عرفان کی مزاحیہ گرہیں

عرفان سعید

محفلین
محفل کی چودہویں سالگرہ پر ایک لڑی میں سو سے کچھ زیادہ مصرعوں پر مزاحیہ گرہیں لگائیں۔ سوچا کہ سب کو ایک جگہ ایک لڑی میں اکٹھا کر دیا جائے۔
 

عرفان سعید

محفلین
"لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں "
سات بہنیں اور ماں میرے نہ ہوں گر ہم نشیں

"آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی"
میں نے بریڈ اور بٹر، ساتھ میں جام رکھ دیا

کل سے کموڈ پر میں ہوں بیٹھا حجاب میں
"ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں"

آج یورپ میں کھلا دے دیس کے کچھ آم تو
"دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو "

"آمد پہ تیری عطر و چراغ و سَبو نہ ہوں"
میں نےتجھے فری بھی زیادہ نہیں کیا

شادی پر اس کا ابا کچھ ایسے شعلہ بار تھا
"دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا"

"اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد"
نکاح سے پہلے ہوتا تھا کبھی آزاد

کل ڈاکٹر کے پاس گئے تو ہمیں کہا
"سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے "

"شہر میں اپنے یہ لیلیٰ نے منادی کر دی"
کوئی روٹی ہی کھلا دے مرے دیوانے کو

چٹ منگنی پٹ بیاہ، اب سوچتا ہوں اکثر
"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی"
 

عرفان سعید

محفلین
عید کا دن ہے نہا آج تو لے اے ظالم
"رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے"

ڈنڈے کھائے میں نے تیرے بھائیوں سے جس جگہ
"مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے "

"چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے "
ہم کو اب تک امتحانوں کا زمانا یاد ہے

ڈراموں میں اسے روتے ہوئے دیکھا، کہاں ورنہ
"ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے "

"جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں"
ترے ابا جی کو بھی ہم دیکھتے ہیں

ہمسائے کے چرائے تھے جو چار مرغے بھی
"دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں "

پڑوسن ستارہ نہیں مانتی
"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں"

بیگم میکے ہے، پیاز اب کاٹ رہا ہوں
"بے ساختہ کیوں اشک تمہارے نکل آئے"

مفتی تجھے غور سے نہ دیکھے
"اے چاند یہاں نہ نکلا کر"

"اس کو پہلی بار خط لکھا تو دل دھڑکا بہت"
بھائی نے دیکھا تو اتنا مارے گا ڈر تھا بہت
 

عرفان سعید

محفلین
"میں ہی اپنا محتسب بن جاؤں ورنہ دوستو"
نیب نے پکڑا تو جیلوں میں مجھے دیکھے گا کون

"دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں"
دس دن سے پہنے موزے سے ابکائی آتی ہے

"یہ مُشتِ خاک، یہ صرصر، یہ وسعتِ افلاک "
لغت کو سامنے رکھ کر نہ اتنا بن چالاک

"متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہمیں کہیں سے ملیں"
بے شک بنفشہ و صندل ہی نکتہ چیں سے ملیں

کروڑوں کی رقم قرضے میں لے کر
"بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے "

کچھ تو نہاری کھائی تھی، کچھ ہوا کھنگال بھی
"دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی "

نان دس کھا کر بھی شاید وہ ابھی تک بھوکا تھا
"جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا "

"کوئی دن گر زندگانی اور ہے"
بیوی ہم نے گھر میں لانی اور ہے

میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنی خفیہ رکھی رقم کو
"شررفشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا"

روزِ نکاح جب ملیں گی جو سلامیاں مجھے
"آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر "
 

عرفان سعید

محفلین
بے خطر جیب سے میری روپے وہ لے بھاگی
" عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی"

کبھی چمٹی ہوئی بیوی بھی یاد آتی ہے شوہر کو
"کھٹک سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے"

اس کا ابا قریب ہے شاید
" جاں کرے ہے اب اضطراب بہت"

بیوی کے جب ہاتھ موبائل مرا لگ جاتا ہے
"مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا "

"سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا "
چپکے سے روز ملتی ہے تجھ سے شبانہ کیا

"یہ آرزو تھی تجھے گُل کے روبرو کرتے"
تم اور گُل خاں بے تاب گفتگو کرتے

کانوں میں لگے مائک اتارے گا تو پھر
"شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات "

معطل ہیں عارف کریم اور سب شاہ
"مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے "

ورلڈ کپ میں پاکستان کے آخری میچ کے لیے
آخر میں میچ کھیلتے یہ خوب سوچنا
"سچ کہتے ہیں کہ گھاس کے نیچے کنواں نہ ہو "

ہائے اللہ! کروں بجلی کا بل آتے ہی
"لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں "
 

عرفان سعید

محفلین
"اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا"
چانٹا گر اک جڑا نہیں ہوتا

"چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ"
اے صنم اتنا تیرا کالا مُنہ

"شب تُم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے"
بریانی چپکے سے تری ہم بھی اڑا گئے

"رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح"
شادی کہیں جو آپ کی ہو گی مری طرح

جب گھونگھٹ ہٹایا تو دلہن نے یہ کہا
"لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا"

ورلڈکپ کی حالیہ صورتِ حال کے تناظر میں:
"پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں"
کیوی کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

"ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے "
چھپ کے مسجد سے ہی جوتے دو اٹھاتے جاتے

پریشاں مت ہو گر کھڑکیاں دو ٹوٹی ہیں
"کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے"

کھا رہے گول گپے گلی میں محمود و ایاز
"نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز "

"تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے"
جو نرگس روٹھی ہم سے، اس کو سمجھانے کہاں جاتے
 

عرفان سعید

محفلین
ایک کم بخت یہ آیا ہے جو موبائل فون
"ایک یہ دن کہ بہل جاتے ہیں پیغاموں سے"

