ضیاءالحق مرحوم کی ایک تقریر

عثمان

محفلین
جی نہیں۔
اس کا سبب جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ اسلام نظامِ فطرت سے واقعی نزدیک تر ہے۔
انسانوں کی فطرت کا مشاہدہ کم از کم مجھے تو یہی بتاتا ہے کہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فطرتاً غلام پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے غلامی کا ٹھپا ہٹا بھی دیا جائے تو ان کی ذاتِ شریف کو کچھ ایسا فرق نہیں پڑتا۔ اسلام نے ایسے لوگوں سے حسنِ سلوک کی تو تعلیم دی ہے مگر انھیں آزاد کرنے کو لایعنی اور شاید نظامِ معاشرہ کے لیے کسی قدر نقصان دہ بھی خیال کیا ہے۔
دورِ حاضر میں غلامی کی صرف وہ صورت کسی حد تک ختم ہوئی ہے جو ازمنۂِ قدیم میں رائج تھی۔ غلامی ختم نہیں ہوئی۔ غلام ختم نہیں ہوئے۔ دنیا کے ہر شہر کی سڑکوں پر دن بھر دانے کی تلاش میں رینگتے ہوئے کیڑے اپنی آزادی کے بارے میں خوش فہمیاں تو رکھتے ہیں، آزادی نہیں رکھتے۔ اسلام کا جرم اگر ہے تو صرف یہ کہ اسلام نے انھیں خوش فہمیوں کا بھی شکار نہیں ہونے دیا۔ :)
ہماری رائے تو یہ ہے کہ Free Will آزاد فطرت ہی پیدا ہوتی ہے۔ انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کے لیے ایک کارآمد معاشرتی اور ریاستی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس کی پابندیوں اور اصولوں کو وہ باہمی مشاورت اور چناؤ سے طے کرتے ہیں۔ غلامی کے برعکس یہ پابندی نظام فرد کو کسی دوسرے فرد یا نظام کی ملکیت نہیں بناتی۔ ہاں جب افراد ہی کی کوتاہی سے نظام کرپٹ ہو جائے ایسے کہ افراد اپنے فیصلوں اور خواہشات میں بے بسی محسوس کرنے لگیں تو اس صورتحال کو غلامی کے متشابہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تو انسانی معاشرے کا منتہائے مقصود ہے کہ ارتقاء پاتے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں یہ آلائشیں بھی باقی نہ رہیں۔
آپ متفق ہیں کہ مذہب غلامی یا غلامانہ نظام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس سے بالاتر ایک آزاد معاشرے کا ایسا کوئی تصور یا ترغیب فراہم نہیں کرتا لہذا سیکولر جمہوری معاشروں اور ریاستوں کا مقدمہ یہاں واضح ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
انسانوں کی فطرت کا مشاہدہ کم از کم مجھے تو یہی بتاتا ہے کہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فطرتاً غلام پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے غلامی کا ٹھپا ہٹا بھی دیا جائے تو ان کی ذاتِ شریف کو کچھ ایسا فرق نہیں پڑتا۔

یہ پڑھ کر افسوس ہوا، کیونکہ "فطرتاً غلام" پیدا ہونے کی کوئی وجہ تو سمجھ میں نہیں آتی۔ بحیثیتِ مجموعی ہر انسان سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ تو مواقع فراہم کرنے کا ہوتا ہے۔ اگر ایک معاشرتی اور منظم طریقے سے کچھ لوگوں کی توہین اور تذلیل کی جاتی رہے گی، اور اُن کو وہ سہولیات نہیں ملیں گی جو معاشرے کے دیگر لوگوں کو مہیا ہیں تو یقیناً ہمیں پچھڑے ہوئے لوگ نظر آیئں گے۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمیں رنگ، نسل، ذات، علاقہ، وغیرہ کی بنیاد پر برتری یا کم تری کے نظریات کو ترک کر دینا چاہیے۔
 

