علم سب کیلے

کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں؟
سوال نمبر1
جنت کہاں ہے؟
جواب:
جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے،
کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں،
جبکہ جنت کو فنا نہیں ہے،
وہ ہمیشہ رہے گی،
جنت کی چهت عرش رحمن ہے.
سوال نمبر 2:
جہنم کہاں ہے؟
جواب:
جہنم ساتوں زمین کے نیچے ایسی جگہ ہے
جس کا نام "سجین" ہے.
جہنم جنت کے بازو میں نہیں ہے،جیسا کہ بعض لوگ سوچتے ہیں.
جس زمین پر ہم رہتے ہیں
یہ پہلی زمین ہے،
اس کے علاوہ چھ زمینیں اور ہیں
جو ہماری زمین کے نیچے ہماری زمین سے علیحدہ اور جدا ہیں.
سوال نمبر 3:
سدر ة المنتهی کیا ہے؟
جواب:
سدرة عربی میں بیری /اور بیری کے درخت کو کہتے ہیں،
المنتہی یعنی آخری حد،
یہ بیری کا درخت وہ آخری مقام ہے
جو مخلوقات کی حد ہے.
اس سے آگے حضرت جبرئیل بهی نہیں جا پاتے ہیں.
سدرة المنتهی ایک عظیم الشان درخت ہے،
اس کی جڑیں چهٹے آسمان میں
اور اونچائیاں ساتویں آسمان سے بھی بلند ہیں،
اس کے پتے ہاتهی کے کان جتنے
اور پهل بڑے گهڑے جیسے ہیں،
اس پر سنہری تتلیاں منڈلاتی ہیں ،
یہ درخت جنت سے باہر ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو اسی درخت کے پاس ان کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا تها،
جبکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں پہلی مرتبہ اپنی اصل صورت میں مکہ مکرمہ میں مقام اجیاد پر دیکها تها.
سوال نمبر 4:
حورعین کون ہیں؟
جواب:
حور عین جنت میں مومنین کی بیویاں ہوں گی،
یہ نہ انسان ہیں نہ جن ہیں اور نہ ہی فرشتہ ہیں،
اللہ تعالیٰ نے انہیں مستقل پیدا کیا ہے،
یہ اتنی خوبصورت ہیں کہ اگر دنیا میں ان میں سے کسی ایک کی محض جھلک دکھائی دے جائے،
تو مشرق اور مغرب کے درمیان روشنی ہو جائے.
حور عربی زبان کا لفظ ہے ،
اور حوراء کی جمع ہے،
اس کے معنی ایسی آنکھ جس کی پتلیاں نہایت سیاه ہوں اور اس کے اطراف نہایت سفید ہوں.
اور عین عربی میں عیناء کی جمع ہے
اس کے معنی ہیں بڑی بڑی آنکھوں والی.
سوال 5:
ولدان مخلدون کون ہیں؟
جواب:
یہ اہل جنت کے خادم ہیں،
یہ بهی انسان یا جن یا فرشتے نہیں ہیں،
انہیں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی خدمت کے لئے مستقل پیدا کیا ہے،
یہ ہمیشہ ایک ہی عمر کے یعنی بچے ہی رہیں گے،
اس لیے انہیں "الولدان المخلدون" کہا جاتا ہے.
سب سے کم درجہ کے جنتی کو
دس ہزار ولدان مخلدون عطا ہوں گے.
سوال نمبر 6:
اعراف کیا ہے؟
جواب:
جنت کی چوڑی فصیل کو اعراف کہتے ہیں.
اس پر وہ لوگ ہوں گے
جن کے نیک اعمال اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی،
ایک لمبے عرصہ تک وہ اس پر رہیں گے
اور اللہ سے امید رکهیں گے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جنت میں داخل کردے.
انہیں وہاں بهی کهانے پینے کے لیے دیا جائے گا،
پهر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے جنت میں داخل کردےگا.