بانوے کی یہ پرانی سی کہانی سن کر
"خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں "
(ورلڈ کپ کے تناظر میں)

"آنکھوں میں نمی آئی چہرے پہ ملال آیا"
بھائی بلا کر مجھ کو جب تیرا سوال آیا

"فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر "
شیریں تو رات کھا کے گئی اتنی ساری کھیر

گرمی سے ہانپتی جو کھوتی بے چاری آئی
"قیس سمجھا مری لیلیٰ کی سواری آئی "

تھا منع اگرچہ ، رانجھے کی پھوپھو بھی اکثر
"ہزار بار تو رانجھا کو لائی ہیر کے گھر "

اے زوجہ سام سنگ یا ایپل؟ تو کچھ بتا
"معلوم بھی تو ہو، کہ تمہاری رضا ہے کیا"

"شکرِ الطاف نہیں، شکوۂ بیداد نہیں "
کالی آندھی سے شکست، اور تو کچھ یاد نہیں

شیف ذاکر کی، زبیدہ آپا کی، باری رکھو
"زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو "

"چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی "
بیوی نے پھر بہت پٹائی کی
 

عرفان سعید

محفلین
"گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے"
کودتے وقت مری تنگی تو ڈر جانا ہے

"اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں"
بیوی بچے نئے ٹی وی پہ تو اڑ جاتے ہیں

"نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے"
وفات سے پہلے بیوی اور لانی ہے

"مت ناچ سر پہ دیکھ کے تاج اختیار کا "
شاہی لباس ایسا یہ، جو ہے ادھار کا

ریاضی کا تھا پرچہ، کچھ نہ میرے پلے ہی پڑا
"عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا "

تھا بے ہیلمٹ وہ، تو سنگ مارا، دوڑ آیا ہوں
"جہاں سر پھوڑ سکتا تھا وہیں سر پھوڑ آیا ہوں"

قرضہ واپس لینے جب آنے لگے
"ہم تو آتے ہی اُن کے جانے لگے"

"نہ جب دکھلائے کچھ بھی آنکھ پیارے "
تو عینک میں سے پھر تُو جھانک پیارے

میں گر نگراں شاہی خزانے کا ہوتا
"تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا"

رہے ہے ساس ہمارے قریب، کیا کہنا
"الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا"
 

عرفان سعید

محفلین
جب ہوا بیوی کا عتاب بہت
"مل چکے ہیں ہمیں خطاب بہت "

"اب کہاں زمانے میں دُوسرا جواب اُن کا"
لیب ٹاپ ناقص اور فون ہے خراب ان کا

تنخواہ میں، بیوی کی خواہش میں توازن
"کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے "

"جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے"
تو چار سالوں میں چھ بچے تنگ کرنے لگے

"دشتِِ مجنوں نہ سہی تیشۂ فرہاد سہی"
ایک دو کاٹنے ہیں شیشے مجھے کچھ ہی سہی

گرمی سے جھنجھلا کر گنج تری جب سے ہوئی
"تیرے چہرے پہ تو بکھرے ہوئے گیسو بھی نہیں "

پے جب ملی تو آنکھوں سے برسات ہو گئی
"ہم جِس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی "

اگر ذرا سا بھی شک اماں کو ہو جائے
"میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا "

چائے و کافی کو جب چھوڑ دیا
"اب دِلوں میں وہ حرارت ہی نہیں "

سگرٹ کے پاس پھٹکا نہیں میں، بس ایک بار
"درِ پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا"
 

عرفان سعید

محفلین
جب دوست مرا کرتا ہے قرضے کی گزارش
"اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

اب کے نووارد کو قابل حکمراں سمجھا تھا میں
"سامنے کی بات تھی لیکن کہاں سمجھا تھا میں "

اب کاہلی میں کالی آندھی سے ہار کے
"وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے "

امید اس پہ بجلی کا اک بلب لایا ہوں
"پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا"

یہ میچ نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
"اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے"

یہ واپڈا کے ہاتھوں میں روز کہتا ہوں
"پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی"

گو کریلا مجھے لگے کڑوا
"مفت ہاتھ ہائے تو برا کیا ہے"

آج پہلا پرچہ ہے روتا ہے کیا
"آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا "

"خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر"
قد کی لمبائی بتاتے ہیں زرافہ دیکھ کر

عشق کر کے ابا کے جوتوں کا مزہ پایا
"آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزہ پایا "
 

عرفان سعید

محفلین
"بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا"
فون پیکج کو میسر نہیں ارزاں ہونا

"ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب"
ہم تمنا کا جوتا پکڑے تھک چکے ہیں اب

"دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا"
وائی فائی کا کنکشن لے کر آئیں گے کیا

"ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مۓ پرستی ایک دن"
پھر کھلاؤں گا تمہیں بکرے کی دستی ایک دن

کھیل میں ٹیم نے مایوس کیا ہے لیکن
"اب بھی ہر گوشہِ دل میں کئی ارمان ہوں گے "

"ڈرتے ڈرتے جو ترے کوچے ميں آجاتا ہوں"
دیکھ کر ابا ترا سکتے میں آجاتا ہوں

"چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا"
خوشی میں لے کے میں بکرے کے دس کباب آیا

اگر تمہیں کبھی نزلہ زکام ہو جائے
"سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے "

کہاں ہر سواری کے پیسے بھی ہم مہیا کر لیں
"جی میں آتا ہے کہ ہم پاؤں کو پہیّہ کر لیں "
 

عدنان عمر

محفلین
واہ جی واہ! بہت خوب!
آپ کی اس گرہ نے خوب محظوظ کیا:

جب گھونگھٹ ہٹایا تو دلہن نے یہ کہا
"لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا"
 
Top