زیک

مسافر
یہ پڑھ کر افسوس ہوا، کیونکہ "فطرتاً غلام" پیدا ہونے کی کوئی وجہ تو سمجھ میں نہیں آتی۔ بحیثیتِ مجموعی ہر انسان سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ تو مواقع فراہم کرنے کا ہوتا ہے۔ اگر ایک معاشرتی اور منظم طریقے سے کچھ لوگوں کی توہین اور تذلیل کی جاتی رہے گی، اور اُن کو وہ سہولیات نہیں ملیں گی جو معاشرے کے دیگر لوگوں کو مہیا ہیں تو یقیناً ہمیں پچھڑے ہوئے لوگ نظر آیئں گے۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمیں رنگ، نسل، ذات، علاقہ، وغیرہ کی بنیاد پر برتری یا کم تری کے نظریات کو ترک کر دینا چاہیے۔
کچھ لوگ فطرتاً غلام ہوتے ہیں اور کچھ لونڈیاں فطرتاً ریپ کے قابل۔ کیا یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لونڈیوں کا ریپ جائز ہے؟
 

کاشفی

محفلین
محب وطن پاکستانی اول درجے کے شہری محترم عزت مآب جناب پختون محمود خان اچکزئی کچھ فرما رہے ہیں۔۔
حب الوطنی کا راگ الاپنے والوں کے لیئے ان کے اپنے کچھ فرما رہے ہیں۔۔سنیں۔۔۔پلیز!
الطاف حسین اور مہاجروں کے خلاف بھوکنے والے اس کے خلاف کچھ نہیں فرمائیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ غیرت مند کے ضد والے لوگ بےحس اور تعصب پسند بھی ہیں۔۔۔یہ چار قوموں کے متعلق کچھ نہیں فرماتے۔۔
 

کاشفی

محفلین
جس لڑی میں شیئر کرنا تھا وہاں شیئر نہیں کررہا۔۔ کراچی والوں کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔
 
