قیصرانی
لائبریرین
صاحب آپ کا ہمارے گھر جانا یا کسی قسم کا کوئی رابطہ پیدا کرنا ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہوگا اور اب جب کہ ہمارے دوستانہ مراسم ہو چکے ہیں اگر آپ نے چوری چھپے کوئی بات کی یا کوئی بات مجھ سے چھپائی تو مجھے دکھ ہوگا"۔
"آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں آپ کو کیوں لایا گیا ہے۔ مجھے دفعتاً خیال آیا کہ اس حالت میں آپ کو اپنے لاج میں نہیں جانا چاہیئے۔ ابھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ لیجئے سگرٹ پیجئے۔ اوہ میں ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ آپ سگرٹ نہیں پیتے۔ لیکن اس میں میرا قصور نہیں کیونکہ اس عمر میں کم و بیش لوگ سگرٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔"
سائیکل پر ہوا کھانے کے بعد ایلی کی حالت اور بھی خراب ہو چکی تھی۔ اس کے تمام جسم میں شعلے بھڑک رہے تھے ۔ منہ سخت کڑوا ہو رہا تھا طبیعت مالش کر رہی تھی۔
"آپ کچھ دیر کے لئے یہاں آرام کیجئے۔ لیٹ جائیے۔" لیکن ایلی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"میں ابھی آیا" کہہ کر منصر چلا گیا اور ایلی کمرے میں اکیلا رہ گیا۔
پھر دفعتاً اس کی طبیعت گھبرائی وہ باہر بھاگا۔ سامنے اس زینے کا دروازہ تھا جہاں وہ پہلے کئی ایک بار آچکا تھا لپک کر کنڈی کھولی اور اندر پہنچتے ہی شدت سے قے کرنا شروع کر دیا۔
قے کے بعد اس کی طبعیت ہلکی ہو گئی۔ اس نے اس کمرے کی طرف حسرت بھری نظر ڈالی۔ فرش پر ابھی تک سگرٹوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ سیڑھیوں پر ایک ماچس پڑی تھی۔ اسے ان ملاقاتوں کا خیال آگیا۔ یہاں وہ بیٹھ جایا کرتا تھا اور کوئی کہا کرتی تھی "آپ بیٹھ کیوں گئے۔ا ٹھئے نا۔"
"آئیے نا۔" اس کی پشت پر منصر کھڑا تھا۔ "یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں۔ آپ۔"
اسی روز باتوں باتوں میں منصر نے پردے کا موضوع چھیڑ دیا۔ "پردے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔"
"میں سمجھا نہیں۔" ایلی نے کہا۔ "میرا مطلب ہے۔" منصر نے کہا "جہاں تک اس گھرانے کا تعلق ہے آپ کی حیثیت ایک اجنبی کی ہے ایک بیگانے کی۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آپ سے خصوصی سلوک کیا جائے۔"
ایلی کو منصر کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
منصر کہنے لگا۔ "اگر ہمارے لوگ آپ نے سامنے آئیں تو تخصیص کیوں کی جائے کیوں نہ وہ منظر عام پر آئیں سب کے سامنے۔"
"میں نہیں سمجھا۔" ایلی نے جواب دیا۔
"دقت تو یہ ہے کہ میں خود بھی نہیں سمجھ رہا۔" منصر چلایا۔ "اگرچہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ اس قدر ٹیڑھا ہے کہ۔۔۔ اور میں نے آج تک اس مسئلے پر غور نہیں کیا تھا۔ لیکن اب۔۔۔ "وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی کشمکش میں گرفتار ہے۔
"جی" ایلی نے کہا۔
"جی کیا۔" وہ بولا۔ "کیا سمجھے آپ۔"
"کچھ بھی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ منصر نے ایک قہقہہ لگایا۔
"تعجب کی بات ہے۔" وہ بولا۔ "ہم دونوں اس قدر قریب ہیں بہت قریب اتنے قریب کہ آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا اور پھر ہم دونوں بیک وقت اس قدر بیگانہ ہیں اس قدر دور کہ۔۔۔" منصر رک گیا۔ "سگرٹ پیجئے۔ اوہ۔۔۔ سگرٹ تو آپ پیتے ہی نہیں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔" وہ ہنسنے لگا۔ "ہاں۔۔۔ آپ نے واستووسکی کا ناول برادرز کیراموزوز پڑھا ہے؟"
