۔۔ گوشے میں پہنچ کر ارشاد نے فرش کی گرد صاف کی اور پھر راضیہ کو ایسا محسو ہوا جیسے اس نے کسی صندوق کا ڈھکن اٹھایا ہو!۔۔۔ فرش میں ایک چوکور سی خلا نظر آرہی تھی! جس کا رقبہ ایک مربع فٹ سے زیادہ نہ رہا ہوگا!۔۔۔ ارشاد نے جھک کر اس خلا میں ٹارچ کی روشنی ڈالی۔۔۔ اور چند لمحے اسی حالت میں رہا پھر راضیہ کی طرف مڑ کر بولا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
"آؤ۔۔۔ ڈرو نہیں۔۔۔!"

راضیہ لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھی۔ بوڑھے ارشاد کے رویئے نے اسے سچ مچ خوفزدہ کر دیا تھا!

"آؤ۔۔۔ دیکھو! یہ ایک تہہ خانہ ہے۔۔۔"

راضیہ دو زانو بیٹھ کر خلا میں جھانکنے لگی!۔۔۔ وہ چند لمحوں تک آنکھیں پھاڑتی رہی لیکن اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔۔۔ ٹارچ کی روشنی کافی گہرائی میں کسی ایسی چیز پر پڑ رہی تھی! جو بذات خود غیر واضح تھی۔۔۔ لیکن پھر جلد ہی اس کے سارے چہرے پر پسینہ پھوٹ آیا۔۔۔ اور حلق خشک ہونے لگا۔۔۔! جس چیز پر ٹارچ کی روشنی پڑ رہی تھی وہ کسی آدمی کی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔

"دیکھ چکیں۔۔۔!" دفعتاً ارشاد نے پوچھا۔۔۔ راضیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آواز بہت دور سے آئی ہو۔۔۔!

"جی ہاں!" اس نے مردہ سی آواز میں جواب دیا۔

"کیا دیکھا۔۔۔!"

"ہڈ۔۔۔ ہڈیوں۔۔۔ کا ڈھانچہ!" راضیہ تھوک نگل کر بولی!

"ٹھیک بس آؤ۔۔۔" ارشاد۔۔۔ اسے ایک طرف ہٹا کر سوراخ کا ڈھکن بند کرتا ہوا بولا! تھوڑی دیر بعد وہ کمرے کے باہر آگئے۔ ارشاد نے اسے مقفل کیا۔۔۔ اور وہ پھر رہائشی حصے کی طرف پلٹ آئے۔

راضیہ کا چہرہ زرد ہو گیا تھا۔۔۔ اور آنکھوں میں وحشت نظر آنے لگی تھی۔ دونوں کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ بوڑھا ارشاد خیالات میں کھویا ہوا تھا!۔۔۔ زرد رنگ کے ڈھیلے ڈھالے لبادے میں اس کا چھوٹا سا جھریایا ہوا چہرہ انتہائی پراسرار معلوم ہو رہا تھا!۔۔۔

"میں جو کچھ کہنا چاہ رہا ہوں، وہ ہمیشہ تمہاری ہی ذات تک محدود رہے گا!" اس نے کچھ دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

"میں وعدہ کرتی ہوں!۔۔۔ آپ مطمئن رہئے!" راضیہ کا اشتیاق و اضطراب بہت زیادہ بڑھ گیا تھا!

"سنو!۔۔۔ وہ میرے دادا کی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا!"

راضیہ کے ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکلی، وہ حیرت سے بوڑھے ارشاد کو گھور رہی تھی!

"اسی زمین پر آج سے پینسٹھ سال پیشتر ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہوئی تھی اور وہ آج بھی ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے!۔۔۔ صرف پچاس روپوں کی بات تھی!۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ میں آج بھی یاد کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں!"

"جلدی سے کہہ ڈالئے۔۔۔ مجھے اختلاج ہونے لگا ہے!" راضیہ نے کہا!

بوڑھا چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا! "ابھی تم جس کی تصویر دیکھ چکی ہو!۔۔۔ اس نے میرے دادا۔۔۔ یعنی اپنے باپ کو صرف پچاس روپیوں کے لئے قتل کر دیا تھا۔۔۔ اور وہ لاش ابھی تک بے گور کفن پڑی ہے!۔۔۔ بے گور کفن۔۔۔ خدا مجھے اور سب کو معاف کرے۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ان ہڈیوں کو وہاں سے نکال کر دفن کر سکوں۔۔۔ میرے باپ نے بھی ہمت ہار دی تھی۔" بوڑھا ارشاد خاموش ہو گیا!

"لیکن وہ ہڈیاں بے گور و کفن کیوں ہیں!" راضیہ نے مضطربانہ انداز میں کہا۔ "مجھے پورا واقعہ بتائیے۔۔۔!"

"چچا کو پچاس روپیوں کی اشد ضرورت تھی۔۔۔ وہ اچھا آدمی نہیں تھا! کسی برے کام میں صرف کرنے کے لئے اسے روپیوں کی ضرورت تھی!۔۔۔ وہ شراب کے نشے میں تھا۔۔۔ دادا صاحب نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے برا بھلا بھی کہا! وہیں دیوار پر ایک تبر آوایزاں تھا!۔۔۔ چچا نے غصہ میں آکر وہیں اسی تبر سے ان پر حملہ کر دیا۔۔۔ پے در پے تین چار وار کئے اور وہ وہیں ٹھنڈے ہو گئے۔ پھر وہ کمینہ فرار ہو گیا اور اس دن سے آج تک اس کی خبر ہی نہیں ملی۔۔۔ والد صاحب اور میرے سب سے چھوٹے چچا گھر ہی میں موجود تھے جتنی دیر میں وہ وہاں پہنچتے سب کچھ ہو چکا تھا۔۔۔! گھر میں اس وقت صرف تین آدمی تھے! میری ماں والد صاحب اور چھوٹے چچا! میں موجود نہیں تھا!۔۔۔ تم یقین جانو چالیس سال کی مر تک مجھے یہ واقعہ نہیں معلوم ہو سکا! وجہ یہ ہوئی کہ دادا صاحب انہی ایام حج کے لئے جانے والے تھے!۔۔۔ جب میں گھر آیا تو مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ حج کے لئے چلے گئے! سب یہی جانتے تھے کہ وہ حج کے لئے گئے۔۔۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب اور چھوٹے چچا نے مل کر ان کی لاش تہہ خانے میں ڈال دی تھی! وہ نہیں چاہتے تھے کہ خاندان بدنام ہو۔ کیونکہ ہمارا خاندان صدیوں سے ذی عزت سمجھا جاتا رہا تھا!۔۔۔ بہرحال کچھ دنوں بعد دادا صاحب کے لئے یہ مشہور کر دیا گیا کہ وہ بیت اللہ شریف میں فوت ہو گئے! رہ گیا گمشدہ چچا کا معاملہ تو
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کی طرف کسی نے دھیان ہی نہ دیا کیونکہ وہ ایک اوباش آدمی تھا، ویسے بھی مہینوں گھر میں اس کی شکل دکھائی نہیں دیتی تھی۔"

"لیکن۔۔۔!" راضیہ نے تھوک نگل کر کہا۔ "لاش یونہی کیوں پڑی رہ گئی۔۔۔!"

"اوہ۔۔۔ پھر کسی کی ہمت ہی نہیں پڑی کہ وہ اس تہ خانے میں اترتا!۔۔۔ والد صاحب نے مجھے اس کے متعلق اس وقت بتایا جب میں چالیس برس کا تھا! یعنی آج سے چالیس سال پہلے۔۔۔ لیکن میں تم کو کیا بتاؤں!۔۔۔ مجھ میں بھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ تہ خانے میں اتر کر ان ہڈیوں ہی کو سپر خاک کر دوں!"

کچھ دیر کے لئے کمرے پر خاموشی مسلط ہو گئی!

پھر بوڑھا بولا۔ "جب تک یہ واقعہ مجھے معلوم نہیں ہوا تھا۔۔۔ میں اپنے بچوں پر جان دیتا تھا۔۔۔ لیکن جب۔۔۔ یہ واقعہ معلوم ہوا۔۔۔ مجھے ان تینوں سے وحشت ہونے لگی! والد صاحب کی زندگی تک وہ میرے ساتھ رہے۔۔۔ پھر میں نے انہیں الگ کر دیا!۔۔۔"

"آخر ان کا قصور کیا تھا۔" راضیہ نے پوچھا!

"چچا۔۔۔ سے مشابہت کی بنا پر مجھے ان سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔ تمہارا باپ تو خاص طور سے۔۔۔"

"تو کیا آپ سمجھتے ہیں!۔۔۔ وہ بھی اسی مشابہت کی بنا پر آپ سے وہی برتاؤ کریں گے!"

