علامہ دہشتناک : صفحہ 88-89 : اکتالیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


23h6c5k.jpg


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”اب ہاتھ اٹھالو اُوپر۔ یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔!“پستول والے نے کہا۔
”مجھے کوئی اعتراج نہیں۔!“جوزف ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔!“ لیکن ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے گھنٹوں ہاتھ اٹھائے رہ سکتا ہوں۔!“
”دائین مڑو ۔ ۔ ۔ اور چل پڑو۔ ۔ ۔ ۔!“
”مجھے بات تو پوری کرلینے دو۔میں یہ کنا چاہتا تھا کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر چلنے میں مجھے دشوری ہوتی ہے۔ اگر گر پڑا تو خواہ مخواہ تمہیں دشواری ہوگی۔“
”چلو۔!“ وہ دھاڑا۔ اور جوزف سال سوا سال کے کسی بچے کے انداز مین لڑکھڑاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اور پھر سچ مچ گر ہی پڑا ہوتا۔ اگر پستوٌ والے نے آگے بڑھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے سہارا نہ دیا ہوتا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ جوزف نے پلٹ کر اس کے پستول پر ہاتھ ڈال دیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے اسٹین گن کا قہقہہ سنا تھا۔ اور اس کے قریب ہی زمین سے دھول کا مرغولہ فضا میں بلند ہونے لگاتھا۔ ۔ ۔ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر اس نے پھر ہاتھ اٹھا دیئے۔
صدر دروازے کے قریب ایک تاریخ ہیولیٰ اسٹین گن سنبھالے کھڑا تھا۔
جوزف ہاتھ اٹھائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
”اندر چلو۔ ۔ ۔ ! پستول والے نے اسے دھکا دیا۔وہ چل پڑاتھا۔ لیکن چال میں پہلے ہی کی سی لڑکھڑاہت تھی۔!
جوزف کو ایک کمرے میں لایا گیا۔ جہاں تین بڑے کیرو سین لیمپ روشن تھے۔
وہ چند ھیائی ہوئی سی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔!
اسٹین گن والا ساتھ نہیں آیاتھا۔! جوزف نے ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھایا تھا ۔ جو اسے یہاں تک لائے تھے
”کیا بات ہے ۔!“ پستول والے نے غصیلے لیجے میں‌کہا۔ ” اپنے ہاتھ اہپر اٹھائے رکھو۔“
پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہاتھا کہ وہ جوزف کے ہو لسٹر سے ریوالور نکال لے۔ ۔ ۔
جوزف نے بے چون و چرا اسے ریوالور نکالنے دیا تھا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ آدمی غافل نہ ہوگا۔ جس نے اسٹین گن سے فائر کئے تھے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”نھائی۔!“ دفعتاََ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔!”تم سمجھتے ہو گے کہ شائد میں نے تم سے پستول چپھٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا۔!“
”کیا کہنا چاہتے ہو۔ ۔ ۔ ۔!“
”پینے کو کچھ ہو تو لاؤ۔ ۔ ۔ میرے نشہ اکھڑ رہا ہے۔!“
”کیا تم اسے کوئی سوشل وزٹ سمجھتے ہو۔!“ پستول والا ہنس کر بولا۔
”میں سر سے کچھ سمجھتا ہی نہیں۔! یہ تو اب تم لوگ سمجھاؤ گے کہ اس تکلیف دہی کا مقصد کیا ہے؟“
”وہ ساتوں کہاں ہیں۔!“ کسی نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔جوزف بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔
”کیا مجھ سے کچھ پوچھا جارہا ہے۔!“ جوزف نے راز دارانہ انداز میں پوستول والے سے سوال کیا۔
”ہاں ۔ ۔ ۔جواب دو ۔!“ پستول والا بولا۔
”کن ساتوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔ میں کچھ نہیں سمجھا۔!“
”وہ ساتوں طالب علم جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔!“
”یقین کرو۔ ۔ ۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔!“
”اچھی بات ہے ۔ ۔ تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔!“ نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔!
”لیکن میں خواہ مخواہ مارا جاؤں گا۔ اگر جانتا ہوتا تو نہ بتا کر مجھے جتنی خوشی ہوتی اس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔!“
”عمران کہاں ہے؟“
”جب میں گھر سے نکلا ہوں اس وقت کہیں گئے ہوئے تھے۔!“
”اس کے دوسرے ٹھکانوں کے پتے دو۔!“
”ان کے ٹھکانے!“جوزف کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ غمناک آواز میں بولا۔“ جب سے باورچی کی شادی ہوئی ہے بالکل ہی بے ٹھکانہ ہوگئے ہیں۔“
”اگر تم نے نہ بتایا تو تمہارے سارے ناخن ایک ایک کر کے کھینچ لئے جائیں گے۔!پ











