عالمی دھشت گرد: امریکہ

شمشاد

لائبریرین
يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرک الاوسعت" ميں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس اخبار کا نام " شرق الاوسط " ہے۔
 
برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القاعدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرک الاوسعت" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القاۂدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القاۂدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

حیرت ہے کہ اسٹیٹ دیپارٹمنٹ اتنی کمزور دلیلیں پیش کرتا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ القائدہ کا وجود امریکی حکومت کی تخلیق ہے اور اس کا اظہار اپ کی اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اپ اپنی بات کی دلیل میں القائدہ کے نمبر دو کے ارٹیکلزدیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں‌بلکہ جب بھی امریکی حکومت کو ضرورت پڑتی ہے القائدہ کا کوئی نہ کوئی رہنما یا تو نیا اڈیو وڈیو کیسٹ مارکیٹ میں لےاتا ہے یا کوئی نئی کارورائی کرتا ہے جو بالضرور امریکہ سے باہر ہوتی ہے اور امریکہ کو اس سے کچھ نقصان بھی نہیں‌ہوتا۔

افغانستان کی جنگ میں امریکی امداد نے وہ گند پھیلائی ہے جس کو اب تک کوئی بھی نہیں سمیٹ نہیں سکا۔ اس گند پر مزید گند پاکستانی فوجی ایجنسیوں نے ڈال دی جو اسٹریجک ڈیپت کے لیے افغانستان پر قابو پانا چاہتے تھے۔ بہرحال افغانستان میں‌امریکی امداد ایک گند کی طرح تھی جس نے سارے علاقے میں‌ سخت بدبو پھیلارکھی ہے۔ مگرا مریکی دھشتگردانہ حرکات جو وہ فلسطین ، بیروت و عراق میں کررہی ہے کچھ کم نہیں۔ یہ امریکی دھشت گردی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے سمجھدارلوگ امریکہ پر تھو تھو کررہے ہیں۔
میرا اپ کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ پیغام ہے کہ خدارا دنیا میں‌امن واتشی کی پالیسی کو ترویج دیں‌تاکہ اپ کے سپر پاور ہونے کا حق ادا ہوسکے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

محترم،

"امريکہ – عالمی دہشت گرد"۔ آپکے تھريڈ کا عنوان پڑھ کر مجھے اپنے کالج کے زمانے کا ايک واقعہ ياد آ گيا جب ايک مذہبی نما سياسی جماعت کے ليڈر نے ہمارے کالج کا دورہ کيا تھا اور ہمارے کالج کی طلبہ تنظيم نے ان کے اعزاز ميں ايک تقريب کا اہتمام کيآ تھا۔ ميں چونکہ پاکستان ميں نووارد تھا اور کسی پاکستانی ليڈر کی تقریر براہراست سننے کا يہ ميرے ليے پہلا موقع تھا اس ليے ميں بھی اس تقريب ميں چلا گيا۔

ميرا اندازہ تھا کہ شائد وہ اپنی تقرير ميں اپنی پارٹی کے منشور کی بات کريں گے اور طلبہ کے مفادات کے ليے اپنی پارٹی کے منصوبوں پر روشنی ڈاليں گے۔ ليکن ان کی پوری تقرير محض "امريکہ – دشمن اسلام"، "امريکہ کے سازشی منصوبے" اور "یہودی اور بھارتی لابی کا امريکہ کے ساتھ گٹھ چوڑ" جيسے موضوعات پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ وہ مسلئہ کشمير سميت عالم اسلام کو درپيش تمام مسائل کا ذمہ دار امريکہ کو قرار ديتے رہے۔ ان کی تقرير کے دوران پورا ہال "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" کے پرجوش نعروں سے گونجتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ نوجوانوں کو جہاد کشمير ميں شامل ہونے کی تلقين بھی کرتے رہے۔ اس حوالے سے انکی جماعت کے کارکن طلبہ سے جہاد کشمير کے نام پر مختلف فارمز بھی پر کرواتے رہے۔

اس واقعے کا سب سے دلچسپ پہلو يہ ہے کہ جس وقت يہ مذکورہ ليڈر امريکہ سے نفرت کے حوالے سے زمين آسمان ايک کر رہے تھے اس وقت ان کے اپنے دونوں بيٹے امريکہ کی يونيورسٹيوں ميں اعلی تعليم حاصل کر رہے تھے اور اپنے تابناک مستقبل کے لیے بنياديں مضبوط کر رہے تھے۔

کچھ دن پہلے ميں نے انہی سياسی ليڈر کو حاليہ انتخابات کے سلسلے ميں ٹی وی پر ايک جلسے ميں تقرير کرتے ہوئے ديکھا۔ ان کے جلسے ميں کارکنوں نے بہت سارے بينر اٹھا رکھے تھے جس پر مجھے وہی مانوس نعرہ درج دکھائ ديا۔ "امريکہ کا جو يار ہے – غدار ہے، غدار ہے"۔

يہاں يہ بھی بتاتا چلوں کہ ان ليڈر صاحب کے دونوں بيٹے آج بھی اپنی فيمليز کے ساتھ امريکہ ميں مقيم ہيں اور تعليم مکمل کرنے کے بعد اعلی اداروں ميں ملازمتيں کر رہے ہيں۔

يہ واقعہ پاکستان کے کسی ايک سياسی ليڈر کی زندگی تک محدود نہيں ہے۔آپ کسی بھی سياسی جماعت کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليئے وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی تقدير کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔

يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔

ڈیجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے پچھلے کچھ عرصے سے ميں بہت سے اردو فورمز پر امريکہ کے حوالے سے لوگوں کی آرا پڑھتا رہا ہوں۔ ان تمام فورمز پر مجھے امريکہ کے خلاف وہی جذبہ محسوس ہوا جو برسوں پہلے ميں نے کالج کی اس تقريب ميں محسوس کيا تھا۔ امريکہ کے خلاف جذبات کے حوالے سے ميں نے ديکھا ہے کہ مندرجہ ذيل ايشوز ايسے ہيں جن کو بنياد بنا کر لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہيں۔


- عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش
- افغانستان اور عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومتيں
-امريکہ – دشمن اسلام (نيو ورلڈ آرڈر)
-عراق پر امريکی حملہ (ڈبليو – ايم – ڈی ايشو)
- افغانستان ميں امريکہ کا کردار
- گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غير انسانی سلوک

ان موضوعات کے حوالے سے ميں نے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے کچھ اعدادوشمار اکٹھے کيے ہيں۔ جو آپ کے سامنے رکھ کر آپ کو تصوير کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کروں گا۔

ميں جانتا ہوں کہ عمومی طور پر پاکستانيوں کی سوچ ميں جذباتيت کا عنصر بہت نماياں ہوتا ہے وہ چاہے سياسی يا مذہبی وابستگی ہو يا اپنی کرکٹ ٹيم سے لگاؤ، ہم متضاد سوچ يا وابستگی کے حوالے سے برداشت کے معاملے ميں زيادہ فراخدلی نہيں دکھاتے۔ ليکن ميں پھر بھی چاہوں گا کہ ميرے خيالات کو جذبات کی بجائے اعداد وشمار کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔

عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش

يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ بہت سے اردو فورمز پر رائے دہندگان عراق پر حملہ بلکہ افغان جنگ کو بھی عراق کے تیل پر امريکی قبضے کی ايک عالمگير سازش قرار ديتے ہيں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ ايک طرف تو يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے صدام حسين کے ساتھ دیرينہ تعلقات رہے ھيں۔ اور پھر يہ دليل بھی دی جاتی ہے کہ امريکہ نے عراق پر تيل کے ليے حملہ کيا۔ اگر امریکہ کے صدام کے ساتھ تعلقات اتنے ہی ديرينہ تھے تو اسےاربوں ڈالرز کی لاگت سے جنگ شروع کر کے اپنے ہزاروں فوجی جھونکنے کی کيا ضرورت تھی۔ امريکہ کے ليے تو آسان راستہ يہ ہوتا کہ وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔

اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔

2006 ميں ہاورڈ ميگزين نے ايک تحقيقی کالم لکھا جس کی رو سے عراق جنگ پر امريکہ کے مالی اخراجات کا کل تخمينہ 2 ٹرلين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جائے تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔ ہاورڈ ميگزين کے اس آرٹيکل کا ويب لنک پيش کر رہا ہوں-

http://harvardmagazine.com/2006/05/the-2-trillion-war.html

ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔

امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔ ان اعدادوشمار کا گراف کچھ اس طرح ہے۔

my.php


جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔ يہی اعداد وشمار گراف کی شکل ميں پيش خدمت ہيں۔

my.php


اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔

my.php


يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔

ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔


افغانستان اور عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومتيں

ايک اور عام تاثر جو آپ کو بے شمار اردو فورمز اور انٹر نيٹ سائٹس پر ملے گا وہ يہ ہے کہ عراق اور افغانستان کی حکومتيں امريکہ کی "کٹھ پتلی" ہيں۔ کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات ميں 8 ملين افغان ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آئے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟

افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔ اس ٹيم کے ممبران کے مکمل تعارف کے ليے اقوام متحدہ کی ويب سائيٹ کا يہ لنک دے رہا ہوں۔

http://www.eueomafg.org/Coreteam.html

http://www.unv.org/en/news-resources/news/doc/un-volunteers-at-the.html
http://www.unv.org/en/what-we-do/countries/afghanistan/doc/un-volunteers-at-the.html

اسی طرح عراق ميں ہونے والے انتخابات اقوام متحدہ کے ادارے آئ – او – ايم کی زير نگرانی ہوئے۔ اس حوالے سے مزيد معلومات کے ليے يہ ويب سائٹ لنک دے رہا ہوں۔

http://www.iom-iraq.net/ocv.html

اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟

امريکہ – دشمن اسلام (نيو ورلڈ آرڈر)

نيوورلڈ آرڈر اور مسلم ممالک کو کمزور کرنے کے ليےامريکہ کے سازشی منصوبے۔ اس حوالے سے انٹرنيٹ اور ديگر ميڈيا پر بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ ليکن ايک بات جو اس طرح کے مواد ميں ہميشہ مشترک ہوتی ہے وہ ہے جذباتيت کا عنصر۔ تمام تر زمينی حقائق اور اعدادوشمار بالائے طاق رکھ کر صرف اس منطق پر زور ديا جاتا ہے کہ مسلم ممالک کو درپيش تمام مسائل کا پيش خيمہ بھی امريکہ ہے اور ان تمام مسائل کا حل بھی امریکہ ہی کے پاس ہے۔ اس حوالے سے دلائل کبھی بھی اعداد وشمار پر مبنی نہيں ہوتے۔ ميرا خيال ہے کہ جوش اور جذبات کی دھند کو ہٹا کر اعدادوشمار کی روشنی میں حقيقت کو ديکھنا چائيے۔

اگر امريکہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو پھر آپ ان حقائق کو کيسے جھٹلائيں گے

اس وقت امريکہ ميں سب سے زيادہ تيزی سے پيھلنے والا مذہب اسلام ہے۔ امريکہ ميں قائم 1200 سےزائد مساجد ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان ديگر شہريوں کی طرح اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا پورا حق رکھتے ہيں۔ يہی نہيں بلکہ مسلمانوں کو يہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ غير مذہب کے لوگوں کو مساجد ميں بلوا کر ان سے مذہب کے معاملات ميں ڈائيلاگ کر سکتے ہيں۔ مسلمانوں کو مساجد تعمير کرنے اور اسلامی تنظيموں کے قيام جيسے معاملات ميں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ سياست، تجارت اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات ميں مسلمانوں کو مکمل نمايندگی حاصل ہے۔

يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہے اور اس کے باوجود مسلمانوں کو امريکہ کے اندر ترقی کرنے کے تمام تر مواقع ميسر ہيں۔

اگر امريکہ پاکستان اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد 267 ملين اور 1951 سے لے کر اب تک يو – ايس – ايڈ کے ادارے کی جانب سے دی جانے والی 7 بلين ڈالرز کی امداد کو آپ کيسے فراموش کريں گے۔ اس کے علاوہ امريکہ کی بےشمار نجی تنظيموں نے اس مشکل وقت ميں پاکستان کے ليے امداد کا انتظام کیا۔ اس بارے ميں مزيد تفصيلات کے ليے يہ ويب لنک دے رہا ہوں۔

http://www.usaid.gov/pk/mission/background/index.htm

امريکہ فلسطين کی امداد کرنے والے ممالک کی فہرست ميں پہلے نمبر پر ہے۔پچھلے دس سالوں ميں امريکہ کی جانب سے فلسطين کو 8۔1 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔

اگر امريکہ مسلمانوں کے خلاف ہے تو پھرايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا مطالبہ کيوں کر رہا ہے؟

اگر امريکہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو کويت پر عراق کے قبضے کے بعد اس کی مدد کو کيوں پہنچا۔ اس کے علاوہ بوسنيا کے مسلمانوں پر سربيا کی جارحيت کے خلاف امريکہ کی کوششيں آپ کيسے نظرانداز کريں گے۔

انڈونيشيا کے مسلمانوں کو سونامی کی تباہکاريوں کے بعد سب سے زيادہ امداد امريکی حکومت کی جانب سے ہی ملی تھی۔ اس ميں صرف امريکی حکومت ہی شامل نہيں تھی بلکہ امريکہ کی بےشمار نجی تنظيموں نے بھی اس ميں حصہ ليا تھا۔

2006 ميں ايران ميں زلزلےاور2007 ميں بنگلہ ديش ميں سيلاب کی تباہی کے بعد امداد دينے والے ممالک ميں امريکہ سرفہرست تھا۔

2006 ميں صحت، تعليم اور ديگر ترقياتی کاموں کے ضمن ميں امريکی حکومت کے توسط سے يو – ايس – ايڈ اور ايم – سی – سی کے اداروں کو جو امداد دی گئ اس کا تخمينہ 12 بلين ڈالرز ہے۔ يہ سارے ترقياتی منصوبے يو – ايس – ايڈ کے زير نگرانی پايہ تکميل تک پہنچے اور ان کی تفصيل آپ اس ويب سائٹ پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://www.usaid.gov

حقيقت يہ ہے کہ امريکہ مسلمان ممالک کو ہر سال کئ بلين ڈالرز کی امداد ديتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ہر سال ہزاروں کی تعداد ميں مسلمانوں کو امريکہ ميں شہريت دی جاتی ہے۔ عرب دنيا اور ديگر مسلم ممالک سے ہر سال ہزاروں طالب علم امريکہ کے تعليمی اداروں ميں اعلی تعليم کے حصول کے ليے آتے ہيں ان پر اس حوالے سے کسی قسم کی کوئ پابندی نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال لاتعداد مسلمان پناہ گزين امریکہ ميں آ کر بستے ہيں اور انہيں امريکی شہريوں کے مساوی بنيادی انسانی اور آئينی حقوق ديے جاتے ہيں۔

امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

عراق پر امريکی حملے کی وجہ( ڈبليو – ايم – ڈی ايشو)

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔



يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔

عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔

افغانستان ميں امريکہ کا کردار

افغانستان ميں امريکی حملے کے پس منظر اور اس کے اسباب سے تو سب واقف ہيں۔ ليکن يہاں پر ميں آپ کے سامنے تصوير کا وہ رخ رکھوں گا جس کا ذکر ميڈيا ميں بہت کم کيا جاتا ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں امن وامان کے حوالے سے بہت سے مسائل ہيں ليکن جہاں امريکی افواج انتہاپسندوں کے خلاف نبردآزما ہيں وہاں امريکہ کی بہت سی سرکاری اور نجی تنظيميں افغانستان کی تعمير نو کے ليے بےشمار منصوبوں پر عمل پيرا ہيں۔ اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکی افواج افغانستان کو "کھنڈرات" ميں تبديل کر رہی ہيں۔۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔

اس حوالے سے افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ کے نام سے ايک فنڈ قائم کيا گيا ہے جو براہراست ورلڈ بنک کی زيرنگرانی کام کرتا ہے۔ اس فنڈ کا مقصد حکومت افغانستان کو امداد کی فراہمی کا ايک مربوط سسٹم فراہم کرنا ہے جس کا مقصد افغانستان ميں تعميراتی منصوبوں اورعوام کے ليے صحت و تعليم کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ امريکی حکومت کی جانب سے يو-ايس-ايڈ کے ادارے کے توسط سے اس فنڈ ميں جو امداد مہيا کی گئ ہے وہ 972۔24 بلين ڈالرز ہے۔ چونکہ يہ فنڈ براہراست ورلڈ بنک کے زير نگرانی افغانستان حکومت تک منتقل کيے جاتے ہيں اس ليے وہ يو –ايس – جی کے قواعد وضوابط کے عين مطابق ہوتے ہيں۔ اس کے علاوہ چونکہ اس امداد کا بڑا حصہ امريکہ کے ٹيکس دہندگان کی آمدنی پر مبنی ہوتا ہے اس ليے يو – ايس – ايڈ کا ادارہ اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ اس امداد کے نتيجے ميں شروع کيے جانے والے تعميراتی منصوبے مکمل کيے جائيں۔

my.php


my.php


my.php



اسکے علاوہ ميں آپ کو يوايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ويب سائيٹ کا ايک لنک دے رہا ہوں جس ميں آپ ان تمام ترقياتی کاموں کی تفصيل اعدادوشمار کے ساتھ ديکھ سکتے ہيں جو امريکی حکومت کے توسط سے افغانستان ميں گزشتہ چند سالوں ميں کيے گئے ہيں۔


گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غيرانسانی سلوک

ميڈيا خاص طور پر انٹرنيٹ پر اس حوالے سے بے شمار تصاوير سب نے دیکھیں ہيں۔ پاکستان ميں عام تاثر يہ ہے کہ سينکڑوں کی تعداد ميں پاکستانی اس مقام پر امریکی فوجیوں کے غير انسانی سلوک کا شکار ہيں۔ يہ تاثر بھی عام ہے کہ ان قيدیوں کے تمام انسانی حقوق معطل ہيں اور انہيں کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئ کا اختيار نہيں ہے۔

اس حوالے سے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے حال ہی ميں گوانتاناموبے کا دورہ کيا تاکہ حقائق جان سکيں۔ ہماری ٹيم نے گوانتاناموبے ميں قيدیوں کے رہن سہن اور ان کو دی جانے والی سہوليات کا ازخود مشاہدہ کيا۔

گوانتاناموبے ميں اس وقت لگ بھگ 300 قيدی ہيں جن کا تعلق مختلف ملکوں سے ھے۔ ان ميں موجود پاکستانيوں کی تعداد انگليوں پر گنی جا سکتی ہے۔ اس ليے يہ کہنا کہ وہاں پر سينکڑوں کی تعداد ميں پاکستانی موجود ہيں حقيقت کے منافی ہيں۔ اس کے علاوہ قيديوں کودو مختلف کيٹيگريوں ميں تقسيم کيا گيا ہے اور اسی حوالے سے انہیں دو مختلف رنگوں کی يونيفارم دی گئ ہيں۔ اورنج (مالٹا) يونيفارم ميں ملبوس جن قيديوں کی تصاویر آپ انٹرنيٹ پر ديکھتے ہيں وہ گوانتاناموبے ميں قيديوں کی صرف ايک کيٹيگری کی ہیں۔ يہ وہ کيٹيگری ہے جو تخريب کاری کی انتہاہی سنگين کاروائيوں ميں ملوث ہونے کے علاوہ جيل حکام پر حملے بھی کر چکے ہيں۔

وہ قيدی جو قواعد وضوابط کی پابندی کرتے ہيں انہيں دن ميں 12 گھنٹے فٹ بال، باسکٹ بال، جاگنگ اور جم کی سہوليات دستياب ہيں۔ تمام مسلمان قيديوں کو ایک مسلم کٹ دی جاتی ہے جس ميں قرآن پاک، جاہ نماز اور تسبيح شامل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو دن ميں تين بار حلال کھانا ديا جاتا ہے جس کا يوميہ خرچہ وہاں تعنيات فوجيوں کے يوميہ خرچے سے زيادہ ہوتا ہے۔ 5 ہزار سے زائد کتابوں کی ايک لائبريری بھی موجود ہے جس ميں صحيح بخاری اور صحيح مسلم سميت بےشمار مذہبی کتابيں شامل ہيں۔ يہاں پر تعنيات فوجيوں کو قرآن پاک کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہيں ہے۔ يہ ذمہ داری وہاں پر کام کرنے والے مسلم لائيبريرين ادا کرتے ہيں- قيديوں کے ليے تعليم کی سہولت بھی ہے جہاں انہيں عربی،پشتو اور انگريزی کی تعليم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دن کے مخصوص اوقات میں قيديوں کو ٹی وی ديکھنے کی بھی اجازت ہے۔

اس کے علاوہ يہاں پر 20 بستروں پر مشتمل ايک مکمل ہسپتال بھی ہے جو کہ واشنگٹن ميں واقع امريکی نيوی کے ہسپتال سے براہراست منسلک ہے۔ يہاں پر 100 کے قريب ڈاکٹرز اور نرسز بھی تعنيات ہيں۔ اس ہسپتال کے مختلف شعبہ جات ميں ايک ريڈيالوجی ليب، فارميسی اور آپريشن تھيٹر کے علاوہ ڈينٹل کلينک بھی شامل ہيں۔

آپ کی اطلاع کے ليے يہ بھی بتا دوں کہ اس وقت امريکی سپريم کورٹ ( جو کہ امریکہ ميں قانون کا سب سے اعلی ادارہ ہے) سميت بہت سی عدالتوں ميں ايسے کئ کيس زير سماعت ہيں جن کی رو سے ان قيديوں کے قانونی حقوق کا تعين کيا جائے گا۔ ان قيديوں کی جانب سے ايک امريکی اٹارنی بھی نامزد کيا گيا ہے جو ان قيديوں کی نمايندگی کر رہا ہے۔ اس وقت بھی امريکی سپريم کورٹ ايک کيس کی سماعت سن رہی ہے جس کی رو سے ان قيديوں کے حوالے سے امريکی سول ججز کے قانونی دائرہ کار کا تعين کيا جائے گا۔

اس حوالے سے ميں ايک الجيرين قيدی احمد بيلبيچا کی مثال دیتا چلوں جس نے اپنی رہاہی کے احکامات کو نا صرف رد کر ديا بلکہ امريکی ملٹری کورٹ ميں اپيل دائر کر دی کہ اسے اس کے ملک واپس نہ بيجھا جائے۔ اسی طرح کچھ قيدی ايسے بھی ہيں جنہیں ان کی متعلقہ حکومتوں نے واپس لينے سے انکار کر ديا ہے۔

انٹرنيشنل ريڈکراس، انٹرنيشنل ميڈيا کی کئ ٹيميں اور ان قيديوں کی نمايندگی کرنے والے وکيل باقاعدگی سے گوانتاناموبے کا دورہ کرتے ہيں اور قيديوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ پيش کرتے ہيں۔ 2006 ميں يورپی پارليمنٹ کے ارکان پر مشتمل ايک گروپ نے بھی گوانتاناموبے کا دورہ کيا اور انھوں نے جو رپورٹ پيش کی اس کے مطابق " گوانتاناموبے ميں قيدیوں کو دی جانے والی سہوليات يورپ کی کئ جيلوں سے بہتر ہيں"۔

آخر ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کی جانب سے بنائے جانے والی کچھ تصاوير اور ايک فلم کا لنک آپ کو دے رہا ہوں جو کہ اگرچہ عربی ميں ہے ليکن اس ميں دکھائے جانے والے مناظر آپ کو گوانتاناموبے کے حوالے سے تصوير کا دوسرا رخ سمجھنے ميں مدد ديں گے۔

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=7FkXmm0aF5c[/ame]

my.php


my.php


my.php


my.php



فواد - ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم - يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