"جی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ " میں نے صرف ایڈیٹ اور کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھے ہیں۔"
"ضرور پڑھئے۔" وہ بولا۔۔۔۔ "اسے پڑھے بغیر آپ ہم کو نہیں سمجھ پائیں گے۔"
"آپ کی کتنی ہمشیریں ہیں؟" منصور نے دفعتاً بات بدلی۔
"ایک" ایلی نے کہا۔
"بڑی ہیں یا چھوٹی۔"
"بڑی۔"
"تو آپ نہیں سمجھ سکتے کہ چھوٹی بہن کا مفہوم کیا ہے۔ "منصر نے جوش اور جذبے سے کہا۔
ایلی نے سوچا کہ شاید منصر نشے میں باتیں کیے جا رہا ہے۔ لیکن خصوصی طور پر آج کیوں؟وہ یہ نہ سمجھ سکا "مجھے اپنی ہمشیرگان سے بے حد محبت ہے۔" منصر بولا۔ " آپ اندازہ نہیں کر سکتے ہیں۔ بہرحال پردے کا میں تو قائل نہیں ہوں میرا مطلب رسمی پردے سے ہے۔ پردے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔" اس نے ایلی سے پوچھا۔
"میں تو رسمی پردے کو فضول سمجھتا ہوں۔"
"ہاں۔" دفعتاً منصر نے پھر بات کا رخ بدلا۔ "آپ کو ٹینس سے دلچسپی ہے؟"
"جی ہاں کچھ کچھ ہوسٹل میں کھیلا کرتا تھا۔"
"آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب ٹینس چیمپئن شپ کا فائنل ہو رہا ہے۔"
"جی نہیں۔"
"تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل شام کے چار بجے لارنس باغ کی گراؤنڈ میں یہ میچ ہوگا اور آپ ہمارے ساتھ وہاں جا رہے ہیں۔ آپ چار بجے از خود پہنچ جائیے گا۔ وہاں ملاقات ہوگی۔"
منصر کی اس روز کی باتیں ایلی کو قطعی طور پر سمجھ میں نہ آئیں۔ نہ جانے وہ رنگیلا راجہ کیا کچھ کہہ رہا تھا شاید گپ ہانک رہا ہو۔ لیکن ان کہی بات کرنے میں منصر کو کمال حاصل تھا اور اس حقیقت سے ایلی واقف تھا۔ پھر بھی اس روز کی باتیں تو نہ کہی تھیں نہ ان کہی۔
منظر عام
اگلے روز جب ایلی ٹینس کے میدان میں پہنچا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی منصر کے ہمراہ سادی باجی اور ایک معمر خاتون تھیں وہ تینوں بے نقاب تھیں۔ ایلی انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔
"آئیے آئیے" منصر چلایا۔ ؔیہ ہیں الیاس صاحب" اس نے خاتون کو مخاطب کرکے کہا "اور آپ والدہ صاحبہ ہیں۔ اور انہیں" اس نے سادی اور باجی کی طرف دیکھ کر کہا "انہیں تو آپ جانتے ہیں۔" ایلی نے جھک کر والدہ کو سلام کیا۔
ایلی نے شدید خواہش کے باوجود سادی اور باجی کی طرف نہ دیکھا اس میں ہمت نہ پڑی۔ اسے منصر کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ اس نے کہا تھا نا کہ پھر تخصیص کیوں کی جائے۔ منصر نے سادی اور باجی کو منظر عام پر لانے سے گریز نہ کیا تھا۔ ایلی نے حیرت بھرے احترام سے منصر کی طرف دیکھا۔ کس قدر پروقار تھا وہ چھوٹا سا خوبصورت آدمی۔
کھیل کے دوران میں ایلی نے دو ایک بار چوری چوری سادی کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جیسے وہ سادی نہیں بلکہ سکندر ہو جو دریائے جہلم کے کنارے کھڑا ہو۔
کھیل کے وقفے میں والدہ کے اشارے پر منصر نے بیرے کو آواز دی لیکن اس کی آواز کسی نے نہ سنی اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
والدہ نے مسکرا کر ایلی کی طرف دیکھا۔
"آپ کے مزاج اچھے ہیں۔" ایلی نے کچھ کہنے کے لئے کہا۔
