علامہ دہشتناک : صفحہ 68-69 : اکتیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



300h5w8.jpg




 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 
ٹائپنگ : محب علوی

“ کک ۔۔۔ کیا مطلب ۔! “
“ مطلب میں نہیں جانتا ۔ تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔۔۔ !“
“ پی لو نا۔! کیوں جھگڑا کر رہے ہو۔ “ شیلا منمنائی۔
“میں تو ہرگز نہیں پییوں گا۔ پھینک دوں گا۔ !“
“ خبردار ۔۔۔ میز کے قریب بھی نہ آنا۔!“ عمران کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکل آیا۔۔۔! “
“ کک ۔۔۔۔کیا! “ پیٹر ہکلا کر رہ گیا۔
“ شراب نہیں پیئو گے تو گولی ماردوں گا۔! “
“ کک کیا تم سنجیدہ ہو۔! “
“ بالکل ۔۔۔! دس تک گنتا ہوں۔! “ عمران نے کہا۔ “ اگر دس تک پہنچنے سے قبل تم نے گلاس خالی نہ کر دیا تو بے دریغ فائر کر دوں گا۔! “
“ آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔۔۔۔! “
“ قطرہ بھی نہ گرنے پائے ۔۔۔ ایک ۔۔۔ دو ۔۔۔! “
“ نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔۔۔! “
“ تین ۔۔۔ چار ۔۔۔۔! “
اب تو شیلا بھی سچ مچ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ اس منطر کے اس ٹکڑے سے وہ لاعلم تھی۔ عمران نے ایسی کسی سچویشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
“ پانچ ۔۔۔ چھ ۔۔۔۔۔! “ عمران کی آواز سناٹے میں گونجی ۔
“ ٹھہرو رک جاؤ ۔۔۔“ پیٹر ہذیانی انداز میں چیخا ۔۔۔۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
“ سات ۔۔۔! “
“ نہیں ۔۔۔! “
“ یہاں جو کچھ بھی ہوگا اس کی بھنک بھی باہر والوں کے کانوں میں نہ پڑ سکے گی۔ !“ عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
“ تت ۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو؟ “
“ اس گلاس میں کیا ہے! “
“ شش ۔۔۔شراب۔!
“ بے ضرر ۔۔۔؟ “ عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
پیٹر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
“ اگر یہ بے ضرر ہے تو اٹھاؤ گلاس اور حلق میں انڈیل لو۔۔۔! “
“ زز ۔۔۔زہر ۔۔۔۔! “ شیلا کی گھٹی گھٹی سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
“ نہیں۔ زہر نہیں ہو سکتا۔!“ عمران اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ “ تم یہاں اس کے ساتھ تنہا تھیں۔ گلا گھونٹ کر بھی مار سکتا تھا۔۔ “
“ پھر کیا ہے ؟“
“ یہی بتائے گا۔۔۔آٹھ ۔۔۔! “
“ رک جاؤ ۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔! “
“ نہیں زہر ہرگز نہیں ہو سکتا۔!“ عمران بولا۔ “ ورنہ زہر اور ریوالور کی گولی میں سے کسی کا انتخاب ضرور کر لیا جاتا۔! “
“ میں بتاتا ہوں ۔۔۔۔ٹھہر جاؤ ۔۔۔۔ زہر نہیں ہے! اسے پی کر یہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو جاتی۔! “
“ بیٹھ جاؤ۔۔۔!“ عمران نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
پیٹر چپ چاپ پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
“ تم ذلیل کتے ۔۔۔ کیوں میرا یہ حشر کرنا چاہتے تھے۔۔۔!“ شیلا آگے بڑھتے ہوئی بولی۔
“ تم بھی خاموشی سے اس طرف بیٹھ جاؤ۔! “ عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
پیٹر نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔ !“
“ میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لیے ڈرامہ نہ کرو۔! “ عمران نے سخت لہجے میں کہا۔ “ تم آخر ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے۔! “
“ اسکے باپ سیٹھ دھنی رام نے اس کام کے صلے میں بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ “
“ بکواس ہے ۔ جھوٹ ہے۔۔۔! “ شیلا دہاڑی! “ میرا باپ ایسا نہیں کر سکتا۔!“
“ پانچ ہزار ایڈوانس دئیے ہیں اور پندرہ ہزار کامیابی کے بعد ملتے “ پیٹر نے غصیلے لہجے
 

