طواف کرتا ہے اک پرندہ صنوبروں کا ۔ علامہ طالب جوہری

طواف کرتا ہے اک پرندہ صنوبروں کا
کہ تیز آندھی میں کیا بھروسہ ہے شہیروں کا

میں اپنی یاروں سے کوئی صورت تراش لوں گا
میں کس خوشی میں اٹھاؤں احسان پتھروں کا

دیار وحشت میں کوئی نقارہ بج رہا ہے
نواح دل سے قریب ہے کوچ لشکروں کا

زمین کے زخم دیکھتا ہوں تو سونچتا ہوں
گناہ یہ فوجیوں کا تھا یا سمندروں کا

وہ فتح مندی کا اک نشاں تھا کہاں گیا وہ
اسی علاقے میں ایک مینار تھا سروں کا

ہماری بستی کے غوطہ خوروں میں دم کہاں ہے
کہ موتیوں سے مزاج پوچھیں سمندروں کا
 
Top