"میں جانتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے۔۔۔ مگر میں کیا کروں۔۔۔ اور اب تو مجھے اور بھی محتاط رہنا پڑے گا آخر وہ سانپ تمہارے وینٹی بیگ میں کہاں سے آیا تھا مجھے بتاؤ۔۔۔!"

راضیہ کچھ نہ بولی۔۔۔! اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا!۔۔۔ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ یہی سوچ سکتی تھی کہ سانپ کسی نے گھر ہی میں رکھا ہوگا! لیکن اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ وہ گھر سے روانہ ہو کر کوبرا مینشن جانے سے پہلے ایک رسیتوران میں گئی تھی اور اس نے پف کرنے کے لئے وینٹی بیگ بھی کھولا تھا!۔۔۔ پھر کیا کوبرا مینشن میں کسی نے حرکت کی تھی؟۔۔۔ مگر وہاں تو وینٹی بیگ اس کے ہاتھ ہی میں رہا تھا۔۔۔ ممکن ہے کہ کسی نے اس کے باوجود بھی ہاتھ کی صفائی دکھائی ہو!۔۔۔ مگر وہ اس کا باپ یا چچا ہرگز نہیں ہو سکتا تھا!

"کیا سوچنے لگیں۔" ارشاد نے پوچھا۔

"اسی سانپ کے متعلق۔۔۔!"

"مت سوچو!۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حرکت تمہاری نہیں ہوسکتی!۔۔۔"

"مگر دادا جان! میں اپنے باپ یا کسی چچا پر بھی شبہ نہیں کرسکتی!"

"ختم کرو ان باتوں کو!" بوڑھا ہاتھ ہلا کر بولا! "میں اپنی موت سے پہلے نہیں مرسکتا!"

"اگر یہی خیال ہے۔۔۔ تو پھر آپ نے ان لوگوں کو الگ کیوں کر دیا ہے!"

"تمہاری منطق اور بحث مجھے تنگ کر ڈالتی ہے! میں نے الگ کر دیا۔۔۔ میری مرضی میرا جو دل چاہے گا۔ کروں گا۔۔۔!"

"بہرحال میں اب یہاں نہیں رہوں گی۔۔۔!"

"کیا!" بوڑھا آنکھیں نکال کر بولا۔ "تم مجھے تنہا نہیں چھوڑ سکتیں! میں اپنی اولاد میں سب سے زیادہ تمہیں پسند کرتا ہوں۔ تم نہیں جا سکتیں!"

راضیہ خاموش بیٹھی رہی! لیکن اس کے چہرے پر بیزاری کے آثار تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲)​

کیپٹن فیاض نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا! عمران اپنا سر پیٹنے لگا۔۔۔! فیاض نے اس کی پروا نہ کی۔۔۔ آگے بڑھ کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور دانت پیس کر بولا۔ "تم خوامخواہ ایک نہ ایک شوشہ چھوڑ کر ہمیشہ الگ ہو جاتے ہو!"

"شوشہ خود بخود چھوٹتا ہے پیارے فیاض!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "غالباً تم تیمور اینڈ بارٹلے والی بات کی طرف اشارہ کر رہے ہو۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔۔ آج میری عقل میں سخت درد ہے اس لئے میں کوئی جسمانی محنت نہیں کرسکتا!"

"میرا موڈ بہت خراب ہے!۔۔۔ اگر تم نے اوٹ پٹانگ باتیں شروع کیں تو مار بیٹھوں گا۔!"

"میں آج طلسم ہوشربا کی آٹھویں جلد لکھ رہا ہوں!۔۔۔ بیٹھو۔۔۔ بیٹھو۔۔۔ میں تمہیں چند ٹکڑے کھلاؤں۔۔۔ ار۔۔۔ سناؤں گا۔۔۔!"

"عمران۔۔۔!"

"یس مائی ڈئیر سوپر فیاض۔۔۔! ۔۔۔ یہ ٹکڑا بڑے غضب کا ہے۔۔۔ آنا ہدہد مرصع پوش کا طرف کوہ چقماق کے اور۔۔۔ یہاں سے دو کلمہ داستان۔۔۔ ولد ساقی نامہ۔۔۔ ماصل باقی نویس ارے باپ رے۔۔۔!"

فیاض نے اٹھ کر اس کا منہ دبا دیا۔۔۔

"تم خوامخواہ مجھ سے نہ الجھو ورنہ۔۔۔!" فیاض بڑبڑایا۔۔۔

"ورنہ کیا ہوگا!" ۔۔۔ عمران نے اپنے منہ پر سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا!

"میں تمہیں کسی مصیبت میں پھنسا دوں گا۔۔۔ تم نے نیلے پرندوں والے معاملے میں ایک بہت بڑا جعل کیا تھا۔۔۔"

"کیا مطلب۔۔۔!"

"تم نے ہوم سیکرٹری کا جو سرٹیفکیٹ دکھایا تھا جعلی تھا!"

"آج سمجھے ہو یہ بات!" عمران نے قہقہہ لگایا۔ "مگر پیارے کپتان صاحب! تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔!"

"چلو چھوڑو! میں کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کروں گا۔۔۔!"

"اس طرح تم خود اپنے اوپر ایک احسان عظیم کرو گے!" عمران نے آہستہ سے کہا!

"آخر تم تیمور اینڈ بارٹلے کے متعلق صاف صاف کیوں نہیں بتاتے۔۔۔!"

"صاف صاف۔۔۔! یہ اسی وقت بتا سکوں گا جب مجھے صاف صاف علم ہو جائے۔۔۔ ویسے وہ لوگ کوئی غیر قانونی حرکت ضرور کر رہے ہیں!"

"نوعیت ہی بتا دو!"

"یہاں سے دو کلمہ داستان حیرت نشان فیاض خچر سوار کے بیان کئے جاتے ہیں کہ پہلوان زبردست تھا۔۔۔ مار کھانا اس کا ہاتھ سے عمران صاحبقران عالیشان کے۔۔۔ اور رونا سر پیٹ پیٹ کر۔۔۔ ہپ!"

"تم گدھے ہو!۔۔۔" فیاض جھنجھلا گیا۔

"یہی بات تم نے پہلے کہہ دی ہوتی تو اتنا سر نہ مارنا پڑتا!"

"پرسوں۔۔۔! تیمور اینڈ بارٹلے کے شو روم میں تم بھی تھے۔۔۔ تم نے دو یا تین منٹ تک وہاں ارشاد کی پوتی راضیہ سے گفتگو بھی کی تھی۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!۔۔۔ راضیہ تمہاری بہن ثریا کی دوست ہے!"

"ہاں ہاں! تو پھر؟"

"تمہیں اس کا اعتراف ہے کہ وہ تمہیں وہاں ملی تھی!"

"تب پھر تمہیں میرے چند سوالات کا جواب دینا پڑے گا!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"سوالات لکھ کر لاؤ۔۔۔ پرچہ ڈھائی گھنٹے سے کم کا نہیں ہونا چاہئے!۔۔۔سات میں پانچ سوال ضروری ہوں! فارغ خطی۔۔۔ ار۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔۔ اسے خوش قسمتی۔۔۔ ار۔۔۔ نہیں۔۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔۔ خوشخطی۔۔۔ خوشخطی۔۔۔۔ کے نمبر الگ!"

"جب تم اس سے ملے تھے تو اس کا وینٹی بیگ اس کے ہاتھ میں تھا یا نہیں!"

"نہیں وینٹی بیگ تو نہیں تھا! البتہ اس نے اپنے گلے میں متعدد جھولیاں لٹکا رکھی تھیں!"

"عمران میں تم سے سنجیدگی اختیار کرنے کی استدعا کروں گا!"

"کیا فائدہ!" عمران سر ہلا کر بولا " اگر میں سنجیدہ ہو گیا تو تم کمرے کے باہر نظر آؤ گے!۔۔۔ یا پھر اس قابل نہ رہ سکو گے کہ نظر آسکو۔۔۔!"

"میرے سوال کا جواب دو!" فیاض دانت پیس کر بولا!

"چچ چچ!" عمران نے تشویش آمیز لہجے میں کہا "اسی قسم کی بد احتیاطیوں کی بنا پر دانت کمزور ہو جاتے ہیں! آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی چنگاریاں اڑتی ہیں۔ سر چکراتا ہے۔۔۔ اور عقل کام نہیں کرتی کہ کس دوا خانے سے رجوع کیا جائے تاکہ ایمان دھرم سے کہہ دینے پر آدھی قیمت واپس مل جائے۔۔۔!"

"اچھا تم بھگتو گے!۔۔۔" فیاض اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔

"بھگتنے ہی کے ڈر سے میں نے ابھی تک شادی نہیں کی!"

