اقتباسات علمِ طریق آخرت۔ علمِ مکاشفہ۔۔۔ (امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ)

الشفاء

لائبریرین
علمِ طریق آخرت کی دو قسمیں ہیں۔ علمِ مکاشفہ اور علمِ معاملہ۔۔۔
علمِ مکاشفہ۔
اس علم کا نام علمِ باطن بھی ہے۔ یہ علم دوسرے علوم کی غائت اور منتہا ہے۔ بعض عارفین نے لکھا ہے کہ ہمیں اس شخص کے سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے جو اس علم سے بہرہ ور نہیں ہوا یا اس کا کوئی حصہ اسے نہیں ملا۔ اس علم کا کم سے کم حصہ یہ ہے کہ اس کی صداقت وحقانیت کا اعتراف کیا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ جو لوگ اس کے اہل ہیں انہیں یہ علم حاصل ہے۔ ایک اور صاحب علم کا قول ہے کہ مبتدع اور متکبر کو یہ علم حاصل نہ ہوگا چاہے اسے دوسرے تمام علوم میں ید طولٰی حاصل ہوجائے۔ سب سے ہلکا عذاب اس شخص کے لئے یہی ہے کہ اسے اس علم میں کچھ نہیں ملتا حالانکہ یہ علم صدیقین اور مقربین کا علم ہے۔۔۔
اللہ عزوجل کی لقاء اور اس کی ذات کریم کو دیکھنے کے معنی ، اس کی قربت ، اس کے پڑوس میں رہنے ، ملاء اعلٰی اور ملائکہ کی قربت کا شرف حاصل ہونے کا مفہوم بھی اسی نور سے منکشف ہو گا۔ جنت میں رہنے والوں کے درجات میں اس قدر فرق ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کو اس طرح دیکھیں گے جیسے ہم آسمان میں چمکتے ستارے دیکھتے ہیں۔ اس فرق کے معنی کیا ہیں ، اس سوال کا جواب بھی اسی نور کی روشنی میں ملے گا۔ اور ان جیسے لاتعداد مسائل ایسے ہیں جن کی لوگ تصدیق کرتے ہیں ، ان پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کے بیان میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔۔۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ سب مثالیں ہیں۔ اللہ عزوجل نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو چیزیں تیار کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ نہ انہیں کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کانوں نے سنا ہے اور نہ ہی کسی کے دل میں ان کا تصور ہی پیدا ہوا ہے۔ یہ صرف نام ہیں یا اوصاف ، جو مخلوق کو سمجھانے کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔۔۔
علم مکاشفہ سے ہم وہی علم مراد لے رہے ہیں جس کی مدد سے یہ امور منکشف ہو جائیں اور حق واضح ہو جائے۔ اتنا واضح گویا آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا رہا ہو، شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ انسان کے جوہر میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہے جب کہ اس کے آئینہ خانہ دل پر دنیاوی آلائشوں کے زنگ کی تہیں نہ جمی ہوئی ہوں۔۔۔ علم طریق آخرت سے ہم یہی مراد لیتے ہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ آئینہ دل سے ان آلائشوں کا زنگ اس طرح صیقل کیا جاتا ہے جو اللہ عزوجل کی ذات ، صفات اور افعال کی معرفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ دل کا آئینہ اسی وقت صاف شفاف ہو سکتا ہے جب انسان شہوتوں سے باز رہے اور ہر معاملے میں انبیاء علیہم السلام کی اتباع کرے۔ اس تدبیر سے جس قدر اس کا دل روشن اور صاف ہوتا جائے گا اسی اعتبار سے امر حق اس پر واضح ہوتا رہے گا۔ اور حقائق روشن ہوتے رہیں گے۔ مگر اس عمل کے لیے بھی ریاضت اور تعلیم ضروری ہے۔ اس ریاضت کی تفصیل ہم کسی اور موقع پر بیان کریں گے۔ یہ وہ علم ہے جو کتابوں میں نہیں لکھا جاتا۔ جس شخص کو اللہ عزوجل اس علم کا کچھ حصہ عطا کر دیتا ہے وہ اس کا ذکر دوسروں سے نہیں کرتا البتہ ان سے ضرور کر دیتا ہے جو اس کے اہل ہوں۔ وہ اس کے شریک راز ہوتے ہیں۔ یہ وہی علم باطن ہے جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے اس ارشاد گرامی کی مراد ہے کہ
"بعض علوم ہیئت مکنون کی طرح ہیں۔ جنہیں صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو اللہ عزوجل کی معرفت رکھتے ہیں۔ جب وہ ان علوم کا اظہار کرتے ہیں تو صرف وہی لوگ نہیں سمجھ پاتے جو اللہ عزوجل کی نسبت مغالطے میں مبتلا ہیں۔ جس عالم کو اللہ عزوجل نے اس کا علم دیا ہو اس کو حقیر مت سمجھو ، اس لیے کہ اللہ عزوجل نے بھی اس کو حقیر نہیں سمجھا کیونکہ اس کو وہ علم عطا فرمایا ہے"۔۔۔
(احیاء العلوم الدین۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ۔)
 
Top