زھرا علوی

محفلین
“کک۔۔۔کیا مطلب؟“
“مطلب میں نہیں جانتا۔ تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔“
“پی لو نا۔! کیوں جھگڑا کر رہے ہو؟“ شیلا منمنائی۔
“میں تو ہرگز نہیں پیئوں گا۔ پھینک دوں گا۔!“
“خبردار۔۔۔ میز کے قریب بھی نہ آنا۔!“ عمران کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکل آیا۔!“
“کک ۔۔۔۔کیا؟“ پیٹر ہکلا کر رہ گیا۔
“شراب نہیں پیئو گے تو گولی ماردوں گا۔!“
“کک کیا تم سنجیدہ ہو؟“
“بالکل۔! دس تک گنتا ہوں۔!“ عمران نے کہا۔ “ اگر دس تک پہنچنے سے قبل تم نے گلاس خالی نہ کر دیا تو بے دریغ فائر کر دوں گا۔!“
“آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔!“
“قطرہ بھی نہ گرنے پائے۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔!“
“نہیں ۔۔۔ نہیں۔!“
“تین۔۔۔ چار۔!“
اب تو شیلا بھی سچ مچ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ اس منظر کے اس ٹکڑے سے وہ لاعلم تھی۔ عمران نے ایسی کسی سچویشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
“پانچ۔۔۔ چھ۔!“ عمران کی آواز سناٹے میں گونجی ۔
“ٹھہرو رک جاؤ ۔!“ پیٹر ہذیانی انداز میں چیخا۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
“سات۔!“
“نہیں۔!“
“ یہاں جو کچھ بھی ہوگا اس کی بھنک بھی باہر والوں کے کانوں میں نہ پڑ سکے گی۔!“ عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
“تت ۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو؟ “
“اس گلاس میں کیا ہے؟“
“شش۔۔۔شراب۔!
“بے ضرر؟ “ عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
پیٹر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
“ اگر یہ بے ضرر ہے تو اٹھاؤ گلاس اور حلق میں انڈیل لو۔!“
“زز ۔۔۔زہر۔۔۔!“ شیلا کی گھٹی گھٹی سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
“نہیں۔ زہر نہیں ہو سکتا۔!“ عمران اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ “ تم یہاں اس کے ساتھ تنہا تھیں۔ گلا گھونٹ کر بھی مار سکتا تھا۔!“
“پھر کیا ہے؟“
“یہی بتائے گا۔۔۔آٹھ۔!“
“رک جاؤ۔۔۔ ٹھہرو۔!“
“نہیں زہر ہرگز نہیں ہو سکتا۔!“ عمران بولا۔ “ ورنہ زہر اور ریوالور کی گولی میں سے کسی کا انتخاب ضرور کر لیا جاتا۔! “
“ میں بتاتا ہوں۔۔۔ ٹھہر جاؤ۔۔۔ زہر نہیں ہے اسے پی کر یہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو جاتی۔!“
“ بیٹھ جاؤ۔۔۔!“ عمران نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
پیٹر چپ چاپ پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
“تم ذلیل کتے ۔۔۔ کیوں میرا یہ حشر کرنا چاہتے تھے؟“ شیلا آگے بڑھتے ہوئی بولی۔
“تم بھی خاموشی سے اس طرف بیٹھ جاؤ۔! “ عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
پیٹر نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔!“
“میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لیے ڈرامہ نہ کرو۔! “ عمران نے سخت لہجے میں کہا۔ “تم آخر ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے؟“
“ اسکے باپ سیٹھ دھنی رام نے اس کام کے صلے میں بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔!“
“بکواس ہے۔ جھوٹ ہے۔۔۔! “شیلا دہاڑی۔!“میرا باپ ایسا نہیں کر سکتا۔!“
“پانچ ہزار ایڈوانس دئیے ہیں اور پندرہ ہزار کامیابی کے بعد ملتے۔!“ پیٹر نے غصیلے لہجے


