عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 267
سخت برا معلوم ہوا۔ یہاں پردے کا سوال نہیں، سوال بدتمیزی کا تھا۔ اتنے میں آپ بنچ پر بیٹھ کر سچ مچ اس طرح گھورنے لگے کہ منہ کے سامنے تو اخبار ہے مگر آنکھیں ہیں کہ برقعے کی طرف اور وہ بھی اس بدتمزی کے ساتھ کہ عرض نہیں کر سکتا۔
میں اس شخص کی بدتمیزی پر جل بھن کر خاک ہی تو ہو گیا اور لپکتا ہوا آیا اور آتے ہی میں نے کہا۔
"شرم نہیں آتی آپ کو۔۔۔ مسلمان ہو کر آپ۔۔۔" بھنا کر میں نے دیکھا۔ "کیا آپ اس بنچ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔۔۔" میں نے سامنے والی بنچ کی طرف اشارہ کیا۔
"معاف کیجئے گا۔۔۔ میں ۔۔۔ میں ۔۔۔"
ایک دم سے گاڑی آ گئی اور قلی نے اسباب اٹھایا اور ہم چل دیئے مگر یہ بدتمیز دیکھتا ہی رہا۔
ہم کوئٹہ پہنچے ہیں تو مارے خوشی کے ہمارا برا حال ہو گیا۔ لیکن تعجب تو جب ہوا کہ کوئی بھی صورت ایسی نظر نہ آئی جو ہماری متلاشی یا منتظر ہو۔ بہت کچھ ادھر ادھر دیکھا مگر کوئی صورت کسی کو منتظر نہ معلوم ہوئی۔ اسٹیشن پر تار کے بارے میں دریافت کیا معلوم ہوا کہ ریلوے محکمہ کوئی گارنٹی دیر یا جلدی کی نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ خیر ہمیں پتہ تو معلوم ہی تھا۔ اب میری بیوی کا یہ عالم تھا کہ ماں باپ سے ملنے کی خوشی میں اس کے دل میں درد سا ہوتا تھا۔ اس کی صورت، اس کی شکل، اس کی زبان۔ قصہ مختصر وہ مجسم شکریہ بنی ہوئی تھی۔
قصہ کو مختصر کر کے عرض ہے کہ ہم گھر جو پہنچے تو سناٹا۔ صرف ایک نوکرانی تھی اور باہر ایک نوکر۔ یہ دونوں ہی خوشی سے باؤلے ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا پہلا تار ملتے ہی ارجنٹ تار دے دیا کہ "ہم آتے ہیں" اور چونکہ گاڑی تیار تھی اور ماں باپ بیٹی کے لئے بے تاب تھے لہذا فوراً چل دیئے۔
میری بیوی ایک ٹھنڈی سانس لے کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اسی وقت اندازہ لگایا کہ گاڑی کس اسٹیشن پر ہو گی اور اس اسٹیشن ماسٹر کی معرفت تار دیا اور ایک تار جہاں سے ہم آئے تھے وہاں کے پتہ پر دیا۔ اب پریشانی تو یہ تھی کہ وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ ہم ٹھہرے کہاں تھے۔ ہم تو ڈاک بنگلے میں تھے۔ لہذا ڈاک بنگلے ہی کی معرفت تار دیا۔ اب اتفاق تو دیکھئے کہ کھانا جو سامنے آیا تو چاول! میری بیوی نے پھر اسی طرح نفرت سے کہا کہ "ہٹاؤ! انہیں سامنے سے۔۔۔ کیڑے سے ہیں۔۔۔" حالانکہ معلوم ہوا کہ چاولوں سے اسے رغبت تھی مگر نہ معلوم کیوں۔ شاید سفر وغیرہ کے سبب برے معلوم ہوئے۔
میری بیوی نوکرانی سے باتیں کرنے لگی۔ معلوم ہوا کہ سوا میری بیوی کے ان کے کوئی اولا د

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 268
نہیں۔ ایک جوان بیٹا تھا، وہ سال بھر ہوا مر گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تار ملتے ہی میری ساس کا عجیب وارفتگی کا سا عالم ہو گیا تھا۔ بیتاب تھیں کہ اپنی بیٹی کے پاس کیسے پر لگا کر پہنچ جاؤں۔ میری بیوی کا بھی سن کر وہی حال ہوا۔ حد یہ کہ آنسو جاری ہیں اور اپنی ماں اور باپ کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر اس نے وارفتگی کے عالم میں چومنا شروع کیا۔ ہر بات دیوانوں کی سی تھی۔
ہم کوئٹہ کوئی رات کے نو بجے پہنچے ہوں گے اور اسی بات چیت میں گیارہ بج گئے۔ نوکرانی اور نوکر چلے گئے اور ہم دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔
ہاں یہ کہنا بھول گیا کہ ایک تار اور ہم نے دلوایا تھا۔ یہ تار ڈاک بنگلے کے نوکر کے نام دیا تھا کہ اسٹیشن پر جا کر تم فلاں فلاں نام کے شخص سے ملو اور کہہ دو کہ ہم یہاں ہیں۔ اس کے عوض ہم نے انعام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ رات کے بارہ بجے اور ہم دراصل انتظار کر رہے تھے کہ شاید اس تار کا جواب آتا ہو۔
میں نے بیوی سے کہا بھی کہ سو جاؤ مگر اسے نیند کہاں۔ ہم اسی طرح باتیں کیا کئے اور وقت گزرتا گیا۔
کمرہ بجلی کی روشنی سے جگمگا رہا تھا اور میری بیوی رہ رہ کر اپنی خوش قسمتی پر خوش ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں محبت کا نور تھا۔ چہرے پر ایک دلربا لرزش تھی آواز میں ایک دلکش ترنم تھا۔ جذبات کا یہ حال کہ نوجوان سینے میں معلوم ہو کہ محبت کا ایک طوفان بند ہے جس کے مد و جزر کے سبب کبھی تو وہ آنکھوں اور چہرے پر عجیب و غریب لرزش پیدا کر کے عجیب طرح سانس لیتی تھی اور کبھی خاموش سی ہو جاتی اور میں دیکھتا کہ شادمانی سے آنکھوں میں ایک دلربا جنبش ہے۔ میں اس کے سینے کو دیکھتا تھا کہ کس طرح جذبات محبت کے سبب دب دب کر ابھر رہے ہیں۔
"یا میرے اللہ!" اس نے اپنے چہرے پر عجیب و غریب چمک پیدا کر کے کہا۔ "میرا کیا حال ہو گا جب ملوں گی۔" اور اتنا کہہ کر اس نے ایک عجیب انداز سے اپنی گردن جھکائی اور آہستہ آہستہ میری طرف جھکتے ہوئے میرے سینے پر محبت سے سر رکھ دیا۔ اس کا محبت آمیز دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے محبت سے کلیجے سے لگا لیا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھا اس نے اپنی مخمور آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے عجیب انداز سے مسکراہٹ کو روکتے ہوئے آنکھیں جھپکا کر کہا "جان" اور میری گردن میں ہاتھ حمائل کر کے میرے دل میں گھسنے کی کوشش کی۔ میں نے بے اختیار ہو کر اس کی پیشانی پر ایک بوسہ دیا ہے کہ ہم دونوں چونک پڑے! یہ کیا! ہیں! ایک دل ہلا دینے والی ہیبت ناک گرج تھی۔ زمین کا خوفناک دیوتا گڑگڑا رہا تھا۔ ہماری سمجھ میں بھی نہ آیا تھا کہ کیا ہوا کہ قیامت آ گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 269
