عمران سیریز نمبر 5 جہنم کی رقاصہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

موجو

لائبریرین

عمران سیریز

جاسوسی دنیا5

جہنم کی رقاصہ

مصنف

ابن صفی

76

۱

پھر وہی ہوا جس کی پیشگوئی عمران پہلے ہی کرچکا تھا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسےہی وہ ""بھیانک آدمی "" کیس ختم کر کے شاداب نگر سے واپس آیا اس کے باپ کے دفتر میں اس کی ""طلبی"" ہوگئی! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے باپ رحمان صاحب انیٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور ان کی مرضی کے خلاف ہوم سیکرٹری نے براہ راست عمران کا تقرر کردیا تھا۔ ورنہ وہ تو اسے نکما اور احمق سمجھتے تھے عمران اپنی تمام تر حماقتوں سمیت ان کے سامنے پیش ہوا۔

پہلے وہ اسے خونخوار نظروں سے گھورتے رہے پھر جھلا ئے ہوئے لہجے میں بولے۔ "" بیٹھ جاؤ ان کی میز کے سامنے تین خالی کرسیاں تھیں۔ عمران کچھ اس طرح بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے اس کی سمجھ میں ہی نہ آرہا ہو کہ اسے کس کرسی پر بیٹھنا چاہیئے۔

"" بیٹھو"" رحمان صاحب میز پر گھونسہ مار کر گرجے ۔۔۔۔۔ اور عمران ایک کرسی میں ڈھیر ہوکر ھانپنے لگا۔

"" تم بالکل گدھے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ""

"" جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ""

""شٹ اپ! ""

77

عمران نے کسی سعادت مند بچے کی طرح سر جھکا لیا !

"" تم نے شاداب نگر کے اسمگلر کو پکڑنے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا تھا۔""

"" وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک جاسوسی ناول میں پڑھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔""

"" جاسوسی ناول" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمان صاحب غرائے۔

"" جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلا سا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چہری کی ہوری او لل لاحول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیر ے کی چوری! ""

"" دیکھو ! میں بہت بری طرح پیش آؤں گا۔ تم محکمے کو بدنام کررہے ہو! شاداب نگر آفس سے تمہارے لئے کوئی اچھی رپورٹ نہیں آئی! یہ سرکاری محکمہ ہے! کوئی ایسی تھیٹریکل کمپنی نہیں جس میں جاسوسی ناول اسٹیج کئے جائیں اور وہ عورت کون ہے جو تمہارے ساتھ آئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!""

"" وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ روشی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں!""

"" اسے کیوں لائے ہو! ""

"" وہ میرے سیکشن کے لیے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی نا! ""

"" تائپسٹ کی ضرورت تھی! "" رحمان صاحب نے دانت پیش کر دہرایا۔

"" جی ہاں ۔۔۔۔۔ ! ""

رحمان صاحب نے ایک سادہ کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا "" لکھو۔ ""

عمران لکھنے لگا۔ میرے سیکشن کے لیے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی "" کیا لکھ رہے ہو۔ ""

عمران نے جتنا لکھا تھا سنا دیا۔

"" میں نے استعفی لکھنے کو کہا تھا! "" رحمان صاحب میز پر گھونسہ مار کر بولے!

عمران نے دوسرا کاغذ اٹھا یا اور اپنے چہرے پر کسی قسم کے آثار ظاہر کئے بغیر استعفی لکھ دیا!

"" مجھے خود شرم آتی تھی۔ ! "" عمران نے استعفی رحمان صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ "" اتنے بڑے آدمی کا لڑکا اور نوکری کرتا پھر لا حول ولا قوۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !

"" ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب تمہارے لیے کوٹھی میں کوئی جگہ نہیں! "" رحمان صاحب نے کہا !

"" میں گیراج میں سوجایا کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس کی فکر نہ کریں ! ""

"" نہیں اب تم پھاٹک میں بھی قدم نہیں رکھو گے! ""

"" بھاٹک! "" عمران کچھ سوچتا ہوا بڑبڑا نے لگا۔ "" چار دیواری تو کافی اونچی ہے۔ ""

وہ خاموش ہوگیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا۔ "" نہیں جناب! پھاٹک میں قدم رکھے بغیر تو کوٹھی میں داخل ہونا مشکل ہے! ""

"" گٹ آؤٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ""

78

عمران سرجھکائے ہوئے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔

۲

تین گھنٹے کے اندر ہی اندر پورے محکمے کو معلوم ہوگیا کہ عمران نے استعفی دے دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خبر پر سب سے زیادہ خوشی کیپٹن فیاض کو معلوم ہوئی! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عمران کا دوست ضرورت تھا۔ لیکن اسی حد تک جہاں خود اس کے مفاد کو ٹھیس نہ لگتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمران کے باقاعدہ ملازمت میں آجانے کے بعد سے اس کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا۔

ملازمت میں آجانے سے قبل عمران نےبعض کیسوں کے سلسلے میں اس کی جو مدد کی تھی اس کی بناء پر اس کی ساکھ بن گئی تھی! لیکن اس کے ملازمت میں آتے ہی عملی طور پر فیاض کی حیثیت صفر کے برابر بھی نہیں رہ گئی تھی۔

