عشق تسلیم و رضا کے ما سوا کچھ بھی نہیں - زکی کیفی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
عشق تسلیم و رضا کی ما سوا کچھ بھی نہیں
وہ وفا سے خوش نہ ہوں تو پھر وفا کچھ بھی نہیں

مدتوں ان کی طلب میں خاک چھانی تو کھلا
ایک پردہ بیچ میں ہے فاصلہ کچھ بھی نہیں

زندگی کا ماحصل ہیں الٹے سیدھے کچھ نقوش
کس قدر خاکے بنائے اور بنا کچھ بھی نہیں

نور و نکہت، شعر و نغمہ،بوئے گل،موجِ نسیم
سب تری پرچھائیاں ہیں ،آئینہ کچھ بھی نہیں

زندگی کی داستاں ہے ایک دیوانے کا خواب
مدتوں سے کہ رہا ہوں اور کہا کچھ بھی نہیں

اک خلش،اک بیقراری،اک گھٹن،اک اضطراب
مدعا پوچھو تو دل کا مدعا کچھ بھی نہیں

روبرو بھی وہ نہیں ہیں،پھر بھی ہیں راز و نیاز
گفتگو ہے اور آواز و صدا کچھ بھی نہیں

سامنا ان کا ہوا تو سب حقیقت کھل گئ
ہم سمجھتے تھے کہ دل کا تھامنا کچھ بھی نہیں

زندگی کو ہم نے بخشا شیوئہ سوز و گداز
زندگی سے ہم نے لیکن کیا لیا؟ کچھ بھی نہیں

عشق پہلے جذب و مستی،پھر سکوتِ بیکراں
ابتدا سب کچھ ہے لیکن انتہا کچھ بھی نہیں

اس طرح راہِ عدم پر چل ہے ہیں قافلے
راہ میں گردِ سفر یا نقشِ پا کچھ بھی نہیں

نغمہ کیا پھوٹے گا سارے تار ہیں ٹوٹے ہوئے
سازِ دل وہ ساز ہے جس میں رہا کچھ بھی نہیں

اُن سے مس ہو کر جو آئے وہ جہانِ رنگ و بو
اُن کے کوچے سے نہ گزرے تو صبا کچھ بھی نہیں

اُن کو کیفی کس طرح سمجھوں وفا نا آشنا
کیا مزاجِ یار سے میں آشنا کچھ بھی نہیں

زکی کیفی
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہ
بہت خوب شراکت
نور و نکہت، شعر و نغمہ،بوئے گل،موجِ نسیم
سب تری پرچھائیاں ہیں ،آئینہ کچھ بھی نہیں
 
Top