ایک ہیبت ناک گرج کے ساتھ مکان کی چھت گری میری بیوی کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ صور اسرافیل پھونک دیا گیا تھا اور قیامت کا شور تھا کہ الامان! نکلتے نکلتے کمرے سے مکان کی دیوار گری اور میری آنکھوں کے سامنے میری جان سے زیادہ عزیز اور دلربا بیوی کے تن نازنین پر ایک دیوار کا حصہ گرا۔ ایک چیخ تو اس کے منہ سے نکلی اور بس۔ میں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ میرے اوپر پتھروں کی بارش ہوئی مگر میں نکل کر ایک میدان میں آ گیا جو برابر کے وسیع مکان کے گرنے سے بن گیا۔ ایک شور قیامت برپا تھا اور چیخ پکار کے سبب کچھ سنائی نہ دیتا تھا اور زمین سچ مچ ایسی چیخ رہی تھی کہ ساری فضا ہل رہی تھی۔ زمین کے خوفناک ہونکارے کی صدا! ہاں! ہاں! ہاں! ہاں! ایک سناٹے کا شور تھا کہ چیخ جو رعد کی ہولناک گرج میں جا کر معدوم ہو جاتی تھی۔
میں اور دو آدمی اور ایک جگہ محفوظ تھے۔
خدا کی پناہ! کیا ہیبت ناک سین تھا جب صبح ہوئی۔ زلزلے کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے تھیں۔ زلزے کے خفیف جھٹکے برابر آ رہے تھے۔ سارا شہر کھنڈر پڑا تھا۔ میں نے ہمت کر کے جا کر دیکھا۔ خدا کی پناہ! میرا دل مسل کر رہ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری جان و ایمان، میری پیاری بیوی کی لاش پڑی تھی۔ اس کا نصف بدن کچل کر رہ گیا تھا جس جانکنی سے اس کا دم نکلا ہو گا اس کے آثار اس کے چہرے پر تھے جو کبھی دلکشی اور حسن و جوانی کا مرکز تھا۔ جس پر کبھی عشق و محبت کا نور غلطاں رہتا تھا! "آہ" میرے سینے سے نکلی اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ نوکر اور نوکرانی تلاش بیکار تھی۔ مگر میں اپنے محبوب کی لاش کیسے چھوڑ سکتا تھا۔
جس طرح بن پڑا میں شام تک اپنی دلربا بیوی کی لاش نکال کر باہر لے گیا۔ مکان شہر کے کنارے ہی پر تھا۔ میں لاشے کو لئے بیٹھا ہی تھا کہ فوج کے گورے آئے اور میری مدد کی۔
اس محبت کی پڑیا کو روتے دھوتے اسی حالت میں میں نے اپنے ہاتھ سے فوجی امداد سے سپرد خاک کیا اور گھنٹوں سر پکڑے وہیں بیٹھا رہا کہ ہائے اس مایہ خوبی کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔
پیش نظر جو کچھ بھی تھا اس کا عشر عشیر آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا۔ لاشوں کی بھرمار، زخمیوں کی چیخ پکار، الامان کیا سین تھا۔ میرا سر پھر گیا الہٰی کدھر جاؤں اور کدھر نہ جاؤں۔ شکستہ قبر میرا مرکز تھی اور فوج کے گورے سپاہی کھانے کو دیتے تھے۔ لاوارثوں کا ایک جم غفیر تھا کس لاپرواہی سے لوگ لاشوں اور زٕخمیوں سے بے نیاز تھے! سوال یہ تھا کہ میں کہاں جاؤں۔ سب کا ہجوم فوج کے سپاہیوں کی طرف تھا اور جو ماں اور باپ تھے تو وہ تھے۔
پانچویں دن کا ذکر ہے کہ میں فوجی کیمپ سے قبر کی طرف جا رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے ایک شناسا چلے آ رہے ہیں۔ دماغ کا یہ حال کہ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کون ہے اور
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے صفحہ 250 تا 269
ایم ایس ورڈ کی فائل منسلک ہے۔
 

Attachments

  • Azim Baig P250 to 269.ZIP
    41.9 KB · مناظر: 0

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 290​
پہنچی۔ ایسے ایسے نہ معلوم کتنے وہاں اسی قسم کی درخواست لے کر آتے تھے اور واپس جاتے تھے، لیکن وہ اور تھے یہ اور تھی۔ اس نے افسر کمانڈنگ سے دوبدو اپنے میاں کے بارہ میں گفتگو کی، اور پھر اس پیرایہ میں کہ وہ دنگ رہ گیا مگر اس نے اس کو صاف جواب دیا۔ مگر یہ کب ماننے والی تھی۔ سر ہو گئی۔ بنگلہ کے کنارے سڑک پر ہی اس نے ڈیرہ ڈال دیا، اس کو تنگ کر مارا۔ اس کے ساتھیوں کو اور دوستوں کو اس کی میم کو پریشان کر مارا۔ دن رات کا تقاضا تھا اور یہی کہتی تھی کہ یہاں سے نہ ٹلوں گی۔ پندرہ روز اس کو اسی طرح گذر گئے اور جب اس کا نتیجہ نہ نکلا تو یہ پاگل سی ہو گئی۔ دیوانہ وار افسر کمانڈنگ پر دوڑتی اور اس کو پکڑ کر اس کی خوشامد کرتی، ایک روز اس نے افسر کمانڈنگ کی میم کو پکڑ لیا اور کہا کہ خواہ مجھے کاٹ ڈالو اب تمہیں نہ چھوڑوں گی۔ دھمکی کو یہ شمار میں نہ لائی اور اس قدر روئی پیٹی کہ اس میم کا دل موم ہو گیا اور اس نے وعدہ کر لیا۔ قصہ مختصر میم نے اپنے شوہر سے نہ معلوم کس کس طرح سفارش کرکے ڈاکٹری معائنہ کراکے امر سنگھ کو برخاست کروا ہی دیا۔ افسر کمانڈنگ اور نیز تمام دوسرے افسروں کی بیویاں جو افسر کمانڈنگ کی بیوی سے ملنے آتی تھیں سب نے اس کی سفارش کی اور اسی وجہ سے امر سنگھ چھوٹ کر آ گیا۔​
یہ قصہ سن کر اس ناتجربہ کار پردے میں بیٹھنے والی مگر دلیر لڑکی پر بے حد تعجب ہوا اور کس قدر ارادے کی پختگی وہ افسر کمانڈنگ سے یہی کہتی تھی کہ یا تو میرے میاں کو چھوڑو اور یا مجھے بھی اس کے ساتھ بھیج دو۔​
میں نے امر سنگھ کو مبارکباد دی اور کہا، جاؤ، اب مزے سے رہو۔ صرف ایک فوٹو کی میں نے درخواست کی اور دونوں میاں بیوی کو کھڑا کرکے ان کا ایک فوٹو لے لیا تاکہ یادگار رہے۔​
امر سنگھ چلا گیا، لیکن بعد میں وہ عرصے تک بھرتی کا کام کرتا رہا۔ لڑائی ختم ہو گئی اور تمام اسباب جنگ تتر بتر ہو گئے۔ میں نہ معلوم کہاں سے کہاں پہنچا۔ اب صرف میرے پاس ان دونوں میاں بیوی کا ایک بوسیدہ سا فوٹو رہ گیا ہے۔ جو اکثر اس شوہر پرست بیوی کی یاد دلاتا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 291​
"بھاگ گئی"
(1)​
منشی فراست علی ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے مگر اپنی محنت سے صاحب دولت بن گئے۔ دوسرے بھائی احمد نے کچھ نہ کیا بلکہ جو کمایا وہ اڑایا۔ ہمیشہ غریب کے غریب ہی رہے۔ خدا کی قدرت کہ لڑکا ہوا تو وہ بھی ایسا ہی ہوا۔ منشی فراست علی کا اپنا کنبہ بالکل مختصر تھا۔ ایک بیوی اور ایک لڑکی اور خود، گھر پر ایک سے دو ہونے کے لیے اپنے ایک دور کے عزیز کے لڑکے کو جو یتیم تھا لڑکی کو قرآن اردو اور فارسی پڑھانے کو رکھ لیا تھا۔​