" عمران ڈئیر! " فیاض اس سے کہہ رہا تھا ! مجھے افسوس ہے کہ تمہارا ساتھ جھوٹ رہا ہے۔ "

" کسی دشمن نے اڑائی ہوگی! " عمران نے لا پرواہی سے کہا۔۔۔۔۔۔ پھر فیاض کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔ " نہیں دوست ! میں قبر میں بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا! فی الحال اپنے بنگلے کے دو کمرے میرے لئے خالی کردو! "

" کیا مطلب ! "

" والد کہتے ہیں کہ میں اب ان کی کوٹھی میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا! حالانکہ مجھے یقین ہے کہ میں رکھ سکتا ہوں! "

" اوہ ۔۔۔۔۔ اب میں سمجھا ! غالبا اس کی وجہ وہ عورت ہے ! " فیاض ہنسنے لگا!

" ہائیں وہ عورت ! " عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ " تم میرے باپ کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہو ۔۔۔ شٹ اپ یو فول ! "

" میرا مطلب یہ تھا ۔۔۔۔۔۔ ! "

" نہیں ! بالکل شٹ اپ ! ابھی سن پائیں تو تم سے بھی استعفی لکھوا لیں ! خبردار ہوشیار ۔۔۔۔۔۔ تم میری بات کا جواب دو ! کمرے خالی کررہے ہو ۔۔۔۔۔۔ یا نہیں! "

" یار بات دراصل یہ ہے کہ میری بیوی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ عورت بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گی! "

" اس کا نام روشی ہے! "

" خیر کچھ ہو ! ہاں تو میری بیوی کچھ اور سمجھے گی! "

79

" کیا سمجھے گی ! "

" یہی کہ وہ تمہاری داشتہ ہے! "

" ہائیں لا حول ولا قوۃ ۔۔۔۔۔ میں تمہاری بیوی کی بہت عزت کرتا ہوں! "

" میں اس عورت کے بارے میں کہہ رہا تھا ! " فیاض جھینپا بھی اور جھلا بھی گیا!

" او تو ایسے بولو نا! میں سمجھا شاید تمہاری بیوی مجھے اپنا داشتہ سمجھے گی !"

"یعنی کہ میرا مطلب یہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شاید ابھی کچھ غلط بول گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا خیر ۔۔۔۔۔۔ اگر تم بنگلے میں جگہ نہیں دینا چاہتے تو وہ فلیٹ ہی مجھے دے دو جسے تم پگڑی پر اٹھانے والے ہو۔ "

" کیسا فلیٹ ! " فیاض چونک کر اسے گھورنے لگا!

" چھوڑی یار! اب کیا مجھے یہ بتانا پڑے گا کہ تم نے چار پانچ فلیٹوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ ! "

" ذرا آہستہ بولو! گدھے کہیں کے ! " فیاض چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔

" فار من ہاؤزر والے فلیٹ کی کنجی میرے حوالے کرو ! سمجھے ! "

" خدا تمہیں غارت کرے ! " فیاض اسے گھونسہ دکھا تا ہوا دانت پیس کر بولا۔

۳

تین چار دن بعد شہر کے ایک سب سے زیادہ تعداد میں شائع ہونے والے اخبار میں لوگوں کی نظروں سے ایک عجیب و غریب اشتہار گزرا۔ جس کی سرخی یہ تھی! ۔۔۔ طلاق حاصل کرنے کے لئے ہم سے رجوع کیجیے۔

اشتہار کا مضمون تھا۔

" اگر آپ اپنے شوہر سے تنگ آگئی ہیں۔ تو طلاق کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔۔۔۔۔ لیکن عدالت سے طلاق حاصل کرنے کے لیے شوہر کے خلاف ٹھوس قسم کے ثبوت پیش کرنے پڑتے ہیں ! ہم مناسب معاوضے پر آپ کے لیے ایسے ثبوت مہیا کرسکتے ہیں جو طلاق کے لیے کافی ہوں ! صرف ایک بار ہم سے رجوع کر کے ہمیشہ کے لیے سچی خوشی حاسل کیجئے ! ہمارے ادارے کی مخصوص کارکن ایک اینگلو برمیز خاتون ہیں۔

المشتہر!۔ روشی اینڈ کو۔ فارمن بلڈنگ فلیٹ نمبر۴ ۔۔۔۔۔۔ ! "

کیپٹن فیاض نے یہ اشتہار پڑھا اور اس کا منہ حیرت سے کھل گیا ! فارمن بلڈنگ کا چوتھا فلیٹ وہی تھا جس کی کنجی عمران اس سے لے گیا تھا! ۔۔۔۔۔۔ روشی اینڈ کو !

