سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 34 - 35
”الو کی کھوپڑی مل گئی ہے ۔ اور گیدڑ کی تھوتھنی کے لئے ہم شکارپر چلیں گے باس۔!“
”شایداب تم لوگ مجھے زندہ نہیںرہنے دو گے۔“
”تم خود سوچو باس کیا یہ دونوں اس قابل ہیںکہ والدین کہلائیں۔“
”او عقل مند اس دنیا میں ننانوئے فیصد افراد اس قابل نہیں ہیں کہ والدین کہلائیں پھر بھی کہلاتے ہیں۔!“
”اسی لئے تو دینا برباد ہوئی جارہی ہے۔ ۔ ۔ !“
” میں اپنا سردیواروں سے ٹکراکر مرجاؤں گا۔!“
”بس اتنا ہی ہے تیرے بس میں۔ جب دل چاہے کرگزر۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا، دفع ہوجا۔!“ عمران ہاتھ ہلاکر بولا۔
جوزف کے جاتے ہی فون کی گھنٹی بجی تھی۔ عمران نے ہاتھ بڑھاکر ریسیواٹھالیا۔
”ہیلو۔!“
”میں مہ لگابول رہی ہوں۔ ۔ ۔ !“
”اچھا اچھا سامالیکم۔!“
”آپ نے کیا کیا۔ ۔ ۔ ؟“
”سب ٹھیک ہے۔ اب ان لوگوں سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔!“
”لیکن مجرم کا سراغ تو ملنا ہی چاہئے۔“
”عدا تعویز کرائے۔ ہاتھ باندھے خدمت میں حاضر ہوجائےگا۔!“
”کیامطلب!“
”ظاہر ہے کہ بیگم تصدق دل کی مریضہ ہیں۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے کہ خود ان کے ہاتھ صاف ہوں لیکن انہی کا کوئی ہمدرد بھی ہو سکتا ہے۔!“
”میں نہیں سمجھی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔!“
”اگر کوئی ہمدرد دونوں لڑکیوں کو ختم کرکے تصدق صاحب کا وارث انہیں بنانا چاہتا ہو تو ۔ ۔ ۔ پھر ان کے بعد خود مالک بن بیٹھنے کے امکانات پر غور کر رہا ہو تو۔“
”اتنی لمبی چھلانگ کون لگانا پسند کرئے گا۔ ۔ ۔ !“
”کیا دس بیس سال کا فکسڈ ڈپازٹ کرادینا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔“
”بس تو پھر رختِ سفر باندھئے۔ بیگم تصدق کے آباؤاجداد خراسان سے آئے گھے۔!“
”یہ لیڈی ڈاکٹر زہرہ جبیں کیسی عورت ہے؟“
”دیکھئے اس بیچاری کو لپٹیے نہیں۔ یاسمیں دودن تک دہی نکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!“
”میرا مطلب ہے کہ اس نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی۔!“
”میں بلا اس کا کیا جواب دے سکتی ہوں ۔ ۔ ۔ ویسے آپ شادی کیوں نہیں کرتے۔“
”شادی کرنے سے مجھے زکام ہوجاتا ہے۔!“
”کتنی کرچکے ہیں اب تک۔!“
عمران خوموش رہا ۔ ”ہیلو“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
”یاسمیں ایک ایک ہفتے تک گھر سے غائب رہتی تھی ۔!“ عمران نے کہاں۔
”مجھے اس کا علم نہیں۔“
”مرنے سے چار دن قبل بھی وہ ایک ہفتے بعد گھر میںداخل ہوئی تھی۔“
”خدا جانے ۔!“
”بات بیگم تصدق کی تھی۔!“
ایکس ٹوواے فون کی گھبٹی بجی۔ ۔ ۔ اور عمران نے ڈاکٹر مہ لقا سے کہا۔ ”جو کچھ بھی امکان میںہے ضرور کیا جائے گا۔“
”آپ ہمارے گھر کب سے نہیں آئے۔!“
”عدیم الفرصتی کی وجہ سے اپنا ہی گھر چھوٹا ہوا ہے۔ “ کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
“ایکس ٹووالے فون کا ریسیور اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس سے منسلک ٹیپ ریکارڈر کا سرخ بلب روشن ہوگیا ۔ معینہ مدت میں ریسیور نہ اٹھانے کی بنا پر کال ریکارڈ ہونے لگی تھی۔“
وہ چب چاپ فون کے پاس سے ہٹ آیا ۔ پیغام ریکارڈ ہوجانے کی علامت ظاہر ہوتے ہی اس نے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن دبایا تھا۔ اسپول ریوائنڈ ہونے لگا۔!“