وہ مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں۔ "کبھی مجھ سے ملو نا، مجھے تم سے باتیں کرنا ہے۔"
"جی" ایلی نے جواب دیا۔
"گھر پرآئیے۔ کوئی بارہ بجے کے قریب۔" والدہ نے کہا۔
"بہت اچھا۔" ایلی نے جھکی جھکی نگاہوں سے جواب دیا۔
"گھڑی دے دیجئے انہیں"سادی چمک کر بولی۔
"جی۔" ایلی نے سادی کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ "کہیں دو بجے نہ آجائیں۔" وہ بولی۔
"ضرور آنا بیٹا" والدہ نے یوں جواب دیا جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔
"جی۔۔۔"
اور۔۔۔
"میں انتظار کروں گی۔" والدہ بولیں اور۔۔۔ پھر منصر کی آمد پر وہ دفعتاً چپ ہو گئیں۔
منصر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔
والدہ صاحبہ کا وہ۔۔۔"اور۔۔۔" ایلی کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس پر مسلط ہو گیا۔ اس کے عقب میں گہری پرمعنی خاموشی تھی۔ مفہوم سے لبریز خاموشی کیا وہ اشارہ اور کنایہ کی عظمت سے اس حد تک واقف تھے۔ ایلی حیرت سے اس معزز خاتون کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا سن پچاس کے لگ بھگ ہوگا اس کے چہرے پر وقار کی نسبت محبت کے نقوش زیادہ پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک حسرت زدہ مٹھاس تھی۔
اگلے روز دوپہرکے وقت جب ایلی سفید منزل میں داخل ہوا تو وہ "اور" وضاحت سے اس کے روبرو اگیا۔ والدہ پہلے ہی سے اوپر جنگلے میں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایلی کو دیکھتے ہی والدہ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر تک وہ دستک دیئے بغیر دروازے پر کھڑآ رہا پھر دروازہ کھلا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو دروازہ بند کرلیا گیا۔ نچلی منزل ویران پڑی تھی۔
رسمی باتوں کے بعد والدہ نے کہا۔ "مجھے اپنی بچیوں سے بڑی محبت ہے۔ بڑی محبت۔" اس کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ کیا کروں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اور چھوٹی تو بڑی ہی لاڈلی ہے۔ بڑی ہی۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"تم بڑے اچھے ہو۔" دفعتاً والدہ نے موضوع بدلا "تم سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔۔۔"
"مجھے تم سے اتنی ہی محبت ہے جتنی" وہ رک گئی۔
"آپ کی بڑی نوازش ہے۔" ایلی نے کہا۔
"مجھے باتیں نہیں کرنا آتیں بیٹا۔" وہ بولی۔
"جی" ایلی نے اس رسمی جملے پر شرمندگی سی محسوس کی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس معمر خاتون کو یوں آغوش میں لے لے جیسے وہ ایک ننھی سی بچی ہو مگر اس کی ہمت نہ پڑی ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا۔
"آؤ نا ادھر اس کمرے میں آجاؤ۔ اس بغلی کمرے میں آئیے اگر امان کو پتہ چلا کہ تم اس گھر میں آئے ہو۔ توقیامت آجائے گی۔"
"امان؟" ایلی نے دہرایا۔
"ہاں۔ وہ ہمارا عزیز ہے اللہ رکھے بڑی کا منگیتر ہے۔ چھوٹی کی منگنی ابھی نہیں ہوئی امان بڑا جوشیلا ہے۔ پتہ نہیں کیا کردے۔۔۔ آؤ ادھر آجاؤ۔"
جب وہ بغلی دروازے میں داخل ہوا تو قریب ہی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دونوں سادی اور باجی بیٹھی کانا پھوسی کر رہی تھیں۔
"بیٹھ جاؤ بیٹا۔ اب تم سے کیا پردہ ہے۔ بیٹھ جاؤ"
ایلی سر جھکا کر ادب سے بیٹھ گیا۔