80

فیاض اپنی یادداشت پر زور دینے لگا! روشی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسی عورت کا نام ہے جسے عمران شاداب نگر سے لا یا ہے۔

فیاض اپنی ٹھوڑی کھجا نے لگا! ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک بالکل ہی نئی حرکت تھی ۔۔۔۔۔۔ اس سے شہر میں انتشار کی لہر دوڑ سکتی تھی! لیکن اسے غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا تھا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا روشی اینڈ کمپنی اس کے محکمے کے لئے ایک مستقل درد سر بننے والی تھی! ۔۔۔۔۔۔۔

فیاض نے ہاتھ پیر پھیلا کر ایک طویل انگڑائی لی اور سگریٹ سلگا کر دوبارہ اشتہار پڑھنے لگا۔ اس نے روشی کے متعلق صرف سنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے دیکھا نہیں تھا!

وہ تھوڑی دیر بیٹھا سگریٹ پیتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اٹھ کر آفس سے باہر آیا موٹر سائیکل سنبھالی اور فارمن بلڈنگ کی طرف روانہ ہوگیا !

فارمن بلڈنگ ایک تین منزلہ عمارت تھی اور اس کے فلیٹوں میں زیادہ تر تجارتی فرموں کے دفاتر تھے۔

کیپٹن فیاض چوتھے فلیٹ کے سامنے رک گیا! جس پر " روشی اینڈ کو" ۔۔۔ کا بورڈ لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فیاض نے بورڈ کی پوری تحریر پڑھی۔

" روشی اینڈ کو ۔۔۔۔۔۔۔ فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ ایجنٹس۔ "

فیاض نے برا سامنہ بنا کر اپنے شانوں کو جنبش دی اور چق ہٹا کر اندر داخل ہوگیا۔

کمرے میں روشی اور عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا فیاض کو دیکھ کر عمران نے کرسی کی طرف اشارہ کیا ! وہ روشی کو کچھ لکھوا رہا تھا! ۔۔ " میں ڈاکٹر واٹسن ۔۔۔۔۔۔ " اس نے ڈکٹیشن جاری رکھا اور روشی کی پنسل بڑی تیزی سے کاغذ پر چلتی رہی!

آدمی کو زندگی میں بعض ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جو زندگی کے آخری لمحات میں بھی ضرور یاد آتے ہیں!

" میں ڈاکٹر واٹسن ۔۔۔۔۔۔ مرتے وقت ایک بار یہ ضرور سوچوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ سوچوں ۔۔۔۔۔۔ سوچوں ۔۔۔۔۔۔ سوچو! "

عمران " سوچوں ۔۔۔۔۔۔ سوچوں " کی گردان کرتا ہوا کچھ سوچنے لگا! ۔۔۔۔۔۔ روشی کی پنسل رک گئی ۔۔۔۔۔۔ وہ پنسل رکھ کر فیاض کی طرف مڑی !

" فرمائیے ؟ " اس نے فیاض سے کہا۔

" فرمائیں گے ! " عمران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ " ذرا دیکھنا رجسٹر میں ہماری کسی موکلہ کا

81

کا نام مسز فیاض تو نہیں ہے !"

" موکلہ ! " روشی نے حیرت کا اظہار کیا۔

" اوو ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈکٹیشن ! " عمران نے پھر اسے لکھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ !

" پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! " فیاض ہاتھ اٹھاکر بولا! " ڈکٹیشن پھر ہوتا رہے گا!"

" کیا بات ہے سوپر فیاض! " عمران نے حیرت سے کہا۔ " کیا تم اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتے ہو! "

" تمہاری فرم کے اشتہار میں میرا محکمہ کافی دلچسپی لے رہا ہے! "

" ویری گڈ !" عمران سر ہلا کر بولا۔ " تب تو میں اسی سال انکم ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہو جاؤں گا! "

" بکواس مت کرو! "

" سوپر فیاض! میں تمہارا مشکور رہوں گا اگر تم اپنے محکمے کے شادی شدہ افراد کی فہرست مجھے عنایت کردو!"

" مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈیڈی کا نام اس میں نہ ہونا چاہیے۔ "

" آخر اس حرکت کا مطلب کیا ہے!"

" کیسی حرکت!"

" یہی اشتہار!۔۔۔۔۔"

"اشتہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اشتہار کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "

" یہ کیا لغویت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نے یہاں فارورڈنگ اور کلیرنگ کا بورڈ لگا رکھا۔"

" یہ شادی اور طلاق کا انگریزی ترجمہ ہے! "

" لیکن تم یہ گندا بزنس نہیں کرسکتے! "

" روشی ۔۔۔۔۔۔۔ تم دوسرے کمرے میں جاؤ! " عمران نے روشی سے کہا۔

روشی وہاں سے اٹھ گئی! ۔۔۔۔۔۔۔

" عورت تو زور دار ہے! " فیاض اپنی ایک آنکھ دباکر بولا۔

" یہی جملہ تمہاری بیوی تمہارے خلاف عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کر کے طلاق حاصل کرسکتی ہے! "

" بکواس مت کرو!تم بڑی مصیبتوں میں پھنس جاؤ گے! " فیاض نے کہا۔

" کیوں مائی ڈئیر!۔۔۔ سوپر فیاض؟ "

" بس یونہی ! اسے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا! "

82

" حرکت غیر قانونی تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"

" غیر قانونی ۔۔۔۔۔۔۔۔! فیاض کچھ سوچنے لگا! پھر جھلا کر بولا۔ " دیکھو عمران تم محکمے کے لئے درد سر بننے والے ہو!"