اچھا؟؟
میں نے تو سنا تھا کہ آدمی ایک خدا کی اطاعت کرنے سے ہر قسم کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔
آپ نے درست سنا تھا۔ سمجھا غلط۔
خدا کی اطاعت کرنے والا علائقِ دنیوی سے آزاد نہیں ہوتا بلکہ بےنیاز ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑی آزادی کیا ہو سکتی ہے؟
نیز کیا آپ ان تمام لوگوں کو جن کا میں نے ذکر کیا ہے خدا کے مطیع سمجھتے ہیں؟
بھولے اس کے قول و قسم پر، ہائے خیالِ خام کیا​
مذہب کے بارے میں اس حقیقت کا ادراک کم لوگ رکھتے ہیں کہ اس نے کبھی بھی مادی دنیا کو جنت بنانے کا وعدہ نہیں دیا۔ ہیگل جس جدلیات (dialectics) کو کائنات کے خمیر میں موجود تضاد دکھانے کے لیے کام میں لایا ہے، مذہب اس کا ادراک پہلے سے رکھتا ہے۔ کائنات کا خالق اپنی کائنات کی بنت سے واقف ہے اور خوب جانتا ہے کہ اس کی نیو میں استحکام اس نے رکھا ہی نہیں۔ اضداد کے پہیے کو جو چکر اس نے دے دیا ہے وہ تاقیامت خیر سے شر اور شر سے خیر پیدا کرتا رہے گا مگر کبھی کسی ایک کا استیلا نہیں ہونے دے گا۔
دنیا میں غلام بھی رہیں گے اور آقا بھی۔ رنگ بھی رہے گا اور بےرنگی بھی۔ خوشبو بھی اور تعفن بھی۔ غم بھی اور خوشی بھی۔ انسان کی غلط فہمی ہے کہ وہ انھیں پیدا یا فنا کر سکتا ہے۔ یہ نقیضین دراصل خود ایک دوسرے کے وجود کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک مثالی دنیا کا جو خواب انسان دیکھتا ہے جس میں خوشی غم کے کھٹکے سے یکسر آزاد ہو، اسے اصلاً مذہب ہی نے دکھایا ہے۔ مگر مذہب نے اس خواب کی تعبیر کی بابت اسے آگاہ کیا تھا کہ وہ دراصل ایک اور جہان میں ظاہر ہو گی۔ یہ محض انسان کی خودفریبی، عجلت اور جہالت کا شاخسانہ ہے کہ وہ اس جنت کو یہیں پر قائم کر لینا چاہتا ہے۔
وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا۔
آپ متفق ہیں کہ مذہب غلامی یا غلامانہ نظام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس سے بالاتر ایک آزاد معاشرے کا ایسا کوئی تصور یا ترغیب فراہم نہیں کرتا لہذا سیکولر جمہوری معاشروں اور ریاستوں کا مقدمہ یہاں واضح ہے۔
جی، میں بالکل متفق ہوں۔ وجہ میں نے اوپر عرض کر دی ہے۔
"فطرتاً غلام" پیدا ہونے کی کوئی وجہ تو سمجھ میں نہیں آتی۔ بحیثیتِ مجموعی ہر انسان سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قبلہ، میں پیشے کے لحاظ سے معلم ہوں۔ مجھے اپنے سے چھوٹوں اور بڑوں دونوں کو پڑھانے کا ایک عشرے پر محیط تجربہ ہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ تعلیم و تدریس کے معاملے میں میں اچھا خاصا behaviourist واقع ہوا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ مناسب تربیت کسی فرد کے طرزِ حیات پر غیرمعمولی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے۔
مگر کبھی آپ نے غور فرمایا کہ وہ کیا شے ہے جس پر ہم تربیت کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں؟ وہ جسے ہم مبہم سے انداز میں انسانی فطرت کہہ دیتے ہیں کیا واقعی اتنی بےرنگ ہے کہ اس پر ہر ملمع پھب سکتا ہے؟ کیا انسانی ذہن کی لوحِ سادہ (tabula rasa) پر سچ مچ ہر قلم چل سکتا ہے؟ اچھا، اگر یوں ہی ہے تو فرد کا ارادہ (free will) کیا شے ہے؟ اس کا وظیفہ کیا ہے؟ اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اب اگر ارادے کی بات کی جائے تو دراصل یہیں پر فرد کی غلامی یا آزادی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ارادے کی آزادی محض کسی مخصوص شے کی تمنا کرنے اور اس کی جستجو میں رواں ہونے کی اہلیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک جوہر ہے جو فرد کی پوری زندگی کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ ایک غلام آزادی کی تمنا کرتا ہے اور اسے حاصل کر لیتا ہے۔ دوسرا جستجو کرتا ہے اور منہ کی کھاتا ہے۔ ایک آزادہ اپنی آزادگی کی حفاظت پر مستعد ہوتا ہے اور دوسرا اسے غنیم کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ کیا یہ فقط حالات کا شاخسانہ ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں کے جوہر ہائے ذاتی میں کوئی فرق نہیں؟ کیا ہردو مثال میں ہردو اشخاص کو بچپن ہی سے ایک جیسے (controlled) حالات میں رکھا جائے اور ایک سی تربیت فراہم کی جائے تو آپ جیتے جاگتے انسانوں سے مشینوں کی طرح مماثل (identical) نتائج حاصل کر سکیں گے؟
ممکن ہے آپ نکتہ اٹھائیں کہ ایک جیسے حالات فراہم کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس سے اتفاق مگر نظامِ حیات کا یہی جبر تو غلامی اور آزادی کا فرق پیدا کرتا ہے۔
جو چاہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا​
اس معاملے پر زیادہ واضح طور پر ایک اور زاویے سے بھی نگاہ کی جا سکتی ہے۔ جسمانی طور پر مختلف استعدادوں اور معذوریوں کے شکار انسانوں کا پیدا ہونا کیا غیرفطری ہے؟ اگر نہیں، اور یقیناً نہیں، تو ذہنی استعدادیں، جو فرد کی زندگی کی غلامانہ یا آزادانہ نوعیت وغیرہ کا تعین کرتی ہیں، کیونکر غیرفطری ہو گئیں؟ جدید نفسیات تو خیر سے ذہن کو مغزِ سر ہی کا فعل خیال کرتی ہے جو جسم کا ایک ایسا ہی عضو ہے جیسے ہاتھ، پاؤں، ناک یا کان وغیرہ۔ ہاتھ پاؤں مختلف ہو سکتے ہیں تو بھلا ذہن کیوں نہیں؟
---
طالب بھائی، میں جب دہریہ ہوا کرتا تھا تو متدین حضرات کا خیال تھا میرے خمیر میں سرکشی ہے۔ میں کبھی سیدھی راہ پر نہیں آ سکتا۔ مگر مجھے ان کی بجائے سچائی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ یہ تو تقدیر کی ستم ظریفی ہے کہ اس دلچسپی نے پایانِ کار مجھے صفِ دشمناں ہی میں لا کھڑا کیا ہے۔ تاہم میرا منشور آج بھی وہی ہے۔
Plato is dear to me, but dearer still is truth.
Aristotle -​
مجھے آج کا انسانیت پسندانہ (humanistic) فلسفہ فی الحال تو محض ایک فریب معلوم ہوتا ہے۔ اگر وقت نے ثابت کیا اور میری عقل اس لائق ہوئی کہ اس کے دعاویٰ کی تصدیق کر سکے تو مجھے لارڈ رسل کے بقول پریوں کی کہانیوں میں جینے کا کوئی شوق نہیں۔
 
