طالبان کی قیدی

قسیم حیدر

محفلین
یو آنے رڈلے برطانیہ کی خاتون صحافی ہیں ۔ 11 ستمبر 2001 کو جب امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی بلڈنگیں ، طیاروں کے ٹکرانے سے زمین بو س ہو رہی تھیں ۔ تو عین اس وقت یو آنے رڈلے لندن میں سنڈے ایکسپریس کے نیوز روم میں بیٹھی اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہی تھیں ۔ ان کا خیال تھا ، اب انہیں نیو یارک جانے کی تیاری کرلینی چاہییے ۔ اس کے برعکس جب انہیں انتظامیہ کی جانب سے بالکل مخالف سمت اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت ملی تو انہیں حیرت ہوئی ۔ انہیں یقین ہوگیا کہ امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے کا تہیہ کر چکا ہے ۔
یو آنے رڈلے نے قلم اور کیمرہ لیا ۔برقع پہنا اور مقامی آپریٹروں کی مدد سے یہ راستہ طورخم جلا ل آباد پہنچنے کا پروگرام بنایا ۔ ابھی طورخم پہنچنے میں پندرہ بیس منٹ کا سفر باقی تھا ، کہ طالبان نے اسے پہچان لیا اورحراست میں لے لیا ۔طالبان کی قید میں ان کے شب وروز کیسے گزرے ؟ قید سے رہائی ملنے کے بعد یوآنے رڈلے نے اس بارے میں اپنے مشاہدات و تاثرات لکھے ہیں اور بتایا ہے کہ دشمن کی نمائندہ ہونے کے باوجود طالبان نے ان کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا اور کس طرح ان کے آرام و آسائش کا خیال رکھا ۔
یوآنے رڈلے نے کتاب In the hands of Talibaan لکھی ۔اس کا اردو ترجمہ : طالبان کی قید میں " کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے ۔
یوآنے رڈلے نے کتاب کے شروع میں جہاں اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے ، وہاں خاص طور پر طالبان کے امیر ملا عمر اوران کے نائب عبد اللہ منیر کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ہے ۔
یہ کتاب میری رہائی کے بغیر نہیں لکھی جاسکتی تھی۔ جس کے لیے میں طالبان کے روحانی لیڈر ملا عمر اورانکے ساتھی عبد اللہ منیر کی شکر گذار ہوں ، کہ انہوں نے جلال آباد میں قید کے دوران میر ی حفاظت کا بندوبست کیا ۔ یوآنے رڈلے کے ساتھ اس حسن سلوک کا موازنہ ابو غریب جیل کے طالبان اور قیدیوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم سے کیا جائے ۔ تو مغرب اور مشرق کا فرق ظاہر ہو جاتا ہے ۔
مصنفہ رہائی کے ڈھائی سال بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی ۔ اس کا اسلامی نام مریم ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ طالبان کی دکھائی ہوئی شمع کی روشنی نے مجھے ایک ایسی راہ دکھا دی جس سے میں پہلے ناواقف تھی ۔ مجھے پرانے ساتھیوں اور دوستوں نے چھوڑ دیا ہے ۔مگر میں تنہا نہیں رہ گئی ہوں ۔میں کروڑوں مسلمانوں کی برادری میں شامل ہوگئی ہوں ۔یہ بے حد خوبصورت تجربہ ہے اب مجھے رہ رہ کر افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے اسلام قبول کرنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی ؟
یہاں محترمہ مریم کے ایک انٹرویو سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں ۔
سوال : قید کے دوران طالبان کا سلوک کیسا رہا؟
جواب : بظاہر میں جاسوس ہی تھی ۔اور ان کا راز چوری کرنے کے لیے بھیس بدل کر انکے ملک میں گھسی تھی ۔اس کے جواب میں وہ مجھے اپنی بہن اور معزز کہتے رہے ۔ انہوں نے مجھے ائیر کنڈیشنڈ اور صاف ستھرا کمرا بھی دیے رکھا تھا ۔اس کمرے کی چابی میری قبضے میں تھی ۔ اس کا موازنہ بوغریب جیل اورجزیرہ گوانتانامو بے میں رکھے گئے بے گناہ قیدیوں سے کیجیے ۔امریکی ان سے انتہائی غیر انسانی سلوک کر رہے ہیں ۔ انہیں ایسے پنجروں میں رکھا جار ہا ہے جن میں وہ سیدھے کھڑےبھی نہیں ہو سکتے ۔
سوال : کیا آپ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پھیلائے گئے افسانوں اور اصل حقیقت میں فرق کر سکتی ہیں ؟
جواب : یہ تو بہت آسان ہے ۔ اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے ۔ جبکہ مسلمان اسے اپنی زندگی میں داخل نہیں کر سکے ۔ مغربی میڈیا نے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور انہیں اسلام سے بد ظن کرنے کے مہم چلا رکھی ہے ۔
سوال : آج مغرب نے" دہشت گردی " کی جو تعریف متعین کر رکھی ہے ۔کیا آپ اسے درست سمجھتی ہیں؟
جواب : اصل میں دہشت گرد وہ ہوتا ہے جو معصوم لوگوں کو بموں سے اڑاتا ہے ، یہی کچھ افغانستان ، عراق اور فلسطین میں ہو رہا ہے ۔ یہ ریاستی دہشت گردی کا بد ترین مظاہرہ ہے۔
سوال : اب آپ کا آئندہ کا کیا منصوبہ ہے ؟
جواب : میں سنجیدگی سے سیاست میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہوں ، کیونکہ حق اور سچائی کے مؤثر اظہار کے لیے ایک مؤثر سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے ۔میں ایسے پلیٹ فارم کے لیے ضرور کوشش کروں گی ۔ (ان شاء اللہ )
 
Top