" باس ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی سی بات۔۔۔۔۔۔۔!"

عمران کچھ اور کہنے والا تھا کہ ادھیڑ عمرا کی وجیہ عورت کمرے میں داخل ہوئی! اس نے دروازہ پر ہی رک کر کمرے کا جائزہ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بولی!

" اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔ مس روشی اندر تشریف رکھتی ہیں! " عمران نے کھڑے ہوکر دوسرے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

عورت بلا توقف کمرے میں چلی گئی!

فیاض جو عورت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ میز پر کہنیاں ٹیک کر آگے جھکتا ہوا آہستہ سے بولا ۔

" یہ تم کیا کررہے ہو عمران! "

بزنس مائی ڈئیر ۔۔۔۔۔ سوپر فیاض! " عمران نے لا پروائی سے جواب دیا۔

" اس عورت کو پہچانتے ہو! " فیاض نے پوچھا!

" میں شہر کی ساری بوڑھی عورتوں کو پہچانتا ہوں!"

کون ہے؟ "

" ایک بوڑھی عورت۔ " عمران نے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا۔ !

" بکومت یہ لیڈی تنویر ہے۔ !"

" تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے!"

فیاض تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ " آخر یہاں کیوں آئی ہے!"

" نو سر! " عمران سر ہلا کر بولا ۔ " ہرگز نہیں فیاض صاحب! آپ کو ایسی بات سوچنے کا کوئی حق نہیں! ۔۔۔۔ یہ میرا اور میرے موکلوں کا معاملہ ہے!"

" سر تنویر کی شخصیت سے شائد تم واقف نہیں ہو! اگر مصیبت میں پھنسے تو رحمان صاحب بھی تمہیں نہ بچا سکیں گے!"

" میں اپنے آفس میں صرف بزنس کی باتیں کرتا ہوں!" عمران براسا منہ بنا کر بولا۔ " اگر میرےموکل بننا چاہتے ہو تو شوق سے یہاں بیٹھو ورنہ ۔۔۔۔ بائے ! کیا سمجھے۔ ابھی میں کوئی چپراسی نہیں رکھا ہے اس لیے مجھے خود ہی تکلیف کرنی پڑے گی!"

83

فیاض اسے غصیلی آنکھوں سے گھورنے لگا! پھر تھوڑی دیر بعد بولا۔

" سنو! یہ رہائشی فلی ٹہے اور رہائش ہی کے لیے اس کا الاٹمنٹ ہوا تھا! تم اس میں کسی قسم کا دفتر نہیں قائم کرسکتے۔ سمجھے!"

" یار کیوں خواہ مخواہ گرم ہوتے ہو! جب بیوی کو طلاق دینا ہو تو سیدھے یہیں چلے آنا تم سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی! "

" اچھا میں تمہیں دیکھوں گا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو اگر ایک ہفتے کے اندر اندر تم نے یہاں سے دفتر کا بورڈ نہ ہٹوا یا تو خود بھگتو گے!"

" بھگت لوں گا! اب تم جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بزنس کا وقت ہے اور میری پارٹنر تم سے کبھی بے تکلف نہیں ہوگی اس لئے روزانہ ادھر کے چکر کاٹنا ، اگر ڈاکٹر نسخے میں نہ لکھے تو بہتر ہے! "

عمران نے میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی اور پھر گڑ بڑا کر بولا۔ " لا حول ولا قوۃ ! چپراسی تو ابھی رکھا ہی نہیں ہے۔ پھر میں گھنٹی کیوں بجا رہا ہوں! یار فیاض ذرا لپک کر دو آنے کے بھنے ہوئے چنے تو لا نا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لنچ کا وقت آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور دو پیسے کی ہری مرچیں ! پودینہ مفت مل جائے گا! بس میرا نام لے لینا میں جاتا تو ایک ٹماٹر بھی پار کر لاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر کوشش کرنا۔۔۔۔۔۔! "

" تمہیں پچھتانا پڑے گا۔"

" میں نے ابھی شادی تو نہیں کی! "

" اچھا! " فیاض بھنا کر کھڑا ہوگیا ! چند لمحے عمران کو گھورتا رہا پھر کمرے سے نکل گیا!

عمران کے ہونٹو پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی!

تھوڑی دیر بعد روشی اور لیڈی تنویر باہر آ گئیں۔

روشی اس سے کہہ رہی تھی۔ " آ پ مطمئن رہیں۔ آپ کو حالات سے باخبر رکھا جائے گا۔!

اور یہاں ساری باتیں راز رہیں گی۔۔۔ ! "

" شکریہ! " لیڈی تنویر نے کہا اور پروقار انداز میں چلتی ہوئی باہر چلی گئی!

روشی چند لمحے کھڑی مسکراتی رہی۔ پھر اس نے سو سو کے بیس نوٹ بلاؤز کے گریبان سے نکال کر عمران کے آگے ڈال دئیے!

" ہائیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہائیں! " عمران نے الوؤں کی طرح آنکھیں پھاڑدیں!

" میں ہمیشہ پکا سودا کرتی ہوں!" روشی اکڑ کر بولی!

