عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
یار ان غزلوں میں تو کئی اشعار بہت خوب ہیں۔ مبارک ہو۔ جیسے
دل میں کُچھ اعتبار باقی ہے
ہاں ترا انتظار باقی ہے
واہ واہ، خوب شعر ہے۔
کیا یہ ساری غزلیں پچھلے سال کی ہی ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
یار ان غزلوں میں تو کئی اشعار بہت خوب ہیں۔ مبارک ہو۔ جیسے
دل میں کُچھ اعتبار باقی ہے
ہاں ترا انتظار باقی ہے
واہ واہ، خوب شعر ہے۔
کیا یہ ساری غزلیں پچھلے سال کی ہی ہیں؟
 

عظیم

محفلین
یار ان غزلوں میں تو کئی اشعار بہت خوب ہیں۔ مبارک ہو۔ جیسے
دل میں کُچھ اعتبار باقی ہے
ہاں ترا انتظار باقی ہے
واہ واہ، خوب شعر ہے۔
کیا یہ ساری غزلیں پچھلے سال کی ہی ہیں؟

جی نہیں بابا وہ تو ایک ہی مراسلہ تها پچهلے سال کی ''گزلوں '' کا ۔ باقی تو بعد کی ہیں جو شعر آپ کو پسند آیا وہ بھی پچھلے دنوں ہی کہا ۔
 

عظیم

محفلین

ضبط کو آزما لِیا میں نے
دل کا دکھڑا سنا لِیا میں نے

کیا عجب واقعہ ہُوا مُجھ ساتھ
دوست دشمن بنا لِیا میں نے

میں نہیں جانتا تمہارے بن
کیسے جیون بتا لِیا میں نے

دل کے لگنے پہ بزمِ غیراں میں
حشر سا اک اُٹھا لِیا میں نے

چھپتا پھرتا ہوں میر میروں سے
آپ کا غم کما لِیا میں نے

دیکھتے رہ گئے مرے استاد
ہوش اپنا گنوا لِیا میں نے

حال سمجھا نہ کوئی اس دل کا
یُوں تو سب کو سنا لِیا میں نے

جب کبھی غش پڑا ہے رونے سے
آپ خود کو ہنسا لِیا میں نے

سوچتا ہوں عظیم بن بن کر
خاک خود کو بنا لِیا میں نے





 

شانزہ خوشی

محفلین
کیا سچ مچ یہ شاعری ہے ۔ایسی شاعری پڑھنے سے بہتر ہے انسان مر جائے ۔ خدا جانے لکھنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں ۔کچھ بھی بکواس کئے جاتے ہیں ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا سچ مچ یہ شاعری ہے ۔ایسی شاعری پڑھنے سے بہتر ہے انسان مر جائے ۔ خدا جانے لکھنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں ۔کچھ بھی بکواس کئے جاتے ہیں ۔

بری بات ہے اس طرح کا لہجہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔

یہ شاعری اصلاحِ سخن کے ذمرے میں ہے اور اصلاحِ سخن میں شاعری سیکھنے کی غرض سے پوسٹ کی جاتی ہے اور یہاں ندرتِ بیان اور معنی آفرینی کے بجائے مشق پر زور ہوتا ہے۔ جب یہاں سے شعراء سیکھ جاتے ہیں تو پھر یہی لوگ مقدار سے زیادہ معیار پر توجہ دیتے ہیں اور اچھے شاعر کہلاتے ہیں۔
 

عظیم

محفلین



چوٹ کھاتے رہے مسکراتے رہے
نغمہ زندگی گنگناتے رہے

قابلِ دید تھیں رونقیں دشت کی
شہر والوں سے پیچھا چھڑاتے رہے

کیا کہیں کس مرض میں گرفتار ہیں
کیا کہیں کیا نہیں بکبکاتے رہے

ہم کو مطلوب اُس کی رضا ہے فقط
لوگ اغیار میں سر جھکاتے رہے

تھے اسی واسطے تیرے پیدا کئے
نت نئے لوگ آکر ستاتے رہے

راس آئیں نہ دنیا کی سب محفلیں
آسماں پر کہیں گھر بساتے رہے

اس زمانے سے ہم کو تھا کیا واسطہ
دور تھے اس سے ہم دور جاتے رہے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



وقت کو قید کر لِیا جائے
آج فرصت ہے مر لِیا جائے

اکھڑے لہجوں میں بات کیا کرنی
چپ کا صدمہ ہی دھر لِیا جائے

پھر ہی الجھیں جناب ہم سے آ
پہلے ہم سا بکھر لِیا جائے

اس زمانے سے کھائیں وحشت کیوں
آگے اس سے گزر لِیا جائے

دل میں کوئی اک اور بھی ہے شخص
کُچھ تعارف ہی کر لِیا جائے

آج اپنی عظیم جھولی کو
خاک اپنی سے بھر لِیا جائے

جھانکتے ہیں جو مُجھ میں صاحب لوگ
اُن کے اندر اتر لِیا جائے


 

عظیم

محفلین


یار ان غزلوں میں تو کئی اشعار بہت خوب ہیں۔ مبارک ہو۔ جیسے
دل میں کُچھ اعتبار باقی ہے
ہاں ترا انتظار باقی ہے
واہ واہ، خوب شعر ہے۔
کیا یہ ساری غزلیں پچھلے سال کی ہی ہیں؟

