علامہ دہشتناک : صفحہ 64-65 : انتیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




r1zcjc.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

شکاری

محفلین
صفحہ ستائیس ، اٹھائیس، انتیس یہ میری ٹیم کے ہوئے ۔ میں صفحہ ستائیس پر کام کررہا ہوں باقی دو صفحوں پر کاشان اور خرم بھائی آپس میں مشورہ کرکے کام شروع کردیں ۔ اس کے بعد تینوں اپنے اپنے صفحے ایک دوسرے کو پروف ریڈنگ کے لیے بیھج دیں ۔
شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں۔“
”یاد ہے۔!“
”وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔!“
”وہ سب میرے دشمن ہورہے ہوں گے۔!“
”لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔!“
”کیا وہ تمہارے قیدی ہیں۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔!“
”تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے۔!“
”سامنے والے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے۔!“
”کیا کمرہ مقفل ہے۔!“
”نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ۔ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔!“
”میں بھی نہیں۔؟“
”اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔!“
””یعنی مجھے جبراََ نہیں روکا گیا۔!“
”ہرگز نہیں۔جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہوگی۔!“
”میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔ ۔ ۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں۔!“
”ہاں۔ ۔ ۔ ! جاؤ ۔ ۔ ۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔!“ عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑگیا۔!
شیلا نے ہینڈل گھماکر دروازہ کھولا اور ”ارے“ کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
”تت ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔!“
”اوہ تو تم بھی۔!“ شیلا نے کہا۔!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پیٹر خاموش رہا۔ ۔ ۔ شیلا جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔’اب بات سمجھ میں آئی۔ ۔ ۔ میں علامہ کی قید میں ہوں۔ ۔ ۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ کو قتل کرینے سے انکار کیا تھا۔!“
”فضول باتیں مت کرو۔ ۔ ۔ علامہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن تم ان لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئیں۔!“
”علامہ سے آخری ملاقات کے بعد شاہ دارا کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں میری گاڑی خراب ہوگئی۔ ایک غیر ملکی ہپی کی مدد سے شاہ دارا پہنچی۔ چچا کے گھر جانے سے پہلے اسی ہپی کے ساتھ شراب پی تھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ نہیں جانتی کہ اب کہاں ہوں۔!“”تمہارا مطلب ہے ہپی کے ساتھ شراب پی کر تم بے ہوش ہوگئی تھیں۔!“
”اس کے علاوہ کیا سمجھوں۔!“
”آخر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تم سے کیا چاہتا ہے۔!“
”کون کیا چاہتا ہے۔!‘
”ہپی۔!“
”وہ تو پھر اس کے بعد دکھائی ہی نہیں دیا۔ ۔ ۔ یہاں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔
سب اس طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے ان کی مہمان ہوں۔!“
”بڑی عجیب بات ہے۔ ۔ ۔ لیکن اس کمرے میں کیسے پہنچیں۔!“
”مجھ پر صرف عمارت سے باہر نکلنے کی پابندی ہے۔ اندر جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ لہذا گھومتی پھر رہی ہوں۔ دروازوں کے ہنڈل گھماتی ہوں مقفل نہیں ہوتے تو کھل جاتے ہیں۔!“
”کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں؟“
”نہیں۔! اس لئے تو الجھن بڑھ رہی ہے کہ آخر ہمارا معاملہ کیا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔!“
”یہ ایک ہپی عورت کی کہانی ہے ۔ ۔ ۔ “ پیٹر نے کہا۔ اور اپنی داستان محتصراََ دہراتا ہوا بولا۔” میں جانتا ہوں کہ اس عمارت کا مالک وہی ہے جو مجھے یہاں لایاہے۔!“
”وہ کون ہے۔؟“
”رانا تہور علی۔ ۔ ۔ یہ اُسی کا محل ہے۔!“
 

شکاری

محفلین
جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں۔!
”یاد ہے۔!“
”وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔!“
”وہ سب میرے دشمن ہورہے ہوں گے۔!“
”لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔!“
”کیا وہ تمہارے قیدی ہیں۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔!“
”تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے۔!“
”سامنے والے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے۔!“
”کیا کمرہ مقفل ہے۔!“
”نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ۔ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔!“
”میں بھی نہیں۔؟“
”اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔!“
یعنی مجھے جبراََ نہیں روکا گیا۔!“
”ہرگز نہیں۔جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہوگی۔!“
”میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔ ۔ ۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں۔!“
”ہاں۔ ۔ ۔ ! جاؤ ۔ ۔ ۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔!“ عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑگیا۔!
شیلا نے ہینڈل گھماکر دروازہ کھولا اور ”ارے“ کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
”تت ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔!“
”اوہ تو تم بھی۔!“ شیلا نے کہا۔!
 