" یعنی ! ۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا پئیو گی۔۔۔۔۔۔۔!"

" یہ کون تھا جو ابھی آیا تھا ۔۔!"

84

" فکر نہ کرو ایسے درجنوں آتے جاتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ کیا چاہتی ہے! "

" تم کیا سمجھتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اپنے شوہر سے طلاق چاہتی ہوگی ۔۔۔۔۔۔!

" میں تو یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنی بات بتاؤ! "

" وہ ایک آدمی کے متعلق معلومات فراہم کرنا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دوہزار پیشگی دئیے ہیں اور بقیہ تین ہزار مکمل معلومات حاصل کر لینے کے بعد! "

" آہا ۔۔۔۔۔۔۔ پانچ ہزار ۔۔۔۔۔۔۔ روشی ! تم نے غلطی کی! مجھ سے مشورہ لئے بغیر تمہیں روپے ہرگز نہیں لینے تھے ۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے اسے رسید دی ہے!"

" نہیں کچھ نہیں! اس نے رسید طلب ہی نہیں کی! "

" تفصیل ۔۔۔۔۔۔۔۔ روشی! تفصیل!"

" میرا خیال ہے کہ معاملہ بالکل سیدھا سادہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔" روشی بیٹھتی ہوئی بولی!" وہ اسی شہر کے ایک آدمی کی مصروفیات کے متعلق معلوم کرنا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان معلومات کو طلاق کے لئے استعمال نہیں کرے گی! "

" وہ آدمی کون ہے! ۔۔۔۔۔۔۔"

: تفصیل میں نے لکھ لی ہے! " اس نے کاغذ کا ایک ٹکڑا عمران کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا!

عمران نے کاغذ لے کر تحریر پر نظریں جما دیں۔

" ہام ۔ " تھوڑی دیر بعد اس نے ایک طویل انگڑا ئی لی ۔۔۔۔۔۔۔ اور آنکھیں بند کر کے اس طرح آگے کی طرف ہاتھ بڑھا یا جیسے فون کا ریسیور اٹھا نے کا ارادہ ہو! لیکن پھر چونک کر روشی کی طرف دیکھنے لگا!

" فون تو لینا ہی پڑے گا! اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا! "

" فون گیا جہنم میں ۔۔۔۔ میںیہاں تنہا سوتی ہوں مجھے خوف معلوم ہوتا ہے !تم رات کو کہاں رہتے ہو ۔۔۔۔۔ پہلے اس کا جواب دو! "

"روشی یہ مت پوچھو ۔۔۔۔۔۔۔ ہم صرف پارٹنر ہیں! ہاں ۔۔۔۔ " عمران نے سو سو کے دس نوٹ الگ کئے اور انہیں روشی کی طرف کھسکاتا ہوا بولا۔ " اپنا حصہ رکھو! ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ بقیہ تین ہزار ملنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔۔۔۔۔! "

" کیوں؟"

" تم نے مجھ سے مشورہ کئے بغیر کیس لے لیا۔! خیر ابھی نئی ہو ! پھر دیکھیں گے!"

" کیوں کیس میں کیا خرابی ہے!"

85

" وہ اس کے متعلق معلومات کیوں فراہم کرنا چاہتی ہے!"

" یہ اس نے نہیں بتایا!"

" کچا کام ہے پارٹنر ! " عمران سر ہلا کر بولا۔ " خیر میں دیکھوں گا!"

" کیا دیکھو گے!"

" یہ ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ہاں دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ عورت یہاں کی مشہور اور ذی حیثیت شخصیتوں میں سے ہے ۔۔۔۔ ! "

" لیڈی تنویر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! "

" لیڈی ۔۔۔۔۔! " روشی نے حیرت سے کہا۔ !

" ہاں لیڈی! تمہیں حیرت کیوں ہے!"

" اس نے مجھے اپنا نام مسز رفعت بتا یا تھا! "

" یہی میں کہہ رہا تھا کہ کچھ گھپلا ضرور ہے ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔! وہ اپنی اصلیت بھی چھپانا چاہتی ہے اور ایک ایسے آدمی کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے جو اس کے طبقےکا نہیں ہوسکتا! "

کیوں تم نے طبقے کا اندازہ کیسے کرلیا!"

" اس کا پتہ! " عمران سر ہلا کر رہ گیا!

" پوری بات بتاؤ!" روشی جھنجھلا گئی!

" وہ ایک ایسی بستی ہے، جہاں عام طور پر مزدور بستے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور جو تم یہ نمبر دیکھ رہی ہو، کسی عالیشان عمارت کا نمبر نہیں ہے۔ بلکہ ایک معمولی سی کوٹھی کا نمبر ہے جس میں بمشکل تمام ایک بڑا پلنگ سما سکے گا۔! "

" اوہ ! تب تو ۔۔۔۔۔۔! "

" تم مجھ سے بھی زیادہ احمق ہو روشی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر خیر! پرواہ نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اس پیشے میںبالکل نئی ہو! "

" نہیں عمران ڈئیر ۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس میں خطرہ ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس کے روپے واپس کردیں! "

" گھاس کھا گئی ہو شاید ! روپے واپس کرو گی! بھوکی مرنے کا ارادہ ہے کیا!"