سادی نے باجی کے کان میں کہا۔ "دوپٹہ لا دو انہیں باجی۔" اور اس نے جان بوجھ کر ایسی آواز میں کہا کہ ایلی سن لے۔
ایلی خاموش بیٹھارہا اور والدہ سے رسمی باتیں کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔
"دیکھو تو۔" سادی پھر بولی "جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔"
"اب میں کیا کہوں۔" ایلی نے والدہ کو مخاطب کرکے کہا۔
"کیا کہا تم نے میں سمجھی نہیں۔" وہ بولیں۔
"میں نے عرض کیا کہ۔۔۔" ایلی رک گیا۔
"جملہ مکمل کر دو باجی۔" سادی پھر بولی۔
"جملہ نہیں" وہ بولا۔ "۔۔۔۔کہانی۔"
"وہ کیا میں تھوڑا ہی کروں گی۔" سادی قہقہہ مار کر ہنسی۔
"نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔" والدہ بولیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھیں "میں ذرا دیکھوں تو امان تو نہیں آیا۔" یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
"یہ کس مشکل میں ڈال دیا مجھے نہ جی۔" وہ چمک کر بولا۔
"اٹیچی نہ اٹھانے کی سزا بھی تو ملنی چاہیے باجی انہوں نے ضد کرکے سب کچھ کھو دیا۔"
"کھویا تو نہیں پا لیا ہے۔" ایلی نے کہا۔
"اونہوں پا لیا ہے۔" وہ بولی۔ "بڑی ہمت والے تو دیکھو یہ تو مابدولت کی محنت کا نتیجہ ہے۔"
"جی" ایلی نے کہا "مابدولت تو غش کھا کر گرنا جانتے ہیں۔"
وہ قہقہہ مار کر ہنسی "غش نہ کھاتے تو بات نہ بنتی۔"
"میں نے سنا تھا تم بیمار تھیں سادی۔"
"اپنی تو وہی بات ہے کہ فراق یار میں گھل گھل کے بن گئے ہاتھی۔" وہ ہنسے لگی۔
"جھوٹ۔" باجی نے کہا۔
"خاموش باجی۔" سادی اٹھ بیٹھی۔
"دراصل۔۔۔" باجی نے بات کرنے کی کوشش کی۔
"ایک لفظ منہ سے نکالنے کی اجازت نہیں۔" سادی نے کہا "ور کل" وہ ایلی سے مخاطب ہوئی۔
"یوں ٹینس بال پر نگاہیں جما کر بیٹھے رہے جیسے حافظ حلوے پر جمائے رہتے ہیں۔"
"آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں آپ کو کیوں لایا گیا ہے۔ مجھے دفعتاً خیال آیا کہ اس حالت میں آپ کو اپنے لاج میں نہیں جانا چاہیئے۔ ابھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ لیجئے سگرٹ پیجئے۔ اوہ میں ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ آپ سگرٹ نہیں پیتے۔ لیکن اس میں میرا قصور نہیں کیونکہ اس عمر میں کم و بیش لوگ سگرٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔"
سائیکل پر ہوا کھانے کے بعد ایلی کی حالت اور بھی خراب ہو چکی تھی۔ اس کے تمام جسم میں شعلے بھڑک رہے تھے ۔ منہ سخت کڑوا ہو رہا تھا طبیعت مالش کر رہی تھی۔
"آپ کچھ دیر کے لئے یہاں آرام کیجئے۔ لیٹ جائیے۔" لیکن ایلی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"میں ابھی آیا" کہہ کر منصر چلا گیا اور ایلی کمرے میں اکیلا رہ گیا۔
پھر دفعتاً اس کی طبیعت گھبرائی وہ باہر بھاگا۔ سامنے اس زینے کا دروازہ تھا جہاں وہ پہلے کئی ایک بار آچکا تھا لپک کر کنڈی کھولی اور اندر پہنچتے ہی شدت سے قے کرنا شروع کر دیا۔
قے کے بعد اس کی طبعیت ہلکی ہو گئی۔ اس نے اس کمرے کی طرف حسرت بھری نظر ڈالی۔ فرش پر ابھی تک سگرٹوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ سیڑھیوں پر ایک ماچس پڑی تھی۔ اسے ان ملاقاتوں کا خیال آگیا۔ یہاں وہ بیٹھ جایا کرتا تھا اور کوئی کہا کرتی تھی "آپ بیٹھ کیوں گئے۔ا ٹھئے نا۔"