ابو کشان بھائی اور شکاری بھای اس کو پڑھ لے زینب آپی آپ بھی پڑھ سکتی ہیں شکریہ
 

زینب

محفلین
ٹایئپنگ خرم شہزاد خرم

پروف ریڈنگ زینب

”اب ہاتھ اٹھالو اُوپر۔ یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔!“پستول والے نے کہا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔!“جوزف ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔!“ لیکن ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے گھنٹوں ہاتھ اٹھائے رہ سکتا ہوں۔!“
”دائین مڑو ۔ ۔ ۔ اور چل پڑو۔ ۔ ۔ ۔!“
”مجھے بات تو پوری کرلینے دو۔میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر چلنے میں مجھے دشوری ہوتی ہے۔ اگر گر پڑا تو خواہ مخواہ تمہیں دشواری ہوگی۔“
”چلو۔!“ وہ دھاڑا۔ اور جوزف سال سوا سال کے کسی بچے کے انداز مین لڑکھڑاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا۔
 

زینب

محفلین
ٹایئپنگ خرم شہزاد خرم

پروف ریڈنگ زینب



اور پھر سچ مچ گر ہی پڑا ہوتا۔ اگر پستوٌ ل والے نے آگے بڑھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے سہارا نہ دیا ہوتا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ جوزف نے پلٹ کر اس کے پستول پر ہاتھ ڈال دیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے اسٹین گن کا قہقہہ سنا تھا۔ اور اس کے قریب ہی زمین سے دھول کا مرغولہ فضا میں بلند ہونے لگاتھا۔ ۔ ۔ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر اس نے پھر ہاتھ اٹھا دیئے۔
صدر دروازے کے قریب ایک تاریک ہیولی اسٹین گن سنبھالے کھڑا تھا۔
جوزف ہاتھ اٹھائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
”اندر چلو۔ ۔ ۔ ! پستول والے نے اسے دھکا دیا۔وہ چل پڑاتھا۔ لیکن چال میں پہلے ہی کی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔!
جوزف کو ایک کمرے میں لایا گیا۔ جہاں تین بڑے کیرو سین لیمپ روشن تھے۔
وہ چند ھیائی ہوئی سی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔!
اسٹین گن والا ساتھ نہیں آیاتھا۔! جوزف نے ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھایا تھا ۔ جو اسے یہاں تک لائے تھے
”کیا بات ہے ۔!“ پستول والے نے غصیلے لیجے میں‌کہا۔ ” اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے رکھو۔“
پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہاتھا کہ وہ جوزف کے ہو لسٹر سے ریوالور نکال لے۔ ۔ ۔
جوزف نے بے چون و چرا اسے ریوالور نکالنے دیا تھا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ آدمی غافل نہ ہوگا۔ جس نے اسٹین گن سے فائر کئے تھے۔
 

