علی پور کا ایلی
مسٹر گپتا
جن دنوں ایلی نے بے اے پاس کیا وہ مالی بحران کے دن تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے سانپ کو گزرے سالہا سال گزر چکے تھے۔ لیکن لکیریں اب ابھر رہی تھیں۔ ہر محکمے میں تخفیف کا کلہاڑا چل رہا تھا۔ نوکری حاصل کرنا ناممکن تھا۔
مجبوری میں ایلی نے ایک شارٹ ہینڈ کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ کہ کالج علی پور کے لاہوری دروازے کے قریب ایک چوبارے میں واقع تھا جس کے ملحقہ مکان میں مسٹر گپتا کالج کے مالک اور واحد انسٹرکٹر کی رہائش تھی۔ مسٹر گپتا پرانی وضع کے باعزت لالہ جی تھے۔
وہ صبح سویرے جاگتے اور چھڑی لے کر باہر چہل قدمی کے لیے نکل جاتے۔ مسٹر گپتا چھڑی سہارے کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کی چال اس قدر چست اور تیز تھی کہ چھڑی معاون ثابت ہونے کی بجائے الٹا رکاوٹ معلوم ہوتی۔ لیکن مسٹر گپتا چھڑی یا چھتری کے بغیر باہر نکلنے کے قائل نہ تھے۔ وہ ایک پرانے باعزت خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے آباؤ اجداد میں کسی شخص نے چھڑی یا چھتری کے بغیر باہر نکلنے کی حماقت نہ کی تھی۔ سیر کرنے کے بعد وہ مندر سے ہوتے ہوئے سیدھے اپنے کالج میں پہنچتے۔ اپنے شاگردوں کو دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے اور پھر انہیں پڑھانے میں مصروف ہو جاتے۔
مسٹر گپتا اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ہندوستان میں صوتی شارٹ ہینڈ کو چلانے کے لیے انہوں نے ساری عمر جدوجہد کی تھی۔
جب کوئی نیا لڑکا کالج میں معلومات حاصل کرنے کے لیے آتا تو مسٹر گپتا اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر اس کے پاس بہ کمال شفقت آ بیٹھتے اور اسے سمجھاتے کہ شارٹ ہینڈ کا مروجہ سسٹم جسے پِٹ مین کہا جاتا تھا بالکل بیکار ہے اور ان کے نئے سسٹم کا مقابلہ نہیں کر سکتا چونکہ ان کا سسٹم جائنٹ واول سسٹم ہے۔
مسٹر گپتا بڑی محنت سے نئے لڑکوں کو سمجھاتے کہ جائنٹ واول سسٹم کا کیا مطلب ہے اور فونٹیک سسٹم سے کیا مراد ہے۔ اور پھر جب لڑکا داخل ہو جاتا تو پھر بات بات پر اسے تاکید کرتے کہ لکھتے وقت وہ سپیلنگ کا خیال رکھے۔
ایلی ان کی اس بات پر بے حد محظوط ہوتا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھتا۔
“ کیوں مسٹر گپتا یہ سسٹم صوتی ہے نا یعنی اس میں صرف آواز کا خیال رکھا جاتا ہے۔“
“ بالکل بالکل الیاس صاحب بس اس نکتے کو آپ ہی نے سمجھا ہے۔ لڑکے توجہ سے بات نہیں سنتے۔“
“ درست“ ایلی کہتا۔ لیکن ہمیں سپیلنگ کا خیال رکھنا چاہیے۔“ وہ طنزاً کہتا۔
“ بالکل“ وہ خوشی سے چلاتے۔ “ بس یہی ایک نکتہ ہے۔“ اور پھر وہ فوراً مثال دیتے صبح جو آپ نے جے او لکھا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے لفظ کے سپیلنگ کی طرف خیال نہ کیا۔ آپ کو خیال نہ رہا تھا کہ یہ لفظ جے او سے لکھا جاتا ہے۔ آپ نے یوں لکھا جیسے یہ لفظ جے سے لکھا جاتا ہو۔“
مسٹر گپتا سے باتیں کرنے میں ایلی کو بہت لطف آتا تھا۔ لٰہذا وہ اکثر مسٹر گپتا کے ہاں جا بیٹھتا۔ بلکہ سبق لیتے ہوئے بھی وہ مسٹر گپتا سے گپ بازی کیا کرتا۔ کالج میں ایلی واحد طالبعلم تھا جس سے مسٹر گپتا نے دوستانہ مراسم پیدا کر رکھے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی بی اے تھا اور مسٹر گپتا کے کالج میں تمام طلباء میٹرک پاس تھے۔