عائشہ پر خدا نے سال بھر کے اندر وہ مصیبت ڈالی جو کسی پر نہ پڑے۔ ماں بیمار پڑی اور دس دن میں رخصت۔ تین چار ماہ بعد منشی فراست علی کی پرانی شکایت یعنی دمے کی بیماری نے ایسا زور باندھا کہ جوں جوں علاج کیا، مرض بڑھتا ہی گیا۔ اور چار پانچ مہینے کے قلیل عرصے میں انتقال کر گئے۔ جائیداد جو کچھ تھی، وہ بھائی اور لڑکی کے حصہ میں آئی۔ لڑکی کا جائز ولی اب سوائے چچا کے کوئی نہ تھا۔ چچا کے گھر پہنچ کر اس نے اور ہی رنگ دیکھا۔ چچا کا لڑکا جو جوان تھا اور تحصیل میں چپراسی تھا مگر حال یہ تھا کہ کچھ عرصے سے بیکار تھا۔ کیونکہ وہاں سے برخاست ہو چکا تھا۔ بیوی کو مار مار کر اس نے وہ برا حال کیا کہ غریب اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔​
جب کبھی آتی خواہ مخواہ ماری جاتی۔ شراب کی بھی عادت اور عموماً رات کے گیارہ بجے سے کبھی بیشتر گھر میں نہ آتا تھا، باپ بیچارہ خود پریشان تھا کہ کیا کروں، اکلوتا لڑکا تھا۔ جو کچھ بھی کما کر لاتا، بیوی کو دیتا اور لڑکے کا یہ حال کہ ماں سے سب کچھ لے لیتا، غرض عائشہ نے گھر کی وہ حالت دیکھی جو کبھی سننے میں بھی نہ آئی تھی۔ گھر کا کام کاج کرتے کرتے وہ پست ہو جاتی تھی مگر پھر بھی چچی ناراض ہی رہتی۔ جب سے وہ آئی تھی اس کو پیسہ کوڑی کبھی کچھ نہ ملا۔ باپ کے زمانے کے کپڑے پھٹنے کو آئے مگر چچا چچی نے کچھ پرواہ نہ کی۔​
ایک روز رات کے گیارہ بجے جب وہ سو رہی تھی اس کی چچی نے اس کو جگایا اور آواز دے کر کہا کہ اٹھ کر کھانا دے دو۔ وہ سمجھ گئی کے میاں فاروق علی آ پہنچے۔ کھانا لے کر گئی تو بے​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ292​
حد خفا ہوئے کہ ٹھنڈا ہے، دوڑتی ہوئی بیچاری باورچی خانہ میں گئی، آگ جلائی اور اس شرابی کے لیے کھانا گرم کیا۔ کھانا گرم کرکے سامنے رکھا اور پینے کے لیے پانی لا کر رکھا۔ کھانا عمدہ پکا ہوا تھا اور میاں فاروق اس وقت ترنگ میں تھے، کہنے لگے کہ "عائشہ یہ کھانا کس نے پکایا ہے۔"​
عائشہ نے کہا۔ " میں نے ہی پکایا ہے۔"​
فاروق نے چپکے سے کہا۔" تب تو تم بڑی ہوشیار لڑکی ہو میں اب دوسری شادی تمہارے ساتھ ہی کروں گا۔"​
عائشہ اب پندرہ برس کی لڑکی تھی، اس نے کبھی یہ لفظ کاہے کو سنے تھے۔ ایک سناٹے میں آ گئی، بدن سے پسینہ جاری ہو گیا اور فوراً وہاں سے سیدھی اپنے پلنگ پر پہنچی۔ روتے روتے سو گئی، رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بلا اس کی طرف پنجہ پھیلا کر بڑھ رہی ہے، اس کا بدن مکڑی کا سا ہے اور قد ہاتھی کا سا اور منہ فاروق کا سا۔ مارے ڈر کے سوتے ہی میں اس کی زور سے چیخ نکل گئی۔ چچی گھبرا کر پکاری کہ "عائشہ کیا ہے۔" عائشہ نے کہا کچھ نہیں، میں نے خواب دیکھا تھا اور ڈر گئی۔​
عائشہ کو فاروق کی صورت سے نفرت ہو گئی تھی۔ وہ اس سے اس طرح ڈرتی تھی جیسے قصائی سے جانور ڈرتے ہیں۔​
(2)​
عزیزداری میں ایک موت ہو گئی تھی اور عائشہ کی چچی کو پرسے میں جانا تھا۔ چچا کھانا کھا کر کچہری چلے گئے۔ چچی نے کہا کہ " میں تم کو نہیں لے جاسکتی کیونکہ تمہارے نہ پیر میں ٹھیک جوتا ہے اور نہ کپڑے۔ تم گھر پر ہی رہو۔ فاروق آئے تو اس کو کھانا کھلا دینا۔"​
عائشہ کا سنتے ہی دم نکل گیا، اس نے دبی زبان سے کچھ کہنا چاہا مگر چچی نے کہا۔" نہیں میں تم کو نہیں لے جاؤں گی۔"​
چچی کے چلے جانے کے بعد عائشہ کی عجیب حالت تھی۔ دروازے کی طرف کھٹکا سنتی اور سہم جاتی، اس کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔ بارہ بج گئے اور ایک بجنے کو آیا مگر فاروق کا پتہ نہ تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ آج وہ نہیں آئے گا کیونکہ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ صبح کا گیا ہوا بس رات کے بارہ ہی بجے آتا تھا۔ اس کو قدرے اطمینان ہو چلا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے تخت پر لا کر کھانا قرینے سے رکھ دیا۔ پینے کا پانی اور لوٹا بھی لا کر رکھ دیا تاکہ اگر کہیں وہ آجائے تو سب چیزیں موجود پائے اور مجھ کو سامنے نہ جانا پڑے۔​
دل میں عائشہ نے کہا۔" آج وہ نہیں آئے گا۔" اٹھی اور وضو کرکے اپنی کوٹھری میں ظہر کی نماز پڑھنے لگی۔ نماز پڑھتے میں اس کو محض شبہ سا ہوا کہ کچھ دروازہ پر آہٹ ہوئی۔ مگر یہ​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 293​
محض اس کا خیال تھا کیونکہ انتظار کرنے کے بعد اس نے پھر نماز پڑھنا شروع کردی۔ وہ نماز پڑھ ہی رہی تھی کہ پیچھے سے فاروق کی آواز آئی کہ "کب تک نماز پڑھو گی۔" یہ آواز گویا ایک مصیبت تھی۔ عائشہ کو نماز پڑھنا مشکل ہو گیا۔ اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس اب کسی بلا نے مجھے پیچھے سے پکڑا۔ جوں توں کرکے نماز ختم کی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو فاروق کے چہرے پر ایک عجیب شیطانی مسکراہٹ تھی۔ عائشہ نے دل مضبوط کیا اور نرمی سے کہا۔ " آپ کا کھانا وہاں تخت پر رکھا ہے۔"​
فاروق نے ہنس کر کہا۔" یہ تو میں بھی جانتا ہوں مگر جب تک خود پہنچ کر نہ کھلاؤگی میں کیسے کھاؤں گا۔"​
عائشہ پریشان ہو گئی اور سٹ پٹا گئی۔اس کی زبان یاوری نہ کرتی تھی اور اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا صدمے سے بے ہوش ہونے والی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ کہ سکے، فاروق نے پھر کہا۔ "تم تو بڑی اچھی لڑکی ہو۔ ذرا باہر نکلو کم از کم کھانا تو گرم ہی کر دو۔"​
عائشہ خاموشی سے کوٹھری سے نکلی اور دیوار سے لگی گئی تاکہ فاروق سے کافی فاصلہ رہے، باہر نکل گئی اور کھانا گرم کر لائی۔ فاروق نے کھانا کھاتے میں پھر کھانے کی تعریف کرنا شروع کی مگر عائشہ دور بیٹھی رہی اور اس کا جواب تو جواب منہ تک موڑ کر نہ دیکھا۔ کھانا کھانے کے بعد فاروق نے آواز دے کر کہا کہ " پان تو لاؤ۔"​
عائشہ نے کہا۔" میں نے بیشتر ہی بنا کر رکھ دیا ہے۔"​
فاروق نے پھر شرارت سے کہا۔" یہ تو مجھ کو بھی معلوم ہے کہ ایک سوکھا پان سا بنا ہوا رکھا ہے۔ مگر میں تو تازہ پان کھاؤں گا۔"​
عائشہ پر پھر بجی سی گری۔ مگر اٹھی اور پان لگا کر لائی۔ بجائے فاروق کے ہاتھ میں دینے کے اس نے بائیں ہاتھ سے پان کی تھالی اٹھانی چاہی تاکہ پان رکھنے کے لیے اس کو زیادہ نہ جھکنا پڑے۔ ایک دم نے فاروق نے بایاں ہاتھ پکڑ لیا اور منہ کھول کر کہا کہ "پان میرے منہ میں رکھ دو۔"​