"اس کے وینٹی بیگ میں سانپ تھا!" فیاض نے دروازے میں رک کر عمران کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔۔۔!

"بڑی کم ہمت لڑکی معلوم ہوتی ہے!" عمران نے لا پروائی سے کہا!

"اگر میں لڑکی ہوتا تو میرے وینٹی بیگ سے کم از کم ایک ہاتھی ضرور برآمد ہوتا۔۔۔ الا ماشاٗ اللہ۔۔۔!"

"عمران میں تمہیں آفس میں طلب کرکے تمہیں ان سوالات کے جواب پر مجبور کر دوں گا!"

"جب تک تم مجھے پوری بات نہیں بتاؤ گے مجھ سے کچھ بھی معلوم نہیں کر سکو گے!"

فیاض پھر پلٹ آیا۔۔۔ چند لمحے خاموش بیٹھا رہا۔۔۔ پھر بولا۔۔۔

"ارشاد سے واقف ہو!۔۔۔"

"ہاں مشاعروں میں اکثر مکرر ارشاد سننے کا اتفاق ہوا ہے!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

"میں شہر کے مشہور کروڑ پتی ارشاد کی بات کر رہا ہوں!" فیاض جھلا گیا!

"تو ایسے بولو نا۔۔۔ ہاں میں نے اس کا نام سنا ہے۔۔۔ اور اس کی پوتی راضیہ سے اچھی طرح واقف ہوں کیونکہ وہ ثریا کی دوست ہے!"

"پرسوں اس کے وینٹی بیگ سے ایک سانپ برآمد ہوا تھا۔۔۔ وینٹی بیگ ارشاد نے کھولا تھا۔۔۔ راضیہ سانپ کے وجود سے لا علمی کا اظہار کرتی رہی۔۔۔ اور یہ راضیہ ہی کا بیان ہے کہ بوڑھا اکثر اس کا وینٹی بیگ کھول کر اس میں رکھی ہوئی چیزیں الٹ پلٹ ڈالا کرتا تھا!"

"بہت اچھی عادت ہے۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "آج کل کی لڑکیاں نہ جانے کیا الا بلا وینٹی بیگوں میں لئے پھرتی ہیں!"

"ارشاد کا خیال تھا کہ یہ حرکت اسے مار ڈالنے کے لئے کی گئی تھی! کس نے کی تھی!۔۔۔ یہ اب تک نہیں معلوم ہو سکا!"

"کمال ہے یار فیاض۔۔۔ کہیں تمہیں گھاس تو نہیں کھا گئی! ابھی تک کہہ رہے تھے کہ سانپ راضیہ کے وینٹی بیگ سے برآمد ہو اتھا!"

"وہ نہیں جانتی کہ سانپ اس کے وینٹی بیگ میں کیسے پہنچا تھا!"

"پھر میں کیا کروں۔۔۔!" عمران اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ "میرا دماغ کیوں چاٹ رہے ہو!"

"وہ تیمور اینڈ بارٹلے کے شو روم میں سانپ دیکھنے گئی تھی!۔۔۔۔ لیکن تم وہاں موجود تھے! تمہارا وہاں کیا کام تھا۔۔۔!"

"میں وہاں جھک مار رہا تھا۔۔۔ تم سے مطلب۔۔۔!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"تم ابھی پورے حالات سے آگاہ نہیں ہو!" فیاض نے برا سا منہ بنا کر کہا "ورنہ اس طرح نہ چہکتے!"

"تو چہکنا بند کر دو نا۔۔۔ میرا۔۔۔" عمران لاپروائی سے بولا!۔

"پرسون رات راضیہ اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔۔۔ وہ ارشاد منزل ہی میں رات بسر کرتی ہے!۔۔۔ اس کے علاوہ ارشاد کے اعزہ میں سے اور کوئی ارشاد منزل میں نہیں داخل ہو سکتا!۔۔۔ بہر حال وہ وہیں رہتی ہے۔ اس کی اور ارشاد کی خواب گاہ کے درمیان صرف ایک دیوار حائل ہے۔۔۔ راضیہ سو رہی تھی۔۔۔ اچانک کسی قسم کی تیز آواز نے اسے جگا دیا۔۔۔ اور پھر دوسری چیخ اس نے بیدار ہو جانے پر سنی۔۔۔ وہ بلا شبہ ارشاد کی چیخ تھی! تقریباً پانچ چھ منٹ تک وہ مسہری پر بے حس و حرکت پڑی رہی! ارشاد کے کمرے سے اب کچھ اس قسم کی آوازیں آرہی تھیں جیسے کئی آدمی لڑ پڑے ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بالکل سناٹا ہو گیا!۔۔۔"

"خدا کا شکر ہے!" عمران آہستہ سے بڑبڑایا! فیاض کی پیشانی پر سلوٹیں ابھریں لیکن وہ عمران سے الجھے بغیر بولتا رہا۔۔۔ "راضیہ اٹھ کر سیدھی نوکروں کے کوارٹر میں گئی۔۔۔ اور انہیں جگا کر اپنے ساتھ ارشاد کی خواب گاہ تک لائی جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا!۔۔۔ لیکن خواب گاہ خالی تھی! ارشاد کے بستر پر بہت سا خون تھا!۔۔۔ پلنگ کے نیچے ایک خنجر ملا۔۔۔ وہ بھی خون آلود تھا! سرہانے کی چھوٹی میز الٹی پڑی تھی! دو کرسیاں الٹ گئی تھیں! غرضیکہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہاں کافی دیر تک کشمکش ہوئی ہے۔۔۔ مگر۔۔۔!۔۔۔ ارشاد کا کہیں پتہ نہ تھا۔۔۔!"

عمران کچھ نہ بولا! وہ غور سے فیاض کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔!

"ارشاد۔۔۔ اب بھی لا پتہ ہے۔۔۔! راضیہ نے بہت کچھ بتایا ہے۔۔۔ حالانکہ خود اپنا وجود بھی شبہے سے بالا تر نہیں رکھا!۔۔۔"

"اس نے کیا بتایا ہے۔۔۔!" عمران نے پوچھا۔

"یہی کہ ارشاد اپنے تینوں بیٹوں کی طرف مطمئن نہیں تھا۔۔۔ یہی وجہ ان کی علیحدگی کی بھی تھی۔۔۔ راضیہ کے علاوہ اور کوئی ارشاد منزل میں نہیں جا سکتا تھا!"

"اس لڑکی پر اسے بہت اعتماد تھا!"

"ہاں! اس کا بیان بھی یہی ہے۔۔۔!"

"تمہارا کیا خیال ہے۔"

"میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کر سکا!"

"جس دن تم رائے قائم کرنے کے قابل ہو ئے اس دن تمہاری بیوی بالغ ہو جائے گی!"

"عمران۔۔۔! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم وہاں کیا کر رہے تھے۔۔۔!"

"کہاں! مائی ڈئیر فیاض۔۔۔!"

"تیمور اینڈ بارٹلے کے شو روم میں۔۔۔!"

عمران یک بیک سنجیدہ ہو گیا! چند لمحے فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔ "تم مجھے پر کس بات کا شبہ کر رہے ہو!"

"میں فی الحال تم پر کسی قسم کا شبہ نہیں کر رہا۔۔۔ صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم وہاں کیا کر رہے تھے!"

"وہاں قریب قریب ڈیڑھ سو آدمی تھے۔۔۔" عمران نے سنجیدگی کہا!"میں ان سے مشورہ کرنے کے بعد تمہارے اس سوال کا جواب دوں گا!"

فیاض کو پھر غصہ آگیا! اس نے غرا کر کہا۔

"تم سمجھتے ہو شاید میں اس کیس میں تمہاری مدد چاہتا ہوں!"

"نہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دوسروں کا وقت برباد کرنے کے سپیشلسٹ ہو۔"

"تم جھک مار رہے ہو!" فیاض کرسی سے اٹھتا ہوا بولا۔ "راضیہ کے وینٹی بیگ سے برآمد ہونے والے سانپ کی وجہ سے میں نے تم سے ملنا مناسب سمجھا! کیونکہ تم نے ایک بار تیمور اینڈ بارٹلے والوں کی غیر قانونی حرکت کا تذکرہ کیا تھا!۔۔۔ راضیہ کہتی ہے کہ شو روم جانے سے پہلے سانپ وینٹی بیگ میں نہیں تھا!"

"کہتی ہوگی۔۔۔ مت بور کرو۔۔۔ جاؤ اپنا کام دیکھو!۔۔۔۔ میں آج کل بہت مشغول ہوں اس وقت میرے پاس طلاق کے بارہ کیس ہیں! ہر کیس میں کم از کم ایک ہزار ملنے کی توقع ہے۔۔۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳)​

تیمور اینڈ بارٹلے کا جنرل مینجر تیمور اپنے شاندار مکان کی شاندار اسٹڈی میں بیٹھا اپنی فرم کے دو شکاریوں سے ہم کلام تھا! تیمور دراصل اس فرم کا حصہ دار تھا۔ دوسرا حصہ دار بارٹلے تھا جو انگریز تھا اور زیادہ تر سمندر پار ہی رہ کر بیرونی تجارت کی دیکھ بھال کرتا تھا!