دفعتاً محلے میں شور اٹھا کہ ایلی کی منگیتر ثمرہ کی شادی ہو رہی ہے۔ ہاجرہ یہ سنکر حیران رہ گئی۔ وہ بھاگی گئی، پوچھ گچھ کی۔ بات کی تصدیق ہو گئی تو ٹھنڈی ہو کر بستر پر آ پڑی۔
اس پر ایلی اماں کے پاس آ بیٹھا، بولا ماں اب تو تمہارا یہ اعتراض بھی دور ہو گیا۔ چل اٹھ اب میرے ساتھ چل کہ مظفر آباد ابا سے ملیں۔ شاید وہ مان جائیں۔
ہاجرہ نے جب ایلی کی بات سنی تو پہلے تو وہ ادھر ادھر کے بہانے بناتی رہی لیکن ایلی نے بار بار اماں کی منتیں کیں۔ حتٰی کہ ایک روز اماں ایلی کے ساتھ مظفر آباد جانے کے لیے مان گئیں۔
ماں اور بیٹا ملتان پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ سیلاب کی وجہ سے مظفر آباد کی لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور وہ آگے نہیں جا سکتے۔ مجبوراً وہ ملتان ایک رشتہ دار کے ہاں ٹھہر گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب راستہ صاف ہو اور وہ منزل مقصود پر پہنچیں۔ ملتان کے قیام کے دوران میں ایلی روز ماں کو باہر لے جاتا اور کسی باغ یا میدان میں پہنچ کر دونوں کسی ویران کونے میں بیٹھ جاتے اور ایلی ماں کو سمجھاتا کہ علی احمد سے کس طرح بات کی جائے۔
“ دیکھو نا اماں۔“ وہ کہتا۔ “ اگر ابا نے محسوس کیا کہ شادی پر بہت خرچ اٹھے گا تو وہ کسی نہ کسی بہانے یہ رشتہ نامنظور کر دیں گے اور اگر یہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید کبھی ایسا موقع نہ ملے اور اماں سادی ایک ایسی ناؤ ہے جو مجھے اس بھنور سے باہر نکال سکتی ہے جس میں میں غوطے کھا رہا ہوں اور اگر یہ ناؤ بھی نہ رہی تو پھر ------ پھر تم جانتی ہو۔“ ایلی وضاحت سے ہاجرہ کو سمجھا رہا تھا کہ اگر وہ ناکام رہا تو پھر وہ اپنے آپ کو از سرِ نو اسی بھنور کے حوالے کر دے گا جس میں وہ عرصہ دراز سے ڈبکیاں کھا رہا تھا۔
اس روز پہلی مرتبہ ایلی نے اپنے منہ سے یہ تسلیم کیا تھا کہ شہزاد ایک بھنور تھی اور وہ اس بھنور میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ درحقیقت وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا بلکہ اسے استعمال کر رہا تھا اور دھمکی کے طور پر بوڑھی ماں کا سامنے پیش کر رہا تھا۔
لیکن ہاجرہ بار بار کہتی اگر تمہارے ابا نے شادی پر خرچ نہ کیا تو کرئے گا کون اور بات کیسے بنے گی۔
“ تم اس بات کی پرواہ نہ کرو اماں۔ یہ بعد کی بات ہے۔ فی الحال ضروری بات یہ ہے کہ ابا جان چلیں اور ہمیں ان کی صرف اس قدر امداد حاصل ہو جائے کہ وہ سادی کے ابا سے ملکر پیغام پیش کر دیں۔ اس لیے بات اس انداز سے کرنا چاہیے کہ وہ سمجھیں خرچ ورچ کا سلسلہ نہ ہو گا۔“
“ لیکن پھر شادی کیسے ہو گی۔ کیا وہ تمہیں خانہ داماد بنا لیں گے۔“
“ نہیں اماں ------ “
“ ایسی بات ہے تو میں تو جیتے ہی مر جاؤں گی۔“ ہاجرہ چلاتی ------ اور بات جوں کی توں ادھوری رہ جاتی۔
چار ایک روز کے بعد بصد مشکل گھٹنے گھٹنے پانی سے گزر کر وہ مظفر آباد میں علی احمد کے مکان تک پہنچے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر علی احمد کے گھر میں شور مچ گیا۔ راجو اور شمیم ہونٹوں پر انگلیاں رکھے حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ شمیم کے دونوں بیٹیاں اور راجو کے پہلے خاوند کا بیٹا سب شور مچانے لگے۔
“ ہے آپ ہیں۔ یا میری انکھوں کو دھوکہ ہو رہا ہے۔“