قیصرانی

لائبریرین
تفصیلات کا شکریہ، وڈیو جو آخر پر دی گئی ہے، وہ اب نہیں‌ رہی۔ براہ کرم دوسرا لنک دیجئے گا
 
فواد آپ نے کافی معلومات پیش کی ہیں مگر ایک تو بہت طویل ہیں دوسرا ان میں سے ایک ایک سرخی الگ الگ پوسٹ کی متقاضی ہے تاکہ ان پر علیحدہ علیحدہ بحث ہو سکے اور تبادلہ خیال ہو سکے مثلا

عراق پر تیل کی جنگ
امریکہ کا مشرق وسطی میں کردار
افغانستان ميں امريکہ کا کردار
گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غيرانسانی سلوک
امريکہ – دشمن اسلام (نيو ورلڈ آرڈر)
افغانستان اور عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومتيں

اس کے علاوہ ایک بہت ہی اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے تعلقات میں کس کو اہمیت دیتا ہے پاکستانی عوام کو یا پاکستانی حکمران کو یا افواج پاکستان کو یا کسی اور بااثر طبقہ کو۔ کچھ اس بارے بھی اظہار خیال ہو تو بہت سی الجھنیں دور ہو سکتی ہیں اور ہم امریکہ کے کردار کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں مگر ان سب پر ایک علیحہ علیحدہ دھاگہ ہونا چاہیے اور گفتگو تاریخی اور شماریاتی حوالہ جات سے ہونی چاہیے جو کہ آپ کوشش کرکے دے رہے ہیں مگر حقیقتا ابھی آپ کو سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو کسی خاص مسئلہ پر کرنا پڑتے ہیں جبکہ امریکہ عمومی رائے کے خلاف کام کرتا ہے۔

اسرائیل تنازعہ میں امریکہ کے کردار پر بھی ایک بھرپور دھاگہ ہونا چاہیے اور میں جاننا چاہوں گا کہ اس پر کلنٹن کے دور میں تو اچھی پیش رفت ہو رہی تھی مگر بش دور میں صورتحال ابتر ہی رہی ہے۔ کیا امید کی جائے کہ نئے صدر کے آنے سے حالات کچھ بہتر ہوں گے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محب اگر تم خود سے ان موضوعات پر دھاگے کھول دو تو سلسلہ آسانی سے چل نکلے گا۔ کیا خیال ہے؟
 
سب سے پہلے تو یہ فرض کرلیتے ہیں کہ سب اپ کی اپنی رائے ہے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‌ کا افیشل بیان نہیں ہے۔ وگرنہ مجھے تو اس بات کا ہی افسوس ہورہا ہے کہ اتنی بڑی سپر پاور ان بنیادوں پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دوسرے اپ کے مضمون کے رد کے لیے میں‌اتنے طویل جواب لکھنے سے قاصر ہوں‌اور صرف کچھ نکات پر تنقید کرنے کا ارادہ ہے۔ پھر یہ کہ مجھے امریکہ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں‌ہے اور امریکی عوام کے بے پناہ اچھے کاموں‌کی وجہ سے میں‌امریکی عوام کی عزت کرتاہوں یہی وجہ ہے کہ کئی امریکی میرے دوست بھی ہیں۔ لہذا میری تنقید کو امریکی حکومتی پالیسیوں‌پر تنقید ہی سمجھا جائے اور اپ مجھے گوانتاناموبےبھجوانے کی نہ سوچنے لگیں۔ ویسے اپ کی وڈیو دیکھ کر مہمان نوازی کا اندازہ ہوا۔ کاش صدر بش بھی یہاں‌کچھ عرصہ لطف اندوز ہوں‌بلکہ ان کے لیے ایک اور بہتر جگہ ابو غریب ہی لگتی ہے۔ بہرحال امید ہے کہ اپ (اسٹیٹ دیپارٹمنٹ)میری گستاخیوں‌سے درگزر کریں گے اور اس گفتگو سے لطف اندوز ہوں‌گے جو ہورہی ہے۔



امريکہ – عالمی دہشت گرد"۔ آپکے تھريڈ ِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔
محترم کیا اپ کراچی میں‌بھی رہ چکے ہیں۔ یہ تو وہی بات بیان کررہے ہیں‌جو الطاف بھائی اپنی ہر تقریر میں‌رینکتے ہیں۔ بات امریکی حکومتوں کی پالیسیوں‌کی ہورہی ہے جو دھشت گردی کو فروغ دے رہی ہے اپ پتہ نہیں کہاں کی جوڑ رہے ہیں۔ پھر امریکی سی ائی اے کے کچھ اعداد و شمار بھی پیش کریں‌جو وہ دوسرے ممالک کے سیاسی عمل کو اپنے حق میں‌ کرنے کے لیے رقوم فراہم کرتا ہے جن سے بہت سے سیاسی، فوجی اور سول سروس کے لوگ اور کالم نگار مستفید ہوتے ہیں۔


[B]عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش[/B]

يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ۔۔۔۔وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔

اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔

2006 ميں ہاورڈ ميگزين نے ايک تحقيقی کالم لکھا جس کی رو سے عراق جنگ پر امريکہ کے مالی اخراجات کا کل تخمينہ 2 ٹرلين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جائے تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔ ہاورڈ ميگزين کے اس آرٹيکل کا ويب لنک پيش کر رہا ہوں-

http://harvardmagazine.com/2006/05/the-2-trillion-war.html

ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔

امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔ ان اعدادوشمار کا گراف کچھ اس طرح ہے۔

my.php


جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔ يہی اعداد وشمار گراف کی شکل ميں پيش خدمت ہيں۔

my.php


اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔

my.php


يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔

ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔

اس سارے بیان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوج کی دھشت گردانہ کاروائیاں‌ صرف تیل کے حصول کے لیے نہیں‌بلکہ اس کے اور بھی بڑے مقاصد ہیں۔ ان اعدادو شمار کا تجزیہ کرنا فی الحال مقصود نہیں ۔ امریکی پالیسوں‌کہ سہہ جہتی مقاصد ہیں ۔ بلاشبہ امریکی سپر پاور کے طور پر جب بھی قدم اٹھائے اس کے دوررس اثرات مرتب ہونگےلہذا پالیسی میکرز ان باتوں‌کو مد نظر رکھتے ہیں۔ امریکہ ایک سپر پاور ہونے کے توانائی کا زیادہ ضرورت مند ہے لہذا اس کی پالیسوں‌ میں‌اپنے مفاد کا تحفظ مقدم ہے۔ پاکستانی میڈیا صرف اس نقطے پر ہی مرکوز رہتا ہے۔ اگرچہ امریکی فوج کی کاروائیاں‌ جو دھشت گردکی کو جنم دے رہی ہیں‌ اس سے بالاتر مقاصد رکھتی ہیں۔




[B]افغانستان اور عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومتيں[/B]

ايک اور عام تاثر جو آپ کو بے شمار اردو فورمز اور انٹر نيٹ سائٹس پر ملے گا وہ يہ ہے کہ عراق اور افغانستان کی حکومتيں امريکہ کی "کٹھ پتلی" ہيں۔ کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات ميں 8 ملين افغان ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آئے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟


کتنا معصومانہ انداز ہے۔ اپ افغانستان اور عراق سے اپنی فوجیں‌ بلالیں۔ وہاں‌دھشت گردانہ اقدامات بند کردیں‌پھر انتخابات جو ازادانہ ہوں‌ اس کی منتخب حکومت کہا جائے گا۔ غیرملکی افواج کی موجودگی میں جو بھی انتخابات ہو اور جو بھی حکومت بنے کیا اپ اسے ازاد کہیں‌گے۔ اگر چائنا امریکہ پراپنی فوج مسلط کردے (خدانہ خواستہ، صرف سمجھانے کے لیے ہے) اور وہاں‌ صدارتی انتخابات ہوں‌ اور جو بھی صدر ائے اسے اپ کٹھ پتلی کے علاوہ کیا کہیں‌گے؟


افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔ اس ٹيم کے ممبران کے مکمل تعارف کے ليے اقوام متحدہ کی ويب سائيٹ کا يہ لنک دے رہا ہوں۔

http://www.eueomafg.org/Coreteam.html

http://www.unv.org/en/news-resources/news/doc/un-volunteers-at-the.html
http://www.unv.org/en/what-we-do/countries/afghanistan/doc/un-volunteers-at-the.html

اسی طرح عراق ميں ہونے والے انتخابات اقوام متحدہ کے ادارے آئ – او – ايم کی زير نگرانی ہوئے۔ اس حوالے سے مزيد معلومات کے ليے يہ ويب سائٹ لنک دے رہا ہوں۔

http://www.iom-iraq.net/ocv.html


اگر اپ واقعی سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‌ تو اپ کی سمجھ میں‌اگیا ہوگا کہ ان سب اعداد شمار و نقشہ جات کا کوئی مطلب نہیں‌۔ہاں پروپیگنڈا کے لیے یہ مناسب ہوتے ہیں۔

اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟

اگر صدام غلط تھا اور اس کا انتخاب غلط تھا تو اپ اور اپ کے انتخابات اس سے بہت زیادہ غلط ہیں ۔ کیونکہ عمل تو دونوں کا ایک ہے بلکہ اپ کا بڑھ کر ہے۔
فی الحال صرف اتنا ہی۔ کیونکہ پیٹ‌کے کچھ اور دھندے بھی ہیں۔
ویسے ابو غریب جیل کی کچھ تصاویر بھی پوسٹ کردیجیے۔
 
محب اگر تم خود سے ان موضوعات پر دھاگے کھول دو تو سلسلہ آسانی سے چل نکلے گا۔ کیا خیال ہے؟

قیصرانی میں دھاگہ کھول تو دو مگر پھر اس میں میری رائے سے معاملہ شروع ہوگا جبکہ میں چاہتا ہوں کہ فواد صاحب اس پر امریکی نکتہ نظر بیان کریں اور ہم سوالات کرکے اسے سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ مجھے پورا یقین ہے کہ نئی حکومت جو امریکہ میں آئے گی اس کا موقف بش انتظامیہ سے مختلف ہوگا میں اس موقف کو سمجھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں اور دوسرا فواد صاحب سے ہی سمجھنا بھی چاہتا ہوں تاکہ وہ حکومتی اعداد و شمار پیش کریں ہمارے سامنے جو کہ امریکی میڈیا کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد ہوں گے۔

ویسے تمہارے خیال میں کس موضوع پر دھاگہ پہلے ہونا چاہیے کم از کم ایک دھاگہ تو شروع کیا جا سکتا ہے اگر فواد صاحب مصروف ہوئے کیونکہ انہیں اور بھی فورمز پر جانا ہوتا ہے اور معلومات ہمیں چاہیے تو انہیں بہت سے سوالات میں الجھانے کی بجائے ایک ایک کرکے موضوعات کا احاطہ کرنا چاہیے بشرطیکہ وہ خود زیادہ معلومات دینا چاہیں۔
 

اظہرالحق

محفلین
یا الہی تیرے "معصوم" بندے کدھر جائیں ۔ ۔ فواد نے امریکی نقطہ نظر بہت وضاحت سے پیش کیا ہے ، جبکہ ہمت علی کے جوابات مبہم ہیں ۔ ۔ مسلہ پھر وہیں آتا ہے کہ بنا جذبات کے اعداد وشمار کی مدد سے جواب دئیے جائیں تو اسے مانا جائے ۔ ۔ (ویسے آپس کی بات ہے ہماری پاکستانی حکومتیں اعداد و شمار کی سیاست میں بہت کایاں رہی ہیں )

کچھ سوالات ایسے بھی ہیں جنکا جواب فواد سے لینا چاہوں گا ، امریکی حکومتی نقطہ نظر سے (عوامی نقطہ شاید وہ بیان نہ کر سکیں ، کیونکہ امریکی عوام کو خارجہ پالیسیز سے زیادہ داخلہ پالیسیز پر نظر رکھنی ہوتی ہے )

1۔ امریکہ کو دوسرے ممالک میں ایٹمی ٹیکنالوجی سے کیا "پنچت" ہے ، اور یہ "پنچنت" صرف مسلمان ممالک سے کیوں ہے ؟ یعنی ایران پاکستان وغیرہ ، جبکہ ، برازیل ، اسرائیل اور جنوبی افریقہ سے آنکھیں کیوں بند ہیں ؟؟
2۔ گلف ممالک کے تیل کا اگر صرف آٹھ فی صد امریکہ کو جاتا ہے تو پھر ۔ ۔ خلیج گلف میں امریکہ اپنی اجارہ داری کیوں چاہ رہا ہے ، جبکہ ہوگو شاویز تک اسے تیل بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو اسپر اسکا کوئی اثر نہیں ہوتا ؟؟
3۔ مسلمان ممالک کو چھوڑیں اس وقت یورپ کے زیادہ تر ممالک امریکہ کی پالیسیوں کو فالو نہیں کر رہے ، افغانستان اور عراق کے علاوہ ایران والے مسلے پر بھی انکے اختلافات نمایاں ہیں ۔ ۔۔ کیوں ؟
4۔ اسرائیل کی پشت پناہی ہر امریکی حکومت کی مجبوری ہے ، کوئی مانے یا نہ مانے ، مگر فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ برابر کا مجرم ہے ، امریکہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اسرائیل کے برابر میں فلسطینی ریاست بنے ۔ ۔ ۔ اگر بن جائے تو اسرائیل کا مسلہ کیا رہ جائے گا ، وہ کس بنیاد پر امریکی مدد کا طالب ہو گا ؟ کیونکہ فلسطین کے علاوہ باقی سب ممالک جیسے لبنان ، اردن ، مصر ، سعودیہ وہ تو پہلے سے ہی امریکہ کی بنا اعلان کے امریکی ریاستیں ہیں ؟
5۔ اسلام امریکہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے ، یعنی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، مگر کوئی امریکی مسلمان بھی (جسکا نام مسلمانوں جیسا ہو) یورپ میں کیوں مشکوک ہے ؟ (یاد رہے میں نے کسی اسلام ملک کا نہیں کہا )