عائشہ نے پان والا ہاتھ پیچھے کر لیا اور رو کر کہا۔" چھوڑ دیجئے۔" اس کی عجیب حالت تھی۔ مگر اب بجائے ڈر کے اس کو غصہ آ رہا تھا۔ بہت کچھ اس نے زور لگایا مگر فاروق کے آہنی پنجہ سے رہائی نا ممکن تھی۔ وہ ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ " دیکھیں بھئی اس لڑکی میں کتنا زور ہے۔" یہ کہنا اور بھی تازیانہ کا کام کرتا تھا۔ مجبور ہو کر غریب زمین پر بیٹھ گئی اور منہ چھپا کر رونے لگی۔ پیچھے سے ہاتھ جو آگے آیا تو پان بدستور اس کے ہاتھ میں تھا۔ منہ چھپایا ہوا تھا۔ فاروق نے چپکے سے منہ بڑھا کر پان دانت سے پکڑ لیا۔ ایک دم سے عائشہ نے گھبرا کر پان کو اس​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 294​
طرح چھوڑا جیسے کہ کوئی دھوکے میں کیڑا مکوڑا اٹھا لیتا ہے اور پھر گھبرا کر چھوڑ دیتا ہے، فاروق نے پان کو منہ میں سنبھالتے ہوئے کہا " اچھا اب ہم تم کو چھوڑ دیتے ہیں مگر ایک بات سن لو ۔" عائشہ سسکیاں لے کر رو رہی تھی اور کچھ جواب نہ دیتی تھی، بڑی مشکل سے عائشہ نے آنکھیں چار کیں اور رو کر کہا ۔ " آپ مجھے کیوں پریشان کرتے ہیں ۔"​
فاروق نے کہا ۔ " تم میری بات سن لو، میں تم کو چھوڑ ے دیتا ہوں ۔"​
عائشہ نے آنسو پونچھ کر متانت سے کہا ۔" کہیے کیا کہتے ہیں ۔"​
فاروق نے مسکرا کر کہا ۔" تم بتاؤ تو سہی کہ میں کیسا ہوں تم مجھ سے شادی کرنے پر رضامند ہو ؟"​
عائشہ کا سارا بدن اب غصہ سے کانپنے لگی اور ڈرنے کے بجائے اب اس پر غصہ طاری تھا۔ اس کا منہ مارے غصے کے لال ہو گیا اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ " آپ مجھ سے اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں؟"​
فاروق نے برجستہ جواب دیا کہ "اس لیے کہ اب اماں نے طے کر لیا ہے کہ میری شادی تمہارے ساتھ ہو جائے۔" عائشہ نے زور سے ہاتھ کو جھٹکا دیا اور چھڑا کر بھاگی۔​
اپنی کوٹھڑی کی طرف دوڑی مگر فاروق اس کو بھلا کب چھوڑنے والا تھا۔ " یہ کیا بدتمیزی۔" غضب ناک ہو کر فاروق نے کہا۔ تڑپ کر وہ بھی اٹھا مگر چارپائی کی رسی میں پاؤں الجھ کر منہ کے بل گرا۔ اتنے میں عائشہ اپنی کوٹھڑی میں تھی اور چاہتی تھی کہ دروازہ کو بند کرے کہ فاروق آ پہنچا اور دروازہ کو زور سے دھکا دیا مگر عائشہ میں اس وقت بلا کی طاقت آ گئی تھی، اس نے بھی خوب زور لگایا دروازہ کھلا جاتا تھا کہ اس نے ایک اینٹ کا ٹکڑا اٹھا کر اس بیدردی سے فاروق کی انگلیوں پر مارا کہ وہ تڑپ گیا۔ عائشہ نے دروازہ بند کر لیا۔ فاروق باہر کھڑا ہوا بل کھا رہا تھا اور اب اس نے عائشہ کو گالیاں دینی شروع کیں اور کہا کہ اس کا مزہ شادی کے بعد تجھ کو چکھاؤں گا۔ عائشہ اس کی گالیاں اور بدزبانی سن کر سہم گئی۔ کیونکہ وہ عائشہ کو ایسی گالیاں دے رہا تھا جیسی وہ اپنی بیوی کو دیا کرتا تھا۔​
(3)​
اس واقعہ کے بعد عائشہ کو فاروق ایسی نظروں سے دیکھتا تھا کہ معلوم ہو کہ بس کھا جائے گا۔ اس کی انگلیاں دو مہینہ تک دکھا کیں۔ اور مرہم پٹی ہوا کی، کیونکہ انگلی کی ہڈی کچلی گئی تھی۔​
اسی دوران میں عائشہ کو اس خبر کی تصدیق ہوئی جو اس نے اس روز فاروق کی زبانی سنی تھی۔ ایک روز اس نے اپنی کوٹھڑی میں سے چچا اور چچی کی باتیں سن لیں۔ چچا کی یہ مرضی تھی​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 295​
کہ فاروق کے ساتھ عائشہ کی شادی جلد کردی جائے۔ اس طرح بھائی مرحوم کی پوری کی پوری جائیداد قبضہ میں آ جائے گی، یہ بھی تجویز تھی کہ پہلی بیوی کو فاروق طلاق دے دے۔​
اس روز سے عائشہ کا برا حال تھا، وہ دن رات اسی فکر میں رہتی تھی کہ آخر اب کیا ہوگا۔ سوائے چچا اور ایک ماموں کے اس کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا اور چچا چچی کی باتوں کو اس نے ایک روز اور سن لیا تو اس کو معلوم ہوا کہ ا س کے ماموں کو بھی اس رشتے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دن اور رات اب عائشہ یہی دعائیں مانگتی تھی کہ اے خدا تو مجھ کو جلد موت دے۔ موت کا تو ذکر ہی کیا۔ اس کو چھینک تک نہ آتی تھی۔ کچھ عرصے سے چچی کا رویہ بھی بدلا ہوا تھا۔ چچی اب بجائے درشتی کے نرمی سے بات کرتی تھیں۔ بات بات پر چمکارتی تھیں۔ کپڑے بھی اب ڈھنگ کے ہو گئے تھے۔ مگر یہاں عائشہ کی حالت ہی عجیب تھی۔ ا س کو چچی کی وہ سخت کلامی یاد آتی تھی اور کہتی تھی کہ کاش وہی اب بھی جاری رہتی۔ اس کو پھٹے اور پرانے کپڑے منظور تھے مگر عمدہ کپڑے اس شرط پر قطعی نا منظور تھے۔ آدھی آدھی رات اسی پیچ و تاب میں گزر جاتی تھی کہ الہٰی آخر کیا ہوگا اور کیونکر اس آنے والی مصیبت سے جان چھوٹے گی۔​
مگر آنے والی مصیبت تیزی اور تیقن کے ساتھ آ رہی تھی۔ وہ دن بھی قریب پہنچے کہ اس کو اپنی شادی کے کپڑے خود ہی سینے پڑے، اٹھتے بیٹھتے محبت میں آ کر کبھی کبھی چچی کی زبان سے اس بارے میں جو الفاظ نکل جاتے، وہ تیر ہو کر لگتے تھے اور اپنی کوٹھڑی میں جا کر عائشہ گھنٹوں روتی تھی۔ مگر یہ سب بے سود تھا۔ شادی کی تیاریاں برابر ہو رہی تھیں۔ فاروق نے پہلی بیوی کو طلاق بھی دے دی تھی۔ چچی اس کو اب فاروق کے سامنے بھی نہیں آنے دیتی تھیں۔ لیکن اس سے عائشہ خوش نہ تھی۔​
اسی دوران میں ایک موقعہ پھر ایسا آ گیا کہ فاروق کو عائشہ کے ساتھ تنہائی میں باتیں کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس کینہ ور شیطان نے دانت پیس کر کہا کہ " اب تجھ کو تیری شرارت کا مزہ چکھاؤں گا ۔" بجائے اس کے کہ عائشہ خاموش رہتی۔ اس نے جل کر کہا ۔" قبل اس کے کہ وہ دن آئے میں اس دنیا ہی میں نہ ہوں گی۔ مجھ کو تمہاری صورت سے نفرت ہے۔" اس سے زیادہ گفتگو نہ ہو سکی کیونکہ ماں کے پیر کے آہٹ سن کر فاروق ہٹ گیا۔ آخرش شادی کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی اور دن گنے جانے لگے۔ عائشہ کی نہ تو کوئی سہیلی تھی اور نہ کوئی ہمجولی۔ اور یہ بھی اچھا ہوا۔ ایک ایک دن کرکے آخر دن ختم ہوئے اور وہ دن آئے کہ گانے اور بجانے کی آواز نے گھر کو سر پر اٹھا لیا۔ سارا گھر مہمانوں سے بھر گیا۔ عائشہ اپنی کوٹھڑی میں دلہن بنی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس نے چار روز سے مطلق کچھ نہ کھایا تھا اور دن اور رات روتی تھی۔ نکاح والی رات کو اس کا عجب حال تھا اس نے ایک پڑیا میں شیشہ پیس کر رکھا تھا کہ یہ کھا لوں گی، مگر عین وقت​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 296​
