سورہ آلِ عمران آیات 155، 157، 158، 160 ارشادِ حق تعالیٰ ہے:
جو لوگ تم میں سے (اُحد کے دن)جبکہ (مومنوں اور کافروں کی) دو(۲) جماعتیں ایک دوسرے سے گُتھ گئیں(جنگ سے)بھاگ گئے تو اُن کے بعض افعال کے سبب شیطان نے اُن کو پھُسلا دیا ۔ مگر خدا نے اُن کاقصور معاف کردیا۔ بے شک خدا بخشنے والا بُردبار ہے ۔ اور اگر تم خدا کے رستے میں مارے جاﺅ یا مر جاﺅ تو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں اس سے خدا کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے ۔اور اگر تم مر جاﺅ یا مارے جاﺅ توخدا کے حضور ضرور اکھٹے کئے جاﺅ گے۔ اگر خدا تمہارا مدد گار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو پھر کون ہے کہ جو تمہاری مدد کرے ؟ اور مومنوں کو چاہیے کہ خدا ہی پر بھروسہ رکھیں ۔“
اَفَحَسِبَ الَّذِینَ کَفَرُو اَن یَّتَّخِذُوا عِبَادِی مِن دُونِی اَولِیَآءَ ط اِنَّا اَعتَدنَا جَھَنَّمَ لِلکٰفِرِینَ نُزُلاً۔
کیا کافرلوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا اولیاء بنائیں گے توہم (خفا نہیں ہونگے؟) ہم نے (تو ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے۔“
(سورہ الکہف: آیت102)
سورہ البقرة آیات 80، 81، 82۔ ارشادِ حق تعالیٰ ہے کہ:
” اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی ۔ اُن سے پوچھو کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرارکے خلاف نہیں کرے گا؟ (نہیں) بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں ۔ ہاں جو برے کام کرے اور اُس کے گناہ اُس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ (میں ڈالے جانے) والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اِس میں رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے وہ جنت کے مالک ہوں گے (اور) ہمیشہ اُس میں رہیں گے۔“
سورہ آلِ عمران آیت 144
”اورمحمد تو صرف (خدا کے) پیغامبرہیں اُن سے پہلے بھی بہت سے پیغامبر ہو گزرے ہیں۔ بھلا اگریہ مر جائیں یا مارے جائیں توتم اُلٹے پاﺅں پھر جاﺅ گے؟ اور جو ا لٹے پاﺅں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور خدا (دین پر قائم رہنے والے) شکر گزا روں کو فائدہ اورثواب دے گا ۔“
یاد رہے کہ اِس آیت کو یاد رکھنے والے اور اِس کا مطلب بتانے والے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ”جو کوئی پیغامبرعلیہ السلام کی عبادت کرتا تھا تو وہ یہ جان لے کہ پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا ہے اور جو کوئی خدا کی عبادت کرتا ہے تو خدا زندگی کا خالق موجود اور سدا قائم ہے“۔یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت جناب ابوبکر کو صدیق مانتی ہے مگر آپ کی نصیحت میں غور نہیں کرتی۔
سورہ البقرة آیت 165۔ ارشادِ حق تعالیٰ ہے کہ:
”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک ( خدا ) بنا تے اور اُن سے خدا کی سی محبت کر تے ہیں ۔ لیکن جو ایمان وا لے ہیں وہ تو خدا ہی سے شدید محبت رکھتے ہیں اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کو (حاصل) ہے اور یہ کہ خدا سخت عذا ب کرنے والا ہے۔“
یہ آیت اُن لوگوں کو سخت عذاب سے ڈرا رہی ہے جو انسانوں سے شدید محبت کے باعث یہ کہتے ہیں کہ خدا سے محبت دراصل خدا کے بندوں سے محبت ہے لہذا جب تک بندوں سے خدا سی محبت نہ ہوگی نجات نہ ہوگی۔ انجیلِ مقدس کی کتاب لوقا میں مسیح ابن مریم علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ : ”نوکر مالک کے برابر نہیں ہوتااور نہ ہی بھیجا ہوا (یعنی رسول) بھیجنے والے (خدا) کے (برابر ہو سکتا ہے)“…….. یعنی تمام کے تمام پیغامبر اپنے اپنے بیان کے مطابق صرف اور صرف عبد اوررسول تھے۔ پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”جناب حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یوں نہ کہو، جو اﷲ ربِّ عظیم چاہے اور محمد چاہے بلکہ یوں کہو جو اکیلا اﷲ چاہے۔“
(شرح السنة للبغوی ج12 ص 361، رقم 8891))
فاروقی بھائی،
آپ بعینہ وہی کام کر رہے ہیں کہ جس کے متعلق میں مسلسل خدشات ظاہر کر رہی تھی، یعنی "ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے قران کی کچھ آیات کی مدد سے قران کی دیگر آیات کو سینکڑوں احادیث نبوی کو نظر انداز کرنا یا انکا انکار کرنا"۔
چاہے ایک ہزار اور آیات بھی آپ قران سے نقل کر دیں، مگر یقین کریں ان میں سے ایک بھی ان دیگر قرانی آیات کی تکذیب نہیں کر رہیی ہیں جو میں نے اوپر پوسٹ کی ہیں۔ مثلا اللہ تعالی نے اگر یہ فرما دیا ہے کہ اللہ اور اسکا رسول اپنے فضل سے غنی کرتا ہے، تو اب ہمیں یہ قبول کرنا ہی ہو گا۔
////////////////////
قران میں مجازی معنوں والی آیات کی کچھ اور مثالیں
اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔
فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
(القران 27:40) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے
لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول (ص) کے لیے بھی فرما رہا ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم
