پہلا باب: علی پور کا ایلی
ایلی:
اس کا نام الیاس تھا-لیکن گھر میں سبھی اسے ایلی کہا کرتے تھے-“ایلی-------“ اس کے ابا آواز دیتے- ابا کی آواز سن کر اس کا دل دھک سے رہ جاتا-“ایلی-حقہ بھر دو“ وہ چپ چاپ اٹھ بیٹھتا -ابا کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کرایک ساعت کے لیے ہچکچاتا محسوس کرتا کہ اس بند کمرے میں داخل ہونا ٹھیک نہیں-دبی آواز میں کھانسنے کی کوشش کرتا تاکہ کمرے میں موجود لوگ اس کی آمد سے مطلع ہو جا ئیں-لیکن اس کی آواز حلق میں سوکھ جاتی-پھر وہ بڑی کوشش سے چلاتا “ابا جی“ اور جراءت کرکے دروازہ کھولتا لیکن دروازہ کھولنے سے پہلے اپنی نگاہیں جھکا لیتا اور ایسا انداز اختیار کرلیتا- جس سے ظاہر ہو کی حقہ کے علاوہ اسے کمرے کی کسی چیز سے دلچسپی نہیں-کمرے میں ابا کو اکیلے دیکھ کر اس کے دل سے بوجھ اتر جاتا اور وہ بے فکری سے حقہ کی طرف بڑہتا۔
اس کے ابا عام طور پر چٹائی پر بیٹھے ڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے-وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے-ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے پلوؤں کو ادھر ادھر سرکے رہنے کی بری عادت تھی-جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی-“ہوں---کیاہے“- ابا گھور کراس کی طرف یوں دیکھتے جیسے وہ خواہ مخواہ کمرے میں آ گھسا ہو-“جی-جی --- چلم“-ایلی ان کی دھوتی کی طرف نہ دیکھنے کی شدید کوشش کرتے ہوئے جواب دیتا اور پھر چلم اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگتا-
“ ایلی-----“اس کی سوتیلی ماں صفیہ اسے آواز دیتی -“بازار سے سودا لا دے ایلی“-
صفیہ کی آواز سن کر اس کے دل میں غصے کی لہر اٹھتی لیکن اس کے باوجود وہ چلاتا “آیا جی--“-ابا کا ڈیسک خالی دیکھ کر اس کا انداز دفعتاً “بدل جاتا“- “جی“--اس کی آواز میں لجاجت نہ رہتی لیکن اس کے با وجود اس کی نگاہ جھکی جھکی رہتی-“یہ لو پیسے--“ صفیہ کے دو حنا مالیدہ ھاتھ اس کی طرف بڑھتے-جن میں زرد میلی انگوٹھیاں ان کا منہ چڑاتیں اور پھر انگلیوں سے نکل کر وہ گھومتے ہوئے میلے چکر ایلی کی طرف یورش کرتے-وہ ڈر کر گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا-اس کی طبیعت مالش کرنے لگتی نہ جانے کیوں اسے مہندی لگے ہاتھوں اور انگوٹھی سے سخت نفرت تھی- کھولتی ہوئی نفرت وہ اپنی نگاہیں ان ہاتھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتا-لیکن سارا کمرہ مہندی والے ہاتھوں سے بھر جاتا اور وہ انگوٹھیاں تمام جگہ پرچھا جاتیں-مہندی کی بو چاروں طرف سے اسے گھیر لیتی-چاروں طرف غلاظت کے ڈھیر اور ان کے درمیان صفیہ کا سرخ و سپید باوقار چہرہ!