پر وہ پڑیا ایسی کھوئی کہ نہ ملی۔ اس کی آنکھوں میں دنیا اب اندھیری تھی۔ رات کے گیارہ یا بارہ بجے ہوں گے، وہ ایک دم اٹھی۔ کچھ لوگوں کو غافل پایا اور کچھ لوگوں کو لاپرواہ۔ وہ سیدھی پاخانہ میں پہنچی اور نہ معلوم کس مشکل سے دیوار پر چڑھ کر اپنے کو اس طرف گرا دیا۔ دیوار کچھ اونچی نہ تھی اور اس کے خفیف سی چوٹ لگی، وہ اٹھی اور چادر کو اس نے سنبھال کر اوڑھا۔ اس کو معلوم تھا کہ محلے میں فلاں طرف کنواں ہے، وہ سیدھی اسی طرف چلی مگر کنوئیں پر آدمی تھے۔ اب اس کی یہ حالت تھی کہ اس کا قدم نہ اٹھتا تھا۔ مردوں کو دور ہی سے دیکھ کر وہ سہمی جاتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر پکڑی گئی تو کیا حشر ہوگا۔ وہ سامنے سے آتے ہوئے مرد سے بچنے کے لیے ایک گلی میں مڑی اور سیدھی چلی گئی۔ خوش قسمتی سے ایک مکان سے ایک ضعیفہ نکلی اور وہ بھی اسی طرف چلی جدھر عائشہ جا رہی تھی۔​
بڑھیا نے یونہی پوچھا کہ " بوا تم کہاں جا رہی ہو؟"​
عائشہ نے ذرا گھبرا کر کہا ۔" تم کہاں جا رہی ہو؟"​
بڑھیا نے کہا ۔" بیٹا میں تو کھاری کنوئیں جا رہی ہوں۔"​
فوراً عائشہ کو یاد آیا کہ صدیق حسن کا مکان بھی کھاری کنوئیں پر ہے۔ یہ صدیق حسن وہ لڑکا تھا جو عائشہ کو قرآن پڑھایا کرتا تھا۔ اس کو یتیم سمجھ کر عائشہ کے باپ نے گھر پر رکھ لیا تھا۔ آج کل صدیق حسن نے اپنے محلے میں ایک مکتب کھول لیا تھا۔ جس میں وہ محلہ کے لڑکوں کو اردو فارسی وغیرہ پڑھایا کرتا تھا۔ عائشہ کو معاً خیال گزرا کہ صدیق تو بہت اچھا لڑکا تھا، شاید وہ میری مدد کرے۔ اس خیال کے آتے ہی بغیر سوچے سمجھے عائشہ نے بڑھیا سے کہہ دیا کہ " میں بھی وہیں جا رہی ہوں۔"​
بڑھیا نے کہا " وہاں کہاں جا رہی ہو۔" عائشہ نے ذرا رکتے ہوئے کہا۔" کیا تم مولوی صدیق کا گھر جانتی ہو؟" بڑھیا نے کہا " ہاں میں جانتی ہوں۔ کیا تم ان کے ہاں جا رہی ہو۔ ان کے یہاں تو کوئی عورت ہی نہیں، وہ اکیلے ہیں۔" عائشہ نے کہا " ہاں وہ اکیلے ہیں مگر میرے وہ عزیز ہیں اور میری ماں آج وہاں گئی ہیں تم مجھ کو ان کا مکان بتا دینا تو مجھ کو دقت نہ پڑے گی۔​
عائشہ تھوڑی دیر تک تو دروازہ کی کنڈی پکڑے کھڑی رہی۔ گلی میں سناٹا تھا۔ اس نے ہمت کرکے کنڈی کو کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد اندر سے آواز آئی کہ کون ہے۔ اس کا جواب بھی عائشہ نے کنڈی کھٹکھٹا کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان شخص مولوی صورت ایک چراغ لیے ہوئے عائشہ کی طرف عجیب طرح سے دیکھ رہا تھا۔​
" تم کون ہو! تم کون ہو!!!" اس نے پریشان ہو کر عائشہ سے پوچھا۔ لیکن عائشہ نے بجائے جواب دینے کے دروازہ پر پیر رکھا، صدیق ایک طرف کو ہو گیا اور عائشہ چادر سے لپٹی ہوئی مکان​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ297​
کے اندر داخل ہو گئی۔ سیدھی وہ برآمدہ میں پہنچ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ مولوی کا عجیب حال تھا۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اور وہ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔ اب اس کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ اندر آئے مگر عائشہ نے آواز دے کر کہا۔ آپ اندر آ جائیے۔ وہ اب بھی نہیں پہچانا کہ کون ہے۔ قریب آکر کتبہ کی آڑ میں وہ کھڑا ہو گیا اور چراغ رکھ دیا۔ دونوں طرف خاموشی رہی لیکن پھر صدیق نے پوچھا کہ " تم کون ہو۔ مجھ کو جلدی بتاؤ۔ میں سخت پریشان ہوں۔"​
عائشہ نے دبی زبان سے کہا۔" صدیق تم مجھ کو بھول گئے! میں بدنصیب عائشہ ہوں۔"​
"ارے یہ تم ہو۔" یہ کہہ کر صدیق ششدر رہ گیا۔ لیکن پھر بولا۔" مگر آج تو ۔۔۔ آخر یہ بات کیا ہے کچھ تو کہو۔"​
عائشہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔" صدیق! میں تمہارے گھر پناہ لینے آئی ہوں۔" یہ کہہ کر اور رو رو کر اس نے سارا قصہ شروع سے اخیر تک سنا ڈالا۔ صدیق بجائے اس کے کہ پناہ اور امداد کا وعدہ کرتا اس کو نصیحت کرنے لگا۔ مگر عائشہ کی آہ و زاری اور پریشانی اب اس درجہ پہنچ گئی تھی کہ وہ ہر مصیبت کے لیے تیار تھی۔ اس نے اپنے کو صدیق کے قدموں میں ڈال دیا اور گھبرا کر کہا۔ " میری مدد کرو۔" صدیق گھبرا گیا۔ اس کو عائشہ کے باپ نے اپنے بیٹے کی طرح رکھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے اور اس نے عائشہ سے کہا کہ " میں غریب تمہاری کس طرح مدد کر سکتا ہوں، میں ہر طرح تیار ہوں۔"​
عائشہ نے پھر ہاتھ جوڑ کر کہا کہ " اچھا جو تم میری مدد پر تیار ہو تو میری مدد کرو۔۔۔ میں عمر بھر تمہاری زرخرید لونڈی کی طرح خدمت کروں گی۔ تم خیال کرو گے کہ میں بے حیا ہوں مگر میری بیچارگی اور مصیبت کو۔۔۔ دیکھو۔ تم میرے ساتھ کھیلے ہو، تم نے مجھ کو پڑھایا ہے۔ تم ہی مجھ کو اس مصیبت سے بچاؤ۔"​
صدیق کچھ کہنے کو تھا کہ عائشہ نے پھر زور دے کر کہا " کل نہیں بلکہ ابھی ابھی صبح ہونے سے پہلے، ورنہ میری جان کی خیر نہیں ہے۔"​
القصہ صدیق سے ہاتھ پاؤں جوڑ کر عائشہ نے ہاں کہلوا کر ہی چھوڑ ا، صدیق اپنے محلے کے ایک بزرگ کے پاس گیا۔ اور ان سے سب حال کہہ دیا اور ان کی صلاح پر عمل کیا۔​
رات ہی رات میں بلکہ اسی وقت قاضی کو بلا کر گواہوں کی موجودگی میں صدیق نے عائشہ سے نکاح کر لیا۔​
عائشہ کے گھر ظاہر ہی ہے کہ کیا کچھ بلڑ ہوا ہوگا۔ عجیب تہلکہ مچا۔ دولہا میاں اور دولہا کے باپ اور تمام عزیز و اقارب سب پریشان اور شرمندہ تھے۔ ایک عجیب ہی معاملہ درپیش تھا۔ نتیجہ اس کا مقدمہ بازی ہوئی۔ فیصلہ عائشہ کے حق میں ہوا۔ اس کے حصے کی جائیداد اس کو دلوائی​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ298​