آپ نے درست سنا تھا۔ سمجھا غلط۔
خدا کی اطاعت کرنے والا علائقِ دنیوی سے آزاد نہیں ہوتا بلکہ بےنیاز ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑی آزادی کیا ہو سکتی ہے؟
نیز کیا آپ ان تمام لوگوں کو جن کا میں نے ذکر کیا ہے خدا کے مطیع سمجھتے ہیں؟
بھولے اس کے قول و قسم پر، ہائے خیالِ خام کیا​
مذہب کے بارے میں اس حقیقت کا ادراک کم لوگ رکھتے ہیں کہ اس نے کبھی بھی مادی دنیا کو جنت بنانے کا وعدہ نہیں دیا۔ ہیگل جس جدلیات (dialectics) کو کائنات کے خمیر میں موجود تضاد دکھانے کے لیے کام میں لایا ہے، مذہب اس کا ادراک پہلے سے رکھتا ہے۔ کائنات کا خالق اپنی کائنات کی بنت سے واقف ہے اور خوب جانتا ہے کہ اس کی نیو میں استحکام اس نے رکھا ہی نہیں۔ اضداد کے پہیے کو جو چکر اس نے دے دیا ہے وہ تاقیامت خیر سے شر اور شر سے خیر پیدا کرتا رہے گا مگر کبھی کسی ایک کا استیلا نہیں ہونے دے گا۔
دنیا میں غلام بھی رہیں گے اور آقا بھی۔ رنگ بھی رہے گا اور بےرنگی بھی۔ خوشبو بھی اور تعفن بھی۔ غم بھی اور خوشی بھی۔ انسان کی غلط فہمی ہے کہ وہ انھیں پیدا یا فنا کر سکتا ہے۔ یہ نقیضین دراصل خود ایک دوسرے کے وجود کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک مثالی دنیا کا جو خواب انسان دیکھتا ہے جس میں خوشی غم کے کھٹکے سے یکسر آزاد ہو، اسے اصلاً مذہب ہی نے دکھایا ہے۔ مگر مذہب نے اس خواب کی تعبیر کی بابت اسے آگاہ کیا تھا کہ وہ دراصل ایک اور جہان میں ظاہر ہو گی۔ یہ محض انسان کی خودفریبی، عجلت اور جہالت کا شاخسانہ ہے کہ وہ اس جنت کو یہیں پر قائم کر لینا چاہتا ہے۔
وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا۔
کیا اس جنت میں غلام اور آقا کی تفریق مٹ جائے گی؟؟
کیا اس کے سردار پہلے سے منتخب نہیں کیے جا چکے؟
 
کیا اس جنت میں غلام اور آقا کی تفریق مٹ جائے گی؟؟
کیا اس کے سردار پہلے سے منتخب نہیں کیے جا چکے؟
میرے علم کے مطابق قرآن نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ملا میری جان کے لاگو نہ ہو جائیں تو میں عرض کروں کہ ظہورِ حق پر کچھ مدت گزر جانے کے بعد ایسی باتیں ہر کوئی اپنی عادت اور ضرورت کے موافق پیدا کر لیتا ہے۔
 

