عذابِ ہجرتِ پیہم سنبھلنے دے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دو دہائیوں پہلے جب راقم ترکِ وطن کرکے بسلسلہ روزگار امریکا آیا تو اس کا حال اس صورتحال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا جو ۱۹۴۷ میں پاکستان ہجرت کے وقت والدین کو درپیش تھی ۔ اس عالم اور کیفیت کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔

عذابِ ہجرتِ پیہم سنبھلنے دے
حصارِ بے مکانی سے نکلنے دے

غبار ِ بے سروسامانی پردہ رکھ
قبائے بے لباسی تو بدلنے دے

ہوائے شہر ِغربت اک ذرا دھیرے
چراغ ِشام ِ تنہائی کو جلنے دے

دیار ِ اجنبی کے منجمد لہجے
سکوتِ گوشہء جاں میں پگھلنے دے

فشارِ احتیاج ِ زندگی مجھ کو
کبھی تو کنجِ غفلت میں بہلنے دے

جنونِ رخصتِ تازہ مجھے اس بار
جہاں کچھ بھی نہیں اُس سمت چلنے دے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۶

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر
 
Top