تیمور ایک دراز قد اور قوی ہیکل آدمی تھا! عمر پچاس کے لگ بھگ رہی ہوگی! چہرہ اب بھی پر کشش تھا!

"تم دونوں!" وہ شکاریوں سے کہہ رہا تھا "بعض اوقات حد بہت آگے بڑھ جاتے ہو! میں اسے پسند نہیں کرتا۔۔۔!"

شکاریوں میں سے ایک جو، جوان العمر اور مضبوط ہاتھ پیروں والا تھا بولا۔ "آگے بڑھے بغیر اگر کام چل سکے تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔!"

"نہیں۔۔۔ اب تم اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرو گے!" تیمور کے لہجے میں سختی تھی۔

"آپ اپنا لہجہ درست کیجئے مسٹر تیمور۔۔۔!" جوان العمر شکاری نے کہا!

"کیا۔۔۔؟" تیمور اس طرح چونکا جیسے اس کے سر پر بم پھٹا ہو!۔۔۔ چند لمحے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آتے رہے! پھر وہ یک بیک سرخ ہو گیا۔۔۔!

"تم مجھ سے اس انداز میں گفتگو کی جرأت کر رہے ہو!" وہ غرایا!

"ہاں مسٹر تیمور!" جوان العمر شکاری مسکرا کر بولا "میں بہت با حوصلہ آدمی ہوں اور میں زندگی بھر اسی کمتر حیثیت میں نہیں رہوں گا! ہو سکتا ہے۔۔۔ دس پانچ سال بعد فرم کا نام ہی بدل جائے۔۔۔ لوگ اسے طارق تیمور اینڈ بارٹلے کے نام سے یاد کرنے لگیں۔۔۔ پہلے تو صرف بارٹلے کی فرم تھی۔۔۔ مسٹر تیمور اس کے ایک معمولی ملازم تھے! پھر ایک دن اچانک وہ فرم کے حصہ دار ہو گئے۔۔۔ میں۔۔۔ طارق۔۔۔ آج ایک معمولی شکاری ہوں!۔۔۔ ہو سکتا ہے۔۔۔۔ کل۔۔۔!"

"شٹ اپ!" تمیور حلق کے بل چیخا!

"مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا مسٹر تیمور۔۔۔!" طارق بدستور مسکراتا ہوا بولا!

"طارق بے تکی باتیں مت کرو!" اس کے ساتھی شکاری نے دبی زبان سے کہا۔

"تم خاموش رہو ناصر۔۔۔!" طارق نے اس سے کہا!

"میں تمہیں اسی وقت اپنی ملازمت سے برطرف کر رہا ہوں اور اب تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔!" تیمور نے سخت لہجے میں کہا!

"مسٹر تیمور جلد بازی اچھی نہیں ہوتی!" طارق اپنے گھٹیلے بازوؤں پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا! "انجام پر غور کر لیجئے گا!"

تیمور پھر اسے گھورنے لگا!

"اس سے کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔!" اس نے پوچھا!

"ایکس فائیو تھری نائن!" طارق آہستہ سے بولا! لیکن وہ براہ راست تیمور کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی وحشیانہ چمک تھی۔ دفعتاً تیمور کا چہرہ تاریک ہو گیا! اور دوسرے شکاری ناصر نے بھی یہ تبدیلی محسوس کرلی۔

"بس مسٹر تیمور ہماری آج کی گفتگو ختم ہو گئی!" طارق اٹھتا ہوا بولا۔

"آؤ ناصر!" ناصر چپ چاپ اٹھ گیا اور وہ دونوں تیمور کی اسٹڈی سے باہر آگئے۔ پورچ میں ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی! طارق نے اس کی سیٹ پر بیٹھ کر اسے سٹارٹ کیا۔۔۔ ناصر کیرئیر پر بیٹھ چکا تھا! موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے نکل آئی تھی۔

"طارق یہ کیا قصہ تھا!" ناصر نے پوچھا۔

طارق ہلکا سا قہقہہ لگا کر بولا "اگر اس قسم کے قصے ہر ایک کی سمجھ میں آنے لگیں تو ہر ایک تیمور اینڈ بارٹلے کا حصہ دار ہو جائے! میں اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہوں دوست۔۔۔!"

"مگر یار اس وقت تو تم نے کمال ہی کر دیا!۔۔۔ مگر وہ نمبر کیا تھا۔۔۔ جسے سنتے ہی وہ بدحواس ہو گیا تھا!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"سنو ناصر! ہم دونوں گہرے دوست ہیں!۔۔۔ طارق نے کہا اور خاموش ہو گیا! ناصر منتظر تھا کہ وہ کچھ اور بھی کہے گا۔۔۔ لیکن وہ خاموش ہی رہا۔

"میں اس جملے کا مطلب نہیں سمجھا!" ناصر نے کہا!

"اس کا مطلب پھر سمجھاؤں گا۔۔۔ فی الحال ایک کار ہمارا تعاقب کر رہی ہے!۔۔۔ اس میں یقیناً تیمور کے آدمی ہوں گے!۔۔۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ انہیں ایک اچھا سبق دوں!"

ناصر نے مڑ کر دیکھا۔۔۔! حقیقتاً اس کار کے علاوہ سڑک پر دور تک کوئی کار نظر نہیں آ رہی تھی!

"وہم ہے تمہارا۔۔۔!" ناصر بڑبڑایا!

"وہم نہیں بلکہ توقع۔۔۔" طارق نے کہا! "اس گفتگو کے بعد تیمور مجھے زندہ دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔۔۔ خیر دیکھو۔۔۔ ابھی معلوم ہوا جاتا ہے۔۔۔!"

دفعتاً طارق نے موٹر سائیکل ایک گلی میں موڑ دی! دوسری کار بھی اسی گلی میں مڑ گئی!۔

"کیوں اب کیا خیال ہے!" طارق نے ہلکے سے قہقہے کے ساتھ کہا۔

"ٹھیک ہے!" ناصر بڑبڑایا۔

"کیا میں تمہیں کہیں اتار دوں!" طارق نے پوچھا! "وہ لوگ ہمیں رس ملائی نہیں کھلائیں گے!"

"کیا تم مجھے بزدل سمجھتے ہو!" ناصر نے کہا!

"نہیں پیارے! مطلب یہ تھا کہ تمہیں خطرے سے آگاہ کر دوں!۔۔۔ مگر ہمیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیئے کہ یہ کتنے آدمی ہیں!"

ناصر کچھ نہ بولا! طارق موٹر سائیکل کو گلی سے نکال کر دوسری سڑک پر لایا۔۔۔ پھر کیفے گرانڈ کے سامنے اسے روک کر مشین بند کر دی!۔۔۔۔ دوسری کار بھی تھوڑے ہی فاصلے پر رک گئی تھی!۔۔۔

دونوں اتر کر کیفے گرانڈ میں داخل ہوئے۔۔۔ اس کا ہال چھوٹا ہی تھا۔۔۔ اور اوپر چاروں طرف گیلری بنی ہوئی تھی!۔۔۔ اس طرح چھوٹی سی جگہ میں زیادہ سے زیادہ نشستوں کا انتظام کیا گیا تھا۔