" بینک میں میرے پانچ ہزار روپے ہیں!" روشی بولی۔

" انہیں میرے کفن دفن کے لئے پڑا رہنے دو! " عمران نے ٹھنڈی سانس لی!

" تم نے استعفی کیوں دیا! واقعی تم الو ہو! "

" کیا تم پھر اپنی پچھلی زندگی کی طرف واپس جانا چاہتی ہو!"

" ہرگز نہیں! یہ خیال کیسے پیدا ہوا۔" روشی اسے گھورنےلگی۔

86

" کچھ نہیں! اچھا میں چلا! " عمران اٹھتا ہوا بولا۔

" کہاں چلے! "

" اس کے لئے معلومات فراہم کروں گا اور ہاں اگر یہاں کوئی پولیس والا آکر ہماری فرم کے متعلق پوچھ گچھ کرے تو اسے میرا کارڈ دے کر کہنا کہ فرم کا ڈائریکٹر یہی ہے۔ مجھے توقع ہے کہ وہ چپ چاپ واپس چلا جائے گا۔"

4

عمران شاہی باغ کے علا قے میں پہنچ کر ایک جگہ رک گیا، وہ یہاں تک اپنی تو سیٹر پر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر کے وہ آگے بڑھ گیا! مزدوروں کی وہ بستی یہاں سے زیادہ دور نہیں تھی جہاں اسے پہنچنا تھا! اس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا اور حلئے سے کوئی ڈاکٹر معلوم ہوتا تھا! وہ کمروں کی ایک قطار کے سرے پر رک گیا۔ جس آدمی کے متعلق اسے معلومات فراہم کرنی تھیں وہ اسی قطار کے ایک کمرے میں رہتا تھا۔

عمران نے کھلے ہوئے کمروں کے دروازوں پر دستک دینی شروع کی لیکن قریب قریب ہر جگہ سے اسے یہی جواب ملا کہ ٹیکے لگ چکے ہیں اس نے دو ایک آدمیوں کے بازو بھی کھلوا کر دیکھے۔ پھر آخر کار دو اس کمرے کے سامنے پہنچا جس میں وہ آدمی رہتا تھا دروازہ اندر سے بند تھا!

عمران نے دست دی لیکن جواب ندارد! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ برابر دستک دیتا رہا ۔۔۔۔۔!

" چلے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے لئے! " تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز آئی ۔ " کیوں پریشان کرتے ہو مجھے۔ میں کسی سے نہیں ملنا چاہتا!"

" میں ڈاکٹر ہوں!" عمران نے کہا۔ " کیا آپ ٹیکہ نہیں لگوائیں گے! یہ بہت ضروری ہے! ہر ایک کے لئے لازمی۔۔۔۔!"

" میں اس کی ضرورت نہیں محسوس کرتا ۔۔۔۔۔ آپ جا سکتے ہیں!"

" اگر آپ کو اس شہر میں رہنا ہے تو آپ ٹیکے کے بغیر نہیں رہ سکتے! کیا آپ نہیں جانتے کہ اس موسم میں ہمیشہ طاعون پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔!"

اندر سے پھر کوئی جواب نہیں ملا۔

باہر کئی آدمی اکٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک بولا۔ " وہ باہر نہیں آئے گا!"

" کیوں!" عمران نے حیرت کا اظہار کیا۔

" وہ کسی سے نہیں ملتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے لوگ کاروں پر بیٹھ کر آیا کرتے ہیں! لیکن وہ انہیں ٹکا سا جواب دے دیتا ہے!"

" یہ بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس کے متعلق ذرا تفصیل سے بتائیے! میں دیکھوں گا کہ وہ کیسے ٹیکہ نہیں لگواتا۔"

عمران اس کمرے کے سامنے سے ہٹ آیا وہ لوگ جو اپنے پڑوسی کے متعلق ڈاکٹر کو کچھ بتانا چاہتے تھے بدستور اس کے ساتھ لگے رہے، ایک جگہ عمران رک کر بولا۔ " اس کا نام کیا ہے!"

" نام تو شاید کسی کو بھی نہ معلوم ہوا!"

" وہ کرتا کیا ہے۔ "

" یہ بھی نہیں بتایا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ماہ قبل یہ کمرہ کرائے کے لئے خالی تھا وہ آیا یہاں مقیم ہوا۔ دو تین دن تک تو اس کی شکل دکھا ئی دی، اس کے بعد سے وہ کمرے میں بند رہنے لگا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی نہیں جانتا کہ اس کا ذریعہ معاش کیا ہے!"

" آپ میں سے کسی نے کبھی اسے دیکھا بھی ہے!"

قریب قریب سبھی نے دیکھا ہوگا! مگر انہیں ایام میں جب اسے یہاں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا! شروع میں وہ پڑوسیوں سے بھی ملا کرتا تھا۔ لیکن پھر اچانک اس نے خود کو اس کمرے میں مقید کرلیا!"

"بظاہر کیسا آدمی معلوم ہوتا ہے۔" عمران پوچھا!

" بظاہر " مخاطب کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔ " بظاہر وہ انتہائی شریف معلوم ہوتا ہے!"

