ماوراء
محفلین
رنگین شخصیت، ان کے انوکھے انداز اور پرکیف انداز گفتگو سے محفوظ نہیں ہوتا تھا۔ وہ انہیں بیٹے کی حیثیت سے دیکھتا اور اپنے مقاصد کے زاویے سے ان کی باتوں پر غور کرتا اس لیے یہ تمام رنگینی اس کی نگاہ میں دنیاداری مکر فریب چالاکی کے مترادف نظر آتی۔ اسے ان کی ہر بات پر غصہ آتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ بات کی لڑائی ہو جاتی تھی۔
مظفر آباد میں ایلی نے مسلسل طور پر کوشش کی کہ جھگڑا نہ ہو اس لیے وہ بڑے صبرو تحمل سے کام لیتا رہا۔ علی احمد ایلی کی اس خصوصیت سے واقف تھے اور اکثر جان بوجھ کر ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ جنہیں سن کر وہ اکتا جائے اور جھگڑ کر اٹھ بیٹھے تاکہ انہیں بات سے مخلصی حاصل ہو جائے لیکن ایسے حالات علی احمد ایسے وقت پیدا کرتے تھے جب انہیں بات کی نوعیت کا علم ہوتا۔ اور بات کے متعلق کچھ کرنے کا ان کا اپنا ارادہ نہ ہوتا اس طرح بات کے ٹوٹنے کی تمام تر ذمہ داری ایلی پر عائد ہو جاتی اور علی احمد پر کوئی حرف نہ آتا۔
ان دنوں مظفر آباد میں بھی وہ اسی بات سے ڈرتا تھا اسی وجہ سے اس نے ہاجرہ کو باربار تاکید کی تھی کہ راجو یا شمیم سے بات نہ کرے کیونکہ اکثر مرتبہ ایسے حالات میں وہ راجو اور شمیم کو کہا کرتے بھئی کیا معاملہ ہے کچھ پتہ تو لگاؤ یہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور بات کی نوعیت سمجھ کر وہ یوں ظاہر کرتے جیسے انہیں کچھ علم ہی نہ ہو اور پھر معاملے کی نوعیت کے مطابق عمل کرتے۔ بہر حال نویں روز بصد مشکل بات شروع ہوئی۔
حق و انصاف
“ہوں۔“ علی احمد بولے “تو ایلی شادی کرنا چاہتا ہے۔ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ بی اے کر چکا ہے۔ دال روٹی کما سکتا ہے۔ لٰہذا ضرور کرنی چاہیے اسے شادی۔ اور ایلی کی ماں سنا تھا تم نے تو ایلی کی منگنی کر رکھی تھی۔ وہ کیا ہوئی۔ بھئی ہم نے تو سنا تھا۔ شاید غلط ہو لیکن سنا ضرور تھا۔ اچھا تو کیا سچ تھا۔“ انہوں نے ہاجرہ کے اثبات میں سر ہلانے کے بعد کہا۔ “بہر صورت بہت اچھا کیا تھا تم نے۔ اور اگر تم اب شادی کرنا چاہتی ہو ایلی کی تو ضرور کرو۔ فوراً کر دو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھئی جیسے میرا بیٹا ہے ویسے ہی تمھارا ہے میں شادی کروں یا تم کرو بات کرے یا ماں کرے کیا فرق پڑتا ہے۔ تو اتنی سی بات کے لیے تم دونوں اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہو کیا۔ میں سمجھا نہ جانے کیا ہوا ہے۔ آسمان ٹوٹ پڑا ہے یا زمین ڈوب گئی ہے حد ہو گئی۔ ہی ہی ہی ہی کیوں راجو۔“
مظفر آباد میں ایلی نے مسلسل طور پر کوشش کی کہ جھگڑا نہ ہو اس لیے وہ بڑے صبرو تحمل سے کام لیتا رہا۔ علی احمد ایلی کی اس خصوصیت سے واقف تھے اور اکثر جان بوجھ کر ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ جنہیں سن کر وہ اکتا جائے اور جھگڑ کر اٹھ بیٹھے تاکہ انہیں بات سے مخلصی حاصل ہو جائے لیکن ایسے حالات علی احمد ایسے وقت پیدا کرتے تھے جب انہیں بات کی نوعیت کا علم ہوتا۔ اور بات کے متعلق کچھ کرنے کا ان کا اپنا ارادہ نہ ہوتا اس طرح بات کے ٹوٹنے کی تمام تر ذمہ داری ایلی پر عائد ہو جاتی اور علی احمد پر کوئی حرف نہ آتا۔
ان دنوں مظفر آباد میں بھی وہ اسی بات سے ڈرتا تھا اسی وجہ سے اس نے ہاجرہ کو باربار تاکید کی تھی کہ راجو یا شمیم سے بات نہ کرے کیونکہ اکثر مرتبہ ایسے حالات میں وہ راجو اور شمیم کو کہا کرتے بھئی کیا معاملہ ہے کچھ پتہ تو لگاؤ یہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور بات کی نوعیت سمجھ کر وہ یوں ظاہر کرتے جیسے انہیں کچھ علم ہی نہ ہو اور پھر معاملے کی نوعیت کے مطابق عمل کرتے۔ بہر حال نویں روز بصد مشکل بات شروع ہوئی۔
حق و انصاف
“ہوں۔“ علی احمد بولے “تو ایلی شادی کرنا چاہتا ہے۔ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ بی اے کر چکا ہے۔ دال روٹی کما سکتا ہے۔ لٰہذا ضرور کرنی چاہیے اسے شادی۔ اور ایلی کی ماں سنا تھا تم نے تو ایلی کی منگنی کر رکھی تھی۔ وہ کیا ہوئی۔ بھئی ہم نے تو سنا تھا۔ شاید غلط ہو لیکن سنا ضرور تھا۔ اچھا تو کیا سچ تھا۔“ انہوں نے ہاجرہ کے اثبات میں سر ہلانے کے بعد کہا۔ “بہر صورت بہت اچھا کیا تھا تم نے۔ اور اگر تم اب شادی کرنا چاہتی ہو ایلی کی تو ضرور کرو۔ فوراً کر دو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھئی جیسے میرا بیٹا ہے ویسے ہی تمھارا ہے میں شادی کروں یا تم کرو بات کرے یا ماں کرے کیا فرق پڑتا ہے۔ تو اتنی سی بات کے لیے تم دونوں اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہو کیا۔ میں سمجھا نہ جانے کیا ہوا ہے۔ آسمان ٹوٹ پڑا ہے یا زمین ڈوب گئی ہے حد ہو گئی۔ ہی ہی ہی ہی کیوں راجو۔“