(القران 69:40) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔
جب ہم اللہ کے لیے „کریم“ استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم „نبیِ کریم“ کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔
رسول ص قوت والا ہے
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز
(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول (ص) بھی قوت والا ہے
ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔
کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟
رؤوف اور رحیم
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسول(ص) کے لیے فرما رہا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 9:12
لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔
اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:
عالم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل ؑ کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
حلیم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم ؑ اور اسمعیل ؑ کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
شکور:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح ؑ کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
بر:
یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ ؑ اور یحییٰ ؑ کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
نتیجہ:
اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔
اب کوئی بھی ان قرانی آیات کو محض اپنے ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتا۔
جب ہم اللہ کو „کریم“ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور جب ہم رسول اللہ (ص) کو „کریم“ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں کرنی پڑتی ہے۔
اور اگر یہ حضرات اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً یہ حضرات تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول (ص) کو بھی مشرک بنا دیں گے۔
تو پھر توحید کیا ہے؟
جب بھی ظاہر پرستی کا ذکر ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی کچھ صفات میں رسول اللہ (ص) اور دیگر مومنین بھی مجازی معنوں میں شامل ہیں، تو پھر اکثر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پھر توحید کیا ہے اور اس کی کیا تعریف ہے۔ یہ سوال ابتک کی پوری بحث کا سب سے اہم سوال ہے۔
خاص صفات بمقابلہ عام صفات
اور یہ جاننے کے لیے کہ توحید کیا ہے اور شرک کیا ہے، یہ بہت اہم ہے کہ ہم اللہ کی „خاص صفات“ اور „عام صفات“ کا فرق سمجھیں۔
„خاص صفات وہ ہیں جنہیں اللہ نے صرف اپنے لیے مخصوص رکہا ہے۔ مثلاً „معبود“ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ( اور شعائر اللہ کے لیے صرف تعظیم ہے مگر کوئی عبادت نہیں ہے)۔
شریعت بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کوئی چھوٹا سا قانون بھی بنا کر حلال چیزوں کو حرام کرتا پھرے۔
پوری کی پوری سورۃ اخلاص اللہ کے انہی „خاص“ صفات سے بھری ہوئی ہے (اور انہی خصوصیات کی وجہ سے اسکو سورہ توحید بھی کہا جاتا ہے):
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
کہہ دو اللہ ایک ہے
(یہ صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اگر اللہ چاہتا تو کئی محمد(ص) پیدا کر دیتا)
اللَّهُ الصَّمَدُ
وہ بے نیاز ہے
(مگر محمد (ص) بے نیاز نہیں ہیں بلکہ انہیں اللہ کی ضرورت ہے)
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور کسی کا بیٹا
(مگر محمد(ص) کا باپ بھی تھا اور اولاد بھی)
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے
(مگر محمد (ص) اللہ کے ہمسر نہیں ہیں)
تو محترم برادران:
· یہ توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول (ص) کریم ہیں۔
· اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے غنی کرتے ہیں۔
· اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ بھی ہمارے ولی ہیں۔
· اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ (ص) ہمیں اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری مدد کرتے ہیں اور ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان کی شفاعت ہماری مغفرت کا باعث ہو گی۔
اگر یہ حضرات اب بھی اپنی ظاہر پرستی کے باعث ان خاص اور عام صفات کا فرق نہ سمجھ پائیں، تو یقیناً یہ تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول (ص) کو بھی مشرک بنا دیں گے۔
ظاہر پرست بمقابلہ جہمیہ
سعودیہ کے مشہور عالم „ابو منتصر“ اپنی کتاب „بدعت کا فتنہ“ میں لکھتے ہیں:
„جہمیہ لوگوں کی وہ جماعت ہے جو اللہ کی صفات کا انکار اپنی عقل اور دلائل کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ اللہ کو انسان جیسا بنا دیں گے۔“
مگر جب ہم آج کے ظاہر پرست حضرات کو دیکہتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ:
„ ظاہر پرست حضرات لوگوں کا وہ گروہ ہے جو رسول اللہ (ص) کی صفات کا انکار اس بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح یہ رسول (ص) کو اللہ جیسا بنا دیں گے۔“
والسلام۔