"آئیے نا۔" اس کی پشت پر منصر کھڑا تھا۔ "یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں۔ آپ۔"
اسی روز باتوں باتوں میں منصر نے پردے کا موضوع چھیڑ دیا۔ "پردے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔"
"میں سمجھا نہیں۔" ایلی نے کہا۔ "میرا مطلب ہے۔" منصر نے کہا "جہاں تک اس گھرانے کا تعلق ہے آپ کی حیثیت ایک اجنبی کی ہے ایک بیگانے کی۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آپ سے خصوصی سلوک کیا جائے۔"
ایلی کو منصر کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
منصر کہنے لگا۔ "اگر ہمارے لوگ آپ نے سامنے آئیں تو تخصیص کیوں کی جائے کیوں نہ وہ منظر عام پر آئیں سب کے سامنے۔"
"میں نہیں سمجھا۔" ایلی نے جواب دیا۔
"دقت تو یہ ہے کہ میں خود بھی نہیں سمجھ رہا۔" منصر چلایا۔ "اگرچہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ اس قدر ٹیڑھا ہے کہ۔۔۔ اور میں نے آج تک اس مسئلے پر غور نہیں کیا تھا۔ لیکن اب۔۔۔ "وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی کشمکش میں گرفتار ہے۔
"جی" ایلی نے کہا۔
"جی کیا۔" وہ بولا۔ "کیا سمجھے آپ۔"
"کچھ بھی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ منصر نے ایک قہقہہ لگایا۔
"تعجب کی بات ہے۔" وہ بولا۔ "ہم دونوں اس قدر قریب ہیں بہت قریب اتنے قریب کہ آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا اور پھر ہم دونوں بیک وقت اس قدر بیگانہ ہیں اس قدر دور کہ۔۔۔" منصر رک گیا۔ "سگرٹ پیجئے۔ اوہ۔۔۔ سگرٹ تو آپ پیتے ہی نہیں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔" وہ ہنسنے لگا۔ "ہاں۔۔۔ آپ نے واستووسکی کا ناول برادرز کیراموزوز پڑھا ہے؟"
"جی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ " میں نے صرف ایڈیٹ اور کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھے ہیں۔"
"ضرور پڑھئے۔" وہ بولا۔۔۔۔ "اسے پڑھے بغیر آپ ہم کو نہیں سمجھ پائیں گے۔"
"آپ کی کتنی ہمشیریں ہیں؟" منصور نے دفعتاً بات بدلی۔
"ایک" ایلی نے کہا۔
"بڑی ہیں یا چھوٹی۔"
"بڑی۔"
"تو آپ نہیں سمجھ سکتے کہ چھوٹی بہن کا مفہوم کیا ہے۔ "منصر نے جوش اور جذبے سے کہا۔
ایلی نے سوچا کہ شاید منصر نشے میں باتیں کیے جا رہا ہے۔ لیکن خصوصی طور پر آج کیوں؟وہ یہ نہ سمجھ سکا "مجھے اپنی ہمشیرگان سے بے حد محبت ہے۔" منصر بولا۔ " آپ اندازہ نہیں کر سکتے ہیں۔ بہرحال پردے کا میں تو قائل نہیں ہوں میرا مطلب رسمی پردے سے ہے۔ پردے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔" اس نے ایلی سے پوچھا۔
"میں تو رسمی پردے کو فضول سمجھتا ہوں۔"
"ہاں۔" دفعتاً منصر نے پھر بات کا رخ بدلا۔ "آپ کو ٹینس سے دلچسپی ہے؟"
"جی ہاں کچھ کچھ ہوسٹل میں کھیلا کرتا تھا۔"
"آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب ٹینس چیمپئن شپ کا فائنل ہو رہا ہے۔"
"جی نہیں۔"
"تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل شام کے چار بجے لارنس باغ کی گراؤنڈ میں یہ میچ ہوگا اور آپ ہمارے ساتھ وہاں جا رہے ہیں۔ آپ چار بجے از خود پہنچ جائیے گا۔ وہاں ملاقات ہوگی۔"
منصر کی اس روز کی باتیں ایلی کو قطعی طور پر سمجھ میں نہ آئیں۔ نہ جانے وہ رنگیلا راجہ کیا کچھ کہہ رہا تھا شاید گپ ہانک رہا ہو۔ لیکن ان کہی بات کرنے میں منصر کو کمال حاصل تھا اور اس حقیقت سے ایلی واقف تھا۔ پھر بھی اس روز کی باتیں تو نہ کہی تھیں نہ ان کہی۔