طارق نیچے بیٹھنے کی بجائے اوپر کے لئے زینے طے کرنے لگا!۔۔۔ ناصر نے دیکھا کہ چار آدمی کیفے میں داخل ہوئے۔۔۔ اور وہ کنکھیوں سے ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے!۔۔۔ جب تک کہ طارق اور ناصر اوپر جا کر بیٹھ نہیں گئے وہ لوگ بھی کھڑے ہی رہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ چاروں طرف نظر دوڑا کر اپنے لئے کوئی جگہ منتخب کر رہے ہوں۔! طارق اور ناصر گیلری کی جالیوں سے لگ کر اس طرح بیٹھے کہ نیچے سے کم از کم ان کے سر بخوبی دکھائی دے سکیں!۔۔۔ وہ چاروں بھی بیٹھ چکے تھے!۔۔۔ لیکن انہوں نے بھی ایسی ہی جگہ منتخب کی تھی جہاں سے وہ بہ آسانی ان پر نظر رکھ سکتے تھے۔
طارق آہستہ آہستہ پردہ کھسکا کر اپنے چہرے کے قریب لا رہا تھا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا چہرہ۔۔۔ پردے کے پیچھے ہو گیا!۔۔۔ لیکن ناصر اب بھی نیچے والوں کو دکھائی دے رہا تھا۔
"ناصر" طارق نے اسے آہستہ سے مخاطب کیا!" زیادہ نہیں! صرف بیس منٹ تک انہیں یہاں روکے رکھو!۔۔۔ اس کے بعد تمہیں ایک ایسا تماشا دکھاؤں گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے۔۔۔!"
"کس طرح روکوں! میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا!"
"تم بس اس طرح بیٹھے رہو!۔۔۔ میں صرف بیس منٹ کے لئے باہر جا رہا ہوں!۔۔۔ یہ دروازہ دیکھ رہے ہو! اس کے زینے باورچی خانے میں جا کر ختم ہوتے ہیں۔ میں ادھر ہی جاؤں گا!۔۔۔ لیکن نیچے والوں کو یہی معلوم ہونا چاہئے کہ میں یہاں موجود ہوں!۔۔۔ تم کبھی کبھی اس طرح ادھر دیکھتے رہنا جیسے مجھ سے مخاطب ہو!"
"تم کہاں جا رہے ہو!"
"بس واپس آ کر بتاؤں گا۔۔۔"
طارق۔۔۔ گیلری کے زینوں سے دوسری طرف اتر گیا! ناصر بدستور وہیں بیٹھا رہا!۔۔۔ طارق کے جانے کے بعد چائے بھی آ گئی!۔۔۔ اس وقت ناصر بڑی شاندار ایکٹنگ کر رہا تھا!۔۔۔ وہ طارق سے عمر میں بڑا تھا! لیکن قوت میں اس کا لوہا مانتا تھا!۔۔۔ اس نے اس انداز میں چائے انڈیلی جیسے وہ ساتھ ہی ساتھ اپنے مخاطب سے گفتگو بھی کرتا جا رہا ہو۔ ویسے اس کی نظر چائے کی پیالیوں کی طرف ہی ہو!۔۔۔ پھر اس نے نیچے بیٹھے ہوئے آدمیوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔۔۔ وہ چاروں ابھی تک ہال میں موجود تھے! بیس منٹ گذر گئے لیکن طارق واپس نہیں آیا۔۔۔ اس کی واپسی ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہوئی اور وہ اس طرح ہانپ رہا تھا جیسے اسے بہت دوڑنا پڑا ہو!
"کیا کر آئے۔۔۔!" ناصر نے مسکرا کر پوچھا۔
"بس ابھی دیکھ لینا!۔۔۔ اور اب اٹھو۔۔۔!"
وہ زینے طے کر کے نیچے ہال میں آئے۔۔۔ لیکن ان کے انداز سے یہی ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ تعاقب کرنے والوں سے لاعلم ہوں!۔۔۔ باہر آ کر طارق نے پھر موٹر سائیکل سنبھالی۔۔۔ ناصر کیرئیر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل چل پڑی!۔۔۔
تقریباً پندرہ بیس منٹ تک وہ مختلف سڑکوں پر دوڑتی رہی پھر طارق نے ناصر سے کہا۔
"ذرا گھڑی تو دیکھو۔ کیا وقت ہوا ہے!"
"ساڑھے چھ!" ناصر نے جواب دیا!
"کار اب بھی ہمارے تعاقب میں ہے!۔۔۔"
"آخر اس کا مقصد کیا ہے!" ناصر نے پوچھا!
"انہیں معلوم ہے کہ آج کل شکار ہو رہا ہے اور ہم یہاں سے سیدھے کیمپ کی طرف جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے ہمیں ایک سنسان سڑک سے گذرنا ہوگا۔
"میرے خدا۔۔۔!" ناصر گڑبڑا کر بولا! "تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں مار ڈالنے کی فکر میں ہیں!"
"یقیناً!" طارق نے قہقہہ لگایا "ورنہ ہم دو خوبصورت تتلیاں تو ہیں نہیں کہ وہ ہمارے گھروں کا پتہ لگانے کے لئے ہمارا تعاقب کر رہے ہیں!"
"اور ہم کیمپ ہی کی طرف جائیں گے!" ناصر نے سوال کیا!
"یقیناً۔۔۔ ہم وہیں جائیں گے اور اسی سڑک سے گزریں گے جس سے روزانہ گزرتے ہیں!"
"تب تم پاگل ہو گئے ہو!"
"پروا نہ کرو۔۔۔ صرف تین منٹ بعد تم بھی پاگل ہو جاؤ گے!" یقین نہ آئے تو گھڑی کی طرف دیکھتے رہو۔۔۔ اور تمہارے پاگل ہو جانے کی خبر سن کر تیمور پاگل کتوں کی طرح بھونکنے لگے گا!"
ناصر کچھ نہ بولا! وہ اب اس فکر میں تھا کہ کسی بہانے سے فی الحال طارق سے پیچھا چھڑا لے۔۔۔۔ لیکن ایسے مواقع پر عموماً بہانہ پیدا کرنے کا کوئی پہلو ہی نہیں نکلتا!۔۔۔ ناصر کا ذہن اسی میں الجھ کر رہ گیا۔ موٹر سائیکل کی رفتار بتدریج تیز ہوتی جا رہی تھی اور اب وہ کیمپ ہی کی طرف جانے والی سڑک پر مڑ چکی تھی! ناصر کا دل دھڑکنے لگا! اس نے مڑ کر دیکھا! کار بھی اسی سڑک پر مڑی تھی۔ لیکن سڑک کایہ حصہ سنسان نہیں تھا! کیونکہ ابھی شہری آبادی کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا۔۔۔
"طارق۔۔۔ سس۔۔۔ سچ۔۔۔!" ناصر ہکلایا۔۔۔ لیکن اسے اپنی ہکلاہٹ جاری رکھنے کا موقع نہ مل سکا! کیونکہ دفعتاً ایک بلند آواز کے دھماکے نے اس کے اعصاب کو ساکت کر دیا! چونک پڑنے کی بھی سکت اس میں نہ رہ گئی! پھر اس نے بیک وقت کئی چیخیں سنیں! مڑ کر دیکھا تو۔۔۔ اسے تھوڑے ہی فاصلے پر آگ کی لپک دکھائی دی! طارق بے تحاشہ ہنس رہا تھا۔۔۔ اور موٹر سائیکل بھاگی جا رہی تھی۔۔۔!
"اب یہ کل کے اخبا رمیں دیکھنا کہ کتنے مرے اور کتنے زخمی ہوئے!" طارق نے کہا۔
"یہ۔۔۔ کک۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔!" ناصر پھر ہکلایا!
"ٹائم بم۔۔۔"
"اسی کار میں۔۔۔ؔ
"ہاں میں آدھے گھنٹے تک جھک نہیں مارتا رہا تھا۔۔۔!"
"مگر۔۔۔ اف۔۔۔ فوہ۔۔! تم نے یہ کیا کیا طارق۔۔۔!"
"میں شکاری ہوں ناصر۔۔۔ بس اس سے زیادہ اور کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مگر ان شکاروں کی کھال تیمور کے کسی کام نہ آ سکے گی!"
"تم نے انہیں مار ڈالا!۔۔۔"
"ہاں میرے دوست!" طارق نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ "سانپوں کو پھن اٹھانے کی مہلت ہی نہ دینی چاہیئے! یہی ہمارا سب سے پہلا سبق ہے!"
ناصر سناٹے میں آ گیا! اس کے سارے جسم سے ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ پھوٹ رہا تھا!
"کیا تم ڈر رہے ہو!" طارق نے پھر قہقہہ لگایا! ناصر کچھ نہ بولا! اس کا دماغ کھوپڑی سے نکل کر گویا ہوا میں تیرے لگا تھا! اس دھماکے کا اثر اب بھی اس کے اعصاب پر باقی تھا اور پھر طارق کی باتیں بھی اس دھماکے سے کیا کم تھیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۴)​
آج فیاض کو پھر عمران کی تلاش تھی! لیکن وہ اپنے فلیٹ میں نہیں ملا ۔ بہرحال اس تک پہنچنے کے لئے فیاض کو اچھی خاصی سراغرسانی کرنی پڑی!۔۔۔ وہ اسے شہر کے ایک گھٹیا سے شراب خانے میں ملا۔ لیکن فیاض یہ نہ معلوم کر سکا کہ عمران وہاں کیا کر رہا تھا! حقیقت تو یہ تھی کہ اس وقت اسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی تھی کہ عمران وہاں کیوں آیا تھا! ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے موقع پر اسے کھوج پڑ گئی ہوتی!۔۔۔ لیکن آج تو خود اس کے ہی ذہن میں انتہائی حیرت انگیز واقعات کے تصورات ابل رہے تھے۔۔۔عمران فیاض کو سڑک ہی پر دیکھ کر شراب خانے سے اٹھ گیا تھا! لیکن اس وقت اسے فیاض کی آمد گراں ضرور گزری تھی!
عمران نے سڑک پر آ کر فیاض کو اشارہ کیا کہ وہ آگے بڑھ جائے! لیکن فیاض اشارہ نہ سمجھ کر اسی کی طرف بڑھتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عمران دوسری طرف مڑ کر بڑی تیزی سے چلتا ہوا ایک گلی میں گھس گیا۔۔۔! بہرحال بات اسی وقت فیاض کی سمجھ میں آئی، جب عمران نظروں سے اوجھل ہو گیا!
اب فیاض بھی آہستہ آہستہ اسی گلی کی طرف جا رہا تھا اور گلی میں داخل ہو کر اس نے اپنی رفتار تیز کر دی! مگر عمران کا کہیں پتہ نہ تھا!
فیاض گلی سے گذر کر دوسری سڑک پر ہنچ گیا!۔۔۔ لیکن۔۔۔ اب۔۔۔ اب بھی عمران کہیں نظر نہ آیا! فیاض کو تقریباً ایک یا ڈیڑھ منٹ تک وہیں کھڑے رہ کر سوچنا پڑا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیئے!
اچانک اسے ایک ریستوران کی کھڑکی میں عمران کا چہرہ نظر آیا۔۔۔ فیاض نے تیزی سے سڑک پار کی اور ریستوران میں داخل ہو گیا۔
