سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
ستائیسواں صفحہ : 60 - 61
”یہ مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ ۔ ۔ !“ اجنبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
”خیر کہاں جائیگی۔میں رپوٹ کئے دیتا ہوں۔ ۔ ۔!“
”جتنی دیر میں رپورٹ کروگے شہر سے باہر جاچکی ہوگی! میں جانتا ہوں وہ کہاں رہتی ہے۔!“
”تو پھر میری مدد کرو۔ پولیس کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا ۔!“ پیٹر بولا۔
”پہلے تم اپنی شٹ اپ واپس لو۔!“ اجنبی نے احمقانہ انداز میں کہا۔
”جس طرح کہو واپس لینے کو تیار ہوں ۔ ۔ ۔!“
”چلو کافی ہے ۔“ اجنبی سر ہلا کر بولا۔!”اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اکڑ باقی نہیں رہی۔!“
”اچھی بات ہے ۔ ۔ آؤ وہ رہی میری گاڑی ۔ ۔ !“
دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے اور اسطرف روانہ ہوگئے تھے جدھر وہ پیٹر کی گاڑی لے گئی تھی۔!
”تم سے کیا کہہ رہی تھی۔!“ اجنبی نے پوچھا۔
”یہی کہ میں ایک آدمی سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں ۔ ۔ پھر جیسے ہی تم دوکان سے برآمد ہوئے تھے اس نے تمہاری طرف اشارہ کیا تھا۔!“
”بہر حال تم نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ وہ کیا چیز ہے۔!“
”تم جانتے ہو کہ وہ کہاں رہتی ہے۔!“
”تب پھر وہ شائد سیدھی گھر کی طرف نہ جائے۔!“
”بس تو کوئی فائدہ نہیں اتر جاؤ گاڑی سے اور تھانے جا کر رپوٹ درج کرادو۔ ۔ ۔ !“ اجنبی
نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔!
”کیا تم ایسا نہیں کر سکتے کہ کسی ٹیلی فون بوتھ کے قریب گاڑی روکو اور میں ایک کال کرلوں۔ ۔ ۔ اس کے بعد اس کا گھر بھی دیکھ لیں گے۔!“
”چلو یہی کر لو۔ ۔ مجھے تم پر رحم آ رہا ہے! وہ روز ہی کسی نہ کسی طرح ایک آدھ کو ٹھگ لیتی ہے۔!“
”میں تمہاری اس امداد کو ہمشہ یاد رکھوں گا۔!“ پیٹر بولا۔
اجنبی نے گاڑی دوسری سڑک پر موڑ کر اسے ایک ٹیلی فون بوتھ تک پہنچ دیاتھا۔
پیٹر دراصل علامہ کو مطلع کرنا چاہتا تھا کہ وہ ہدایت کے مطابق فوری طور پر اس کے پاس
اس کو بھی پڑھ لے جناب ابو کاشان ، شکاری بھائی اور زینب آپی
”تم کہنا کیا چاہیت ہو؟“ پیٹر جھنجھلا کر بولا۔
”یہی کہ میں تم سے بھیک نہیں مانگنا چاہتی ۔ ایک میرے پیچھے لگا ہوا ہے اس سے بچنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ اوہ خدایا ۔ ۔ وہ آگیا!“
ایک دوکان سے ایک دیسی آدمی نکل کر تیر کی طرح ان کی طرف آیا تھا۔!