زینب

محفلین
ٹایئپنگ خرم شہزاد خرم

پروف ریڈنگ زینب






نہیں۔!“ دفعتاََ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔!”تم سمجھتے ہو گے کہ شائد میں نے تم سے پستول جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا۔!“
”کیا کہنا چاہتے ہو۔ ۔ ۔ ۔!“
”پینے کو کچھ ہو تو لاؤ۔ ۔ ۔ میرے نشہ اکھڑ رہا ہے۔!“
”کیا تم اسے کوئی سوشل وزٹ سمجھتے ہو۔!“ پستول والا ہنس کر بولا۔
”میں سرے سے کچھ سمجھتا ہی نہیں۔! یہ تو اب تم لوگ سمجھاؤ گے کہ اس تکلیف دہی کا مقصد کیا ہے؟“
”وہ ساتوں کہاں ہیں۔!“ کسی نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔جوزف بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔
”کیا مجھ سے کچھ پوچھا جارہا ہے۔!“ جوزف نے راز دارانہ انداز میں پستول والے سے سوال کیا۔
”ہاں ۔ ۔ ۔جواب دو ۔!“ پستول والا بولا۔
”کن ساتوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔ میں کچھ نہیں سمجھا۔!“
”وہ ساتوں طالب علم جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔!“
”یقین کرو۔ ۔ ۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔!“
”اچھی بات ہے ۔ ۔ تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔!“ نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔!
”لیکن میں خواہ مخواہ مارا جاؤں گا۔ اگر جانتا ہوتا تو نہ بتا کر مجھے جتنی خوشی ہوتی اس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔!“
”عمران کہاں ہے؟“
”جب میں گھر سے نکلا ہوں اس وقت کہیں گئے ہوئے تھے۔!“
”اس کے دوسرے ٹھکانوں کے پتے دو۔!“
”ان کے ٹھکانے!“جوزف کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ غمناک آواز میں بولا۔“ جب سے باورچی کی شادی ہوئی ہے بالکل ہی بے ٹھکانہ ہوگئے ہیں۔“
”اگر تم نے نہ بتایا تو تمہارے سارے ناخن ایک ایک کر کے کھینچ لئے جائیں گے۔!پ











ابو کشان بھائی اور شکاری بھای اس کو پڑھ لے زینب آپی آپ بھی پڑھ سکتی ہیں شکریہ
 

جیہ

لائبریرین
ٹائپنگ خرم شہزاد خرم
پروف ریڈنگ زینب
بار دوم: جویریہ


”اب ہاتھ اٹھالو اُوپر۔ یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ “پستول والے نے کہا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“جوزف ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔“ لیکن ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے گھنٹوں ہاتھ اٹھائے رہ سکتا ہوں۔“
”دائیں مڑو ۔ ۔ ۔ اور چل پڑو۔ ۔ ۔ ۔“
”مجھے بات تو پوری کرلینے دو۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر چلنے میں مجھے دشواری ہوتی ہے۔ اگر گر پڑا تو خواہ مخواہ تمہیں دشواری ہوگی۔“
”چلو۔“ وہ دھاڑا۔ اور جوزف سال سوا سال کے کسی بچے کے انداز میں لڑکھڑاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا اور پھر سچ مچ گر ہی پڑا ہوتا، اگر پستول والے نے آگے بڑھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے سہارا نہ دیا ہوتا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ جوزف نے پلٹ کر اس کے پستول پر ہاتھ ڈال دیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے سٹین گن کا قہقہہ سنا تھا اور اس کے قریب ہی زمین سے دھول کا مرغولہ فضا میں بلند ہونے لگا تھا۔ ۔ ۔ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر اس نے پھر ہاتھ اٹھا دیئے۔ صدر دروازے کے قریب ایک تاریک ہیولٰی سٹین گن سنبھالے کھڑا تھا۔ جوزف ہاتھ اٹھائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
”اندر چلو۔ ۔ ۔ پستول والے نے اسے دھکا دیا۔ وہ چل پڑاتھا لیکن چال میں پہلے ہی کی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔
جوزف کو ایک کمرے میں لایا گیا جہاں تین بڑے کیروسین لیمپ روشن تھے۔
وہ چند ھیائی ہوئی سی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
سٹین گن والا ساتھ نہیں آیا تھا۔ جوزف نے ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھایا تھا جو اسے یہاں تک لائے تھے
”کیا بات ہے ؟“ پستول والے نے غصیلے لہجے میں ‌کہا۔ ” اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے رکھو۔“
پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ وہ جوزف کے ہولسٹر سے ریوالور نکال لے۔۔۔
جوزف نے بے چون و چرا اسے ریوالور نکالنے دیا تھا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ آدمی غافل نہ ہوگا جس نے سٹین گن سے فائر کئے تھے۔