منظر عام
اگلے روز جب ایلی ٹینس کے میدان میں پہنچا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی منصر کے ہمراہ سادی باجی اور ایک معمر خاتون تھیں وہ تینوں بے نقاب تھیں۔ ایلی انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔
"آئیے آئیے" منصر چلایا۔ ؔیہ ہیں الیاس صاحب" اس نے خاتون کو مخاطب کرکے کہا "اور آپ والدہ صاحبہ ہیں۔ اور انہیں" اس نے سادی اور باجی کی طرف دیکھ کر کہا "انہیں تو آپ جانتے ہیں۔" ایلی نے جھک کر والدہ کو سلام کیا۔
ایلی نے شدید خواہش کے باوجود سادی اور باجی کی طرف نہ دیکھا اس میں ہمت نہ پڑی۔ اسے منصر کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ اس نے کہا تھا نا کہ پھر تخصیص کیوں کی جائے۔ منصر نے سادی اور باجی کو منظر عام پر لانے سے گریز نہ کیا تھا۔ ایلی نے حیرت بھرے احترام سے منصر کی طرف دیکھا۔ کس قدر پروقار تھا وہ چھوٹا سا خوبصورت آدمی۔
کھیل کے دوران میں ایلی نے دو ایک بار چوری چوری سادی کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جیسے وہ سادی نہیں بلکہ سکندر ہو جو دریائے جہلم کے کنارے کھڑا ہو۔
کھیل کے وقفے میں والدہ کے اشارے پر منصر نے بیرے کو آواز دی لیکن اس کی آواز کسی نے نہ سنی اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
والدہ نے مسکرا کر ایلی کی طرف دیکھا۔
"آپ کے مزاج اچھے ہیں۔" ایلی نے کچھ کہنے کے لئے کہا۔
وہ مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں۔ "کبھی مجھ سے ملو نا، مجھے تم سے باتیں کرنا ہے۔"
"جی" ایلی نے جواب دیا۔
"گھر پرآئیے۔ کوئی بارہ بجے کے قریب۔" والدہ نے کہا۔
"بہت اچھا۔" ایلی نے جھکی جھکی نگاہوں سے جواب دیا۔
"گھڑی دے دیجئے انہیں"سادی چمک کر بولی۔
"جی۔" ایلی نے سادی کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ "کہیں دو بجے نہ آجائیں۔" وہ بولی۔
"ضرور آنا بیٹا" والدہ نے یوں جواب دیا جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔
"جی۔۔۔"
اور۔۔۔
"میں انتظار کروں گی۔" والدہ بولیں اور۔۔۔ پھر منصر کی آمد پر وہ دفعتاً چپ ہو گئیں۔
منصر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔
والدہ صاحبہ کا وہ۔۔۔"اور۔۔۔" ایلی کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس پر مسلط ہو گیا۔ اس کے عقب میں گہری پرمعنی خاموشی تھی۔ مفہوم سے لبریز خاموشی کیا وہ اشارہ اور کنایہ کی عظمت سے اس حد تک واقف تھے۔ ایلی حیرت سے اس معزز خاتون کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا سن پچاس کے لگ بھگ ہوگا اس کے چہرے پر وقار کی نسبت محبت کے نقوش زیادہ پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک حسرت زدہ مٹھاس تھی۔
اگلے روز دوپہرکے وقت جب ایلی سفید منزل میں داخل ہوا تو وہ "اور" وضاحت سے اس کے روبرو اگیا۔ والدہ پہلے ہی سے اوپر جنگلے میں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایلی کو دیکھتے ہی والدہ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر تک وہ دستک دیئے بغیر دروازے پر کھڑآ رہا پھر دروازہ کھلا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو دروازہ بند کرلیا گیا۔ نچلی منزل ویران پڑی تھی۔