“ خیر تو ہے۔“ راجو بولی۔
“ توبہ کیا حالت ہو رہی ہے تمہاری۔“ شمیم نے ایلی کی طرف دیکھ کر کہا۔
“ اے سنا آپ نے۔“ راجو نے علی احمد کو مخاطب کر کے کہا۔ “ سنتے ہیں کیا کہہ رہی ہوں میں۔ ہے آگ لگے اس حساب کے رجسٹر کو، ہر وقت اسی میں کھوئے رہتے ہیں آپ۔ نہ آئے کا پتہ نہ گئے کا ہوش۔ میں نے کہا اپ سے کہہ رہی ہوں۔“
“ مجھ سے کہہ رہی ہو کچھ راجو۔“ اندر سے علی احمد کی آواز سنائی دی۔
“ شکر ہے سن لیا آپ نے۔“ وہ بولی۔
“ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے۔ “ دیکھو نا راجو یا تو بیوی گونگی ہو اور یا خاوند بہرہ ہو جبھی نبھتی ہے ورنہ نہیں۔ تم تو طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرتی رہتی ہو اب میں بھی بہرہ نہ بنوں تو نبھے کیسے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ کیا کہتی ہے۔“
“ میں کہتی ہوں۔“ راجو چلائی۔ “ ذرا باہر تو دیکھو لو کون آیا ہے۔“
“ کوئی آیا ہے کیا؟“ وہ بولے۔
“ ہاں ہاں کہہ جو رہی ہوں۔“
علی احمد نے جلدی سے ٹنگی ہوئی قمیض کو اتارا اور اسے پہننے لگے۔ ان کی عادت تھی کہ ہمیشہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے اور جب کوئی آتا تو فوراً قمیض پہن لیتے۔
انہیں قمیض پہنتے دیکھ کر راجو ہنسی۔ “ اے ہے کوئی باہر سے تو نہیں آئی کہ قمیض پہننے لگے۔ ہاجرہ آئی ہے۔“
“ ایلی کی ماں ------ “ انہوں نے حیرت سے کہا۔
“ ساتھ ایلی بھی ہے۔ اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا جو آ گئے۔ بھئی راجو انہیں بٹھاؤ نا کوئی چائے وائے پلاؤ، بسکٹ وسکٹ منگوا دو کالے کی دکان سے۔ لیکن بھئی تم نے پہلے اطلاع کیوں نہ دی۔ اور یہ سیلاب، کیسے پہنچے تم۔ سنا ہے ریل کی لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور سارا شہر تو پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ دو دو فٹ پانی کھڑا ہے۔ پہلے اطلاع دیتے تو ہم کوئی انتظام کر دیتے ------ خیر خیر اچھا کیا تم نے جو آ گئے۔ راجو راجو ------ یہ دیکھا تم نے ایلی کی ماں کو۔ ذرا غور سے دیکھو۔ اب تو بالکل بوڑھی ہو گئی ہے۔ اور راجو تمہیں معلوم ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ ایک مرتبہ ہماری پڑوسن نے کیا کہا تھا۔“ وہ ہنسنے لگے۔ ایلی کی ماں سے اللہ رکھے کل کتنے لڑکے ہیں تمہارے اور یہ بلوٹھی کا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ پھر میرے طرف اشارہ کر کے بولی اللہ رکھے۔ “ کیوں ایلی کی ماں یاد ہے تجھے۔ ہی ہی ہی ہی حد ہو گئی سنا تم نے راجو۔ ہی ہی ہی ہی۔“
جب علی احمد کو معلوم ہوا کہ وہ ان سے ایک اہم بات کرنے آئے ہیں تو دفعتاً وہ سنجیدہ ہو گئے۔ یہ علی احمد کی پرانی عادت تھی۔ اگر انہیں کسی بات میں خاص اہمیت دی جاتی تو وہ اس بات کو خاص اہمیت دینا شروع کر دیتے اور خود اپنی رائے کو اہمیت دینے لگتے۔ اور اس کے برعکس کسی مسئلے میں انہیں نظر انداز کر دیا جاتا تو وہ اس مسئلے کو قطعی طور پر اہمیت نہ دیتے اور اس نظر اندازی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
علی احمد نے سوچا کہ یہ لوگ اتنی دور سے چل کر آئے ہیں۔ تاکہ مجھ سے بات کریں۔ ظاہر ہے کہ مجھ سے بات کرنے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے تو بات اتنی آسانی سے طے نہیں ہو جانی چاہیے۔