پروف ریڈنگ اول مکمل: زہرا
 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم:‌جویریہ



"کک۔۔۔کیا مطلب؟"
"مطلب میں نہیں جانتا۔ تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔"
"پی لو نا۔ کیوں جھگڑا کر رہے ہو؟" شیلا منمنائی۔
"میں تو ہرگز نہیں پیئوں گا۔ پھینک دوں گا۔"
"خبردار۔۔۔! میز کے قریب بھی نہ آنا۔" عمران کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکل آیا۔"
"کک ۔۔۔۔کیا؟" پیٹر ہکلا کر رہ گیا۔
"شراب نہیں پیئو گے تو گولی ماردوں گا۔"
"کک۔۔۔۔۔ کیا تم سنجیدہ ہو؟"
"بالکل۔ دس تک گنتا ہوں۔" عمران نے کہا۔ " اگر دس تک پہنچنے سے قبل تم نے گلاس خالی نہ کر دیا تو بے دریغ فائر کر دوں گا۔"
"آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔"
"قطرہ بھی نہ گرنے پائے۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔"
"نہیں ۔۔۔ نہیں۔"
"تین۔۔۔ چار۔"
اب تو شیلا بھی سچ مچ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ اس منظر کے اس ٹکڑے سے وہ لا علم تھی۔ عمران نے ایسی کسی سچویشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
"پانچ۔۔۔ چھ۔" عمران کی آواز سناٹے میں گونجی ۔
"ٹھہرو رک جاؤ ۔" پیٹر ہذیانی انداز میں چیخا۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
"سات۔"
"نہیں۔"
" یہاں جو کچھ بھی ہوگا اس کی بھنک بھی باہر والوں کے کانوں میں نہ پڑ سکے گی۔" عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
"تت ۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو؟ "
"اس گلاس میں کیا ہے؟"
"شش۔۔۔شراب۔
"بے ضرر؟ " عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
پیٹر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
" اگر یہ بے ضرر ہے تو اٹھاؤ گلاس اور حلق میں انڈیل لو۔"
"زز ۔۔۔زہر۔۔۔" شیلا کی گھٹی گھٹی سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
"نہیں۔ زہر نہیں ہو سکتا۔" عمران اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ " تم یہاں اس کے ساتھ تنہا تھیں۔ گلا گھونٹ کر بھی مار سکتا تھا۔"
"پھر کیا ہے؟"
"یہی بتائے گا۔۔۔آٹھ۔"
"رک جاؤ۔۔۔ ٹھہرو۔"
"نہیں زہر ہرگز نہیں ہو سکتا۔" عمران بولا۔ " ورنہ زہر اور ریوالور کی گولی میں سے کسی کا انتخاب ضرور کر لیا جاتا۔ "
" میں بتاتا ہوں۔۔۔ ٹھہر جاؤ۔۔۔ زہر نہیں ہے۔ اسے پی کر یہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو جاتی۔"
" بیٹھ جاؤ۔۔۔" عمران نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
پیٹر چپ چاپ پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
"تم ذلیل کتے ۔۔۔ کیوں میرا یہ حشر کرنا چاہتے تھے؟" شیلا آگے بڑھتے ہوئی بولی۔
"تم بھی خاموشی سے اس طرف بیٹھ جاؤ۔ " عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
پیٹر نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔"
"میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لیے ڈرامہ نہ کرو۔ " عمران نے سخت لہجے میں کہا۔ "تم آخر ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے؟"
" اس کے باپ سیٹھ دھنی رام نے اس کام کے صلے میں بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔"
"بکواس ہے۔ جھوٹ ہے۔۔۔ "شیلا دھاڑی۔ "میرا باپ ایسا نہیں کر سکتا۔"
"پانچ ہزار ایڈوانس دیئے ہیں اور پندرہ ہزار کامیابی کے بعد ملتے۔" پیٹر نے غصیلے لہجے