" حیثیت۔"

" حیثیت وہی! جو اس بستی کے دوسرے آدمیوں کی ہے!"

" لیکن ابھی کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ اس سے ملنے کے لیے بہت بڑے بڑے لوگ آتے ہیں!"

" اسی پر تو حیرت ہے! اس کی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ وہ کار رکھنے والوں سے اس حد تک مراسم رکھ سکے! ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔!"

" لیکن کیا؟" عمران مخاطب کو گھورنے لگا!

" کچھ نہیں! یہی کہ وہ ان لوگوں سے بھی ملنا نہیں پسند کرتا! اوہ ذرا دیکھئے ! وہ ایک کار ادھر ہی آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ دیکھئے گا تماشہ! وہ لوگ کتنے ملتجیانہ انداز میں اس سے باہر نکلنے کو کہتے ہیں۔"

سچ مچ سامنے سے ایک کار آرہی تھی! حالانکہ یہ گلی ایسی نہیں تھی کہ یہاں کوئی اپنی کار

88

لانے کی ہمت کرتا۔ مگر وہ کار کسی نہ کسی طرح گلی میں گھس ہی پڑی تھی۔

اسٹیرنگ کے پیچھے ایک خوش پوش اور پر وقار آدمی بیٹھا نظر آرہا تھا! کار ٹھیک اس کمرے کے سامنے رک گئی! وہ آدمی کار سے اتر کر دروازے پر دستک دینے لگا! فاصلہ زیادہ ہونے کی بنا پر عمران کمرے کے اندر سے آنے والی آواز نہ سن سکا۔ لیکن وہ دستک دینے والے کو بہ آسانای دیکھ سکتا تھا اس کی آواز بھی سن سکتا تھا! حقیقتا اس کا انداز ملتجیانہ تھا!

عمران خاموشی سے اسے دیکھتا رہا! پھر اس نے اسے دروازے کے پاس سے ہٹتے دیکھا ! وہ اپنی کار کی طرف واپس جارہا تھا!۔۔۔۔۔۔۔

" میں اس کے بھی ٹیکہ لگاؤں گا!" عمران بڑبڑایا اور پاس کھڑے ہوئے لوگ منہ بند کر کے ہنسنے لگے!۔۔۔۔۔۔۔

عمران انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا! وہ گلیوں میں گھستا ہوا پھر سڑک پر آگیا! ۔۔۔۔۔ اور ٹیھیک اس گلی کے سرے پر جاکھڑا ہوا جس سے اس آدمی کی کار برآمد ہونے کی توقع تھی! جیسے ہی کار گلی سے نکلی عمران راستہ روک کر کھڑا ہوگیا!

" کیا بات ہے " کار والے نے تحیر زدہ لہجے میں پوچھا!

" کیا آپ طاعون کا ٹیکہ لے چکے ہیں!"

" نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟"

" تب تو میں ٹیکہ لگائے بغیر آپ کو یہاں سے نہ جانے دوں گا! اس بستی میں دو ایک کیس ہوچکے ہیں!"

" آپ کون ہیں؟" کار والا اسے گھورتا ہوا بولا!

" میڈیکل آفیسر آن آؤٹ ڈور ڈیوٹیز!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ " ہمیں سب کو یہ ٹیکہ لگا نے کا حکم ملا ہے۔ انکار کرنے والے پولیس کے حوالے بھی کئے جاسکتے ہیں!"

کار والا ہنسنے لگا! ۔۔۔۔۔۔۔

" جانے دیجئے!" اس نے اسٹئیرنگ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا!

" میں زبردستی لگاؤں گا اگر آپ تعرض کریں گے تو میں آپ کی کار میں ہی بیٹھ کر کوتوالی تک چلوں گا!"

" چلو" اس نے لاپرواہی سے کہا پھر اپنے جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔ " تم میرا کارڈ لے کر بھی کوتوالی جاسکتے ہو! میں وہاں براہ راست طلب کر لیا جاؤں گا!"

عمران نے اس کا تعارفی کارڈ لے کر پڑھا۔ جس پر " سر تنویر " لکھا ہوا تھا!

89

" سر تنویر!" عمران آہستہ سے بڑ بڑایا!

" جناب ۔۔۔۔۔۔۔ آپ میرے خلاف ایک شکایت نامہ تحریر کر کے اس کارڈ کے ساتھ جسے چاہیں بھیج سکتے ہیں! اب اجاز دیجئیے! "

کار فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکل گئی! ۔۔۔۔۔ عمران بائیں ہاتھ سے اپنی پیشانی رگڑ رہا تھا! ۔۔۔۔۔۔۔

تو یہ سر تنویر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بیوی نے اسی پر اسرار آدمی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کےلئے دو ہزار نقد دئیے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور مزید تین ہزار کا وعدہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ معاملہ الجھ گیا ۔۔۔۔! عمران کافی دیر تک وہیں کھڑا خیالات میں کھویا رہا ۔۔۔۔

۵

تھوڑی دیر بعد وہ ایک پبلک ٹیلی فون بوتھ میں سر تنویر کے فون نمبر ڈائیل کررہا تھا! ۔۔۔۔۔۔۔