“ ہاں ہاں ہاں ہاں۔“ وہ ہنسنے لگے “ بھئی اب جو تم یہاں آ پہنچے ہو تو اب باتیں ہی ہوں گی نا۔ باتوں کے سوا اور کیا ہوتا ہے اپنوں کے درمیان۔ ہی ہی ہی ہی۔ اب دیکھ لو راجو ہے تو سارا دن راجو سے باتیں کرتے ہیں ہم۔ کیوں راجو ٹھیک ہے نا۔ ہی ہی ہی ہی۔ یہ اور بات ہے کہ راجو کبھی جواب نہیں دے سکی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ لاجواب بھی نہیں ہوتی۔ کیوں راجو۔ ہی ہی ہی ہی۔“
“ آپ میری بات چھوڑیں۔“ راجو بولی۔ “ ان سے بات کریں اتنی دور سے آئے ہیں یہ بات کرنے کے لیے۔“
“ ان سے بھی کریں گے، ان سے بھی کریں گے۔ لیکن ابھی یہ لوگ سفر کر کے آئے ہیں اور پھر اتنی تکلیف جھیل کے۔ انہیں چار ایک دن آرام کرنا چاہیے۔ آرام کرو، کھاؤ پیو پھر بات بھی ہو جائے گی ------ کیوں راجو تم نے چائے بنائی اور کیا کالے سے بسکٹ منگوائے پھر کوئی خاطر تواضع کرو ان کی تمہارے مہمان آئے ہیں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی صندوقچی سے ایک چونی نکالی اور راجو کو چیتے ہوئے بولے۔ “ منگواؤ بسکٹ۔ ذرا جلدی کرو نا بھئی ایلی کی ماں بیٹھ جاؤ نا۔ اچھا تو علی پور کا کیا حال ہے۔“
مسلسل چار روز ہاجرہ اور ایلی نے متعدد بار کوشش کی کہ علی احمد سے بات کی جائے لیکن وہ بات کی اہمیت سے اس حد تک واقف ہو چکے تھے کہ انہوں نے کسی نہ کسی بہانے بات ٹال دی۔ ایلی بات شروع کرتا تو علی احمد کہتے۔ “او ہو۔ میں بھول ہی گیا۔ دیکھو نا اتنے بکھیڑے ہیں کہ میں بھول جاتا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی۔ سب سے بڑا بکھیڑا تو یہ راجو ہی ہے۔ کیوں راجو سنا تم نے کیا کہہ رہا ہوں میں۔ ہو نا تم بکھیڑا۔ بکھیڑے درد سر ہوتے ہیں اور درد دل والے بکھیڑے بھی ہوتے ہیں۔ اور راجو تم تو درد دل والا بکھیڑا ہو۔ ہی ہی ہی ہی۔ سنا تم نے کیا کہہ رہا ہوں میں۔ لیکن اب تم درد سر والا بکھیڑا بنی جا رہی ہو۔ پہلے خالص درد دل والا تھی۔ تمہیں درد دل والے بکھیڑے کا تجربہ نہیں ایلی۔ بڑا عظیم بکھیڑا ہوتا ہے یہ۔ توبہ ہے ------ اچھا اچھا ہے۔ ابھی یہ درد دل والا بکھیڑا نہ ہی ہو۔ ابھی ساری عمر پڑی ہے۔ کچھ دن اور سکھ کے گزار لو تو تمہاری خوش نصیبی ہو گی۔ یہ بیماری کچھ اور دیر نہ لگے تو بہتر ہے۔ کیوں راجو سنا تم نے ہی ہی ہی ہی۔“
اس طرح وہ مسلسل باتیں کیئے جاتے اور ایلی کی بات پسِ پشت پڑ جاتی۔
کسی وقت وہ جواب دیتے “ ہاں ہاں بھئی آج تو بات ضرور کرنی چاہیے۔ اتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں آئے ہوئے لیکن بھئی میں تو جا رہا ہوں ڈپٹی صاحب کو ملنے کے لیے۔ انہوں نے بلایا ہے۔ بے چارے بڑا خیال رکھتے ہیں۔ بات بات پر مشورہ کرتے ہیں۔ ان سے مل آؤں میں پھر اطمینان سے بات کریں گے۔“
اس کے بعد دیر تک وہ جوں کے توں بیٹھ رہتے۔ وہ ڈپٹی صاحب کی طرف جاتے ہی نہ تھے۔ اس لیے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اور اگر ایلی انہیں یاد دلاتا کہ آپ تو جا رہے تھے ڈپٹی صاحب کی طرف تو وہ ہنس کر کہتے ہاں ہاں بھئی جا رہا ہوں۔ اور پھر بیٹھے رہتے۔ اس طرح ایلی اور ہاجرہ کو وہاں رہتے آٹھ روز ہو گئے۔ اور ان آٹھ روز میں ایلی کا صبر و سکون ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا۔ ایلی طبعی طور پر مزاح اور مزاحیہ صورتِ حال کو محسوس کرنے سے کورا تھا۔ وہ علی احمد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