پروف ریڈنگ اول مکمل: زہرا
بارِ دوم: جویریہ
 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم:‌جویریہ



"کک۔۔۔کیا مطلب؟"
"مطلب میں نہیں جانتا۔ تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔"
"پی لو نا۔ کیوں جھگڑا کر رہے ہو؟" شیلا منمنائی۔
"میں تو ہرگز نہیں پیئوں گا۔ پھینک دوں گا۔"
"خبردار۔۔۔! میز کے قریب بھی نہ آنا۔" عمران کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکل آیا۔"
"کک ۔۔۔۔کیا؟" پیٹر ہکلا کر رہ گیا۔
"شراب نہیں پیئو گے تو گولی ماردوں گا۔"
"کک۔۔۔۔۔ کیا تم سنجیدہ ہو؟"
"بالکل۔ دس تک گنتا ہوں۔" عمران نے کہا۔ " اگر دس تک پہنچنے سے قبل تم نے گلاس خالی نہ کر دیا تو بے دریغ فائر کر دوں گا۔"
"آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔"
"قطرہ بھی نہ گرنے پائے۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔"
"نہیں ۔۔۔ نہیں۔"
"تین۔۔۔ چار۔"
اب تو شیلا بھی سچ مچ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ اس منظر کے اس ٹکڑے سے وہ لا علم تھی۔ عمران نے ایسی کسی سچویشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
"پانچ۔۔۔ چھ۔" عمران کی آواز سناٹے میں گونجی ۔
"ٹھہرو رک جاؤ ۔" پیٹر ہذیانی انداز میں چیخا۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
"سات۔"
"نہیں۔"
" یہاں جو کچھ بھی ہوگا اس کی بھنک بھی باہر والوں کے کانوں میں نہ پڑ سکے گی۔" عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
"تت ۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو؟ "
"اس گلاس میں کیا ہے؟"
"شش۔۔۔شراب۔
"بے ضرر؟ " عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
پیٹر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
" اگر یہ بے ضرر ہے تو اٹھاؤ گلاس اور حلق میں انڈیل لو۔"
"زز ۔۔۔زہر۔۔۔" شیلا کی گھٹی گھٹی سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
"نہیں۔ زہر نہیں ہو سکتا۔" عمران اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ " تم یہاں اس کے ساتھ تنہا تھیں۔ گلا گھونٹ کر بھی مار سکتا تھا۔"
"پھر کیا ہے؟"
"یہی بتائے گا۔۔۔آٹھ۔"
"رک جاؤ۔۔۔ ٹھہرو۔"
"نہیں زہر ہرگز نہیں ہو سکتا۔" عمران بولا۔ " ورنہ زہر اور ریوالور کی گولی میں سے کسی کا انتخاب ضرور کر لیا جاتا۔ "
" میں بتاتا ہوں۔۔۔ ٹھہر جاؤ۔۔۔ زہر نہیں ہے۔ اسے پی کر یہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو جاتی۔"
" بیٹھ جاؤ۔۔۔" عمران نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
پیٹر چپ چاپ پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
"تم ذلیل کتے ۔۔۔ کیوں میرا یہ حشر کرنا چاہتے تھے؟" شیلا آگے بڑھتے ہوئی بولی۔
"تم بھی خاموشی سے اس طرف بیٹھ جاؤ۔ " عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
پیٹر نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔"
"میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لیے ڈرامہ نہ کرو۔ " عمران نے سخت لہجے میں کہا۔ "تم آخر ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے؟"
" اس کے باپ سیٹھ دھنی رام نے اس کام کے صلے میں بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔"
"بکواس ہے۔ جھوٹ ہے۔۔۔ "شیلا دھاڑی۔ "میرا باپ ایسا نہیں کر سکتا۔"
"پانچ ہزار ایڈوانس دیئے ہیں اور پندرہ ہزار کامیابی کے بعد ملتے۔" پیٹر نے غصیلے لہجے



پروف ریڈنگ اول مکمل: زہرا
بارِ دوم: جویریہ
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