سوال نمبر 7:
قیامت کے دن کی مقدار اور لمبائی کتنی ہے؟
جواب:
پچاس ہزار سال كے برابر.
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
*تعرج الملئكة و الروح اليه في يوم كان مقداره خمسين الف سنة.*
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"قیامت کے پچاس موقف ہیں، اور ہر موقف ایک ہزار سال کا ہو گا."
جب آیت
*"یوم تبدل الأرض غیر الأرض و السماوات"*
نازل ہوئی
تو
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ
"یا رسول اللہ جب یہ زمین و آسمان بدل دئیے جائیں گے تب ہم کہاں ہوں گے"؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"تب ہم پل صراط پر ہوں گے.
پل صراط پر سے جب گزر ہوگا
اس وقت صرف تین جگہیں ہوں گی
1.جہنم
2.جنت
3.پل صراط"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"سب سے پہلے میں اور میرے امتی پل صراط کو طے کریں گے."
*پل صراط کی تفصیل*
قیامت میں جب موجودہ آسمان اور زمین بدل دئے جائیں گے
اور پل صراط پر سے گزرنا ہوگا
وہاں صرف دو مقامات ہوں گے
جنت اور جہنم.
جنت تک پہنچنے کے لیے
لازما جہنم کے اوپر سے گزرنا ہوگا.
جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا،
اسی کا نام" الصراط "ہے،
اس سے گزر کر جب اس کے پار پہنچیں گے
وہاں جنت کا دروازہ ہوگا،
وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں گے
اور اہل جنت کا استقبال کریں گے.
یہ پل صراط درج ذیل صفات کا حامل ہو گا:
1- بال سے زیادہ باریک ہوگا.
2- تلوار سے زیادہ تیز ہو گا.
3- سخت اندھیرے میں ہوگا،
اس کے نیچے گہرائیوں میں جہنم بهی نہایت تاریکی میں ہوگی.,
سخت بپهری ہوئی اور غضبناک ہوگی.
4- گناہ گار کے گناہ اس پر سے گزرتے وقت مجسم اس کی پیٹھ پر ہوں گے،
اگر اس کے گناہ زیادہ ہوں گے
تو اس کے بوجھ سے اس کی رفتار ہلکی ہو گی،
اللہ تعالیٰ ہمیں اس صورت سے اپنی پناہ میں رکھے.
اور جو شخص گناہوں سے ہلکا ہوگا
تو اس کی رفتار پل صراط پر تیز ہوگی.
5- اس پل کے اوپر آنکڑے لگے ہوئے ہوں گے
اور نیچے کانٹے لگے ہوں گے
جو قدموں کو زخمی کرکے اسے متاثر کریں گے.
لوگ اپنی بد اعمالیوں کے لحاظ سے اس سے متاثر ہوں گے.
6- جن لوگوں کی بے ایمانی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے پیر پهسل کر وہ جہنم کے گڑهے میں گر رہے ہوں گے
ان کی بلند چیخ پکار سے پل صراط پر دہشت طاری ہو گی.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پل صراط کی دوسری جانب جنت کے دروازے پر کھڑے ہوں گے،
جب تم پل صراط پر پہلا قدم رکھ رہے ہوگے
آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہیں گے"
یا رب سلم، یا رب سلم"
آپ بهی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے درود پڑهئے:
اللهم صل وسلم على الحبيب محمد.
لوگ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے بہت سوں کو پل صراط سے گرتا ہوا دیکھیں گے
اور بہت سوں کو دیکھیں گے
کہ وہ اس سے نجات پا گئے ہیں.
بندہ اپنے والدین کو پل صراط پر دیکهے گا
لیکن ان کی کوئی فکر نہیں کرےگا،
وہاں تو بس ایک ہی فکر ہو گی کہ کسی طرح خود پار ہو جائے.