" ہیلو! ۔۔۔۔ کون ہے ۔۔۔۔۔ کیا لیڈی صاحبہ تشریف رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اورہ ۔۔۔۔۔ اچھا آپ ذرا انہیں مطلع کردیں ۔۔۔۔۔ شکریہ! ۔۔۔"

عمران چند لمحے خاموش رہا پھر بولا " ہیلو! ۔۔۔۔۔ لیڈی تنویر ۔۔۔۔۔! دیکھئے میں روشی اینڈ کمپنی کا ایک نمائندہ ہوں! ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ آدھے گھنٹے بعد ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں مل سکیں گے ۔ یہ بہت ضروری ہے! ۔۔۔۔۔ جی ہاں! بہت ضروری ۔۔۔۔ آپ کو ایک اہم اطلاع دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی معاملہ ہے ملیں گی ۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ!"

عمران ریسیور ہک میں لگا کر بوتھ سے نکل آیا!

اب اس کی ٹو سیٹر ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کی طرف جارہی تھی! سورج غریب ہچکا تھا اور آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلتا جارہا تھا!

نائٹ کلب میں عمران کو زیادہ دیر تک لیڈی تنویر کا انتظار نہیں کرانا پڑا دونوں ایک ایسے گوشے میں جا بیٹھے جہاں وہ آسانی سے ہر قسم کی گفتگو کر سکتے تھے!

" کیا بات ہے! " لیڈی تنویر بولی۔ " میرا خیال ہے کہ میں پہلے بھی کہیں آپ کو دیکھ چکی ہوں!"

" میرے آفس میں ہی دیکھا ہوگا! ۔۔۔۔۔ میں روشی کی فرم کا جو نئیر پارٹنر ہوں!"

" اوہو ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں نے وہیں دیکھا تھا!" لیڈی تنویر نے سر ہلا کر کہا۔ " اہم اطلاع کیا ہے!"

" مسٹر تنویر بھی اس آدمی میں دلچسپی لے رہے ہیں! " عمران نے بے ساختہ کہا اور لیڈی

90

تنویر کے چہرے پر نظر جمادی۔

" نہیں!" لیڈی بری طرح چونک پڑی!

" جی ہاں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ "

لیڈی تنویر کا چہرہ یک بیک تاریک ہوگیا! وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی!

" تم کس طرح کہہ سکتے ہو!"

" میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے اس آدمی کے دروازے پر دستک دیتے دیکھا ہے!"

" کیا وہ سر تنویر سے ملا تھا!"

" نہیں! وہ کسی سے نہیں ملتا! ۔۔۔۔۔ اس کا کمرہ ہر وقت بند رہتا ہے میرا خیال ہے کہ ابھی تک ان دونوں کی ملا قات نہیں ہوئی ! پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ اس کے دروازے پر کاریں آتی ہیں خوش پوش آدمی اس سے ملنا چاہتے ہیں! لیکن وہ کسی سے بھی نہیں ملتا! "

لیڈی تنویر کچھ دیر تک خاموش رہی پھر آہستہ سے بولی۔ " اگر سر تنویر بھی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں تو اسے یہاں سے چلا جانا چاہئے!"

" لیکن آپ نے میرے دفتر میں اپنا نام اور پتہ غلط کیوں لکھوایا ہے!" عمران نے پوچھا۔

" اوہ ۔۔۔۔ میں نے غلطی کی تھی ۔۔۔۔میری مدد کرو! میری نیت میں فتور کوئی نہیں تھا! محض رازداری کے خیال سے میں نے ایسا کیا تھا! ورنہ تمہارے فون پر یہاں دوڑی نہ آتی! صاف کہہ دیتی ہوں کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں کسی روشی اینڈ کمپنی سے واقف نہیں!"

" لیکن وہ ہے کون؟"

" یہ نہیں بتا سکتی! ۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے میں یہ چاہتی تھی کہ اس کے یہاں آنے کا مقصد معلوم کروں! مگر اب یہ چاہتی ہوں کہ وہ اس شہر ہی سے چلا جائے ۔۔۔۔۔ کیا تم میری مدد کرسکو گے! ۔۔۔ بولو ۔۔۔۔ معاوضہ دس ہزار ۔۔۔۔ اور تمہیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ سر تنویر کی رسائی اس تک کیسے ہوئی!"

" دیکھئے محترمہ ۔۔۔۔۔۔۔ معاملہ بڑا ٹیڑھا ہے ۔۔۔۔۔"

" کیوں ٹیڑھا کیوں ہے! " لیڈی تنویر اسے گھورنے لگی وہ اپنی حالت پر قابو پاچکی تھی!

" آپ اس آدمی میں دلچسپی کیوں لے رہی ہیں جب کہ وہ آپ کے طبقے کا بھی نہیں!

" دس ہزار کی پیش کش تمہاری شکل دیکھنے کے لیے نہیں ہے!" لیڈی تنویر نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔

" میں کبھی اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا ہوا۔ " عمران مسکرا کر بولا!

" دس ہزار صرف اس لئے ہیں کہ تم کسی بات کی وجہ پوچھنے کی بجائے کام کروگے!"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top