شکاری

محفلین
پیٹر خاموش رہا۔ ۔ ۔ شیلا جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔’اب بات سمجھ میں آئی۔ ۔ ۔ میں علامہ کی قید میں ہوں۔ ۔ ۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ کو قتل کردینے سے انکار کیا تھا۔!“
”فضول باتیں مت کرو۔ ۔ ۔ علامہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن تم ان لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئیں۔!“
”علامہ سے آخری ملاقات کے بعد شاہ دارا کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں میری گاڑی خراب ہوگئی۔ ایک غیر ملکی ہپی کی مدد سے شاہ دارا پہنچی۔ چچا کے گھر جانے سے پہلے اسی ہپی کے ساتھ شراب پی تھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ نہیں جانتی کہ اب کہاں ہوں۔!“ ”تمہارا مطلب ہے ہپی کے ساتھ شراب پی کر تم بے ہوش ہوگئی تھیں۔!“
”اس کے علاوہ اور کیا سمجھوں۔!“
”آخر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تم سے کیا چاہتا ہے۔!“
”کون کیا چاہتا ہے۔!‘
”ہپی۔!“
”وہ تو پھر اس کے بعد دکھائی ہی نہیں دیا۔ ۔ ۔ یہاں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔
سب اس طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے ان کی مہمان ہوں۔!“
”بڑی عجیب بات ہے۔ ۔ ۔ لیکن اس کمرے میں کیسے پہنچیں۔!“
”مجھ پر صرف عمارت سے باہر نکلنے کی پابندی ہے۔ اندر جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ لہذا گھومتی پھر رہی ہوں۔ دروازوں کے ہینڈل گھماتی ہوں مقفل نہیں ہوتے تو کھل جاتے ہیں۔!“
”کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں؟“
”نہیں۔! اس لئے تو الجھن بڑھ رہی ہے کہ آخر ہمارا معاملہ کیا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔!“
”یہ ایک ہپی عورت کی کہانی ہے ۔ ۔ ۔ “ پیٹر نے کہا۔ اور اپنی داستان محتصراََ دہراتا ہوا بولا۔” میں جانتا ہوں کہ اس عمارت کا مالک وہی ہے جو مجھے یہاں لایاہے۔!“
”وہ کون ہے۔؟“
”رانا تہور علی۔ ۔ ۔ یہ اُسی کا محل ہے۔!“
 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ



جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں؟“
”یاد ہے۔“
”وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔“
”وہ سب میرے دشمن ہو رہے ہوں گے۔“
”لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔“
”کیا وہ تمہارے قیدی ہیں؟“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔“
”تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے؟“
”سامنے والے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے۔“
”کیا کمرہ مقفل ہے؟“
”نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔“
”میں بھی نہیں؟“
”اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔“
”یعنی مجھے جبراََ نہیں روکا گیا۔“
”ہرگز نہیں۔ جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہوگی۔“
”میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔ ۔ ۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں؟“
”ہاں۔ ۔ ۔ جاؤ ۔۔۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔“ عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑ گیا۔
شیلا نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور ”ارے" کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
”تت ۔ ۔ ۔ تم ۔۔۔؟“
”اوہ تو تم بھی۔“ شیلا نے کہا۔
پیٹر خاموش رہا۔۔۔ شیلا جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔’اب بات سمجھ میں آئی۔ ۔ ۔ میں علامہ کی قید میں ہوں۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ کو قتل کر دینے سے انکار کیا تھا۔“
”فضول باتیں مت کرو۔ ۔ ۔ علامہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن تم ان لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئیں؟“
”علامہ سے آخری ملاقات کے بعد شاہ دارا کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں میری گاڑی خراب ہوگئی۔ ایک غیر ملکی ہیپی کی مدد سے شاہ دارا پہنچی۔ چچا کے گھر جانے سے پہلے اسی ہیپی کے ساتھ شراب پی تھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ نہیں جانتی کہ اب کہاں ہوں۔"
”تمہارا مطلب ہے ہیپی کے ساتھ شراب پی کر تم بے ہوش ہوگئی تھیں؟“
”اس کے علاوہ اور کیا سمجھوں؟“
”آخر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تم سے کیا چاہتا ہے؟“
”کون کیا چاہتا ہے؟‘
”ہپی۔“
”وہ تو پھر اس کے بعد دکھائی ہی نہیں دیا۔ ۔ ۔ یہاں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔
سب اس طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے ان کی مہمان ہوں۔“
”بڑی عجیب بات ہے۔۔۔ لیکن اس کمرے میں کیسے پہنچیں؟“
”مجھ پر صرف عمارت سے باہر نکلنے کی پابندی ہے۔ اندر جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ لہٰذا گھومتی پھر رہی ہوں۔ دروازوں کے ہینڈل گھماتی ہوں مقفل نہیں ہوتے تو کھل جاتے ہیں۔“
”کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں؟“
”نہیں! اس لئے تو الجھن بڑھ رہی ہے کہ آخر ہمارا معاملہ کیا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“
”یہ ایک ہیپی عورت کی کہانی ہے ۔۔۔ “ پیٹر نے کہا اور اپنی داستان مختصراََ دہراتا ہوا بولا۔ "میں جانتا ہوں کہ اس عمارت کا مالک وہی ہے جو مجھے یہاں لایاہے۔“
”وہ کون ہے؟“
”رانا تہور علی۔ ۔ ۔ یہ اُسی کا محل ہے۔“
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر

جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں؟“
”یاد ہے ۔“
”وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔“
”وہ سب میرے دشمن ہو رہے ہوں گے ۔“
”لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے ۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔“
”کیا وہ تمہارے قیدی ہیں؟“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔“
”تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے ؟“
”سامنے والے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے ۔“
”کیا کمرہ مقفل ہے ؟“
”نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔“
”میں بھی نہیں؟“
”اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔“
”یعنی مجھے جبراََ نہیں روکا گیا۔“
”ہرگز نہیں۔ جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہو گی۔“
”میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔ ۔ ۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں؟“
”ہاں۔ ۔ ۔ جاؤ ۔۔۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔“ عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑ گیا۔
شیلا نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور ”ارے " کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
”تت ۔ ۔ ۔ تم ۔۔۔؟“
”اوہ تو تم بھی۔“ شیلا نے کہا۔
پیٹر خاموش رہا۔۔۔ شیلا جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔’اب بات سمجھ میں آئی۔ ۔ ۔ میں علامہ کی قید میں ہوں۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ کو قتل کر دینے سے انکار کیا تھا۔“
”فضول باتیں مت کرو۔ ۔ ۔ علامہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن تم ان لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئیں؟“
”علامہ سے آخری ملاقات کے بعد شاہ دارا کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں میری گاڑی خراب ہو گئی۔ ایک غیر ملکی ہیپی کی مدد سے شاہ دارا پہنچی۔ چچا کے گھر جانے سے پہلے اسی ہیپی کے ساتھ شراب پی تھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ نہیں جانتی کہ اب کہاں ہوں۔"
”تمہارا مطلب ہے ہیپی کے ساتھ شراب پی کر تم بے ہوش ہو گئی تھیں؟“
”اس کے علاوہ اور کیا سمجھوں؟“
”آخر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تم سے کیا چاہتا ہے ؟“
”کون کیا چاہتا ہے ؟‘
”ہپی۔“
”وہ تو پھر اس کے بعد دکھائی ہی نہیں دیا۔ ۔ ۔ یہاں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔
سب اس طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے ان کی مہمان ہوں۔“
”بڑی عجیب بات ہے ۔۔۔ لیکن اس کمرے میں کیسے پہنچیں؟“
”مجھ پر صرف عمارت سے باہر نکلنے کی پابندی ہے ۔ اندر جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ لہٰذا گھومتی پھر رہی ہوں۔ دروازوں کے ہینڈل گھماتی ہوں مقفل نہیں ہوتے تو کھل جاتے ہیں۔“
”کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں؟“
”نہیں! اس لئے تو الجھن بڑھ رہی ہے کہ آخر ہمارا معاملہ کیا ہے ۔ اب تم بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“
”یہ ایک ہیپی عورت کی کہانی ہے ۔۔۔ “ پیٹر نے کہا اور اپنی داستان مختصراََ دہراتا ہوا بولا۔ "میں جانتا ہوں کہ اس عمارت کا مالک وہی ہے جو مجھے یہاں لایا ہے ۔“
”وہ کون ہے ؟“
”رانا تہور علی۔ ۔ ۔ یہ اُسی کا محل ہے ۔“
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر

جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں؟“
”یاد ہے ۔“
”وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔“
”وہ سب میرے دشمن ہو رہے ہوں گے ۔“
”لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے ۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔“
”کیا وہ تمہارے قیدی ہیں؟“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔“
”تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے ؟“
”سامنے والے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے ۔“
”کیا کمرہ مقفل ہے ؟“
”نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔“
”میں بھی نہیں؟“
”اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔“
”یعنی مجھے جبراََ نہیں روکا گیا۔“
”ہرگز نہیں۔ جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہو گی۔“
”میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔ ۔ ۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں؟“
”ہاں۔ ۔ ۔ جاؤ ۔۔۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔“ عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑ گیا۔
شیلا نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور ”ارے " کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
”تت ۔ ۔ ۔ تم ۔۔۔؟“
”اوہ تو تم بھی۔“ شیلا نے کہا۔
پیٹر خاموش رہا۔۔۔ شیلا جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔’اب بات سمجھ میں آئی۔ ۔ ۔ میں علامہ کی قید میں ہوں۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ کو قتل کر دینے سے انکار کیا تھا۔“
”فضول باتیں مت کرو۔ ۔ ۔ علامہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن تم ان لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئیں؟“
”علامہ سے آخری ملاقات کے بعد شاہ دارا کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں میری گاڑی خراب ہو گئی۔ ایک غیر ملکی ہیپی کی مدد سے شاہ دارا پہنچی۔ چچا کے گھر جانے سے پہلے اسی ہیپی کے ساتھ شراب پی تھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ نہیں جانتی کہ اب کہاں ہوں۔"
”تمہارا مطلب ہے ہیپی کے ساتھ شراب پی کر تم بے ہوش ہو گئی تھیں؟“
”اس کے علاوہ اور کیا سمجھوں؟“
”آخر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تم سے کیا چاہتا ہے ؟“
”کون کیا چاہتا ہے ؟‘
”ہپی۔“
”وہ تو پھر اس کے بعد دکھائی ہی نہیں دیا۔ ۔ ۔ یہاں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔
سب اس طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے ان کی مہمان ہوں۔“
”بڑی عجیب بات ہے ۔۔۔ لیکن اس کمرے میں کیسے پہنچیں؟“
”مجھ پر صرف عمارت سے باہر نکلنے کی پابندی ہے ۔ اندر جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ لہٰذا گھومتی پھر رہی ہوں۔ دروازوں کے ہینڈل گھماتی ہوں مقفل نہیں ہوتے تو کھل جاتے ہیں۔“
”کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں؟“
”نہیں! اس لئے تو الجھن بڑھ رہی ہے کہ آخر ہمارا معاملہ کیا ہے ۔ اب تم بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“
”یہ ایک ہیپی عورت کی کہانی ہے ۔۔۔ “ پیٹر نے کہا اور اپنی داستان مختصراََ دہراتا ہوا بولا۔ "میں جانتا ہوں کہ اس عمارت کا مالک وہی ہے جو مجھے یہاں لایا ہے ۔“
”وہ کون ہے ؟“
”رانا تہور علی۔ ۔ ۔ یہ اُسی کا محل ہے ۔“
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top