علامہ دہشتناک : صفحہ 86-87 : چالیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


34xokxt.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

شکاری

محفلین
صفحہ چالیس86÷87


“وہ کون ہوسکتا ہے؟“ صفدر بڑبڑایا۔
“کیا تم اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔!“
“نہیں!“
“میں بھی نہیں‌ دیکھ سکا تھا۔!“ عمران بولا۔

۔ ۔ ۔ ۔

جوزف کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ وہ دونوں بےغیرت تھوڑی دیر بعد پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگے تھے۔ اور سلیمان کا لپٹا ہوا بستر دوبارہ کھل گیا تھا۔
جوزف تو سمجھا تھا کہ اس بار ذرا کچھ نامناسب سی ہوئی ہے۔لہذا سلمان ضرور بھاگ نکلے گا۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سلمان اس حد تک ڈھیٹ ہوگیا ہے کہ کسی ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے پر بھی اس کی انا ٹھیس نہ لگے گی۔
“بے غیرت۔۔۔۔بے غیرت۔۔۔۔۔!“ اس کے ذہن نے تکرار شروع کردی۔ اور وہ اکتا کر گھر سے نکل بھاگا۔ عمران بھی موجود نہیں تھا۔ صرف انہی دونوں کے قہقہے پورے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ جوزف نے سوچا تھا کہ جیمس کی طرف جانکلے گا۔ اور کچھ دیر کے لئے اس کی عقل مندی کی باتوں سے جی بہلانے کی صورت نکال لے گا۔
کئی منٹ تک سڑک کے کنارے کھڑارہا۔ لیکن کوئی خالی ٹیکسی نہ ملی۔ لہذا جھلا کر پیدل ہی چل پڑا۔ ویسے اگلے موڑ پر ٹیکسی مل جانے کی بھی توقع تھی۔
دفعتاً ایک گاڑی اس کے قریب ہی رکی۔ بریک چڑچڑائے تھے۔اور وہ اسکی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔! گاڑی سے اس کا فاصلہ بمشکل دو فٹ کا رہا ہوگا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے اس کی نظریں چار ہوئی تھیں۔ اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں دبے ہوئے کپڑے کے بنڈل سے کوئی سیاہ چیز جھانک رہی ہے۔!
پستول کا سائلنسر پہچان لینے میں کتنی دیر لگتی۔ اس نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔!
“چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھ جاؤ۔!“
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے سرد لہجے میں




کہا تھا اور زبان انگلش استعمال کی تھی۔ گویا اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ لیکن جوزف کو اس کی شکل شناساؤں کی سی نہیں لگی تھی۔
“اچھا مسڑ۔!“ اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا اور اگلے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھادیا۔ لیکن اس سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا تھا۔
جوزف نے بے چارگی سے تعمیل کی پچھلی سیٹ والا بے حد ہوشیار آدمی معلوم ہوتا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔۔۔۔اور پچھلی سیٹ والے نے کہا۔ “ میں جاگ رہا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین رکھنا۔“
“لیکن مسڑ۔۔۔۔قصہ کیا ہے۔! میں تو بہت شریف آدمی ہوں۔ کبھی غنڈہ گردی وغیرہ میں بھی ملوث نہیں رہا۔!“
“باتیں بھی نہیں کرو گے۔!“ پچھلی سیٹ والا غرایا۔
“تمہاری مرضی۔۔۔۔میرے ہاتھ صاف ہیں۔!“
“لیکن بغلی ہولسٹر میں ریوالور موجود ہے۔!“
“دو ریوالور بیک وقت رکھ سکتا ہوں۔ اجازت نامہ ہے میرے پاس مسڑ علی عمران کا باڈی گارڈ ہوں۔!“
“ٹھیک ہے زبان بند رکھو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لو۔!“
“میری توہین نہ کرو۔ معاملات کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔ ویسے سر پر ہاتھ رکھ کر چلنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گا۔“
پچھلی سیٹ والے نے خاموشی اختیار کرلی۔ وہ عقب نما آئینے سے جوزف کا چہرہ بغور دیکھتا رہا تھا۔شام ہورہی تھی۔ گاڑی شہر کی متعدد سڑکوں سے گذرتی ہوئی شاہ دارا والی سڑک پر ہوئی۔
پھر کچھ دیر بعد ایک کچے راستے پر مڑ گئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان خاصا کشادہ راستہ تھا۔ سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی سالخورہ عمارت کے سامنے ہوا۔۔۔۔ابھی فضاء میں اتنی اجلاہٹ موجود تھی کہ عمارت کی ساخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔
جوزف سے اترنے کو کہا گیا۔ پچھلی سیٹ والا پہلے ہی نیچے اتر گیاتھا۔ اور پستول کی نال جوزف کی کھوپڑی کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
 