گئی۔ صدیق کی قسمت کے دن بھی پھر گئے۔سو سوا سو روپے مہینے کی جائیداد بیوی کو ملی اور چین سے زندگی بسر ہونے لگی، لیکن عائشہ گو خوش تھی مگر دنیا یہی کہتی تھی کہ "بے حیا بھاگ گئی۔" تمام عزیز و اقارب ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئے، کوئی اس کا روادار نہیں کہ اس کو اپنے یہاں بلائے یا اس کے یہاں جائے۔ وہ بہترین بیوی ہے تو ہوا کرے۔ اس کی وجہ سے خاندان کی ناک کٹ گئی اور عزت خاک میں مل گئی۔ اب خود ذرا انصاف کیجئے اور غور کیجئے کہ یہ ناپاک جملہ " بے حیا بھاگ گئی" کہاں تک درست ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 299​
تیمارداری
پانچ چھ سال انگلستان میں رہ کر میں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ کچھ دن تک تو نتیجے کا انتظار رہا۔ اور خوب ملک کی سیر کی۔ اب ارادہ ہو رہا تھا کہ کیوں نہ یورپ کے مشہور ممالک کی پہلی اور آخری مرتبہ سیر کی جائے۔ والد صاحب روپیہ جس تنگ دلی سے بھیجتے تھے اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ہم پانچ بھائی ہیں اور آخر سب کو ہی ولایت دیکھنا تھا۔ میں نے چلنے سے پہلے لندن سے والد صاحب کو تار دیا کہ بس اب سو پونڈ اور بھیج دیجئے پھر نہ مانگیں گے، اس کا جواب خفگی کا تار آیا کہ نہیں بھیجیں گے۔ ادھر سے میں نے جواب دیا کہ خاکسار بغیر سو پونڈ کے آ ہی نہیں سکتا۔ مجبور ہے۔ حساب گھر آ کر دے گا۔ مجبوراً سو پونڈ ہمیں بھیجے گئے۔ ہم نے بیٹھ کر خوب لمبا چوڑا جتنا بھی ہماری وسعت میں تھا، یورپ کی سیر کا پروگرام بنایا اور جلد سے جلد اس پر عملدرآمد شروع کردیا۔ لندن سے پیرس اور وہاں سے برلن اور پھر وہاں سےویانا، سوئزر لینڈ اور اٹلی کی سیر کرتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچے یہاں سے مصر پہنچ کر تمام عجائبات دیکھے اور پھر اسکندریہ سے سیدھے بیٹھ کر بمبئی کی راہ لی۔​
اس سیر سپاٹے میں اتنا روپیہ خرچ ہوا کہ ہم نے جو حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ بمبئی پہنچ کر ہمارے پاس بمشکل اتنا رہ جائے گا کہ گھر تک کے کرائے کے لیے کافی ہو سکے۔ لہذا یہ سوچا کہ بمبئی میں زیادہ قیام نہ کریں گے۔​
(1)​
جہاز بمبئی پہنچا تو اترنے چڑھنے کے جھنجھٹ سے فارغ ہو کر ایک تھرڈ کلاس ہوٹل میں پہنچے۔ ہوٹل پہنچ کر جیب سے روپیہ کا بٹوا جو نکالا تو غائب۔ ٹامس کک سے اپنا کل روپیہ خرچ کرکے قریب پینتیس روپے زائد لے چکے تھے اور اب اپنے پاس ایک کوڑی تک نہ تھی۔ خیال کیا کہ والد صاحب کو تار دے کر منگا لیں۔ ہوٹل کے مالک سے موٹر والے کا کرایہ دلوایا۔ اور انہیں سے دام لے کر والد صاحب کو تار دیا کہ بمبئی آ گیا ہوں اور روپیہ کا بٹوا کھو گیا۔ براہ کرم پچاس روپیہ بذریعہ تار فوراً روانہ فرمائیے۔ وہاں والد صاحب کی بس جان ہی تو جل گئی۔ کیونکہ​
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۸
تڑکے کسی بچے کے رونے کی آوازیں آئیں۔ لوگوں نے دیکھا تو ایک چار پانچ سال کی لڑکی کو ایک فقیر کی لاش کے پاس روتا ہوا پایا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فقیر معہ لڑکی کے رات کو مسجد میں سویا اور رات ہی کو مر گیا۔ لڑکی دیکھنے سے شریف زادی معلوم ہوتی تھی۔ لیکن سوائے رونے کے اور لفظ "اماں" یا "ابا" یا "گھر" کے اور کچھ بھی نہ بتا سکی۔ لڑکی ہمارے یہاں لائی گئی اور والدہ صاحبہ کو وہ اتنی اچھی معلوم ہوئی کہ انہوں نے والد صاحب سے کہا۔ والد صاحب نے پولیس والوں سے لڑکی کو اس شرط پر گود لے لیا کہ ہم پرورش کریں گے اور جو کوئی اس کا والی وارث پیدا ہو گیا تو واپس کر دیں گے۔
والدہ صاحبہ نے اس لڑکی کو بڑی محبت سے اپنی اولاد کی طرح رکھا، تین ساڑھے تین سال تک وہ ہمارے یہاں رہی۔ پھر ایک دن پولیس والے آئے اور اس کو حسب وعدہ واپس لے گئے۔ اس کے جانے کے بعد والدہ صاحب کو جو کچھ ہوا وہ اس سے ظاہر ہے کہ وہ خوب رویں۔ میں رویا تو قطعی نہیں، ہاں دل ہی دل میں اس کے چلے جانے پر بے حد کڑہا۔ وہ چلی گئی اور سچ پوچھئے تو اپنی یاد میرے دل میں اس طرح چھوڑ گئی کہ دو روز میں نے سیر ہو کر کھانا نہ کھایا۔ وہ مجھ سے بے حد مانوس ہو گئی تھی اور میں اس سے مانوس ہو گیا تھا۔ قصہ مختصر وہ چلی گئی اور اپنی یاد میرے دل میں چھوڑ گئی۔ اس کا بھولا بھالا اور معصوم چہرہ کئی دن تک ہر دم میرے سامنے رہا۔ اس کی شوخ اور متبسم آنکھیں ہر دم گویا میرے سامنے تھیں۔ تنہائی میں تو بعض اوقات میں اس کا نام لے کر پکار اٹھنے کو ہوتا کہ حقیقت کا خیال آ کر چپ کا چپ رہ جاتا۔ جس روز یہ واقعہ پیش آیا وہ اس کے گئے ہوئے تیسرا دن تھا۔ والدہ صاحبہ نے مجھے سختی سے منع کر دیا کہ جنت کا خیال بھی دل میں نہ لاؤں اور سمجھا دیا کہ وہ ایک خطرناک چڑیل تھی۔ میں بھلا کیا جواب دیتا۔ کیا کہہ دیتا کہ جی ہاں میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں۔ لیکن ایک اندرونی آواز ہے جو مجھ سے فوراً پکار کر کہتی ہے کہ "غلط۔"
دوسرا حملہ

چاندنی چھٹکی ہوئی تھی اور چاروں طرف نور سا چھنتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ میری نظر چھت پر سے اسی طرف گئی۔ ستی کی باؤلی!۔۔۔ کھنڈر۔۔۔ منارہ! ایک نور کا عالم تھا۔ مگر چاند کی مدھم روشنی اس طرف کی سیاہی سے جھگڑتی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ ایک دھندلکا سا چھایا ہوا تھا۔ میں دیکھتے ہی کچھ سہم سا گیا۔ کوئی چیز مجھے آج پھر اس طرف کھینچ رہی تھی۔
پیشتر کی طرح قریب ڈیڑھ بجے کے پھر میں بیہوش اور خواب کے عالم میں اٹھا۔ دروازہ چپکے سے کھولا اور چل دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۹
جب اس موقع پر پہنچا ہوں کہ سڑک چھوڑ کر بائیں ہاتھ کو پہاڑی اور کھنڈر کی طرف مڑوں تو میں جاگ اٹھا! جی ہاں جاگ اٹھا! بیدار ہو گیا! ایک گولی سی لگی!۔۔۔ ایک انتہا سے زیادہ خوفناک اور دلدوز چیخ تھی جو چاندنی رات کی نورانی فضا میں سنسناتی ہوئی آئی اور گولی کی طرح لگی۔ جس سے میں چونک پرا اور جاگ اٹھا۔۔۔!
