علامہ دہشتناک : صفحہ 90-91 : بیالیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



2w6ujpt.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

شکاری

محفلین
خرم بھائی دو صفحے آپ کے نام کردیئے ہیں اور وہاں لکھ بھی دیا ہے۔
چیک پی ایم
یہ صفحہ میں ہی ٹائیپ کررہا ہوں۔
 

شکاری

محفلین
صفحہ 90-91
“سنو بھائی اگرمجھے علم بھی ہوتا تومقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔“
“تم شائد زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو۔!“
“میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔“ جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
“ہاں دوسرا۔!“
“ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔!“
“وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے۔!“
میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہوتو مجھے علم نہیں۔!“
“تمہاری حثیت کیا ہے۔!“
“میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔!“
“اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔!“
“نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔!“
“اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے۔!“
“میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔!“
“کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے۔!“
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔“تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔!“
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر اسٹین گن کے فائر ہوئے تھے۔ جوزف نے جھر جھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھمادھم چھت پر کودے ہوں۔

اسٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ریولوروں کے بھی فائر سنائی دیئے۔ اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی۔ جس نے اس کے ہولسڑ سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
“خبردار۔۔۔۔خبردار۔۔۔۔!“ پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کرچکا تھا نلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ “ُپستول زمین پر ڈال دو۔!“
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ اسٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے او ر نہ کسی اور قسم کی آواز ۔۔۔۔!
“کیا تم نے سنا نہیں۔۔۔۔!“ جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
“پھپھ۔۔۔۔۔پھینک دو پستول۔۔۔۔“ شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھادیئے تھے۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔ اور یہاں کی سچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
“سنبھل کر مسڑ صفدر۔۔۔۔!“ جوزف نے دانت نکال دیئے۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جاٹکرایا۔
“اسٹین گن کس نے چلائی تھی!“ صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
“ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔!“ جوزف بولا۔! “کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا۔ اسی کے پاس اسٹین گن تھی۔!“
“انہیں لے چلنا ہے!“ صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔!
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔
“کیا تم تنہا ہو مسڑ !“ جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
“نہیں۔ چلو نکلو جلدی۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔!“
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل

صفحہ 90-91
“سنو بھائی اگرمجھے علم بھی ہوتا تومقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔“
“تم شائد زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو۔!“
“میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔“ جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
“ہاں دوسرا۔!“
“ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔!“
“وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے۔!“
میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہوتو مجھے علم نہیں۔!“
“تمہاری حثیت کیا ہے۔!“
“میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔!“
“اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔!“
“نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔!“
“اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے۔!“
“میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔!“
“کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے۔!“
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔“تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔!“
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر اسٹین گن کے فائر ہوئے تھے۔ جوزف نے جھر جھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھمادھم چھت پر کودے ہوں۔

اسٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ریولوروں کے بھی فائر سنائی دیئے۔ اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی۔ جس نے اس کے ہولسڑ سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
“خبردار۔۔۔۔خبردار۔۔۔۔!“ پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کرچکا تھا نلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ “ُپستول زمین پر ڈال دو۔!“
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ اسٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے او ر نہ کسی اور قسم کی آواز ۔۔۔۔!
“کیا تم نے سنا نہیں۔۔۔۔!“ جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
“پھپھ۔۔۔۔۔پھینک دو پستول۔۔۔۔“ شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھادیئے تھے۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔ اور یہاں کی سچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
“سنبھل کر مسڑ صفدر۔۔۔۔!“ جوزف نے دانت نکال دیئے۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جاٹکرایا۔
“اسٹین گن کس نے چلائی تھی!“ صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
“ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔!“ جوزف بولا۔! “کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا۔ اسی کے پاس اسٹین گن تھی۔!“
“انہیں لے چلنا ہے!“ صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔!
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔
“کیا تم تنہا ہو مسڑ !“ جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
“نہیں۔ چلو نکلو جلدی۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔!“
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا

“سنو بھائی اگر مجھے علم بھی ہوتا تومقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔“
“تم شائد زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو۔!“
“میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔“ جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
“ہاں دوسرا۔!“
“ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔!“
“وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے۔!“
میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہوتو مجھے علم نہیں۔!“
“تمہاری حثیت کیا ہے۔!“
“میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔!“
“اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔!“
“نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔!“
“اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے۔!“
“میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔!“
“کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے۔!“
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔“تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔!“
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر اسٹین گن کے فائر ہوئے تھے۔ جوزف نے جھر جھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھما دھم چھت پر کودے ہوں۔

اسٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ ریولوروں کے بھی فائر سنائی دیئے۔ اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی۔ جس نے اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
“خبردار۔۔۔۔ خبردار۔۔۔۔!“ پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کرچکا تھا بلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ “ُپستول زمین پر ڈال دو۔!“
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ اسٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے او ر نہ کسی اور قسم کی آواز ۔۔۔۔!
“کیا تم نے سنا نہیں ۔۔۔۔!“ جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
“پھپھ۔۔۔۔۔ پھینک دو پستول ۔۔۔۔“ شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اور یہاں کی سچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
“سنبھل کر مسڑ صفدر ۔۔۔۔!“ جوزف نے دانت نکال دیئے۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جا ٹکرایا۔
“اسٹین گن کس نے چلائی تھی!“ صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
“ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔!“ جوزف بولا۔! “کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا۔ اسی کے پاس اسٹین گن تھی۔!“
“انہیں لے چلنا ہے!“ صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔!
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔
“کیا تم تنہا ہو مسڑ !“ جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
“نہیں۔ چلو نکلو جلدی ۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔!“
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




بیالیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

بیالیسواں : 90 - 91 | ٹیم 3 | شکاری | ابو کاشان | ----- | ---- | 60 %







 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ


وہ عمارت سے نکل آئے تھے۔ عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھا لایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔
"ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔" شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔ "ہیڈ کوارٹر۔"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب" شہزاد چونک پڑا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔" عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ "پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔"
"تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔"
"تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔"
"لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔"
"باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے۔۔۔۔ باپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی؟"
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
"میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے۔" عمران نے پھر سوال کیا۔
"زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے۔" شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
"کیسی حماقت؟"
"مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔"
"میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔"
شہزاد خاموش رہا۔
"البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔" عمران ہی بولتا رہا۔ "بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔"
"صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟"
"تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے حماقت ہی سرزد ہوئی ہے۔"
"مجھے اعتراف ہے۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔ تم نے دام بڑھا دیئے۔"
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے؟" عمران نے سوال کیا۔
"کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔"
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب سے گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کے کان جھنجھنا اٹھے تھے۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔ صفدر نے پورے بریک لگائے۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
"احمق۔" عمران دھاڑا۔ "چلو ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔"
"کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔" صفدر ہکلایا۔
"فائر کر گیا ہے۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔"
صفدر نے ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نے چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر سپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔
"اور تیز۔۔۔۔" عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
"پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔ تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔"
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔
"باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔" عمران نے صفدر سے کہا۔ "اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔"
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

سنو بھائی! اگر مجھے علم بھی ہوتا تو مقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔"
"تم شاید زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو؟"
"میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں: ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔" جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔
"ہاں دوسرا؟"
"ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔"
"وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے ؟"
"میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے ، کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہو تو مجھے علم نہیں۔"
"تمہاری حیثیت کیا ہے ؟"
"میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔"
"اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟"
"نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔"
"اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے ؟"
"میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔"
"کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے ۔"
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔ "تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔"
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر سٹین گن کے فائر ہوئے تھے ۔ جوزف نے جھرجھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے ۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھما دھم چھت پر کودے ہوں۔

سٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ ریوالوروں کے بھی فائر سنائی دیئے اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی جس نے اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
"خبردار۔۔۔۔ خبردار۔۔۔۔" پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کر چکا تھا بلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ "پستول زمین پر ڈال دو۔"
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ سٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے اور نہ کسی اور قسم کی آواز ۔۔۔۔
"کیا تم نے سنا نہیں ۔۔۔۔؟" جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
"پھپھ۔۔۔۔۔ پھینک دو پستول ۔۔۔۔" شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے ۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اور یہاں کی سیچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
"سنبھل کر مسڑ صفدر ۔۔۔۔" جوزف نے دانت نکال دیئے ۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جا ٹکرایا۔
"سٹین گن کس نے چلائی تھی؟" صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
"ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔ "جوزف بولا۔ "کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا؟ اسی کے پاس سٹین گن تھی۔"
"انہیں لے چلنا ہے " صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے ۔
"کیا تم تنہا ہو مسڑ " جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
"نہیں۔ چلو نکلو جلدی ۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔"
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے ۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

سنو بھائی! اگر مجھے علم بھی ہوتا تو مقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔"
"تم شاید زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو؟"
"میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں: ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔" جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔
"ہاں دوسرا؟"
"ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔"
"وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے ؟"
"میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے ، کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہو تو مجھے علم نہیں۔"
"تمہاری حیثیت کیا ہے ؟"
"میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔"
"اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟"
"نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔"
"اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے ؟"
"میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔"
"کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے ۔"
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔ "تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔"
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر سٹین گن کے فائر ہوئے تھے ۔ جوزف نے جھرجھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے ۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھما دھم چھت پر کودے ہوں۔

سٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ ریوالوروں کے بھی فائر سنائی دیئے اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی جس نے اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
"خبردار۔۔۔۔ خبردار۔۔۔۔" پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کر چکا تھا بلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ "پستول زمین پر ڈال دو۔"
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ سٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے اور نہ کسی اور قسم کی آواز ۔۔۔۔
"کیا تم نے سنا نہیں ۔۔۔۔؟" جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
"پھپھ۔۔۔۔۔ پھینک دو پستول ۔۔۔۔" شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے ۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اور یہاں کی سیچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
"سنبھل کر مسڑ صفدر ۔۔۔۔" جوزف نے دانت نکال دیئے ۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جا ٹکرایا۔
"سٹین گن کس نے چلائی تھی؟" صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
"ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔ "جوزف بولا۔ "کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا؟ اسی کے پاس سٹین گن تھی۔"
"انہیں لے چلنا ہے " صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے ۔
"کیا تم تنہا ہو مسڑ " جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
"نہیں۔ چلو نکلو جلدی ۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔"
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے ۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا
 

الف عین

لائبریرین
جوجو۔۔ تم نے غلط صفحہ پوسٹ کر دیا ہے۔ میں نے ابھی چیک کیا تو میں ہی درست نکلا۔۔ خیر
اطلاع دے دوں کہ جوجو نے دوسری بار پروف دیکھ ر مجھے ای میل کر دئےتھے اور میں نے یہ ایک اور بار دیکھ لیا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top