زینب

محفلین
ٹایئپنگ۔۔۔۔۔۔۔شکاری

پروف ریڈنگ۔۔۔۔۔۔۔زینب




صفحہ چالیس86÷87


“وہ کون ہوسکتا ہے؟“ صفدر بڑبڑایا۔
“کیا تم اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔!“
“نہیں!“
“میں بھی نہیں‌ دیکھ سکا تھا۔!“ عمران بولا۔

۔ ۔ ۔ ۔

جوزف کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ وہ دونوں بےغیرت تھوڑی دیر بعد پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگے تھے۔ اور سلیمان کا لپٹا ہوا بستر دوبارہ کھل گیا تھا۔
جوزف تو سمجھا تھا کہ اس بار ذرا کچھ نامناسب سی ہوئی ہے۔لہذا سلمان ضرور بھاگ نکلے گا۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سلمان اس حد تک ڈھیٹ ہوگیا ہے کہ کسی ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے پر بھی اس کی انا کوٹھیس نہ لگے گی۔
“بے غیرت۔۔۔۔بے غیرت۔۔۔۔۔!“ اس کے ذہن نے تکرار شروع کردی۔ اور وہ اکتا کر گھر سے نکل بھاگا۔ عمران بھی موجود نہیں تھا۔ صرف انہی دونوں کے قہقہے پورے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ جوزف نے سوچا تھا کہ جیمسن کی طرف جانکلے گا۔ اور کچھ دیر کے لئے اس کی عقل مندی کی باتوں سے جی بہلانے کی صورت نکال لے گا۔
کئی منٹ تک سڑک کے کنارے کھڑارہا۔ لیکن کوئی خالی ٹیکسی نہ ملی۔ لہذا جھلا کر پیدل ہی چل پڑا۔ ویسے اگلے موڑ پر ٹیکسی مل جانے کی بھی توقع تھی۔
دفعتاً ایک گاڑی اس کے قریب ہی رکی۔ بریک چڑچڑائے تھے۔اور وہ اسکی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔! گاڑی سے اس کا فاصلہ بمشکل دو فٹ کا رہا ہوگا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے اس کی نظریں چار ہوئی تھیں۔ اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں دبے ہوئے کپڑے کے بنڈل سے کوئی سیاہ چیز جھانک رہی ہے۔!
پستول کا سائلنسر پہچان لینے میں کتنی دیر لگتی۔ اس نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔!
“چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھ جاؤ۔!“
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے سرد لہجے میں