"کک۔ ۔ ۔ کیا مطلب؟"
"مطلب میں نہیں جانتا۔ تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔ "
"پی لو نا۔ کیوں جھگڑا کر رہے ہو؟" شیلا منمنائی۔
"میں تو ہرگز نہیں پیئوں گا۔ پھینک دوں گا۔ "
"خبردار۔ ۔ ۔ ! میز کے قریب بھی نہ آنا۔ " عمران کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکل آیا۔ "
"کک۔ ۔ ۔ ۔ کیا؟" پیٹر ہکلا کر رہ گیا۔
"شراب نہیں پیئو گے تو گولی ماردوں گا۔ "
"کک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم سنجیدہ ہو؟"
"بالکل۔ دس تک گنتا ہوں۔ " عمران نے کہا۔ " اگر دس تک پہنچنے سے قبل تم نے گلاس خالی نہ کر دیا تو بے دریغ فائر کر دوں گا۔ "
"آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔ "
"قطرہ بھی نہ گرنے پائے۔ ۔ ۔ ایک۔ ۔ ۔ دو۔ ۔ ۔ "
"نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ "
"تین۔ ۔ ۔ چار۔ "
اب تو شیلا بھی سچ مچ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ اس منظر کے اس ٹکڑے سے وہ لا علم تھی۔ عمران نے ایسی کسی سچویشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
"پانچ۔ ۔ ۔ چھ۔ " عمران کی آواز سناٹے میں گونجی۔
"ٹھہرو رک جاؤ۔ " پیٹر ہذیانی انداز میں چیخا۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
"سات۔ "
"نہیں۔ "
" یہاں جو کچھ بھی ہو گا اس کی بھنک بھی باہر والوں کے کانوں میں نہ پڑ سکے گی۔ " عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
"تت۔ ۔ ۔ تم کیا چاہتے ہو؟ "
"اس گلاس میں کیا ہے ؟"
"شش۔ ۔ ۔ شراب۔
"بے ضر ر؟ " عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
پیٹر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
" اگر یہ بے ضر ر ہے تو اٹھاؤ گلاس اور حلق میں انڈیل لو۔ "
"ز ز۔ ۔ ۔ زہر۔ ۔ ۔ " شیلا کی گھٹی گھٹی سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
"نہیں۔ زہر نہیں ہو سکتا۔ " عمران اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ " تم یہاں اس کے ساتھ تنہا تھیں۔ گلا گھونٹ کر بھی مار سکتا تھا۔ "
"پھر کیا ہے ؟"
"یہی بتائے گا۔ ۔ ۔ آٹھ۔ "
"رک جاؤ۔ ۔ ۔ ٹھہرو۔ "
"نہیں زہر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ " عمران بولا۔ " ورنہ زہر اور ریوالور کی گولی میں سے کسی کا انتخاب ضرور کر لیا جاتا۔ "
" میں بتاتا ہوں۔ ۔ ۔ ٹھہر جاؤ۔ ۔ ۔ زہر نہیں ہے۔ اسے پی کر یہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو جاتی۔ "
" بیٹھ جاؤ۔ ۔ ۔ " عمران نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
پیٹر چپ چاپ پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
"تم ذلیل کتے۔ ۔ ۔ کیوں میرا یہ حشر کرنا چاہتے تھے ؟" شیلا آگے بڑھتے ہوئی بولی۔
"تم بھی خاموشی سے اس طرف بیٹھ جاؤ۔ " عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
پیٹر نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔ "
"میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لیے ڈرامہ نہ کرو۔ " عمران نے سخت لہجے میں کہا۔ "تم آخر ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے ؟"
" اس کے باپ سیٹھ دھنی رام نے اس کام کے صلے میں بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ "
"بکواس ہے۔ جھوٹ ہے۔ ۔ ۔ "شیلا دہاڑی۔ "میرا باپ ایسا نہیں کر سکتا۔ "
"پانچ ہزار ایڈوانس دیئے ہیں اور پندرہ ہزار کامیابی کے بعد ملتے۔ " پیٹر نے غصیلے لہجے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top