کیا سچ مچ یہ شاعری ہے ۔ایسی شاعری پڑھنے سے بہتر ہے انسان مر جائے ۔ خدا جانے لکھنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں ۔کچھ بھی بکواس کئے جاتے ہیں ۔

خیر مبارک بابا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہم نہیں جانتے وفا صاحب
ہم نے کهایا ہے بس دغا صاحب

غم بس اس بات کا رلاتا ہے
چهپ کے بیٹها ہے کیوں خدا صاحب

سن کے اوروں سے اپنے بارے لعن
ہم تو دیتے رہے دعا صاحب

آپ اچهے ہیں اور اچهے ہوں
ہم کو رہنے دیں یوں برا صاحب

دیکهتے ہیں اخیر اپنا ہم
دیکھ رکهی ہے ابتدا صاحب

کچھ خبر آپ کی نہیں معلوم
کب ہے اپنا بھی کچھ پتا صاحب

میں گنہگار ہوں وفاؤں کا
روز کرتا ہوں اک خطا صاحب

آنکهوں کو پهاڑ پهاڑ دیکهو گے
شوق اپنے کی انتہا صاحب

پیر لوگوں میں بیٹھ کر میرا
جاتا جائے گا بچپنا صاحب



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


مسکرا کر غم بهلایا جائے گا
یہ تماشا بهی لگایا جائے گا

کیا مصیبت ہے کہ اپنا بهار ہی
اپنے کاندهوں پر اٹهایا جائے گا

ہو چکا پتهر ہمارا دل عظیم
کب زمانے سے دکهایا جائے گا

آپ کے مقتول ہیں کیونکر بهلا
آسماں سے رحم کهایا جائے گا

ہم نہیں قائل ہیں اشکوں کے معاشق
چشم تر سے خوں بہایا جائے گا

اپنی ہی بربادیوں پر بیٹھ کر
خوب رویا مسکرایا جائے گا

ہو چکے اپنے پرائے ہم عظیم
اب کسے اپنا بنایا جائے گا


 

عظیم

محفلین


آپ نے خود کو ہمارا کر لیا
ہم نے دنیا سے کنارا کر لیا

ہو گئے ناراض ہم سے دو جہاں
ہم نے چرچا کیا تمہارا کر لیا

آنکھیں موندیں دیکھ کر ہوتا برا
اچھے اچھوں کو اشارا کر لیا

دل ہمیں بخشا تھا جو اُس کو بھی آپ
یُوں جلا رکھا شرارا کر لیا

کیا غرض اغیار سے ہم کو عظیم
ہم نے اپنوں کا نظارا کر لیا

صاحب اک ہی کام تھا ہم کو یہاں
اور سمجھے کام سارا کر لیا




 

عظیم

محفلین
تُو بھی کتنا عظیم بھولا ہے
کس نے کہنے سے قبل تولا ہے

آکے بیٹھے گا آپ ہی اندر
جس نے دل کا کواڑ کھولا ہے

شاعری آ ہی جائے گی آخر
خوب اپنا جگر ٹٹولا ہے

ہر کوئی ایک سا نہیں ہوتا
کوئی ماشہ ہے کوئی تولا ہے

اتنی عزت عظیم کافی ہے
سر پہ پگڑی ہے تن پہ چولا ہے

 

عظیم

محفلین


عرق شبنم کو پھول سمجھا تھا
میں زمانے کو دھول سمجھا تھا

میرے گریے کو میرے نالے کو
عقل والا فضول سمجھا تھا

خوش ہوں اس بات پر کہ میں دل کو
تیری خاطر ملول سمجھا تھا

اپنی آوارگی کو میں اپنی
زندگی کا حصول سمجھا تھا

کیسا بد بخت ہوں کہ صاحب میں
عشق اپنے کو بھول سمجھا تھا


 

عظیم

محفلین



خود کو پاگل بنا لیا میں نے
روگ ایسا لگا لیا میں نے

مسکراتے رہے جہاں والے
دل کا دکھڑا سنا لیا میں نے

پی لئے اشک اپنی آنکھوں کے
اپنے جگرے کو کھا لِیا میں نے

اور تو کچھ نہ تھا زمانے میں
دل کو تُجھ سے لگا لیا میں نے

ہو گئے شاد میرے دشمن کیا
دیکھ خود کو مٹا لیا میں نے

یاد آنے پہ تیرے اے ہمدم
اک زمانہ بھلا لیا میں نے

صاحب اٹھتا نہ میر سے دیکھا
وہ جو پتھر اُٹھا لیا میں نے


 

عظیم

محفلین


لوگ ازلوں کی تان سوتے ہیں
ہم یہاں چاہتوں کو روتے ہیں

کوئی آتا نہیں تسلی کو
غم گسار اس طرح کے ہوتے ہیں

ہم تو ناداں ہیں آپ ہی کہئے
کیسے الفت کے بیج بوتے ہیں

اور کو کیوں نظر نہیں آتا
اپنے دامن کے داغ دھوتے ہیں

آپ غالب کے ہوں بھتیجے لاکھ
میر صاحب کے ہم بھی پوتے ہیں



بابا ایویں ایک پچھلی غزل یاد آ گئی تھی ۔
 
Top