"کیا مصیبت آ گئی ہے۔۔۔" عمران جھلائے ہوئے لہجے میں بولا!۔۔۔ اس کا جھلاہٹ کا مظاہر بھی انتہائی مضحکہ خیر معلوم ہو اکرتا تھا!
"تم بیٹھو تو۔۔۔ یقیناً تم اس معمالے میں دلچسپی لو گے!" فیاض نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"کیا ہے جلدی سے بکو۔۔۔ اور کچھ دنوں کے لئے میرا پیچھا چھوڑ دو!"
"وہ لڑکی راضیہ اب ایک نئی کہانی سنا رہی ہے۔۔۔!" فیاض نے کہا "مگر آخر تم اتنے اکھڑے اکھڑے سے کیوں ہو!"
"فکر مت کرو!۔۔۔ میں قلفی کی طرح جما جما سا ہوں۔۔۔ تمہاری آنکھوں کا قصور ہے۔۔۔" عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"میں تمہیں صرف پندرہ منٹ دے سکتا ہوں!"
"تب تم جہنم میں جاؤ۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔"
"نہیں! تمہیں بہت کچھ کہنا ہے!۔۔۔ تمہیں یہ بتانا ہے کہ ارشاد اپنے لڑکوں سے خائف تھا! اور تمہیں اس تصویر کے متعلق بتانا ہے، جو ارشاد کے بیٹے نوشاد سے مشابہ ہے۔۔۔ پھر تم مجھے انسانی ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کے متعلق بتاؤ گے!۔۔۔"
"اوہ ۔۔۔ تو راضیہ تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہے۔۔۔!" فیاض نے مایوسی سے کہا!
"نہیں! اس نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔۔۔!"
"تم اور کیا جانتے ہو!" فیاض نے پوچھا!
"ظاہر ہے میں اتنا ہی جانتا ہوں گا جتنا مجھے راضیہ نے بتایا ہوگا۔۔۔!" عمران نے خشک لہجے میں کہا! چند لمحے خاموش رہا پھر بولا "لیکن راضیہ کو اس کا کیا علم کہ تم نے ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو تہہ خانے سے نکلوا لیا ہے!"
"اچھا پھر!" فیاض اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا!
"اور ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو دیکھ کر تمہیں بڑی مایوسی ہوئی!۔۔۔ کیونکہ وہ ہڈیاں ہرگز نہیں تھیں البتہ تم اس کاریگری کے دل سے قائل ضرور ہو!۔۔۔ لکڑی کا پنجر بنا کر اس پر سفید پالش کرنا آسان کام نہیں ہے۔۔۔ کافی محنت صرف ہوئی ہوگی!۔۔۔ کیوں کیا خیال ہے!"
"تمہیں یہ سب کچھ کیسے معلوم ہوا؟"
"نہایت آسانی سے جن لوگوں نے تہہ خانے میں جانے کا راستہ بنایا تھا۔۔۔؟"
"قطعی غلط! ان میں سے کوئی بھی نہیں بتا سکتا! وہ سب میرے محکمے کے آدمی تھے!" فیاض نے کہا!
"اور تمہارے محکمے میں سب فرشتے ہیں۔ انہیں نہ تو شراب سے دلچسپی ہو سکتی ہے اور نہ عورت سے۔ میری سیکرٹری روشی کو تم کیا سمجھتے ہو! سوپر فیاض!۔۔۔ اس نے تمہارے ایک آدمی سے سب کچھ معلوم کر لیا ہے۔۔۔ ہاہا۔۔۔ ہپ!"
فیاض کچھ نہ بولا! لیکن وہ عمران کو برابر گھورے جا رہا تھا!
"اب رہا تصویر کا معاملہ۔۔۔ تو اس کے متعلق تم مجھے بتاؤ گے!" عمران نے کہا پھر گھڑی کو دیکھ کر بولا "صرف پانچ منٹ اور باقی ہیں!"
"میں گھونسہ مار دوں گا!" فیاض جھنجھلا گیا!
"مگر پانچ منٹ کے اندر ہی اندر۔۔۔"عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
فیاض مزید کچھ کہے بغیر اٹھ گیا!۔۔۔ اسے توقع تھی کہ شاید عمران اسے روکے گا!۔۔۔ لیکن وہ بدستور بیٹھا رہا۔ فیاض دروازے تک جا کر پھر پلٹ آیا!
"میں اب صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے اس کیس میں دخل اندازی کی تو اچھا نہ ہوگا!" فیاض نے کہا!
"لعنت بھیجتا ہوں تمہارے کیس ویس پر!" عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔ "مجھے تیمور اینڈ بارٹلے کی فرم میں نوکری مل گئی ہے!"
فیاض بے ساختہ چونک پڑا۔۔۔
"نوکری مل گئی ہے!" اس نے معتجبانہ انداز میں دہرایا۔
"اور کیا ایک نہ ایک دن عقل آ ہی جاتی ہے!۔۔۔مہینے میں ایک سو پچاس روپے ملیں گے۔۔۔ بہت ہیں اور کیا!۔۔۔"
فیاض پھر بیٹھ گیا!۔۔۔
"ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا!" فیاض نے گرامو فون کے ریکارڈ کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ "نوشاد کو جب یہ بتایا گیا کہ وہ اس کے باپ کے کسی چچا کی تصویر ہے تو وہ بے تحاشہ ہنسنے لگا! پھر اس نے بتایا کہ حقیقتاً اسی کی تصویر ہے! جو اس نے قدیم لباس میں ایک مصور سے بنوائی تھی! اس نے مصور کا نام اور پتہ بتایا۔۔۔ اور مصور نے بھی اس کے بیان کی تصدیق کر دی!"
"تصویر کب بنوائی گئی تھی!" عمران نے پوچھا!
"آج سے دس سال پہلے!"
"پھر اب تمہارا کیا خیال ہے!" عمران نے پوچھا!
"ظاہر ہے، ایسے حالات میں یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ ارشاد کو کوئی حادثہ پیش آیا ہے!۔۔۔"
"اور کچھ!۔۔۔ یہ تو بڑی موٹی سی بات تھی!" عمران نے کہا "حالات کو مد نظر رکھ کر ایک ناخواندہ کانسٹیبل بھی یہی کہہ سکتا ہے۔۔۔ مگر تم محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ ہو!"
"تم کیا کہنا چاہتے ہو!" فیاض نے پوچھا!
"مجھے الگ ہی رکھو!۔۔۔ تو بہتر ہے۔۔۔ ورنہ تم خود ہی کہہ چکے ہو کہ اچھا نہ ہوگا۔۔۔"
فیاض کچھ نہ بولا! پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگا! "معاملہ بہت پیچیدہ ہے!۔۔۔ اگر وہ پنجر لکڑی کا نہ ثابت ہوا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے لڑکے نوشاد کو پھنسانا چاہتا ہے!"
"بنڈل"
"کیا مطلب۔۔۔" فیاض اسے گھورنے لگا!
"کچھ نہیں! میں دوسری بات سوچنے لگا تھا!۔۔۔ مگر ہاں۔۔۔ تم۔۔۔! تم اس معاملے کو چھپا کیوں رہے ہو!۔۔۔ میرا خیال ہے کہ سارے واقعات اخبارات میں آ جانے چاہیئں اور خوب فیاض مری جان! بہترین موقع ہے وہ ڈیلی میل کی رپورٹر ہے نا۔۔۔ مس مونا۔۔۔ تم ایک بار اس پر مر مٹے تھے۔۔۔ پھر بعد کی اطلاع مجھے نہیں ہے کہ کیا ہوا تھا!۔۔۔ خیر بہرحال۔۔۔ تم اسے فون کرکے اپنے پاس بلاؤ۔۔۔ اور صرف اس کے اخبار کے لئے ایک رپورٹ مرتب کرا دو!۔۔۔ پھر دیکھنا۔۔۔ ہائے۔۔۔! وہ بھی مر مٹے گی اور میں بعد کی اطلاعات سے محروم ہو جاؤں گا!"
"میں فی الحال اس کی پبلسٹی نہیں چاہتا!" فیاض نے کہا!
"اچھی بات ہے تو پھر میں ہی مس مونا کو مر مٹنے کا چانس دوں گا!"
"تم ایسا نہیں کرو گے!" فیاض نے سخت لہجے میں کہا!
"اماں لعنت ہے اس پر۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔ مجھے کیا! میں تو تیمور اینڈ بارٹلے۔۔۔!"
"تیمور اینڈ بارٹلے والی بات بھی تمہیں سمجھانی پڑے گی!" فیاض نے کہا۔
"بتا تو دیا کہ مجھے وہاں نوکری مل گئی ہے!"
"خیر۔۔۔ پروا نہیں!" فیاض نے لاپرواہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا! "میں تمہیں کامیاب نہیں ہونے دوں گا!۔۔۔"
"پندرہ منٹ پورے ہو گئے!" عمران اسے گھڑی دکھاتا ہوا بولا۔ "لیکن میں ایک منٹ اور دے کر اتنے وقفہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ تم ان واقعات کی تشہیر کئے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے! لیکن اس سلسلےمیں اس سانپ کا تذکرہ کرنا نہیں بھولو گے جو راضیہ کے وینٹی بیگ سے برآمد ہوا تھا اور راضیہ تیمور اینڈ بارٹلے کے شو روم سے نکل کر سیدھی ارشاد منزل گئی تھی!"
فیاض کچھ سوچنے لگا تھا آخر اس نے تھوڑی دیر بعد سر ہلا کر کہا "اب میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ ان واقعات کی پبلسٹی ضرور ہونی چاہیے! آخر اس سے ارشاد کا مقصد کیا تھا؟"
"گڈ تم بہت اچھے بچے ہو! بس اب جاؤ۔۔۔ لیکن تم راضیہ کے وینٹی بیگ والے سانپ کے متعلق تیمور سے ضرور پوچھ گچھ کرو گے۔"
"کیا فائدہ ہوگا!"
"بہت فائدہ ہوگا!"
"بہت فائدہ ہوگا۔۔۔ یہ نسخہ درد کمر کے لئے اکسیر ہے۔۔۔"
"پھر اتر آئے نا بکواس پر!"
"پروا نہ کرو!۔۔۔ ہاں سب سے زیادہ ضروری بات تو رہ ہی گئی۔۔۔ اخبارات میں ان واقعات کی تفصیل آ جانے کے بعد ہی تم تیمور سے پوچھ گچھ کرو گے۔۔۔! اس سے پہلے نہیں!"
"یار عمران۔۔۔ کیوں بور کر رہے ہو! آخر اس سے کیا ہوگا!"
"ڈلیوری آسان ہو جائے گی!"
"خدا سمجھے تم سے!"
"اور ہاں!۔۔۔ تیمور اینڈ بارٹلے کے آفس میں مجھ سے ملنے کی کوشش کبھی نہ کرنا! سمجھے! بس اب جاؤ۔۔۔ میں ڈیوٹی پر جا رہا ہوں، لنچ کا وقفہ ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی رہ گئے ہیں!"
فیاض کے اٹھنے سے قبل عمران ہی اٹھ کر باہر نکل گیا!
 