ہوش میں آیا ہوں تو بدن میں ایک سنسنی سی تھی۔ رونگٹے کھڑے ہوئے تھے۔ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک سامنے دور تک چاندنی میں چمکتی چلی گئی تھی۔ داہنے ہاتھ کو ایک عظیم الشان برگد کا درخت تھا اور بائیں ہاتھ کو کھنڈر۔۔۔ پہاڑی کا سلسلہ۔۔۔ باؤلی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک سناٹا چھایا ہوا تھا اور اسی سناٹے میں سیدھی باؤلی والی سمت سے ایک دلدوز چیخ کی آواز آئی تھی۔ جس نے مجھے جگا دیا۔ میری عمر ہی کیا تھی۔ ایک دم سے دہل کر رہ گیا۔ پہلی آواز کیا کم تھی کہ پھر آواز آئی۔ کس قدر دردناک لہجہ میں ڈوبی ہوئی کسی عورت کے کراہنے کی آواز تھی۔ ایسی کہ معلوم ہو اس کو کوئی انتہائی اذیت دے رہا ہے۔ پھر آواز آئی اور فضا میں ڈوبتی چلی گئی۔ لیکن اس دفعہ کسی ظالم کے قہقہے کی آواز سے ایک دم سے دشت و جبل ہلتا معلوم ہوا جو اس مظلوم عورت کی درد بھری آواز کی ہنسی اڑا رہا تھا۔
ایک دم سے عورت کے کراہنے کی آواز کہا تو فاصلے سے بائیں طرف سے آ رہی تھی کہ ایک دم سے بالکل ہی قریب داہنی طرف سے آئی! اتنے قریب کہ میں اچھل پڑا۔ یا میرے اللہ! کیا کوئی بلا میری طرف نہیں آ رہی تھی۔
آواز اور بھی قریب سے آئی۔ بہت زیادہ دردناک تھی۔ اور اس آواز کا تمسخر اڑانے والی قہقہے کی آواز قریب کے عظیم الشان برگد پر سے آئی۔ قہقہے کی آواز میرے دل پر گھونسے کی طرح لگتی معلوم دی۔ مارے ہیبت اور دھڑکے کے میرا خون جمتا سا معلوم دیا۔ دل بیٹھنے لگا، چلانا چاہا تو آواز نہ نکلی۔ سہم کر میں مٹھیاں بھینچ کر بیٹھ گیا اور بیہوش ہو گیا۔
مجھے ہوش آیا تو میں اپنے کو بستر میں پڑا پایا۔ ابھی رات ہی تھی۔ میں اپنے گھر میں تھا۔ سامنے ایک کرسی پر ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور محلہ کے تین چار آدمی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ہوش میں دیکھ کر فوراً دوا دی۔ مجھے اطمینان دلایا۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ والد صاحب کی اتفاق سے آنکھ کھلی، مجھے بستر سے غائب پا کر دو ایک ساتھیوں کو لے کر چلے اور مجھے بے ہوش پڑا پایا۔
تھوڑی ہی دیر بعد میں چاق و چوبند ہو گیا مگر ڈر کا صدمہ اب بھی مجھے بے حال کئے ہوئے تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے تشخیص مرض کے سلسہ میں مجھ سے سوالات کرنا شروع کر دیئے۔ میں نے سارا قصہ شروع سے لے کر اخیر تک کہہ سنایا۔ ایک پڑوسی فوراً اچھل پڑے۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۰
کہنے لگے لاحول ولا قوۃ۔ پھر اس کے بعد اپنا تجربہ سنایا کہ کس طرح بعینہ یہی واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا تھا کہ کسی کے کراہنے کی آواز آتی تھی۔ کبھی ایک طرف سے اور کبھی دوسری طرف سے۔ اور پھر کسی کے قہقہے کی آواز۔ حقیقت دراصل یہ تھی کہ الو بولتا ہے۔ سینکڑوں قسم کی بولیاں بولتا ہے۔ طرح طرح کی بولیاں بولتا ہے۔ وہ خود ڈر گئے تھے اور محلے والے بھی ڈر گئے تھے۔ بہت دیر تک الو کی بولیوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی وہی پیش آیا تھا جو میرے ساتھ۔ قصہ مختصر کہ آواز والا معمہ حل ہو گیا اور اس کے بعد میری بیماری کا قصہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے تشخیص کی کہ مجھے سومنوہولزم ہے۔ جنت وغیرہ سب وہم ہیں۔ اصل میں اس مرض میں مریض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ سوتے میں چلتا پھرتا ہے۔ آنکھیں بند رہتی ہیں۔ مگر چلتے میں اسے سب دکھائی دیتا ہے۔ سخت خطرناک مرض ہے اور جم کر علاج کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر یہی حالت رہی تو رات کو عجب نہیں کسی دن کوئی خوفناک حادثہ رونما ہو جائے۔
ڈاکٹر صاحب تو یہ رائے دے کر اور دوائیں وغیرہ تجویر کر کے چلے گئے لیکن والدہ صاحبہ نے جو تمام کیفیت معلوم کی تو الو والی روایت ہی ایک سرے سے رد کر دی اور اعلان کر دیا کہ علاج سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بعد بحث مباحثے کے یہ طے ہوا کہ ڈاکٹری اور روحانی علاج دونوں ہوں گے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ان دونوں علاجوں سے جو کچھ بھی فائدہ ہوا وہ اس سے ظاہر ہے کہ ایک روز رات کو اتھ کر میں نعمت خانہ میں جتنا حلوا رکھا ہوا تھا خواب ہی کی حالت میں کھا گیا۔ والدہ صاحبہ سے مانگا تو انہوں نے تھوڑا سا دیا۔ دوبارہ مانگا تو نہ دیا۔ صبح اٹھ کر میں غور کر رہا تھا کہ سچ مچ میں نے رات کو حلوا کھایا یا محض خواب تھا کہ اتنے میں والدہ صاحبہ نے حلوہ کی چوری کا الزام ملازمہ کے سر دھر کر اسے ڈانٹنا شروع کیا۔ تب جا کر مجھے یقین ہوا۔
وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ میرے مرض میں از خود کمی ہوتئ گئی۔ جنت کا خیال بھی رفتہ رفتہ دل سے محو ہو گیا۔ کبھی کبھار مرض کا ہلکا سا حملہ ہو جاتا تھا۔ کبھی جنت کا چہرہ خواب میں دکھائی دیتا۔ میں اٹھتا بھی لیکن وہ بہت جلد گھوم گھام کر غائب ہو جاتا۔
سال ڈیڑھ سال میں مرض کا نشان تک نہ رہا اور جنت کا خیال بھی قطع جاتا رہا۔ ایسا کہ کبھی بھول کر بھی اس کا خیال نہ آیا۔
تیسرا حملہ
لڑکپن گیا اور جوانی آئی اور کبھی بھول کر بھی نہ تو مجھے جنت کا خیال آیا اور نہ کبھی مرض کا حملہ ہاور۔ خدا نے وہ دن دکھایا کہ میر شادی طے ہوئی اور میری والدہ صاحب منگنی کی رسم ادا

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۱
کرنے گئیں۔ میری ہونے والی بیوی کو بھی دیکھ آئیں۔ میری شادی کے دن قریب آئے اور وہ وقت آیا کہ عزیز و اقارب جمع ہو کر برات کی صورت اختیار کر کے روانہ ہوں۔
رات بھر اور آدھا دن چل کر ایک دوسرے شہر میں برات پہنچی۔ دلہن والوں نے ہم لوگوں کو ایک عالیشان مکان میں ٹھہرایا۔ براتی لوگ زیادہ تر نیچے ٹھہرے۔ میں چونکہ دولہا تھا اور میرے دو دوست بھی ساتھ تھے لہذا ہم تینوں اوپر ایک کمرے میں ٹھہرے۔ کمرے کے سامنے بڑا صحن تھا اور دیوار سے لگا ہوا ایک فٹ بھر چوڑا لمبا سا لکڑی کا تختہ پڑا ہوا تھا۔ قد آدم دیوار تھی اور پچھواڑے پتلی سی گلی تھی جس کے اس طرف کسی رئیس کا ایک عالیشان مکان تھا۔