کہا تھا اور زبان انگلش استعمال کی تھی۔ گویا اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ لیکن جوزف کو اس کی شکل شناساؤں کی سی نہیں لگی تھی۔
“اچھا مسڑ۔!“ اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا اور اگلے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھادیا۔ لیکن اس سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا تھا۔
جوزف نے بے چارگی سے تعمیل کی پچھلی سیٹ والا بے حد ہوشیار آدمی معلوم ہوتا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔۔۔۔اور پچھلی سیٹ والے نے کہا۔ “ میں جاگ رہا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین رکھنا۔“
“لیکن مسڑ۔۔۔۔قصہ کیا ہے۔! میں تو بہت شریف آدمی ہوں۔ کبھی غنڈہ گردی وغیرہ میں بھی ملوث نہیں رہا۔!“
“باتیں بھی نہیں کرو گے۔!“ پچھلی سیٹ والا غرایا۔
“تمہاری مرضی۔۔۔۔میرے ہاتھ صاف ہیں۔!“
“لیکن بغلی ہولسٹر میں ریوالور موجود ہے۔!“
“دو ریوالور بیک وقت رکھ سکتا ہوں۔ اجازت نامہ ہے میرے پاس مسڑ علی عمران کا باڈی گارڈ ہوں۔!“
“ٹھیک ہے زبان بند رکھو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لو۔!“
“میری توہین نہ کرو۔ معاملات کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔ ویسے سر پر ہاتھ رکھ کر چلنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گا۔“
پچھلی سیٹ والے نے خاموشی اختیار کرلی۔ وہ عقب نما آئینے سے جوزف کا چہرہ بغور دیکھتا رہا تھا۔شام ہورہی تھی۔ گاڑی شہر کی متعدد سڑکوں سے گذرتی ہوئی شاہ دارا والی سڑک پر ہولی۔
پھر کچھ دیر بعد ایک کچے راستے پر مڑ گئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان خاصا کشادہ راستہ تھا۔ سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی سالخورہ عمارت کے سامنے ہوا۔۔۔۔ابھی فضاء میں اتنی اجلاہٹ موجود تھی کہ عمارت کی ساخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔
جوزف سے اترنے کو کہا گیا۔ پچھلی سیٹ والا پہلے ہی نیچے اتر گیاتھا۔ اور پستول کی نال جوزف کی کھوپڑی کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




چالیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

چالیسواں : 86 - 87 | ٹیم 3 | شکاری | زینب | ---- | ---- | 60%







 

جیہ

لائبریرین
ٹایئپنگ۔۔۔۔۔۔۔شکاری
پروف ریڈنگ۔۔۔۔۔۔۔زینب
بار دوم: جویریہ


“وہ کون ہوسکتا ہے؟“ صفدر بڑبڑایا۔
“کیا تم اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔“
“نہیں“
“میں بھی نہیں‌ دیکھ سکا تھا۔“ عمران بولا۔