”نہیں۔“ دفعتاََ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ”تم سمجھتے ہو گے کہ شائد میں نے تم سے پستول جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا۔“
”کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔؟“
”پینے کو کچھ ہو تو لاؤ۔ ۔ ۔ میرا نشہ اکھڑ رہا ہے۔“
”کیا تم اسے کوئی سوشل وزٹ سمجھتے ہو؟“ پستول والا ہنس کر بولا۔
”میں سرے سے کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ یہ تو اب تم لوگ سمجھاؤ گے کہ اس تکلیف دہی کا مقصد کیا ہے۔“
”وہ ساتوں کہاں ہیں؟“ کسی نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔ جوزف بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔
”کیا مجھ سے کچھ پوچھا جارہا ہے؟“ جوزف نے راز دارانہ انداز میں پستول والے سے سوال کیا۔
”ہاں ۔۔۔ جواب دو ۔“ پستول والا بولا۔
”کن ساتوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے؟ میں کچھ نہیں سمجھا۔“
”وہ ساتوں طالب علم جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔“
”یقین کرو۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔“
”اچھی بات ہے ۔ ۔ تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔“ نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔
”لیکن میں خواہ مخواہ مارا جاؤں گا۔ اگر جانتا ہوتا تو نہ بتا کر مجھے جتنی خوشی ہوتی اس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔“
”عمران کہاں ہے؟“
”جب میں گھر سے نکلا ہوں اس وقت کہیں گئے ہوئے تھے۔“
”اس کے دوسرے ٹھکانوں کے پتے دو۔“
”ان کے ٹھکانے؟“ جوزف کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ غمناک آواز میں بولا۔“ جب سے باورچی کی شادی ہوئی ہے بالکل ہی بے ٹھکانہ ہوگئے ہیں۔“
”اگر تم نے نہ بتایا تو تمہارے سارے ناخن ایک ایک کر کے کھینچ لئے جائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

”اب ہاتھ اٹھالو اُوپر۔ یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ “پستول والے نے کہا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ “جوزف ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔ “ لیکن ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے گھنٹوں ہاتھ اٹھائے رہ سکتا ہوں۔ “
”دائیں مڑو۔ ۔ ۔ اور چل پڑو۔ ۔ ۔ ۔ “
”مجھے بات تو پوری کر لینے دو۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر چلنے میں مجھے دشواری ہوتی ہے۔ اگر گر پڑا تو خواہ مخواہ تمہیں دشواری ہو گی۔ “
”چلو۔ “ وہ دہاڑا۔ اور جوزف سال سوا سال کے کسی بچے کے انداز میں لڑکھڑاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا اور پھر سچ مچ گر ہی پڑا ہوتا، اگر پستول والے نے آگے بڑھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے سہارا نہ دیا ہوتا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ جوزف نے پلٹ کر اس کے پستول پر ہاتھ ڈال دیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے سٹین گن کا قہقہہ سنا تھا اور اس کے قریب ہی زمین سے دھول کا مرغولہ فضا میں بلند ہونے لگا تھا۔ ۔ ۔ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر اس نے پھر ہاتھ اٹھا دیئے۔ صدر دروازے کے قریب ایک تاریک ہیولٰی سٹین گن سنبھالے کھڑا تھا۔ جوزف ہاتھ اٹھائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
”اندر چلو۔ ۔ ۔ پستول والے نے اسے دھکا دیا۔ وہ چل پڑاتھا لیکن چال میں پہلے ہی کی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔
جوزف کو ایک کمرے میں لایا گیا جہاں تین بڑے کیروسین لیمپ روشن تھے۔
وہ چند ھیائی ہوئی سی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
سٹین گن والا ساتھ نہیں آیا تھا۔ جوزف نے ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھایا تھا جو اسے یہاں تک لائے تھے
”کیا بات ہے ؟“ پستول والے نے غصیلے لہجے میں ‌کہا۔ ” اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے رکھو۔ “
پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ وہ جوزف کے ہولسٹر سے ریوالور نکال لے۔ ۔ ۔
جوزف نے بے چون و چرا اسے ریوالور نکالنے دیا تھا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ آدمی غافل نہ ہو گا جس نے سٹین گن سے فائر کئے تھے۔

