عطاالحق قاسمی کی تصنيف “جرمِ ظريفی” سے اقتباس

رات کو ساڑھے گيارہ بجے دروازے پر گھنٹی ہوئی۔ميں اُٹھ کر دروازے تک گيا اور دروازہ کھولے بغير اندر سے باآوازِ بلند پوچھا۔”کون ہے؟”
“ميں زيدی ہوں”
“زيدی کون؟”
ميں نے شہريوں کي جان و مال کی محافظ پوليس کی کارکردگی پر عملی طور پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ايک بار پھر دروازہ کھولے بغير اندر ہی سے پوچھا۔”ميں حسن جعفر زيدی ہوں” باہر سے آواز آئی۔
حسن جعفر زيدی ميرا ہمسايہ بلکہ بہت ہی ہمسايہ ہے يعنی اتنا قريبی کہ ميرے اور اُس کے گھر کی ديوار سانجھی ہے اور بوقتِ ضرورت اپنے اپنے گھر ميں بيٹھے ہوئے ايک دوسرے سے ہم کلام ہوا جا سکتا ہے۔
ميں دروازہ کھول کر باہر نکلا تو اندھيرے ميں مجھے زيدی صاحب کے علاوہ دو اور مدھم سی شکليں نظر آئيں۔ اُن ميں سے ايک پوليس اہلکار تھا اور دوسری کوئی خاتون تھی۔ميرے لئے يہ صورتحال پريشان کُن تھی۔ جنانچہ ميرے دماغ ميں انديشہ ہائے دور دراز پرورش پانے لگے۔ ميں ذرا آگے بڑھا تو ميں نے ديکھا کہ وہ خاتون درنجف زيدی يعنی حسن جعفر زيدی کی بيوی تھيں۔ اُن مياں بيوی کے ساتھ پوليس کے دو اہلکار تھے جن ميں سے ايک غالبا اے ايس آئی اور دوسرا کانسٹيبل تھا۔
“کيا بات ہے؟”
ميں نے اِس عجيب و غريب صورتحال کا معمہ حل کرنے کے لئے زيدی سے پوچھا۔”ميں معافی چاہتا ہوں، اِس وقت تمہيں زحمت دی”
زيدی نے کہا۔ ” مگر يہ ناگزير تھا، کيونکہ تم نے شہادت دينی ہے يہ خاتون جو ميرے ساتھ ہے، ميری بيوی ہے۔ ہم مارکيٹ آئس کريم کھانے گئے تھے۔ پوليس ہميں وہاں سے پکڑ لائی ہے۔ انہيں يقين ہے کہ ہم مياں بيوی نہيں ہيں، کيونکہ ہماری جيب ميں نکاح نامہ نہيں ہے”
 
Top