۔ ۔ ۔ ۔

جوزف کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ دونوں بے غیرت تھوڑی دیر بعد پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگے تھے اور سلیمان کا لپٹا ہوا بستر دوبارہ کھل گیا تھا۔
جوزف تو سمجھا تھا کہ اس بار ذرا کچھ نا مناسب سی ہوئی ہے لہٰذا سلمان ضرور بھاگ نکلے گا۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سلیمان اس حد تک ڈھیٹ ہوگیا ہے کہ کسی ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے پر بھی اس کی انا کوٹھیس نہ لگے گی۔
“بے غیرت۔۔۔۔بے غیرت۔۔۔۔۔“ اس کے ذہن نے تکرار شروع کردی اور وہ اکتا کر گھر سے نکل بھاگا۔ عمران بھی موجود نہیں تھا۔ صرف انہی دونوں کے قہقہے پورے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ جوزف نے سوچا تھا کہ جیمسن کی طرف جانکلے گا اور کچھ دیر کے لئے اس کی عقل مندی کی باتوں سے جی بہلانے کی صورت نکال لے گا۔
کئی منٹ تک سڑک کے کنارے کھڑا رہا لیکن کوئی خالی ٹیکسی نہ ملی لہٰذا جھلا کر پیدل ہی چل پڑا۔ ویسے اگلے موڑ پر ٹیکسی مل جانے کی بھی توقع تھی۔
دفعتاً ایک گاڑی اس کے قریب ہی رکی۔ بریک چڑچڑائے تھے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ گاڑی سے اس کا فاصلہ بمشکل دو فٹ کا رہا ہوگا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے اس کی نظریں چار ہوئی تھیں اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں دبے ہوئے کپڑے کے بنڈل سے کوئی سیاہ چیز جھانک رہی ہے۔
پستول کا سائلنسر پہچان لینے میں کتنی دیر لگتی۔ اس نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
“چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھ جاؤ۔“
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے سرد لہجے میں کہا تھا اور زبان انگلش استعمال کی تھی۔ گویا اس سے اچھی طرح واقف تھا لیکن جوزف کو اس کی شکل شناساؤں کی سی نہیں لگی تھی۔
“اچھا مسڑ۔“ اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا اور اگلے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھادیا لیکن اس سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا تھا۔
جوزف نے بے چارگی سے تعمیل کی پچھلی سیٹ والا بے حد ہوشیار آدمی معلوم ہوتا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔۔۔۔اور پچھلی سیٹ والے نے کہا۔ “میں جاگ رہا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین رکھنا۔“
“لیکن مسڑ۔۔۔۔قصہ کیا ہے؟ میں تو بہت شریف آدمی ہوں۔ کبھی غنڈہ گردی وغیرہ میں بھی ملوث نہیں رہا۔“
“باتیں بھی نہیں کرو گے۔“ پچھلی سیٹ والا غرایا۔
“تمہاری مرضی۔۔۔۔میرے ہاتھ صاف ہیں۔“
“لیکن بغلی ہولسٹر میں ریوالور موجود ہے۔“
“دو ریوالور بیک وقت رکھ سکتا ہوں۔ اجازت نامہ ہے میرے پاس مسڑ علی عمران کا باڈی گارڈ ہوں۔“
“ٹھیک ہے زبان بند رکھو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لو۔“
“میری توہین نہ کرو۔ معاملات کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔ ویسے سر پر ہاتھ رکھ کر چلنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گا۔“
پچھلی سیٹ والے نے خاموشی اختیار کرلی۔ وہ عقب نما آئینے سے جوزف کا چہرہ بغور دیکھتا رہا تھا۔شام ہو رہی تھی۔ گاڑی شہر کی متعدد سڑکوں سے گذرتی ہوئی شاہ دارا والی سڑک پر ہو لی۔ پھر کچھ دیر بعد ایک کچے راستے پر مڑ گئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان خاصا کشادہ راستہ تھا۔ سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی سال خودرہ عمارت کے سامنے ہوا۔۔۔۔ ابھی فضا میں اتنی اجلاہٹ موجود تھی کہ عمارت کی ساخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔
جوزف سے اترنے کو کہا گیا۔ پچھلی سیٹ والا پہلے ہی نیچے اتر گیاتھا اور پستول کی نال جوزف کی کھوپڑی کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

وہ کون ہو سکتا ہے ؟“ صفدر بڑبڑایا۔
“کیا تم اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔ “
“نہیں “
“میں بھی نہیں دیکھ سکا تھا۔ “ عمران بولا۔