”نہیں۔ “ دفعتاً وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ”تم سمجھتے ہو گے کہ شائد میں نے تم سے پستول جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا۔ “
”کیا کہنا چاہتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟“
”پینے کو کچھ ہو تو لاؤ۔ ۔ ۔ میرا نشہ اکھڑ رہا ہے۔ “
”کیا تم اسے کوئی سوشل وزٹ سمجھتے ہو؟“ پستول والا ہنس کر بولا۔
”میں سرے سے کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ یہ تو اب تم لوگ سمجھاؤ گے کہ اس تکلیف دہی کا مقصد کیا ہے۔ “
”وہ ساتوں کہاں ہیں ؟“ کسی نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔ جوزف بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔
”کیا مجھ سے کچھ پوچھا جا رہا ہے ؟“ جوزف نے راز دارانہ انداز میں پستول والے سے سوال کیا۔
”ہاں۔ ۔ ۔ جواب دو۔ “ پستول والا بولا۔
”کن ساتوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے ؟ میں کچھ نہیں سمجھا۔ “
”وہ ساتوں طالب علم جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔ “
”یقین کرو۔ ۔ ۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ “
”اچھی بات ہے۔ ۔ تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ “ نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔
”لیکن میں خواہ مخواہ مارا جاؤں گا۔ اگر جانتا ہوتا تو نہ بتا کر مجھے جتنی خوشی ہوتی اس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ “
”عمران کہاں ہے ؟“
”جب میں گھر سے نکلا ہوں اس وقت کہیں گئے ہوئے تھے۔ “
”اس کے دوسرے ٹھکانوں کے پتے دو۔ “
”ان کے ٹھکانے ؟“ جوزف کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ غمناک آواز میں بولا۔ “ جب سے باورچی کی شادی ہوئی ہے بالکل ہی بے ٹھکانہ ہو گئے ہیں۔ “
”اگر تم نے نہ بتایا تو تمہارے سارے ناخن ایک ایک کر کے کھینچ لئے جائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک اور دریافت ہوئی۔۔ میں کیوں کہ ورڈ میں کاپی پیسٹکرتا ہوں جس کا ڈفالٹ کامپلیکس فانٹ ویب نسخ ہے، اس میں ’دفعتاً‘ لفظ کو اگر دو الگ الگ زبر کے ساتھ لکھا ہو تو نظر بھی درست آتا ہے۔ جب کہ نفیس فانٹس میں دوسرے زبر کو دائرے میں دکھاتا ہے، اس لئے فوراً یہ غلطی پکڑنے میں آ جاتی ہے۔
ارکانِ محفل۔ تنوین درست لگایا کریں۔ ناظرہ کی بورڈ میں تہسرے خانے میں لکھا ہے ’دو زبر‘ وہاں کلک کر کے تنوین بنائی جا سکتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top