سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 20 - 21
"کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔!" زہرہ جبیں نے گھٹی گھٹی سی آواز میں پوچھا۔
"خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔! ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دلوانے جا رہا ہوں۔! "
"اگر تم اعتراف نہ کرلیتیں کہ یہ شیشی یہیں سے دی گئی ہے تو کوئی بات نہیں تھی۔پھر بھی بے فکر رہو۔ضابطے کی کاروائیاں تو ہوتی رہتی ہیں۔"
"اس کی پبلسٹی بھی ہو گی۔!"
"یہ مجھ پر چھوڑ دو۔اگر دوستوں کے لئے اتنے چھوٹے موٹے کام بھی نہ کر سکوں تو پھر میرے وجود کا فائدہ ہی کیا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔تمھارا نام پریس تک نہیں پہنچنے پائے گا۔"
پھر فیاض نے مطب ہی سے اپنے ایک دوست ایڈووکیٹ کو زہرہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے ہدایات دی تھیں۔ اور زہرہ کو مزید تسلّیاں دے کر وہاں سے روانہ ہو گیا تھا۔!
اُسے مرنے والی کی قیام گاہ کا پتہ معلوم تھا۔ لٰہذا وہ سیدھا وہیں پہنچا۔ یاسمین کی بڑی بہن دردانہ بنگلے میں موجود تھی۔ زہرہ کے بیان کے مطابق دوا کی شیشی اس کے سامنے ہی یاسمین کو دی گئی تھی۔
"یہ درست ہے جناب۔!" دردانہ نے فیاض کو سوال کے جواب میں کہا۔"میں موجود تھی اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس نے شیشی کھول کر دوٹکیاں کھائی تھیں۔!"
"لیکن اس کا حوالہ آپ کے بیان میں نہیں ہے۔۔۔۔اس سے لیڈی ڈاکٹر کی پوزیشن خطرے میں پڑ گئی ہے۔!"
"مجھے افسوس ہے اگر ایسا ہوا ہے۔! میں اپنے بیان میں اس اضافے کے لئے تیّار ہوں۔"
"تو انہوں نے دو دنوں تک اسی شیشی سے وہ ٹکیاں استعمال کی تھیں۔!"
"جی ہاں۔!"
"اور آپ کو یقین ہے کہ کوئی دوسری شیشی نہیں خریدی گئی تھی۔!"
"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بازار میں دستیاب ہی نہیں ہے۔!"
"کیا وہ آخری ٹکیاں استعمال کرنے سے قبل گھر ہی پر رہی تھیں۔!"
"جی نہیں۔۔۔۔تھوڑی دیر قبل باہر سے آئی تھی۔!"
"بہرحال۔!" فیاض پُر تفکّر لہجے میں بولا۔"آپ لوگوں کے بیان کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وقوعے سے قبل شیشی سے اصل ٹکیاں نکال کر ویسی ہی شکل والی دوسری ٹکیاں رکھی گئی تھیں۔کیونکہ وہ ساری ہی زہر آمیز ثابت ہوئی ہیں۔ زہر بھی ایسا کہ دو ٹکیاں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنے دے سکتیں۔!"
دردانہ کچھ نہیں بولی۔ اس کے پپوٹے متورّم اور آنکھیں سرخ تھیں۔ چہرے پر گہرا اضمحلال طاری تھا۔ فیاض نے دوسرے افرادِخاندان سے متعلق پوچھ گچھ شروع کر دی۔
دردانہ کا باپ ایک متمول سرکاری ٹھیکیدار تھا۔ماں سوتیلی تھی۔ لیکن لاولد تھی۔ یہی دونوں لڑکیاں باپ کے بعد جائیداد اور دوسری املاک کی حقدار ہوتیں۔ بھائی کوئی نہیں تھا۔!
"سنئے جناب۔!" دردانہ بولی۔ "اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کوئی غلط نظریہ قائم کر لیں۔!"
"میں نہیں سجھا۔!"
"کہیں آپ لوگ یہ نہ سوچیں کہ سوتیلی ماں۔۔۔۔!"وہ جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو گئی۔!
غالباً کسی کی آہٹ سن کر بات پوری نہیں کی تھی۔مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔
ادھیڑ عمر کی ایک خوش شکل عورت کمرے میں داخل ہوئی۔انداز پروقار تھا۔
دردانہ کھڑی ہو گئی۔ فیاض بھی اُٹھا تھا۔ عورت نے دردانہ سے کہا۔"تم اپنی بات جاری رکھو۔!"
"یہ میری ماں ہیں۔!" دردانہ نے فیاض سے کہا۔
"آداب قبول فرمایئے محترمہ! بعض معاملات کی وضاحت کے لئے آپ لوگوں کو تکلیف دینی پڑی۔"
"تشریف رکھئے۔" عورت نے مغموم لہجے میں کہا۔
"ہاں تو میں یہ کہ رہی تھی جناب!" دردانہ نے ان کے بیٹھ جانے کے بعد کہا۔"گھر میں کوئی ایسا فرد نہیں جو یاسمین کی موت کا خواہاں ہوتا۔"
"آپ غلط سمجھیں!" فیاض مسکرا کر بولا۔"افرادِ خاندان کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔!"
" نہیں آپ شوق سے امکانات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔!" عورت نے کہا۔"میں ان بچیوں کی