۔ ۔ ۔ ۔

جوزف کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ دونوں بے غیرت تھوڑی دیر بعد پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگے تھے اور سلیمان کا لپٹا ہوا بستر دوبارہ کھل گیا تھا۔
جوزف تو سمجھا تھا کہ اس بار ذرا کچھ نا مناسب سی ہوئی ہے لہٰذا سلمان ضرور بھاگ نکلے گا۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سلیمان اس حد تک ڈھیٹ ہو گیا ہے کہ کسی ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے پر بھی اس کی انا کوٹھیس نہ لگے گی۔
“بے غیرت۔ ۔ ۔ ۔ بے غیرت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ اس کے ذہن نے تکرار شروع کر دی اور وہ اکتا کر گھر سے نکل بھاگا۔ عمران بھی موجود نہیں تھا۔ صرف انہی دونوں کے قہقہے پورے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ جوزف نے سوچا تھا کہ جیمسن کی طرف جانکلے گا اور کچھ دیر کے لئے اس کی عقل مندی کی باتوں سے جی بہلانے کی صورت نکال لے گا۔
کئی منٹ تک سڑک کے کنارے کھڑا رہا لیکن کوئی خالی ٹیکسی نہ ملی لہٰذا جھلا کر پیدل ہی چل پڑا۔ ویسے اگلے موڑ پر ٹیکسی مل جانے کی بھی توقع تھی۔
دفعتاً ایک گاڑی اس کے قریب ہی رکی۔ بریک چڑچڑائے تھے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ گاڑی سے اس کا فاصلہ بمشکل دو فٹ کا رہا ہو گا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے اس کی نظریں چار ہوئی تھیں اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں دبے ہوئے کپڑے کے بنڈل سے کوئی سیاہ چیز جھانک رہی ہے۔
پستول کا سائلنسر پہچان لینے میں کتنی دیر لگتی۔ اس نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
“چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھ جاؤ۔ “
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے سرد لہجے میں کہا تھا اور زبان انگلش استعمال کی تھی۔ گویا اس سے اچھی طرح واقف تھا لیکن جوزف کو اس کی شکل شناساؤں کی سی نہیں لگی تھی۔
“اچھا مسڑ۔ “ اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا اور اگلے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھادیا لیکن اس سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا تھا۔
جوزف نے بے چارگی سے تعمیل کی پچھلی سیٹ والا بے حد ہوشیار آدمی معلوم ہوتا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔ ۔ ۔ ۔ اور پچھلی سیٹ والے نے کہا۔ “میں جاگ رہا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین رکھنا۔ “
“لیکن مسڑ۔ ۔ ۔ ۔ قصہ کیا ہے ؟ میں تو بہت شریف آدمی ہوں۔ کبھی غنڈہ گردی وغیرہ میں بھی ملوث نہیں رہا۔ “
“باتیں بھی نہیں کرو گے۔ “ پچھلی سیٹ والا غرایا۔
“تمہاری مرضی۔ ۔ ۔ ۔ میرے ہاتھ صاف ہیں۔ “
“لیکن بغلی ہولسٹر میں ریوالور موجود ہے۔ “
“دو ریوالور بیک وقت رکھ سکتا ہوں۔ اجازت نامہ ہے میرے پاس مسڑ علی عمران کا باڈی گارڈ ہوں۔ “
“ٹھیک ہے زبان بند رکھو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لو۔ “
“میری توہین نہ کرو۔ معاملات کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔ ویسے سر پر ہاتھ رکھ کر چلنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گا۔ “
پچھلی سیٹ والے نے خاموشی اختیار کر لی۔ وہ عقب نما آئینے سے جوزف کا چہرہ بغور دیکھتا رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی۔ گاڑی شہر کی متعد د سڑکوں سے گذرتی ہوئی شاہ دارا والی سڑک پر ہو لی۔ پھر کچھ دیر بعد ایک کچے راستے پر مڑ گئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان خاصا کشادہ راستہ تھا۔ سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی سال خودرہ عمارت کے سامنے ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ابھی فضا میں اتنی اجلاہٹ موجود تھی کہ عمارت کی ساخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔
جوزف سے اترنے کو کہا گیا۔ پچھلی سیٹ والا پہلے ہی نیچے اتر گیاتھا اور پستول کی نال جوزف کی کھوپڑی کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

وہ کون ہو سکتا ہے ؟“ صفدر بڑبڑایا۔
“کیا تم اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔ “
“نہیں “
“میں بھی نہیں دیکھ سکا تھا۔ “ عمران بولا۔