روایت میں ہے کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قیامت کو یاد کر کے رونے لگیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:
عائشہ کیا بات ہے؟
حضرت عائشہ نے فرمایا: مجهے قیامت یاد آگئی،
یا رسول اللہ کیا ہم وہاں اپنے والدین کو یاد رکهیں گے؟
کیا وہاں ہم اپنے محبوب لوگوں کو یاد رکھیں گے؟
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ہاں یاد رکھیں گے،
لیکن وہاں تین مقامات ایسے ہوں گے
جہاں کوئی یاد نہیں رہے گا
.(1) جب کسی کے اعمال تولے جائیں گے
(2) جب نامہ اعمال دیئے جائیں گے
(3) جب پل صراط پر ہوں گے.
دنیاوی فتنوں کے مقابلے میں حق پر جمے رہو.
دنیاوی فتنے تو سراب ہیں.
ان کے مقابلہ میں ہمیں مجاہدہ کرنا چاہیے،
اور ہر ایک کو دوسرے کی جنت حاصل کرنے پر مدد کرنا چاہئے
جس کی وسعت آسمانوں اور زمین سے بهی بڑهی ہوئی ہے.
اس پیغام کو آگے بڑهاتے ہوئے صدقہ جاریہ کی نیت کرنا نہ بهولیں.
یا اللہ ہمیں ان خوش نصیبوں میں کردیجئے
جو پل صراط کو آسانی سے پار کر لیں گے.
اے پروردگار ہمارے لئے حسن خاتمہ کا فیصلہ فرمائیے. آمین
اس تفصیل کے بعد بھی کیا گمان ہے کہ
وہاں کوئی رشتہ داریاں نبھائے گا،
جس کے لئے تم یہاں اپنے اعمال برباد کر رہے ہو؟
مخلوق کے بجائے خالق کی فکر کرو.
اپنے نفس کی فکر کرو
کتنی عمر گزر چکی ہے اور کتنی باقی ہے
کیا اب بهی لا پرواہی اور عیش کی گنجائش ہے؟
اس پیغام کو دوسروں تک بهی پہنچائیں.
 
سات آسمان کیا ہیں؟
سات آسمان
اور
سات زمین :
قرآن مقدس میں جس طرح سات آسمان کا ذکر ہے اسی طرح سات زمین کا بھی ذکر ہے قرآن کا اعلان ہے اللہ الذی خلق سبع سماوات ومن الارض مثلھن (الطلاق ١٢)
اللہ ہی سات آسمان اور اسی طرح سات زمین بھی بنایا اس آیت کی تفسیر ملاحظہ ہو :
1۔ کنزالایمان کے حاشیہ پر تفسیر نورالعرفان میں مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ زمینیں سات ہیں یا تو سات ولایتیں ہیں جنہیں ہفت اقلیم کہا جاتاہے یا سات طبقے لیکن چونکہ یہ تمام طبقے مٹی کے ہیں اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کریم میں ارض کو واحد فرمایا جاتا ہے آسمان مختلف چیزوں کے ہیں اور ایک دوسرے سے دور لہذا انہیں سماوات جمع فرمایا جاتا ہے۔
2۔ تیسیر القرآن کے حاشیہ پر حافظ عتیق الرحمن کیلانی فرماتے ہیں لغوی طور پہ یہ سماءاور ارض اسمائے نسبیہ ہیں یعنی بلندی کا نام سماءاور پستی کا نام ارض گویا اس لحاظ سے پہلا آسمان دوسرے آسمان کے لحاظ سے ارض ہوا اس طرح سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہی ہوئیں دوسرا مفہوم یہی ہوسکتا ہے کہ ہماری زمین جیسی اور بھی زمینں ہوں اور وہاں کسی جاندار مخلوق کی آبادی بھی ہو جدید سائنسی تحقیقات میں ایسے کئی سیاروں کا سراغ لگایا گیا ہے جہاں طبعی حالات ہماری زمین جیسے ہیں اور جہاں جاندار مخلوق کے پائے جانے کا امکان بھی ہے ۔ واللہ اعلم
3۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں اس آیت سے اتنی بات تو واضح طور پر ثابت ہے کہ جس طرح آسمان سات ہیں ایسی ہی زمینیں بھی سات ہیں اس لئے اسلم صورت یہ ہے کہ بس اس پر ایمان لائیں اور یقین کریں کہ زمینیں بھی آسمانوں کی طرح سات ہی ہیں اور سب کو اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمایا ہے۔