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ پچھلی دو صدیاں برطانیہ کی تھیں ، یہ صدی امریکہ کی ہے ، اور اگلی صدی چائنا کی ہو گی ۔ ۔ اور میں سوچنے بیٹھا ہوں کہ ۔ ۔ ہمارا نمبر کب آئے گا :confused:
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد صاحب
آپ کے دئیے گئے اعداد و شمار کافی متاثر کن ہیں۔ تاہم یہ سب امریکہ کے پیش کردہ ہیں ۔ کسی غیر جانب دار ادارے کے نہیں۔
تاہم میرے دو تین معصوم سے سوالات ہیں۔
کیا عراق میں WMDs کی عدم موجودگی میں امریکہ سمیت اتحادی افواج کا حملہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔
اگر امریکہ اتنا ہی غیر جانب دار اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے تو ایسا ہی ایک حملہ اسرائیل پر کیوں نہیں کر دیتا۔
کیا عراق پر حملے کو صرف غیر مصدقہ اطلاعات کا شاخسانہ قرار دے کر امریکہ کو معصوم قرار دینا درست ہے؟؟
آپ نے لکھا کہ عراق کے تیل پر قبضہ امریکہ کی ضرورت نہیں تو پھر امریکی افواج لاکھوں میل دور 2 ٹریلین ڈالر خرچ کر کے صرف عراقی عوام کو حقِ خود ارادیت دلانے کے لئے آئے ہیں؟
یا پھر وہ اسرا ئیل کا خوف دور کرنے کیلئے علاقے کی ایک فوجی طاقت کو ختم کرنے کے لئے آئے تھے۔
ایسا ہی نیک کام وہ کشمیری عوام کے لئے کیوں نہیں کرتے۔
عراق سے امریکہ کو کس قسم کا خطرہ لاحق تھا جبکہ اسامہ بن لادن بھی وہاں موجود نہیں تھے صدام حسین القاعدہ کو مالی امداد بھی نہیں دے رہے تھے
کویت پر حملے کے بعد عراق بہت سی sanctions کے زیرِ اثر تھا ۔ عراق کی ایٹمی صلاحیت وہ پہلے ہی ختم کر چکے تھے۔عراق کے پاس ایسا کیا تھا جس کو امریکہ نے Pre-Emptive -strike کا جواز بنایا۔
حال ہی میں ہر نیوز چینل نے یہ خبر نشر کی کہ عراق جنگ میں اب تک دس لاکھ انسانوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ یہ سب ہلاکتیں خودکش حملہ آوروں کی کاروائیوں میں تو نہیں ہوئیں۔
دس لاکھ انسانوں کی ہلاکت کے بعد اگر ہم صدر بُش اور ہلاکو خان کا تقابل کرنے لگیں تو یہ کس طرح سے خلافِ انصاف ہوا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟
آپ نے لکھا کہ افغانستان کو سویت روس کے رحم و کرم پر چھوڑنا خلافِ انصاف تھا۔
مگر سویت روس نے ایسی تباہی افغانستان میں نہیں پھیلائی تھی ۔کیا امریکہ کے تھنک ٹینکس اتنے بیوقوف ہیں کہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جہاد کے لئے مسلمان قومیت کی حد پار کر سکتے ہیں۔ اور امریکی انٹیلیجنس تو دنیا کی سب سے زیادہ نا اہل ایجنسی ہے جسے یہ علم نہیں ہوا کہ افغان جہاد میں عرب مجاہد شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دشمن کا دشمن ان کا دوست تھا دہشت گرد نہیں تھا۔
اسامہ نے تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے سانحے میں لگ بھگ چار پانچ ہزار امریکیوں کی جان لی
امریکہ اب تک پندرہ لاکھ مسلمانوں کی ہلاکت کا موجب بن چکا ہے
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایک امریکی کے خون کا بدلہ کتنے مسلمانوں کی جان لے کر لیا جا سکتا ہے۔
آپ کی امریکی ڈیٹا بیس تک رسائی سے ہم سب واقف ہو چکے ہیں
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اسلحہ سازی کی صنعت کا امریکی معیشت میں کتنے فیصد حصہ ہے۔
دہشت گردی کی جنگ میں کتنا امریکی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔
کیا امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بل کا کچھ حصہ اتحادیوں سے بھی وصول کر رہا ہے۔
کیا عراق اور افغانستان کی جنگ کا مقصد اتحادی ملکوں میں بننے والے اسلحے کا استعمال ہے؟؟؟ آخر بے چارے امن کے متوالے اس اسلحے کو کہاں خرچ کریں گے۔

آپ نے لکھا کہ افغانستان اور عراق کو امریکہ نے تباہ نہیں کیا بلکہ اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی ان دونوں ملکوں کی تعمیرِ نو کی جا رہی ہے۔ اب بے چارے امریکی کیا کریں تعمیرِ نو کے لئے پہلے بنے بنائے ملک کو گرانا بھی تو ضروری تھا۔
اور یقینآ اب وہاں ایسی بے مثال ترقی ہوگی جس کا تقابل دوسری جنگِِ عظیم کے بعد شروع کئے جانے والے
Marshall plan کے تحت کی جانے والی تعمیرِ نو سے کیا جاسکے گا۔ یعنی کچھ ہی سالوں میں 20-30 افغانستان اور عراق جاپان اور برطانیہ کے ہم پلہ ہو جائیں گے۔

آپ نے لکھا کہ امریکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں قیام ِ امن کے لئے کوشاں ہے
یقینآ امریکہ کا یہ کارنامہ سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہے
لیکن تاریخ اس پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے جو کچھ لکھ چکی ہے اُسے انسانی ضمیر فراموش نہیں کر سکے گا
امریکہ کسی مورخ کو اس بات کا جواز فراہم نہیں کر سکے گا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں کیوں آباد کیا۔ کیا ضروری تھا کہ امریکہ Balfour Declaration کے ذریعے وجود میں آنے والے صیہونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مشرقِ وسطیٰ کا امن خراب کرتا۔ یہودی آباد کاروں کو امریکی گرین کارڈ کیوں نہیں دئیے گئے اُنہیں امریکہ اور کینیڈا میں کیوں نہیں رکھا گیا۔
صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں ان کے بعد اسرائیل پر معاشی اور فوجی پابندیاں کیوں نہیں لگائی گئیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم پر کسی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔
سکیورٹی کونسل میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف پئش کی جانے والی قراردادوں کو کون ویٹو کرتا رہا ہے؟؟؟؟

آپ نے لکھا کہ ہم لوگ بہت جذباتی ہیں میرا خیال ہے امریکی ہم سے زیادہ جذباتی ہیں 2 ٹریلین ڈالر ایک بے مقصد جنگ پر خرچ کرنے والی قوم کو آپ کیا کہیں گے غیر جذباتی؟؟؟؟؟؟

آخر میں کیا آپ usaid کے پسِ پردہ کار فرما امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو سامنے لانا پسند کریں گے

اس دھاگے پر آنے والے ارکانِ محفل سے گذارش ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی رائے سے آگاہ کریں کہ

جب اس دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو امریکہ کو کیسے یاد کیا جائے گا

انسانی حقوق کے چیمپئین کے طور پر
ایک جنگی مجرم کے طور پر

neo- clonialism کے بانی کی حیثیت سے

والسلام
زرقا مفتی
 

اظہرالحق

محفلین
ویل ڈن ۔ ۔ زرقہ ۔ ۔۔ مزہ آ گیا ۔ ۔۔ مگر کیا کریں ۔ ۔۔ مجھے آج امریکی گرین کارڈ مل جائے ۔ ۔ تو میں تو ۔ ۔ امریکہ کے لئے ۔ ۔ اپنے سارے جذبے قربان کر سکتا ہوں ۔ ۔ بس یہ ہی ایک خامی ہے ۔۔ ہم مسلمانوں میں ورنہ ۔ ۔۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ ۔ ۔ ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

محترم،

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے میں اردو کے بہت سے قورمز اور بلاگز پر لوگوں کی آرا پڑھتا ہوں۔ اور ان تمام فورمز پر سينکڑوں کی تعداد ميں سوالات مجھ سے کيے جا رہے ہيں۔ اس ميں بے شمار موضوعات ہيں جو واقعی جواب طلب ہيں۔ ليکن ميرے ليے يہ ممکن نہيں کہ ميں ان تمام سوالات کے جوابات فوری طور پر دے سکوں ليکن ميں آپ کو يہ يقين دلاتا ہوں کہ ميں سب کی آرا پڑھتا ہوں اور سارے سوالات نوٹ کر ليتا ہوں۔ ميری کوشش ہوتی ہے کہ جواب کے ليے ان موضوعات کا انتخاب کروں جن پر بيک وقت بہت سے فورم پر سوال اٹھايا جا رہا ہےتاکہ ايک ہی جواب بہت سے فورمز پر پوسٹ کيا جا سکے۔

ايک بات اور، ميں کسی بھی موضوع پر محض اپنے جذبات کا اظہار نہيں کرتا بلکہ يو-ايس –اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور مختلف حکومتی اداروں سے متعلقہ موضوع کے حوالے سے صحيح اعدادوشمار اور حکومتی موقف حاصل کر کے اپنا جواب ديتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس ميں وقت لگتا ہے۔ مثال کے طور پر گوانتاناموبے کے حوالے سے بہت سوالات کیے جا رہے تھے لہذا ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے بذات خود وہاں کا دورہ کيا۔