ہم لوگ سفر کے تھکے ہارے ہوئے تھے۔ بالخصوص مین بہت تھکا ہوا تھا اور بہت جلد سو گیا۔ رات کو ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ جنت کا خوبصورت چہرہ سامنے ہے۔ میں نے فوراً پہچان لیا۔ چہرہ وہی تھا۔ لیک اب کچھ اور ہی بات تھی۔ چہرے پر جوانی کا نکھار تھا۔ وہ ملکوتی حسن کہ میں دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ بالکل اسی شان سے لرزاں و رقصاں نظر آیا جس طرح میں نے سب سے پہلے خواب میں دیکھا تھا۔ میں بے تاب ہو کر اٹھا۔ "جنت" گویا میرے دل سے نکلا اور ایک عالم بے اختیاری میں میں اس کے پیچھے چلا۔ وہ آگے اور میں پیچھے۔ دیوار کے پاس آ کر وہ بلند ہوا۔ میں دیوار کے اس پار پہنچا اور میں نے دیکھا کہآاہستہ آہستہ ایک روانی کے ساتھ گلی کے اس پار پہنچا اور سامنے والے مکان کی کھڑکی میں داخل ہوا۔ میں دیوار کے اس طرف رہ گیا۔ خدا کی پناہ کیا بیتابی تھی۔ ایک مقناطیس تھا جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ میں مجبور تھا۔ دیوار پر سے میں نے دیکھا۔ ایک ہلکوزے کے ساتھ کھڑکی سے چہرہ پھر باہر آیا۔ خدا کی پناہ! ایک شعلہ حسن تھا جس سے محبت اور کشش کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ میں مچھلی کی طرح ادھر بیتاب تھا۔ دفعتاً مجھے خیال آیا اور میں وہی لکڑی کا تختہ اٹھایا۔ جو سامنے پڑا ہوا تھا۔دیوار پر سے اس کو اٹھا کر آگے بڑھایا اور سنبھال کر اس پار مکان کی کھڑکی پر اس کا سرا رکھا اور دوسرا دیوار پر اور اس طرح عارضی پل بنا کر میں جنت کے خوبصورت چہرے کی طرف چلا جو اب بھی کھڑکی کے پاس ہلکورے لے رہا تھا۔ احتیاط سے سنبھل کر میں کھڑکی پر پہنچا تو چہرہ کمرے میں تھا۔ میں بھی کمرے میں آ گیا۔ جنت کا چہرہ اسی طرح آہستہ آہستہ بہتا ہوا کمرے کی تاریکی میں ذرا دیر گھوما اور پھر فوراً تاریکی ہی میں ایسا ڈوبتا معلوم ہوا جیسے میں نے پہلی مرتبہ اسے باؤلی میں دیکھا تھا۔ دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں تھک گئیں حتیٰ کہ وہ غائب ہو گیا۔ میں ایک لمحے بھر تو وہاں ٹھہرا اور پھر جس طرح گیا تھا اسی طرح واپس آ گیا۔ تختہ اٹھا کر جگہ پر رکھ دیا اور آ کر بدستور اپنے بستر میں اسی طرح پڑ تہا۔
جب صبح آنکھ کھلی تو میں عجیب چکر میں تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ واقعتاً میں نے صرف
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۲
خواب دیکھا ہے یا سچ مچ اس کھڑکی میں گیا۔ تختہ کو آکر بغور دیکھا مگر اس کی پیشتر والی کروٹ کا خیال ہی نہ تھا جو دیکھتا کہ دوسری کروٹ تو نہیں رکھا ہے یا جگہ سے تو نہیں سرکا ہے۔ ہاتھوں کو دیکھا۔ کپڑوں کو دیکھا لیکن کسی قسم کا کوئی نشان یا ثبوت اس امر کا نہ مل سکا جس سے میں شبہ کرتا کہ میں سچ مچ گلی کے اس پار کھڑکی میں ہو کر مکان میں پہنچا تھا۔ دیوار پر بھی چڑھنے کا کوئی نشان نہ ملا۔ قصہ مختصر بہت دیکھ بھال کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی ایک خواب تھا۔
علاج
رات کو میرا نکاح ہونے والا تھا۔ دن بھر شادی کی حماقتوں میں گزرا۔ شام کو جبکہ مجھے مرغ زریں بنایا جا چکا تھا ایک عجیب شگوفہ کھلا۔ وہ یہ کہ مہر کے معاملہ پر طرفین میں اختلاف ہو گیا۔ وہ تیس ہزار کہتے تھے اور ادھر سے دس ہزار پر اصرار تھا۔ اسی بحث میں تلخیاں بڑھ گئیں اور بات اتنی بڑھی کہ یہ طے ہوا کہ جبتک یہ معاملہ طے نہ ہو جائے برات کے جائے قیام سے دلہن کے یہاں روانہ ہونا ہی فضول ہے۔ دیر تک ادھر سے ادھر قاصد دوڑا کئے مگر نتیجہ کچھ برآمد نہ ہوا۔ برات فی الحال توڑ دی گئی اور میں بھی اطمینان سے بیٹھ گیا۔ واللہ اعلم نیچے کیا کیا مباحثے اور تجویزیں ہوتی رہیں مجھے کچھ خبر نہیں میں تو کھانا کھا کر دوستوں کے ساتھ پڑ رہا اور جلد سو گیا۔ سوتے میں پھر وہی خواب دیکھا۔
بستر سے اٹھا۔ تختہ کھڑکی سے لگا کر دوسرے مکان میں جانے کا پل بنایا۔ اس پر ہو کر مکان کی کھڑکی میں داخل ہوا۔ بس داخل ہونا تھا کہ زلزلہ آ گیا! خدا کی پناہ! اس زور سے گھما کر کسی نا چانٹا رسید کیا کہ میرا منہ پھر گیا اور سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ میرے دونوں کان دو مضبوط ہاتھوں سے پکڑ کر اس زور سے جھٹکے گئے کہ میں منہ کے بل گرا اور اٹھتے اٹھتے میری چاند پر تڑاتڑ جوتوں کی بارش ہو گئی! خواب تھا کہ حقیقت؟ اجی لاحول ولا قوۃ۔ کہاں کا خواب۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت تھی کہ ایک نہایت ہی دیوہیکل مضبوط پہلوان میری تاجپوشی کر رہا تھا اور ایک دوسرے حضرت کھڑے مجھے پٹوا رہے تھے۔ جب میں دیکھا کہ میں جان نہیں بچا سکتا تو میں نے مقابلے کا ارادہ کیا تو اس موذی نے میرا گلا زور سے پکڑ کر مجھے دے مارا اور میری چھاتی پر چڑھ کر میرے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔ دوسرے صاحب نے مجھے باندھنے میں مدد دی اور چشمِ زدن میں میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے اور مشکیں کس دی گئیں اور پھر اس کے بعد جو مجھے ان دونوں نے حسب توفیق مارنا شروع کیا تو بس کچھ نہ پوچھئے۔ جوتے، لاتیں، گھونسے، تھپڑ، غرض جس طرح بھی ممکن تھا مجھے مارا جا رہا تھا۔ ادھر میری حالت کا اندازہ آسان نہیں۔ ظالموں نے ایسا بے بس کیا تھا کہ یہ بھی نہ پوچھ سکتا تھا کہ ذرا سی خطا پر اتنی مرمت کیوں ہو رہی ہے۔


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۳
جب مارتے مارتے دونوں تھک گئے توپہلوان نے اب ایک اور تمہید اٹھائی۔ برابر کی میز پر سے ایک استرا اٹھایا۔ آستینیں چڑھا کر اس کی دھار دیکھتے ہوئے مجھے مطلع کیا کہ اب میری ناک کاٹی جائے گی۔ دونوں کی آنکھوں سے خون برس رہا تھا اور دونوں اس قدر غضبناک تھے کہ خدا کی پناہ۔ چشم زدن میں پہلوان میری چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ میں نے ادھر ادھر سر جو ہلایا تو دوسرے صاحب نے مضبوطی سے سر پکڑ لیا۔ پہلوان نے اس زور سے بائیں ہاتھ سے میری ناک پکڑی کہ خدا یاد آ گیا۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں اور ناک سے ہاتھ دھو بیٹھا کہ ایک دم سے خدا نے رحمت کے فرشتے کو بھیجا۔ ایک اور صاحب تیزی سے کمرہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے گھبرا کر پہلوان کو ناک کاٹنے سے روکا۔ ان کی عمر کوئی پچاس پچپن برس کی ہو گی۔ دوسرے صاحب کو انہوں نے ہاتھ پکڑ کر علیحدہ کیا اور یہ دونوں پہلوان کو ٹھہرنے کا اشارہ کر کے برابر والے کمرے میں چلے گئے۔ پہلوان نے غالباً اس خیال سے کہ وقت ضائع نہ ہو جائے مجھے موٹی موٹی گالیاں دینا شروع کیں اور میری ناک اور کان اور گلا کاٹنے کے دل خوش کن پروگرام کی دلچسپ تفصیل سے میری تواضع کرنا شروع کی۔ میرے اشارہ کرنے کی کوشش کی طرف وہ بندہ خدا دھیان بھی نہ دیتا تھا۔ اسے اس سے کچھ بحث ہی نہ تھی کہ میں کچھ عذر کرنا چاہتا ہوں۔
تھوڑی دیر بعد وہ حضرت آئے جو نیکی کا فرشتہ ثابت ہوئے تھے۔ نہایت پاکیزہ صورت تھی۔ شرافت اور امارت چہرہ سے ٹپک رہی تھی۔ صورت شکل اور وضع قطع سے ان کے بھائی معلوم ہوتے تھے جو میری ناک کٹوا رہے تھے۔ انہوں نے آتے ہی پہلوان سے مجھے کھولنے کو کہا۔ پہلوان صاحب غالباً اس حکم کے منتظر تھے کہ ناک کاٹنے کو کہیں گے لہذا وہ کچھ مایوس ہوئے۔ لیکن مجبور تھے اور میرے ہاتھ پیر انہین کھولنا پڑے۔ انہوں نے پہلوان کو اشارہ کیا اور وہ موذی کمرے سے باہر چلا گیا۔ اب ہم دونوں تنہا تھے۔ ان رحمدل بزرگ نے میرے منہ سے کپڑا نکالا اور نہایت ہی سنجیدگی سے بولے :
"اب تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ جو میں کہوں غور سے سنو۔ ورنہ یاد رکھو تمہارے ٹکڑے کر دیئے جائیں گے۔ جتنی بات میں پوچھوں اتنا جواب دو۔ زیادہ اگر فضول باتیں کیں تو تم جانو گے۔"
یہ کہہ کر انہوں نے میرا اور والد کا نام اور پتہ پوچھا اور پوچھنے کے بعد لاپروائی سے اس سے بیزاری بھی ظاہر کی۔ "خیر اس سے ہمیں کچھ بحث نہیں۔" نہایت ہی تلخی سے یہ کہہ کر پھر وہ بولے :
"تجویز تو یہ تھی کہ تمہیں اور خود اس ننگ خاندان دونوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور بوٹی بوٹی کر دیا جائے۔۔۔۔"


 
Top