قیصرانی

لائبریرین
ٹائپسٹ لڑکی جولیا اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ وه کاغذات پر جھکا ہوا برے برے منه بنا رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وه خود کو اس چھوٹے سے پارٹیشن میں تنہا محسوس کر رہا ہو! اس پارٹیشن میں صرف دو میزیں تھیں۔۔۔ ایک پر ٹائپسٹ لڑکی جولیا بیٹھتی تھی اور دوسری میز اسسٹنٹ اکاوئنٹنٹ کی تھی!۔۔۔ بوڑھا اسسٹنٹ اکاوئنٹنٹ پچھلے چار دنوں سے دو ماه کی چھٹی پر تھا!۔۔۔ اس کی جگه نیا اکاوئنٹنٹ آیا تھا یه نیا اکاوئنٹنٹ کافی وجیہہ جامه زیب اور نوجوان آدمی تھا۔۔۔ پہلے دن جولیا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔۔۔ اس نے سوچا تھا که کم از کم دو ماه تک تو وه ہر قسم کی بوریتیوں سے دور ہی رہے گی۔۔۔ پرانا اکاوئنٹنٹ بہت نک چڑھا تھا اور جولیا اسے پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔
مگر یه نیا اکاوئنٹنٹ اس پرانے اکاوئنٹنٹ سے بھی زیاده بور ثابت ہوا وه سارا دن سر جھکائے ہندسوں میں غرق رہتا۔۔۔ اور اس پارٹیشن میں ٹائپ رائٹر کی “کٹ کٹ“ کے علاوه اور کوئی آواز نه سنائی دیتی! پرانے اکاوئنٹنٹ کی بکواس جولیا کو گراں گزرتی تھی۔۔۔ اور اب نئے اکاوئنٹنٹ کی حد سے بڑھی ہوئی خاموشی اسے کھلنے لگی تھی۔۔۔!
کبھی وه اسے ذهنی طور پر بہت اونچا آدمی معلوم ہونے لگتا۔۔۔ اور کبھی بالکل بدھو۔۔۔! وه اکثر ٹائپ رائٹر پر ہاتھ روک کر اسے غور سے دیکھنے لگتی۔
اس وقت بھی وه کام بند کر کے ہولے ہولے اپنی انگلیاں دبا رہی تھی۔۔۔ اور اس کی نظریں اکاوئنٹنٹ پر ہی تھیں!۔۔۔ جو کاغذات پر سر جھکائے اونگھ رہا تھا۔۔۔ا کثر وه چونک کر اس طرح آنکھیں پھاڑنے لگتا جیسے نیند کو بھگانے کی کوشش کر رہا ہو! دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنے گال میں بہت زور سے چٹکی لی۔۔۔ اور “سی“ کر کے بسورنے لگا!
جولیا کو بے ساخته ہنسی آگئی! اس کا قہقہہ سن کر اکاوئنٹنٹ چونک پڑا اور پھر اس کے چہرے سے کچھ اس طرح کی حجاب آمیز سراسیمگی ظاهر ہونے لگی، جیسے کسی نے سر بازار اس کے چپت رسید کر دی هو!
“وه۔۔۔ وه دیکھئے۔۔۔!“ وه ہکلایا۔ “مجھے دراصل نیند آ رہی تھی۔۔۔ اور میں نیند کو بھگانے کے لئے یہی کرتا ہوں!“
“میرا تو یہی خیال ہے که آپ کو کبھی نیند ہی نه آتی ہوگی!“ جولیا نے کہا۔۔۔!
“کیوں۔۔۔ واه۔۔۔ آتی کیوں نہیں!“
“لیکن خواب میں آپ کو ہندسے ہی ہندسے نظر آتے ہوں گے!“
“جی ہاں اور آج کل ٹائپ رائٹر کی کٹ کٹ بھی سنائی دیتی ہے!“ اکاوءنٹنٹ نے گلوگیر آواز میں کہا۔
“آپ اس سے پہلے کہاں کام کرتے تھے!“
“اس سے پہلے میں کسی کام کا نہیں تھا!“
“آپ کے دوست تو بکثرت ہوں گے۔“ جولیا خوامخواه اسے باتوں میں الجھانا چاہتی تھی!
“نہیں ایک بھی نہیں ہے!“ اکاوءنٹنٹ نے بڑی معصومیت سے کہا “بات یه “ے مس نیلیا۔۔۔!“
“جولیا!“ اس نے تصحیح کی!
“آئی ایم سوری۔۔۔ مس جولیا۔۔۔ بات یه ہے که مجھے دوستی کرتے ہوئے بڑی شرم آتی ہے۔۔۔!“
“شرم!۔۔۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔۔۔!“
“شرم۔۔۔ دراصل اسے کہتے ہیں۔۔۔ جو آ جاتی ہے۔۔۔ آتی ہے۔۔۔ یعنی که شرم۔۔۔ آپ شرم نہیں سمجھتیں!“
“میں نے شرم کی وجه پوچھی تھی۔۔۔!“
“بہتیری وجوہات ہو سکتی ہیں! جی ہاں!۔۔۔“
اکاوئنٹنٹ کے چہرے پر اس وقت نه جانے کہاں کی حماقت پھٹ پڑی تھی!۔۔۔ جو لیا نے سوچا! چلو اسی طرح وقت کٹے گا! بیوقوف آدمی بھی دلچسپی کا سامان ہوتے ہیں!
“آپ کے کتنے بچے ہیں!“ جولیا نے پوچھا!
“مجھے ملا کر سات۔۔۔!“
“آپ کو ملا کر کیوں؟“
“جی ہاں! اگر آپ نه ملانا چاہیں، تب بھی کوئی مضائقه نہیں۔۔۔ پھر بھی چھ باقی بچتے ہیں!“
“بات یه ہے مس مولیا۔۔۔ ار۔۔۔ شائد۔۔۔ میں غلط نام لے رہا ہوں۔۔۔ خیر جو کچھ بھی آپ کا نام ہو! مطلب یه که۔۔۔ ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔۔۔!“
“مجھے حیرت ہے که آپ دوستوں کے بغیر کیسے زنده ہیں!“
“میں زنده کب ہوں!“ اکاوءنٹنٹ نے مایوسی سے کہا!
“یقیناً آپ کے دل پر کوئی گہری چوٹ لگی ہے۔“ جولیا نے تشویش ظاہر کی۔
“اوہو!۔۔۔ جی ہاں!۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا۔۔۔ کمال ہے! کیا آپ کو علم غیب ہے!“
“جی ہاں پچھلے سال لگی تھی!۔۔۔ بڑی پریشانی اٹھائی!۔۔۔ تین چار بار ایکسرے لیا گیا!۔۔۔ لیکن مختلف ڈاکٹر کسی ایک بات پر متفق نه ہو سکے!۔۔۔ آخر بڑی کاوشوں کے بعد معلوم ہوا که گھٹنے کی ہڈی اپنی جگه سے کھسک گئی ہے۔۔۔ اردو میں ایک مثل ہے مس جولیا که ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ!۔۔۔ مگر یه مثل غلط ثابت ہو گئی!۔۔۔ اب میں ماروں آنکھ پھوٹے گھٹنا کا قائل ہو گیا ہوں!۔۔۔“
“میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکی!“ جولیا بولی!
“یعنی آپ اس کا ایک بٹه چار بھی نہیں سمجھیں!۔۔۔ او معاف کیجئے گا میرا مطلب یه تھا که آپ کچھ بھی نہیں سمجھیں!“
“آپ ہر وقت ہندسوں سے کھیلتے رہتے ہیں!' جولیا مسکرائی!
“یه میری بدنصیبی ہے! مس۔۔۔ کیا نام ہے۔۔۔۔ جولیا۔۔۔ مس جولیا۔۔۔ میں اپنی عادت سے مجبور ہوں! مجھے ارتھمیٹک سے عشق ہے۔۔۔“
“لیکن مجھے ارتھمیٹک سے بڑی نفرت هے۔۔۔!“ جولیا نے کہا۔
“اپنا اپنا مقدر ہے۔۔۔ کم از کم آپ کی شادی تو ہو جائے گی!“
“کیوں شادی اور ارتھمیٹک سے کیا تعلق!“
“بہت گہرا تعلق ہے۔۔۔ مس جولیا!“ اکاوئنٹنٹ نے طویل سانس لی!
“میں نہیں سمجھ سکتی!“
“ہر ایک نہیں سمجھ سکتا! مس جولیا۔۔۔“
“آپ سمجھائیے بھی تو۔۔۔ میرے لئے یه بات بالکل نئی ہوگی اور میں اپنی معلومات میں اس اضافے کے لئے ہمیشه آپ کی احسان مند رہوں گی!“
“اچھا تو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ انگریزی میں بیوی کو نصف بہتر کہتے ہیں یعنی ایک بٹا دو بہتر۔۔۔! یہی بات میں نے اپنی ہونے والی بیوی کے باپ سے کہہ دی تھی! وه پته نہیں کیوں بگڑ گئے۔ میں نے کہا آپ اپنی بیوی کے نصف بدتر ہیں۔ یعنی ایک بٹا دو۔۔۔ غالباً آپ سمجھ گئی ہوں گی مس جولیا! یه شادی نه ہوسکی۔۔۔ اور شاید کبھی نه ہو سکے!“
اکاوئنٹنٹ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے!۔۔۔ جولیا کچھ نه بولی! اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا که وه ہمدردی کے کچھ الفاظ کہے یا بے تحاشه ہنسنے لگے!
ادھر اکاوئٹنٹ انگلیوں سے میز پر طبله بجانے لگا! لیکن آنسو بدستور بہتے رہے! ایسا معلوم ہو رہا تھا که جیسے اسے ان آنسوؤں کا علم ہی نه ہو!
 

