علامہ دہشتناک : صفحہ 94-95 : چوالیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


10ej0uq.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔!“
”ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔!“
”لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آپہنچے تھے۔ ۔ ۔ ۔!“
”فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا۔ ۔ ۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔!“
”تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔ ۔ ۔!“
”حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے! بہر حال پہلے وہ اسٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دئیے تھے۔!“
”میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی!“ جو زف نے کہا” صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہین بلیک میلر سمجھتا ہے تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔ ۔ ۔ !“
”یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے۔!“
”انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔!“
”اور خاصی خوفناک شکل والا ہے۔ کوئی خونخوار قسم کا ہپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔!“
”تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے۔
”نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن شائد جلدہی دیکھ سکوں۔!“
”محتاط رہنا باس ۔ ۔ ۔ بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔!“
”فکر نہ کرو۔ ۔ ۔ ۔!“
”اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے ۔ ۔ ۔ !“
”نہیں۔ ۔ ۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے۔! اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے۔“
”خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔!“
”ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اسلحے کا ذحیرہ ملا ہے۔ ۔ ۔ !“
جو زف خاموش ہو کر چھپ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔ ۔ ۔ !
”بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک ۔ ۔ ۔ !“عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
”لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہوگا۔!“
”کیوں شامت آئی ہے ۔ ۔۔ ہسپتال میں پئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔!“
”یہ نہیں ہو سکتا باس۔ ۔ ۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔“
”یہان ناممکن ہے۔ ۔ ۔ بکواس مت کرو۔“
”خدا کے لئے باس۔!“
”میں کچھ نہیں کر سکتا ۔!“ کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہان کے دوران قیام مین شراب نہیں ملے گی۔! قریباََ آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیاتھا۔
”آہا ٹم ڈونوں ۔ ۔ ۔!“ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
”بیٹھ جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔“ سلیمان بُرا سامنہ بناکر بولا۔ سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے۔ کہین باورچی لگوادون گا۔ ۔ ۔ ایسے کامون میں تو یہی ہوتا ہے۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بناپڑاہوتا۔!“
”چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے۔ ۔ ۔ !“ گلرخ بگڑگئی۔
”چوپ ۔ ۔ چوپ ۔ ۔ یہاں نہیں لریگا ٹم ڈونوں۔“ جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گلرخ نے قریباََ ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل

”ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔!“
”ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔!“
”لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آپہنچے تھے۔۔۔۔!“
”فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا ۔۔۔۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔!“
”تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔۔۔۔!“
”حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے! بہر حال پہلے وہ اسٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دئیے تھے۔!“
”میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی!“ جو زف نے کہا ”صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہیں بلیک میلر سمجھتا ہے تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔۔۔۔!“
”یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے۔!“
”انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔!“
”اور خاصی خوفناک شکل والا ہے۔ کوئی خونخوار قسم کا ہپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔!“
”تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے۔"
”نہیں ۔۔۔۔ لیکن شائد جلد ہی دیکھ سکوں۔!“
”محتاط رہنا باس ۔۔۔۔ بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔!“
”فکر نہ کرو۔۔۔۔!“
”اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے ۔۔۔۔!“
”نہیں۔۔۔۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے۔“
”خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔!“
”ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں اسلحے کا ذخیرہ ملا ہے۔۔۔۔!“
جو زف خاموش ہو کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔!
”بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک ۔۔۔۔!“عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
”لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہوگا۔!“
”کیوں شامت آئی ہے ۔۔۔۔ ہسپتال میں پئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔!“
”یہ نہیں ہو سکتا باس۔۔۔۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔“
”یہاں ناممکن ہے۔۔۔۔ بکواس مت کرو۔“
”خدا کے لئے باس۔!“
”میں کچھ نہیں کر سکتا۔!“ کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہاں کے دوران قیام مین شراب نہیں ملے گی۔! قریباََ آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیا تھا۔
”آہا ٹم ڈونوں ۔۔۔۔!“ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
”بیٹھ جائیں گے۔۔۔۔!“ سلیمان بُرا سا منہ بنا کر بولا۔ سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے۔ کہیں باورچی لگوا دوں گا ۔۔۔۔ ایسے کاموں میں تو یہی ہوتا ہے۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بنا پڑا ہوتا۔!“
”چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے۔۔۔۔!“ گلرخ بگڑگئی۔
”چوپ ۔۔۔۔ چوپ ۔۔۔۔ یہاں نہیں لریگا ٹم ڈونوں۔“ جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گلرخ نے قریباََ ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




چوالیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

چوالیسواں : 94 - 95 | ٹیم 3 | خرم شہزاد خرم | ابو کاشان | ----- | ---- | 60 %







 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ



"ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔"
"ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔"
"لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آ پہنچے تھے۔۔۔۔؟"
"فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا ۔۔۔۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔"
"تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔۔۔۔؟"
"حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے" بہر حال پہلے وہ سٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دیئے تھے۔"
"میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی" جو زف نے کہا "صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہیں بلیک میلر سمجھتا ہے۔ تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔۔۔۔"
"یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے۔"
"انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔"
"اور خاصی خوفناک شکل والا ہے۔ کوئی خونخوار قسم کا ہیپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔"
"تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے؟"
"نہیں ۔۔۔۔ لیکن شائد جلد ہی دیکھ سکوں۔"
"محتاط رہنا باس ۔۔۔۔ بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔"
"فکر نہ کرو۔۔۔۔"
"اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے ۔۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے۔"
"خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔"
"ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں اسلحے کا ذخیرہ ملا ہے۔۔۔۔"
جوزف خاموش ہو کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔"
"بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک ۔۔۔۔" عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
"لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہوگا؟"
"کیوں شامت آئی ہے ۔۔۔۔ ہسپتال میں پیئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔"
"یہ نہیں ہو سکتا باس۔۔۔۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔"
"یہاں ناممکن ہے۔۔۔۔ بکواس مت کرو۔"
"خدا کے لئے باس۔"
"میں کچھ نہیں کر سکتا۔" کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہاں کے دوران قیام میں شراب نہیں ملے گی۔" قریباََ آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیا تھا۔
"آہا ٹم ڈونوں ۔۔۔۔؟" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"بیٹھ جائیں گے۔۔۔۔" سلیمان بُرا سا منہ بنا کر بولا۔ "سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے۔ کہیں باورچی لگوا دوں گا ۔۔۔۔ ایسے کاموں میں تو یہی ہوتا ہے۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بنا پڑا ہوتا۔"
"چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے۔۔۔۔" گل رخ بگڑگئی۔
"چوپ ۔۔۔۔ چوپ ۔۔۔۔ یہاں نہیں لڑے گا ٹم ڈونوں۔" جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گل رخ نے قریباََ ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

"ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔"
"ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔"
"لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آ پہنچے تھے ۔۔۔۔؟"
"فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا ۔۔۔۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔"
"تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔۔۔۔؟"
"حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے " بہر حال پہلے وہ سٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دیئے تھے ۔"
"میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی" جو زف نے کہا "صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہیں بلیک میلر سمجھتا ہے ۔ تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔۔۔۔"
"یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے ۔"
"انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔"
"اور خاصی خوفناک شکل والا ہے ۔ کوئی خونخوار قسم کا ہیپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔"
"تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے ؟"
"نہیں ۔۔۔۔ لیکن شاید جلد ہی دیکھ سکوں۔"
"محتاط رہنا باس ۔۔۔۔ بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے ۔"
"فکر نہ کرو۔۔۔۔"
"اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے ۔۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے ۔"
"خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔"
"ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں اسلحے کا ذخیرہ ملا ہے ۔۔۔۔"
جوزف خاموش ہو کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔"
"بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک ۔۔۔۔" عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
"لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہو گا؟"
"کیوں شامت آئی ہے ۔۔۔۔ ہسپتال میں پئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے ۔"
"یہ نہیں ہو سکتا باس۔۔۔۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔"
"یہاں ناممکن ہے ۔۔۔۔ بکواس مت کرو۔"
"خدا کے لئے باس۔"
"میں کچھ نہیں کر سکتا۔" کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہاں کے دوران قیام میں شراب نہیں ملے گی۔" قریباً آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیا تھا۔
"آہا ٹم ڈونوں ۔۔۔۔؟" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"بیٹھ جائیں گے ۔۔۔۔" سلیمان بُرا سا منہ بنا کر بولا۔ "سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے ۔ کہیں باورچی لگوا دوں گا ۔۔۔۔ ایسے کاموں میں تو یہی ہوتا ہے ۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بنا پڑا ہوتا۔"
"چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے ۔۔۔۔" گل رخ بگڑ گئی۔
"چوپ ۔۔۔۔ چوپ ۔۔۔۔ یہاں نہیں لڑے گا ٹم ڈونوں۔" جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گل رخ نے قریباً ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

"ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔"
"ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔"
"لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آ پہنچے تھے ۔۔۔۔؟"
"فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا ۔۔۔۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔"
"تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔۔۔۔؟"
"حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے " بہر حال پہلے وہ سٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دیئے تھے ۔"
"میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی" جو زف نے کہا "صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہیں بلیک میلر سمجھتا ہے ۔ تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔۔۔۔"
"یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے ۔"
"انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔"
"اور خاصی خوفناک شکل والا ہے ۔ کوئی خونخوار قسم کا ہیپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔"
"تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے ؟"
"نہیں ۔۔۔۔ لیکن شاید جلد ہی دیکھ سکوں۔"
"محتاط رہنا باس ۔۔۔۔ بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے ۔"
"فکر نہ کرو۔۔۔۔"
"اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے ۔۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے ۔"
"خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔"
"ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں اسلحے کا ذخیرہ ملا ہے ۔۔۔۔"
جوزف خاموش ہو کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔"
"بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک ۔۔۔۔" عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
"لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہو گا؟"
"کیوں شامت آئی ہے ۔۔۔۔ ہسپتال میں پئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے ۔"
"یہ نہیں ہو سکتا باس۔۔۔۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔"
"یہاں ناممکن ہے ۔۔۔۔ بکواس مت کرو۔"
"خدا کے لئے باس۔"
"میں کچھ نہیں کر سکتا۔" کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہاں کے دوران قیام میں شراب نہیں ملے گی۔" قریباً آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیا تھا۔
"آہا ٹم ڈونوں ۔۔۔۔؟" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"بیٹھ جائیں گے ۔۔۔۔" سلیمان بُرا سا منہ بنا کر بولا۔ "سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے ۔ کہیں باورچی لگوا دوں گا ۔۔۔۔ ایسے کاموں میں تو یہی ہوتا ہے ۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بنا پڑا ہوتا۔"
"چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے ۔۔۔۔" گل رخ بگڑ گئی۔
"چوپ ۔۔۔۔ چوپ ۔۔۔۔ یہاں نہیں لڑے گا ٹم ڈونوں۔" جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گل رخ نے قریباً ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top