بہت سے فورمز پر مجھ سے ماضی بعيد ميں پيش آنے والے واقعات کے بارے ميں سوال کيے جاتے ہيں جيسے کہ 1988 ميں ضياالحق کی ہلاکت ميں امريکی کا مبينہ کردار يا 1971 کی جنگ ميں امريکہ کا وعدے کے مطابق بحری بيڑہ نہ بيجھنے کا الزام ايسے سوالات ہيں جن کا جواب دينا ناممکن نہيں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ماضی کے وہ لوگ جو ان واقعات کے اہم کردار تھے اب موجود نہيں ہيں لہذا ان کے بيانات کے بغير جو بھی بات ہو گی وہ محض قياس پر مبنی ہو گی۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی ياد رہے کہ ہر امريکی حکومت کی پاليسی اپنے مخصوص دور کے حوالے سے اس دور کے زمينی حقائق کی مناسبت سے ترتيب دی جاتی ہے۔ ميرا ذاتی خیال يہ ہے کہ ہميں ماضی ميں جھانکنے کی بجائے ان موضوعات پر بات کرنی چاہيے جن کا تعلق موجودہ امريکی حکومت، اسکی پاليسيوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور مستقبل ميں اس کے اثرات سے ہے۔

کچھ ساتھيوں نے مجھ سے ان خدشات کا اظہار بھی کيا ہے کہ اگر وہ امريکہ کے خلاف کچھ بات کريں گے تو امريکی حکومتی ادارے ان کے خلاف کاروائ کريں گے۔ ان دوستوں کی خدمت ميں عرض ہے کہ وہ امريکہ کے کسی بھی نشرياتی ادارے کے ٹی وی چينل يا کوئ بھی اخبار اٹھا کے ديکھ ليں اس ميں آپ کو مسلمانوں سميت ہر مقطبہ فکر کے لوگ امريکی حکومت کی مختلف پاليسيوں کے خلاف يا اس کے حق ميں اظہار خيال بغير کسی خوف کے کرتے نظر آئيں گے۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے قيام کا مقصد ہی يہ ہے کہ امريکی پاليسيوں کے حوالے سے آپ کو امريکی حکومت کے موقف سے آگاہ کيا جا سکے۔

آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ ميرا مقصد کسی بھی موضوع پر آپ کو قائل کرنا نہيں ہے۔ ميرا نقطہ نظر صرف اتنا ہے کہ جب آپ کسی خبر يا موضوع پر اپنی رائے قائم کريں تو تحقيق اور اعدادوشمار کی روشنی ميں تصوير کے دونوں رخ سمجھنے کی کوشش کريں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد صاحب
آپ نے اپنی مجبوری ظاہر کی اور ماضی کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دینے سے معذوری ظاہر کی
میرے خیال میں آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ ان دو سوالوں کا جواب دیجئے
پاکستان میں Usaid کے پسِ پردہ خارجہ پالیسی کے مقاصد کیا ہیں؟؟
عراق میں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں؟؟
والسلام
زرقا
 
فواد صاحب اگر آپ زرقا مفتی کے چند سوالات کا جواب نہیں دے رہے تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان کے اٹھائے گئے سوالات کا شکریہ کرنے کی ہمت کر لوں کہ میں باوجود تمامتر مخالفت کے یہ سوالات نہ اٹھا سکا کیونکہ کچھ زمینی حقائق میرے پیش نظر رہے مگر جس نے سوال اٹھائے ہیں کم از کم ہم اسے داد تو دے سکتے ہیں۔

میرا خیال ہے آپ بھی چاہے جواب نہ دیں مگر سوال اٹھانے اور منطقی انداز میں اسے پیش کرنے کی حوصلہ افزائی تو کر ہی سکتے ہیں میری طرح۔ ایک آسان جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلی حکومتوں کی چند غلطیاں تھیں جو اب درست کی جا رہی ہیں جو کہ مبنی حقیقت بھی ہے مگر اس کا اعتراف بہت کٹھن ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

فواد صاحب اگر آپ زرقا مفتی کے چند سوالات کا جواب نہیں دے رہے تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان کے اٹھائے گئے سوالات کا شکریہ کرنے کی ہمت کر لوں کہ میں باوجود تمامتر مخالفت کے یہ سوالات نہ اٹھا سکا کیونکہ کچھ زمینی حقائق میرے پیش نظر رہے مگر جس نے سوال اٹھائے ہیں کم از کم ہم اسے داد تو دے سکتے ہیں۔

میرا خیال ہے آپ بھی چاہے جواب نہ دیں مگر سوال اٹھانے اور منطقی انداز میں اسے پیش کرنے کی حوصلہ افزائی تو کر ہی سکتے ہیں میری طرح۔ ایک آسان جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلی حکومتوں کی چند غلطیاں تھیں جو اب درست کی جا رہی ہیں جو کہ مبنی حقیقت بھی ہے مگر اس کا اعتراف بہت کٹھن ہے۔

محترم،

ميں نے کسی بھی سوال کا جواب دينے سے معذرت نہيں کی۔زرقا مفتی صاحب کے سوالات بھی نوٹ کر ليے گئے ہيں۔ ميری وضاحت کا مقصد صرف يہ باور کروانا تھا کہ سوالات کی اس بوچھاڑ ميں مجھے يہ فيصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سے موضوعات ہيں جن کا جواب کئ فورمز پر ايک ساتھ پوسٹ کيا جا سکے۔ آپ صرف اسی تھريڈ پر مجہ سے کيے ہوئے سوالات کی تعداد کا جائزہ ليں۔ اسی قسم کے بے شمار سوالات مجھ سے ديگر قورمز پر بھی کيے جا رہے ہيں۔ مگر ميرے ليے زيادہ ضروری چيز محض جذبات کا اظہار نہيں ہے بلکہ متعلقہ موضوعات پر امريکی حکومت کے موقف کے حوالے سے اصل معلومات حاصل کرنا ہے۔

مثال کے طور پر اسی فورم پر کسی دوست نے يہ سوال کيا تھا کہ امريکہ پاکستان ميں جمہوری قوتوں کے مقابلے ميں ايک آمر کی پشت پناہی کيوں کر رہا ہے؟ يہ سوال ايسا ہے کہ جو بہت سے فورمز پر کيا گيا ہے۔ آنے والے انتخابات کے حوالے سے اس سوال کو زيادہ اہميت دی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ميں امريکی موقف جلد ہی آپ کے قورم پر پوسٹ کروں گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
فواد،

ڈیجیٹل آّّٰوٹ ریچ ٹیم کا مقصد آپ نے بتایا کہ یہ ہے کہ اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے پیش کیا جائے اور ساتھ میں امریکی موقف کو بھی۔

تو یہ مقصد بہت نیک ہے کیونکہ میری نظر کے مطابق انصاف کا بہت پہلا تقاضا یہ ہے کہ فریقین کو اپنی صفائی کا مکمل موقع فراہم کیا جائے۔

پاکستان میں میڈیا کا رول کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ "امریکہ دشمنی" کو فیشن بنا لیا گیا ہے اور ہر وہ کالم و اداریہ "ہٹ" ہو جائے گا جس کی بنیاد امریکہ مخالفت پر ہے۔ اور اس فیشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ امریکہ پر انگلی اٹھانے [بلکہ مسلسل اٹھائے رکھنے] کی وجہ سے ہم اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں اور اپنی غلطیاں نہیں دیکھ پاتے۔

باقی امریکہ کی پالیسیز پر کچھ سوالات اوپر ہو چکے ہیں، اور کچھ مجھے بھی پوچھنا ہے۔ لیکن میرے سوالات بعد میں۔
 
اب تو ہندو بھی امریکہ کو پہچان رہے ہیں
[[ame="http://www.youtube.com/watch?v=2qEaRSHtH5I"]http://www.youtube.com/watch?v=2qEaRSHtH5I[/ame]]
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

گوانتاناموبے – کچھ مزيد حقائق

کچھ ہفتے پہلے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتاناموبے کا دورہ کيا تھا اور ہم نے اپنے مشاہدات مختلف فورمز پر پيش کيے تھے۔ ليکن اس حوالے سے سوالات کا ايک لامتناہی سلسلہ ہے جو صرف اردو فورمز تک محدود نہيں ہے بلکہ عربی اور فارسی فورمز پر بھی اس حوالے سے بے شمار سوالات کيے جاتے ہيں۔

ميں جانتا ہوں کہ گوانتاناموبے کے بارے ميں منفی تاثر بہت مضبوط ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے دورے سے پہلے خود ميرے ذہن ميں بھی بے شمار سوالات تھے۔ ليکن جو حقائق آپ اپنی آنکھوں سے ديکھ چکے ہوں انھيں نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ کسی بھی موضوع پر رائے قائم کرنے کے ليے ضروری ہے کہ آپ دونوں طرف کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کريں۔

