عمران خان کا انڈر گراؤنڈ انٹرویو

نبیل

تکنیکی معاون
چند روز قبل جیو ٹی وی پر عمران خان کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ حامر میر نے کسی نامعلوم مقام پر کیا تھا جہاں عمران خان روپوش ہے۔ عمران خان نے اپنی روپوشی کی دلچسپ داستان سنائی۔ جب پولیس والے عمران خان کے گھر میں داخل ہوئے تو عمران خان نے انہیں پہلے گرفتاری کا وارنٹ‌ لانے کے لیے کہا۔ اتفاق سے اس وقت جیو والے بھی کوریج کے لیے موجود تھے۔ غالبا ٹی وی کیمروں کی موجودگی کی وجہ سے پولیس والے بھی تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل گئے۔ اس موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے عمران خان نے اپنے گھر کی عقبی دس فٹ‌ اونچی دیوار پھلانگی اور اس کے بعد ایک اور دس فٹ‌ اونچا گیٹ پھلانگا اور فرار ہو گیا۔ بعد میں پولیس والوں نے آ کر تمام گھر کی تلاشی لی اور اہل خانہ سے نہایت بد سلوکی سے پیش آئے۔

عمران خان نے اپنے انٹرویو کے دوران حسب معمول لگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری باتیں کی۔ اس کے کہنے کے مطابق بے نظیر اور فضل الرحمن نے اپوزیشن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری جانب اس نے قاضی حسین احمد کی تعریف کی وہ ہمیشہ سیدھی بات کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایم ایم اے کا حصہ ہیں۔ عمران خان نے حامد میر کو بتایا کہ وہ طلبا کو آمریت کے خلاف جدوجہد کے لیے موبلائز کرنا چاہتا ہے۔

عمران خان نے 2002 کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسے حکومتی اتحاد کا حصہ بننے کی ترغیبات دی گئیں اور اس کے بدلے اسے سیٹوں کی آفر کی گئی اور جب عمران خان نے چوروں کا ساتھ دینے سے انکار کیا تو احتشام مظہر (غالبا یہی نام ہے) نے اسے سمجھایا کہ پاکستان میں الیکشن میں صرف چور ہی جیت سکتے ہیں۔

عمران خان نے میانوالی میں اپنے کیے جانے والے ترقیاتی کاموں کی تفصیل بتائی اور ایک ایجوکیشن سٹی بنانے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ ایک دلچسپ بات اس نے یہ بتائی کہ اس نے 85 کلومیٹر سٹرکیں بنوائیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ان سڑکوں پر فی کلومیٹر پچاس ہزار روپے خرچ ہوا جبکہ اسی علاقے میں سٹی گورنمنٹ نے صرف 6 کلومیٹر لمبی ویسی ہی سڑک بنوائی اور اس پر فی کلومیٹر 28 لاکھ روپے خرچ کیا۔

عمران خان نے حالیہ بحالی جمہوریت کی تحریک کو عدلیہ کی بحالی کی تحریک قرار دیا۔ اس کے مطابق ایمرجنسی یا مارشل لاء کے نفاذ کا واحد مقصد عدلیہ کی برطرفی تھا تاکہ فرد واحد کے اقتدار کو طول دیا جا سکے اور لوٹوں اور ابن الوقتوں کو ملک و قوم پر مسلط رہنے کا موقع دیا جا سکے۔ البتہ مجھے عمران خان کا سیاسی لائحہ عمل سن کر مایوسی ہوئی۔ حامد میر نے جب عمران خان کی پارٹی کی عدم مقبولیت کے بارے میں سوال کیا تو عمران خان نے اس سوال کا صحیح جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس صورتحال کو بدلنے کے سلسلے میں کوئی لائن آف ایکشن بیان کی۔ میرے خیال میں عمران خان کی سیاست کا المیہ قریبا وہی ہے جو کہ جماعت اسلامی کی سیاست کا ہے۔ عمران خان کی سیاست ایلیٹ کلاس تک محدود رہتی ہے۔ اس نے طلبا سے رابطوں کے لیے بھی لمز کا انتخاب کیا ہے۔ لمز کے طلبا ذہین ضرور ہوں گے لیکن کم از کم میں ان سے بحالی جمہوریت کی تحریک میں کوئی سرگرم کردار ادا کرنے کی توقع نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں کوئی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی تحریک گراس روٹس پالیٹکس کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہم لوگ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے لاکھ اختلاف کریں، لیکن پاکستان میں یہی دونوں جماعتیں حقیقی طور پر عوامی جماعتیں ہیں۔ اگر عمران خان کو ملکی سیاست میں کوئی موثر کردار ادا کرنا ہے تو اسے عوامی سیاست کا ڈھنگ سیکھنا پڑے گا، ورنہ اس کی سیاست میانوالی کی سیٹ تک محدود رہے گی۔
 
Top