۔ ۔ ۔ ۔

جوزف کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ دونوں بے غیرت تھوڑی دیر بعد پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگے تھے اور سلیمان کا لپٹا ہوا بستر دوبارہ کھل گیا تھا۔
جوزف تو سمجھا تھا کہ اس بار ذرا کچھ نا مناسب سی ہوئی ہے لہٰذا سلمان ضرور بھاگ نکلے گا۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سلیمان اس حد تک ڈھیٹ ہو گیا ہے کہ کسی ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے پر بھی اس کی انا کوٹھیس نہ لگے گی۔
“بے غیرت۔ ۔ ۔ ۔ بے غیرت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ اس کے ذہن نے تکرار شروع کر دی اور وہ اکتا کر گھر سے نکل بھاگا۔ عمران بھی موجود نہیں تھا۔ صرف انہی دونوں کے قہقہے پورے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ جوزف نے سوچا تھا کہ جیمسن کی طرف جانکلے گا اور کچھ دیر کے لئے اس کی عقل مندی کی باتوں سے جی بہلانے کی صورت نکال لے گا۔
کئی منٹ تک سڑک کے کنارے کھڑا رہا لیکن کوئی خالی ٹیکسی نہ ملی لہٰذا جھلا کر پیدل ہی چل پڑا۔ ویسے اگلے موڑ پر ٹیکسی مل جانے کی بھی توقع تھی۔
دفعتاً ایک گاڑی اس کے قریب ہی رکی۔ بریک چڑچڑائے تھے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ گاڑی سے اس کا فاصلہ بمشکل دو فٹ کا رہا ہو گا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے اس کی نظریں چار ہوئی تھیں اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں دبے ہوئے کپڑے کے بنڈل سے کوئی سیاہ چیز جھانک رہی ہے۔
پستول کا سائلنسر پہچان لینے میں کتنی دیر لگتی۔ اس نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
“چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھ جاؤ۔ “
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے سرد لہجے میں کہا تھا اور زبان انگلش استعمال کی تھی۔ گویا اس سے اچھی طرح واقف تھا لیکن جوزف کو اس کی شکل شناساؤں کی سی نہیں لگی تھی۔
“اچھا مسڑ۔ “ اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا اور اگلے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھادیا لیکن اس سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا تھا۔
جوزف نے بے چارگی سے تعمیل کی پچھلی سیٹ والا بے حد ہوشیار آدمی معلوم ہوتا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔ ۔ ۔ ۔ اور پچھلی سیٹ والے نے کہا۔ “میں جاگ رہا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین رکھنا۔ “
“لیکن مسڑ۔ ۔ ۔ ۔ قصہ کیا ہے ؟ میں تو بہت شریف آدمی ہوں۔ کبھی غنڈہ گردی وغیرہ میں بھی ملوث نہیں رہا۔ “
“باتیں بھی نہیں کرو گے۔ “ پچھلی سیٹ والا غرایا۔
“تمہاری مرضی۔ ۔ ۔ ۔ میرے ہاتھ صاف ہیں۔ “
“لیکن بغلی ہولسٹر میں ریوالور موجود ہے۔ “
“دو ریوالور بیک وقت رکھ سکتا ہوں۔ اجازت نامہ ہے میرے پاس مسڑ علی عمران کا باڈی گارڈ ہوں۔ “
“ٹھیک ہے زبان بند رکھو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لو۔ “
“میری توہین نہ کرو۔ معاملات کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔ ویسے سر پر ہاتھ رکھ کر چلنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گا۔ “
پچھلی سیٹ والے نے خاموشی اختیار کر لی۔ وہ عقب نما آئینے سے جوزف کا چہرہ بغور دیکھتا رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی۔ گاڑی شہر کی متعد د سڑکوں سے گذرتی ہوئی شاہ دارا والی سڑک پر ہو لی۔ پھر کچھ دیر بعد ایک کچے راستے پر مڑ گئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان خاصا کشادہ راستہ تھا۔ سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی سال خودرہ عمارت کے سامنے ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ابھی فضا میں اتنی اجلاہٹ موجود تھی کہ عمارت کی ساخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔
جوزف سے اترنے کو کہا گیا۔ پچھلی سیٹ والا پہلے ہی نیچے اتر گیاتھا اور پستول کی نال جوزف کی کھوپڑی کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top