کچھ دن پہلےآج ٹی وی پر ايک پروگرام ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں "گم شدہ افراد" کے عنوان سے گفتگو کی گئ۔ اس پروگرام ميں پچھلے چند سالوں ميں دہشت گردی کے الزام ميں مبينہ طور پر امريکہ کے ايما پر ايجنسيوں کے کردار پر گفتگو کی گئ۔ اس حوالے سے کئ بار گوانتاناموبے کا ذکر آيا اور يہ تاثر ديا گيا کا وہاں پر سينکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہيں۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے کے ليے "بليک ہول" کا لفظ بھی استعمال کيا گيا جس سے يہ باور کرانے کی کوشش کی گئ کہ گوانتاناموبے ميں قيد پاکستانيوں کے بارے ميں کسی کو کچھ معلوم نہيں کہ وہ کون ہيں، ان کے ساتھ کيا سلوک کيا جا رہا ہے اور ان کا مستقبل کيا ہو گا۔

آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ گوانتاناموبے ميں موجود قيديوں کی مکمل فہرست متعلقہ ممالک کی حکومتوں کو تمام تر کوائف کے ساتھ مہيا کی گئ ہے۔ يہی نہيں بلکہ بہت سی متعلقہ حکومتوں کے ترجمان گوانتاناموبے کا دورہ بھی کر چکے ہيں۔ يہ فہرست آپ بھی اس لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.dod.mil/pubs/foi/detainees/detaineesFOIArelease15May2006.pdf

اس ميں قيديوں کے نام، ان کی عمريں اور شہريت بھی موجود ہيں۔ يہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اس وقت گوانتاناموبے ميں قريب 280 قيدی باقی رہ گئے ہيں جن ميں پاکستانی قيدی دس سے بھی کم ہيں۔ مجموعی طور پر پاکستانی قيديوں کی تعداد 70 کے قريب تھی۔

گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غيرانسانی سلوک؟

انٹرنيٹ پر موجود چند سال پرانی تصاوير کا حوالہ بار بار ديا جاتا ہے۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتانومےبے پہنچ کر سب سے پہلا سوال اسی حوالے سے کيا تھا۔ ہميں وہ جگہ بھی دکھائ گئ جہاں پر يہ تصاوير لی گئ تھيں۔ آج سے چھ سال پہلے جب دہشت گردی کے الزام ميں ان قيديوں کو يہاں منتقل کيا گيا تھا اس وقت يہاں پر جيل کی عمارت،سيکيورٹی اور رہائش کے انتظامات ابتدائ مرحلے پر تھے۔ اس وقت يہ بھی واضح نہيں تھا کہ ان کی کتنی تعداد يہاں پر قيد رہے گی اور انکی گروہ بندی کيسے کی جائ گی۔ قيديوں کی ترسيل اور انھيں محتلف عمارات کے درميان منتقل کرنے کے مرحلے ميں ايک کھلے ميدان ميں جمع کيا جاتا تھا جس کے دوران وہ صورت حال سامنے آئ جو آپ نے ان تصاوير ميں ديکھی۔ ليکن يہ اقدامات صرف قيديوں کو منتقل کرنے کے دوران کيے جاتے تھے۔ يہاں پر يہ بھی واضح کر دوں کہ جو تصاوير انٹرنيٹ پر موجود ہيں وہ کسی صحافی نے نہيں لی تھيں بلکہ وہاں پر موجود فوجيوں نےخود لي تھيں تاکہ متعلقہ اہلکاروں کو وہاں پر عمارت کی توسيع اور سيکیورٹی کے دائرہ کار ميں اضافے کی ضرورت سے آگاہ کيا جا سکے۔ يہ صورت حال جنوری 2002 سے اپريل 2002 تک رہی جس کے دوران قيديوں کے منہ پر کپڑا چڑھا کر انھيں ايک ٹرالی ميں ڈال کر ايک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کيا جاتا رہا۔

گوانتاناموبے ميں سب سے پہلا قيدی کيمپ ايکس رے ميں 11 جنوری 2002 کو لايا گيا۔ اس وقت ايک ملٹری کيمرہ مين کو يہ ذمہ داری سونپی گئ کہ وہ قيديوں کی ترسيل کے مراحل کی دستاويز تيار کرے۔ اس کيمرہ مين نے جو تصاوير لی تھيں، انھيں پينٹا گون نے خود ريليز کيا تھا۔ ان تصاوير کو سب سے پہلے ميامی ہيرلڈ نے اپنی 11 جنوری 2002 کی اشاعت ميں شائع کيا تھا۔ يہ وہی تصاوير ہيں جو بعد ميں انٹرنيٹ پر ہم سب نے ديکھی تھيں۔ ميامی ہيرالڈ کی 11 جنوری 2002 کی اشاعت اور قيديوں کے پہلے گروپ کی گوانتاناموبے ميں آمد کے بارے ميں رپورٹ پيش ہے


http://www.miamiherald.com/924/gallery/374784.html?number=0

http://video.ap.org/v/Legacy.aspx?g=d947ebb5-097f-453a-8c8b-577b57f53ab6&fg=copy&f=flmih

http://www.miamiherald.com/guantanamoreports/story/279932.html


اپريل 2002 ميں اس سارے علاقے کے گرد ايک خاردار جنگلہ لگا کر سيکورٹی کا دائرہ کار بڑھا ديا گيا۔ يہی وجہ ہے کہ جن تصاوير کا ذکر کيا جاتا ہے وہ اپريل 2002 سے پہلے کی ہيں۔

اس ويب لنک پر آپ کيمپ ايکس – رے کی موجودہ صورت حال ديکھ سکتے ہيں۔ يہ وہی جگہ ہے جہاں پر يہ تصاوير لی گئ تھيں۔

http://www.jtfgtmo.southcom.mil/vvvintro.html


ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتاناموبے ميں 44 گھنٹے قيام کيا تھا۔ اس دوران ہماری ٹيم نے وہاں پر تصاوير بھی بنائيں اور ويڈيو فلم بھی بنائ اور وہاں پر تعنيات فوجی اہلکاروں سے بات چيت بھی کی اور ان تمام سہوليات کا ازخود مشاہدہ کيا جن کا ذکر ميں نے اپنی پوسٹ ميں کيا تھا۔ اس کے علاوہ عالمی ريڈکراس اور کئ نشرياتی اداروں کی ٹيميں وہاں کے سينکڑوں دورے کر چکی ہيں۔

آپ کی اطلاع کے ليے يہ بتا دوں کہ اس وقت امريکی سپريم کورٹ ( جو کہ امریکہ ميں قانون کا سب سے اعلی ادارہ ہے) سميت بہت سی عدالتوں ميں ايسے کئ کيس زير سماعت ہيں جن کی رو سے ان قيديوں کے قانونی حقوق کا تعين کيا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگلے چند ہفتوں ميں امريکی ملٹری ججز گوانتاناموبے کے قيديوں کے خلاف پيش کيے جانے والے مقدموں پر کاروائ کريں گے۔ ان قيديوں کی جانب سےوکيل بھی مقرر کيے جائيں گے۔ اور عدالت کی کاروائ ديکھنے کے ليے غير جانب دار افراد کی ايک ٹيم بھی موجود ہو گی۔

ايک بات اور، ہماری جتنے بھی اہلکاروں سے بات چيت ہوئ ان سب نے اسی خواہش کا اظہار کيا کہ جتنی جلدی ممکن ہو ان قيديوں کے مستقبل کا فيصلہ ہو جانا چاہيے تاکہ اس قيد خانے کو بند کيا جا سکے۔ اس حوالے سے بے شمار آئينی اور قانونی عوامل پر امريکی حکومتی ادارے سرگرم عمل ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

باسم

محفلین
کیا آپ کو قیدیوں سے سوالات کرنے کی بھی اجازت تھی اگر ہاں تو ان کی شکایات کیا تھیں؟
 
Top