4۔ مطلب یہ کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بنائے ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں اور زمین کی قسم سے کا مطلب ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں اپنی موجودات کے لئے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالی نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لئے فرش اور گہوارہ ہے ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈ کارپوریشن نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریبا 40 کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں اور امکان ہے کہ انکےاندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو(اکانومسٹ لندن مورخہ ٢٦ جولائی)
5۔ موضح القرآن میں مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں یعنی زمینیں بھی سات پیدا کیں جیسا کہ ترمذی وغیرہ کی احادیث میں ہے ان میں احتمال ہے کہ نظر نہ آتی ہوں اور احتمال ہے کہ نظر آتی ہوں مگر لوگ ان کو کواکب سمجھتے ہوں جیسا کہ مریخ وغیرہ کی نسبت آج کل حکماءیوروپ کا گمان ہے کہ اس میں پہاڑ دریا اور آبادیاں ہیں۔
6۔ دعوة القرآن میں مولانا شمس پیر زادہ رقمطراز ہیں یہ کائنات اس آسمان اور اس زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پہلا آسمان ہے جسے ہم اپنے اوپر دیکھ رہے ہیں اس طرح سات آسمان اللہ نے بنائے ہیں اور جس طرح آسمان دنیا کے نیچے زمین ہے اسی طرح دوسرے آسمانوں کے نیچے بھی زمینیں ہیں لیکن یہ زمینیں ہماری زمین سے کا فی مختلف ہیں اور سائنس کی رسائی اس خول سے باہر نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں یعنی یہ زمین اور اس کے اوپر کا پہلا آسمان مرغی کا چوزہ جب تک انڈے کے اندر رہتا ہے اس کے لئے دنیا وہی ہوتی ہے وہ جب اس خول سے باہر آتا ہے تو ایک وسیع دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے اسی ہم اس زمین وآسمان کے خول میں بند ہیں لیکن اللہ کی کائنات اس حد تک محدود نہیں ہے وحی الہی نے ہم پر اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ وہ نہایت وسیع ہے یکے بعد دیگرے ایسے سات عالم ہیں۔
اہم بات :
قرآن اپنی حقانیت کے اثبات کے لئے سائنس کا محتاج نہیں ہے سائنس تو صرف حقائق پر سے پردہ اٹھانے کا کام کر رہا ہے ویسے ابھی تکسائنس کی پہنچ آسمان دنیا تک بھی نہیں ہوئی ہے انشاءاللہ آئندہ سائنس بھی ثابت کرے گا کہ آسمان کی طرح سات زمینیں بھی ہیں۔
خلاصۂ کلام :
احادیث سے اس کا مطلب یہ معلام ہوتا ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں۔ البتہ ان کی کوئی تفصیل قرآن و حدیث نے نہیں بتائی کہ یہ سات زمینیں تہ بہ تہ ہیں، یا ان کے درمیان فاصلہ ہے، اور اگر فاصلہ ہے تو وہ کہاں واقع ہے ؟
کائنات کی بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن تک ابھی انسان کے علم کی رسائی نہیں ہوئی اللہ تعالٰی ہی ان کی حقیقت جانتا ہے۔ اور قرآن کے مقصد کے لئے یہ ساری تفصیلات جاننا ضروری بھی نہیں ہے۔ آیت کا اصل مقصد یہ ہے کہ کائنات کے ان حقائق سے اللہ تعالٰی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر ایمان لانا ہی عقل سلیم کا تقاضا ہے ۔
(آسان ترجمہ قرآن صفحہ 1726 ’’مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم‘‘)
 
Top