قیصرانی

لائبریرین
طارق تیمور کے آفس میں داخل ہوا۔ تیمور وہاں تنہا ہی تھا! طارق کو بے دھڑک اندر گھستے دیکھ کر اس کے چہرے پر تفکر اور تردد کے آثار نظر آنے لگے!
“کیوں تم اجازت حاصل کئے بغیر یہاں کیوں آئے!“
تیمور اسے گھور کر بولا۔
“اوه معاف کیجئے گا! جناب!“ طارق نے مسکرا کر کہا۔ “میں سمجھا تھا شاید اب اس کی ضرورت باقی نه رہی ہوگی!“
“بیٹھ جاؤ!“ تیمور نے کرسی کی طرف اشاره کیا۔۔۔!
طارق بیٹھ گیا! تیمور چند لمحے اسے گھورتا رہا پھر بولا۔“'تم مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے سمجھے!“
“جی ہاں! میں سمجھ گیا! بلیک میل کرنا چھچھورے آدمیوں کا کام ہے۔۔۔ آپ نے غالباً ان لوگوں کا انجام سن لیا ہوگا، جو پچھلی شام میرا تعاقب کر رہے تھے!۔۔۔ بلیک میلر عموماً بزدل ہوتے ہیں!۔۔۔ دھمکی کا نام بلیک میلنگ ہے!۔۔۔ اور دھمکی وہی دیتا ہے جو کمزور ہو۔ میں کمزور نہیں ہوں مسٹر تیمور!۔۔۔ میں چھین کر کھانے کا عادی ہوں!۔۔۔“
“ابھی بچے ہو!۔۔۔ بچپن کے ہوائی قلعوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔!“
“تو آپ اس پر رضامند نہیں ہیں!“
“نہیں!۔۔۔“ تیمور میز کی دراز کھول کر اس میں کچھ تلاش کرتا ہوا بولا!“ اب فرم کو تمہاری خدمات درکار نہیں ہیں!۔۔۔ یه لو۔۔۔ یه رہا۔۔۔ نوٹس!“
طارق نے اس کاغذ کی طرف دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی، جو تیمور نے میز کی دراز سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔
“لیکن ایکس فائیو تھری نائین!' طارق آہسته سے بڑبڑایا۔ 'اس وقت میرے قبضے میں ہے!“
“تم جھوٹے ہو! تمہیں اس کی ہوا بھی نہیں لگی!“
“خام خیالی ہے مسٹر تیمور۔۔۔!“
“گٹ آؤٹ۔۔۔!“
“بہت خوب شکریه! لیکن میرا ساتھ تمام شکاری دیں گے! میری علیحدگی ان کی علیحدگی ہوگی۔۔۔ سمجھے آپ۔۔۔!ط
تیمور نے چپراسی کو بلانے کے لئے گھنٹی بجائی!
“میں جا رہا ہوں مسٹر تیمور اس کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔۔۔ لیکن آج شام تک آپ اپنے خسارے سے واقف ہو جائیں گے!“
طارق باہر نکل آیا۔۔۔
بعض کلرکوں نے اسے دیکھ کر سر ہلایا۔۔۔ اور وه ان سب کو چھیڑتا اور ان پر آوازے کستا ہوا آگے بڑھ گیا! پھر وه اس پارٹیشن کے سامنے رکا جہاں ٹائپسٹ گرل جولیا اور اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ بیٹھتے تھے!۔۔۔
“ہلو طارق۔۔۔!“ جولیا اسے دیکھ کر چہکاری!۔۔۔
“ہاو ڈی یو ڈو۔۔۔ جولی!“
“اوکے۔۔۔ اولڈ بوائے۔۔۔ کم ان۔۔۔ کم ان!“
طارق پارٹیشن میں داخل ہو کر دروازے کے قریب ہی ٹھٹک کر رک گیا۔
“آپ کی تعریف!“ اس نے نئے اکاؤنٹنٹ کی طرف اشاره کرکے پوچھا!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top