”یہ کون ہے؟“ وہ قریب پہنچ کر غرایا۔”تم تو میرے ساتھ ہی جارہی تھیں۔!“
”کیا مطلب!“ عورت اسے گھورتی ہوئی بولی۔! ”میں نہیں جانتی کہ تم کون ہو۔؟“
”اچھا۔ ۔ ۔ ٹھہرو بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں۔!“
اس نے اس طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ پیٹر کڑک کر بولا۔!” خبر دار اسے ہاتھ لگانے کی جرآت نہ کرنا۔!“
”اخاہ بڑے سورمالگتے ہو۔ ۔ ۔ !“
“شٹ اپ۔!“
“ابے اتر تو نیچے پھر بتاؤں شٹ اپ کہنے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ ۔ ۔!“
پیٹر آپے سے باہر ہو کر گاڑی سے اُتر آیا۔
”ہاں تو کہنا یہ تھا کہ شٹ اپن نہیں کہا کرتے۔ ۔ ۔ !“ اجنبی نے احمقانہ انداز میں کہا۔
”تم مجھے اس کا انجام بتانا چاہتے تھے۔ ۔ ۔ ۔!“ پیٹر آنکھیں نکال کر بولا۔
”شرمندگی ۔ ۔ ۔ صرف شرمندگی۔ ۔ ۔ ہر قسم کی اکڑ بالآخر شرمندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔!“ اجنبی کا لہجہ بے حد ڈھیلا ڈالا تھا۔
اچانک پیٹر کی گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ انجن اس نے بند نہیں کیا تھا! بوکھلا کر پلٹاتھا۔ لیکن گاڑی اگلے موڑ پر پہنچ کر نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔
اجنبی نے قہقہہ لگایا۔ اور بولا۔’ دیکھا شٹ اپ کہنے کا انجام۔!“
”یہ سب کیا تھا!“ پیٹر جھینپے ہوئے لہجے میں بولا۔
”اول درجے کی فراڈ عورت ہے۔ آج میں اس سے اپنا پیچھلا حساب بے باق کرنا چاہتا تھا۔ کہ تم بیچ میںآکودے۔!“اجنبی نے کہا۔
”اب کیا کریں۔؟“ پیٹر بڑبڑایا۔
”یہ مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ ۔ ۔ !“ اجنبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
”خبر کہاں جائیگی۔میں رپوٹ کئے دیتا ہوں۔ ۔ ۔!“
”جتنی دیر میں رپورٹ کروگے شہر سے باہر جاچکی ہوگی! میں جانتا ہوں وہ کہاں رہتی ہے۔!“
”تو پھر میری مدد کرو۔ پولیس کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا ۔!“ پیٹر بولا۔
”پہلے تم اپنی شٹ اپ واپس لو۔!“ اجنبی نے احمقانہ انداز میں کہا۔
”جس طرح کہو واپس لینے کو تیار ہوں ۔ ۔ ۔!“
”چلو کافی ہے ۔“ اجنبی سر ہلا کر بولا۔!”اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب کڑ باقی نہیں رہی۔!“
”اچھی بات ہے ۔ ۔ آؤ وہ رہی میری گاڑی ۔ ۔ !“
دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے اور اسطرف روانہ ہوگئے تھے جدھر وہ پیٹر کی گاڑی لے گئی تھی۔!
”تم سے کیا کہہ رہی تھی۔!“ اجنبی نے پوچھا۔
”یہی کہ میں ایک آدمی سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں ۔ ۔ پھر جیسے ہی تم دوکان سے برآمد ہوئے تھے اس نے تمہاری طرف اشارہ کیا تھا۔!“
”بہر حال تم نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ وہ کیا چیز ہے۔!“
”تم جانتے ہو کہ وہ کہاں رہتی ہے۔!“
”تب پھر وہ شائد سیدھی گھر کی طرف نہ جائے۔!“
”بس تو کوئی فائدہ نہیں اتر جاؤ گاڑی سے اور تھانے جا کر رپوٹ درج کرادو۔ ۔ ۔ !“ اجنبی
نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔!
”کیا تم ایسا نہیں کر سکتے کہ کسی ٹیلی فون بوتھ کے قریب گاڑی روکو اور میں ایک کال کرلوں۔ ۔ ۔ اس کے بعد اس کا گھر بھی دیکھ لیں گے۔!“
”چلو یہی کر لو۔ ۔ مجھے تم پر رحم آ رہا ہے! وہ روز ہی کسی نہ کسی طرح ایک آدھ کو ٹھگ لیتی ہے۔!“
”میں تمہاری اس امداد کو ہمشہ یاد رکھون گا۔!“ پیٹر بولا۔
اجنبی نے گاڑی دوسری سڑک پر موڑ کر اسے ایک ٹیلی فون بوتھ تک پہنچ دیاتھا۔
پیٹر دراصل علامہ کو مطلع کرنا چاہتا تھا کہ وہ ہدایت کے مطابق فوری طور پر اس کے پاس