رسمی باتوں کے بعد والدہ نے کہا۔ "مجھے اپنی بچیوں سے بڑی محبت ہے۔ بڑی محبت۔" اس کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ کیا کروں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اور چھوٹی تو بڑی ہی لاڈلی ہے۔ بڑی ہی۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"تم بڑے اچھے ہو۔" دفعتاً والدہ نے موضوع بدلا "تم سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔۔۔"
"مجھے تم سے اتنی ہی محبت ہے جتنی" وہ رک گئی۔
"آپ کی بڑی نوازش ہے۔" ایلی نے کہا۔
"مجھے باتیں نہیں کرنا آتیں بیٹا۔" وہ بولی۔
"جی" ایلی نے اس رسمی جملے پر شرمندگی سی محسوس کی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس معمر خاتون کو یوں آغوش میں لے لے جیسے وہ ایک ننھی سی بچی ہو مگر اس کی ہمت نہ پڑی ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا۔
"آؤ نا ادھر اس کمرے میں آجاؤ۔ اس بغلی کمرے میں آئیے اگر امان کو پتہ چلا کہ تم اس گھر میں آئے ہو۔ توقیامت آجائے گی۔"
"امان؟" ایلی نے دہرایا۔
"ہاں۔ وہ ہمارا عزیز ہے اللہ رکھے بڑی کا منگیتر ہے۔ چھوٹی کی منگنی ابھی نہیں ہوئی امان بڑا جوشیلا ہے۔ پتہ نہیں کیا کردے۔۔۔ آؤ ادھر آجاؤ۔"
جب وہ بغلی دروازے میں داخل ہوا تو قریب ہی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دونوں سادی اور باجی بیٹھی کانا پھوسی کر رہی تھیں۔
"بیٹھ جاؤ بیٹا۔ اب تم سے کیا پردہ ہے۔ بیٹھ جاؤ"
ایلی سر جھکا کر ادب سے بیٹھ گیا۔
سادی نے باجی کے کان میں کہا۔ "دوپٹہ لا دو انہیں باجی۔" اور اس نے جان بوجھ کر ایسی آواز میں کہا کہ ایلی سن لے۔
ایلی خاموش بیٹھارہا اور والدہ سے رسمی باتیں کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔
"دیکھو تو۔" سادی پھر بولی "جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔"
"اب میں کیا کہوں۔" ایلی نے والدہ کو مخاطب کرکے کہا۔
"کیا کہا تم نے میں سمجھی نہیں۔" وہ بولیں۔
"میں نے عرض کیا کہ۔۔۔" ایلی رک گیا۔
"جملہ مکمل کر دو باجی۔" سادی پھر بولی۔
"جملہ نہیں" وہ بولا۔ "۔۔۔۔کہانی۔"
"وہ کیا میں تھوڑا ہی کروں گی۔" سادی قہقہہ مار کر ہنسی۔
"نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔" والدہ بولیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھیں "میں ذرا دیکھوں تو امان تو نہیں آیا۔" یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
"یہ کس مشکل میں ڈال دیا مجھے نہ جی۔" وہ چمک کر بولا۔
"اٹیچی نہ اٹھانے کی سزا بھی تو ملنی چاہیے باجی انہوں نے ضد کرکے سب کچھ کھو دیا۔"
"کھویا تو نہیں پا لیا ہے۔" ایلی نے کہا۔
"اونہوں پا لیا ہے۔" وہ بولی۔ "بڑی ہمت والے تو دیکھو یہ تو مابدولت کی محنت کا نتیجہ ہے۔"
"جی" ایلی نے کہا "مابدولت تو غش کھا کر گرنا جانتے ہیں۔"
وہ قہقہہ مار کر ہنسی "غش نہ کھاتے تو بات نہ بنتی۔"
"میں نے سنا تھا تم بیمار تھیں سادی۔"
"اپنی تو وہی بات ہے کہ فراق یار میں گھل گھل کے بن گئے ہاتھی۔" وہ ہنسے لگی۔
"جھوٹ۔" باجی نے کہا۔
"خاموش باجی۔" سادی اٹھ بیٹھی۔
"دراصل۔۔۔" باجی نے بات کرنے کی کوشش کی۔
"ایک لفظ منہ سے نکالنے کی اجازت نہیں۔" سادی نے کہا "ور کل" وہ ایلی سے مخاطب ہوئی۔
"یوں ٹینس بال پر نگاہیں جما کر بیٹھے رہے جیسے حافظ حلوے پر جمائے رہتے ہیں۔"