عمران خان کا شدت پسند طالبان سے اپنے طور پر بات چیت کرنے پر غیر آمادگی کا اظہار

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شدت پسند طالبان سے اپنے طور پر بات چیت کرنے پر غیر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس بات چیت کا اختیار نہیں ہے۔
عمران خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کل جماعتی کانفرنس بلا کر طالبان سے بات چیت میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں آگاہ کرے۔
عمران خان نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان سے بات چیت نہیں کر سکتے کیونکہ نہ ہی ان کی جماعت وفاقی حکومت میں شامل ہے اور نہ ہی ان کے پاس خود کوئی اتھارٹی ہے۔
عمران خان شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت شروع کرنے کے حامی ہیں اور بات چیت میں تاخیر پر متعدد بار حکومت پر تنقید کر چکے ہیں۔
ان کی جماعت نے امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد خیبر پختونخوا سے نیٹو رسد بھی بند کر رکھی ہے۔
اس سے پہلے بدھ کو وزیراعظم نواز شریف نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں مدد کے لیے عمران خان، جماعت اسلامی کے سید منور حسن، جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے سربرہان مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق سے رابطہ کریں گے۔
نواز شریف نے یہ انٹرویو سوات کے دورے کے دوران اور وہاں فوجی چھاؤنی کے قیام کے اعلان کے موقع پر دیا ہے۔ سوات میں تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ ملا فضل اللہ کے دور میں امن و امان کی صورتحال ابتر اور حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی اور اس دوران سینکڑوں عام شہری مارے گئے تھے۔
سوات میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی میں درجنوں سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے اور لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔ اسی آپریشن کے دوران ملا فضل اللہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور اب تحریک طالبان کے سربراہ بن گئے ہیں۔ ملا فضل اللہ حکومت پاکستان سے بات چیت کرنے کے مخالف ہیں۔
جمعے کو نواز شریف کے بیان پر عمران خان نے مزید کہا کہ’ہمارے پاس کون سے اختیارات ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں بات چیت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔‘
عمران خان نے اس کے ساتھ طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں تاخیر پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’گذشتہ سال ستمبر میں منعقدہ کل جماعتی کانفرس میں وفاقی حکومت کو طالبان سے بات چیت کا مینڈیٹ دیا گیا تھا لیکن چار ماہ گزرنے کے باوجود بات چیت شروع نہیں ہو سکی۔حکومت دوبارہ کل جماعتی کانفرس طلب کرے اور اس میں وضاحت کرے کہ بات چیت شروع کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی اور اس میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔‘
مذاکرات کا عمل جاری ہے
عمران خان نے امریکی ڈرون حملوں پر وزیراعظم کےنرم رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کل جماعتی کانفرس میں کہا گیا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے دوران ڈرون حملے نہیں ہوں گے اور وزیر داخلہ چوہدری نثار خود اعتراف کر چکے ہیں کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان سے بات چیت کا عمل متاثر ہوا۔
گذشتہ روز ہی وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں وزیر داخلہ نے وزیراعظم کو طالبان کے ساتھ بات چیت میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آگا کیا۔
وزیر داخلہ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ کل جماعتی کانفرنس میں طالبان سے بات چیت شروع کرنے کے فیصلے کی روشنی میں پوری حکومتی ٹیم کام کر رہی ہے تاہم انھوں نے اس ٹیم کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق گذشتہ روز جمعرات کو ہی چوہدری نثار علی خان نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک بیان میں کہا کہ ڈرون حملے سے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل میں خلل پڑا لیکن اب دوبارہ مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140117_imran_refuse_hold_taliban_tallks_zz.shtml
 
شائد عمران خان نے پریس کانفرنس کرنے میں جلدی کر دی۔ انہیں حکومتی رابطے کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ وہ حکومتی رابطے پر حکومت سے بات کرتے کہ بات چیت کرنے کے لئے انکے پاس کیا اختیارات ہونگے؟
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ

الحمدللہ،،، کل میں نے براہ راست ٹی وی پر نشر ہونے والا پریس کانفرنس دیکھا،
ویسے بھی پاکستان میں اچھی سیاست نہیں ہوتی لیکن مجھے عمران خان کی باتیں
اچھی محسوس ہوتی ہیں۔
جہاں ہم لوگوں نے اتنے سارے غدار پال رکھے ہیں انکے خلاف اٹھ کھڑے
ہونے والا شیر عمران خان کو بھی آزمانا چاہیے۔
اللہ رب العالمین بہتر کرینگے پاکستان کا مقدر اگر ہم بھی چاہے گے تو۔
 
Top