ربیع م

محفلین
میرے علم کے مطابق قرآن نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ملا میری جان کے لاگو نہ ہو جائیں تو میں عرض کروں کہ ظہورِ حق پر کچھ مدت گزر جانے کے بعد ایسی باتیں ہر کوئی اپنی عادت اور ضرورت کے موافق پیدا کر لیتا ہے۔

بہت زبردست راحیل بھائی

احادیث میں جنت کیلئے نوجوانوں خواتین اور شہداء وغیرہ کے سرداروں کا تذکرہ ملتا ہے جس سے غلامی ہرگز مراد نہیں

اور وہ سیادت کیسی ہو گی؟ جس طرح جنت کی نعمتوں کے بارے میں کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا اسی طرح اس کا نقشہ کھینچنا بھی کسی انسان کیلئے ممکن نہیں!!
 
ایک ایک لفظ کو پکڑ کر بحث کو نئے نئے رخ دینے کا فن میں نے دیہاتی عورتوں میں بغور مشاہدہ کر رکھا ہے۔ اس لیے اس پھیر سے مجھے کافی تعارف ہے! :ROFLMAO::ROFLMAO:
اس کے بعد بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
زیک بھائی، میں شرمندہ ہوں کہ نامناسب الفاظ استعمال کر گیا۔ :doh::doh:
گو کہ ہمارے طرزِ فکر میں بعدِ قطبین ہے مگر میں جناب کی لیاقت اور تبحر کا پوری طرح قائل ہوں۔ محولہ بالا جملے اپنے تئیں میں نے ازراہِ مزاح کہے تھے۔ بارِ خاطر ہوئے تو میرا قصور ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔ :redheart::redheart::redheart:
میرا لہجہ تیز ہے۔ مجھ سے ایسی خطائیں اکثر ہو جاتی ہیں۔ :rolleyes::rolleyes::rolleyes:
بحث کا معاملہ آپ کی مرضی پر موقوف کرتا ہوں۔ چاہیں تو جاری رکھیں، چاہیں تو منقطع رہنے دیں۔ :):)
 
میرے علم کے مطابق قرآن نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ملا میری جان کے لاگو نہ ہو جائیں تو میں عرض کروں کہ ظہورِ حق پر کچھ مدت گزر جانے کے بعد ایسی باتیں ہر کوئی اپنی عادت اور ضرورت کے موافق پیدا کر لیتا ہے۔
ایسی باتوں کے جواب پیدا کر لیتا ہے؟؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

جہاں سے یہ ویڈیو لی وہاں نیچے یہ تحریر تھی۔

"بدقسمتی سے ہماری نئی نسل نے ضیاءالحق کو کبھی نہیں سنا اور آنکھیں بند کر کے تمام ان لبرل اور سیکولر لوگ جو جنرل ضیاء سے نفرت کرتے ہیں، لوگ ان تکفیریوں کی بات پر لبیک کرتے ہیں۔ دراصل وہ لوگ دشمن کے پیروکار، منافق اور دشمن کے ہاتھوں میں بکے ہوئے ہیں۔
اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد بتائیے کہ کیا آج کے دور کا کوئی لیڈر اس اعتماد، شعور اور منطقی انداز سے بات کر سکتا ہے؟"
اس وڈیو کو یہاں شیئر کرنے کا مقصد کیا ہے؟
تکفیری کون ہیں؟ کیا معاشرے کے تمام لبرل اور سیکولر لوگ یا کون؟
دشمن کون ہیں؟ کہاں ہیں؟ علاوہ ازیں یہ لوگ دشمن کے ہاتھوں کس طرح بکے ہوئے ہیں؟
یہ جملہ آپ کا ہے یا یہ بھی وڈیو کے ساتھ درج تحریر کا حصہ ہے؟

یہ سوالات وڈیو دیکھنے سے پہلے کے ہیں، وڈیو دیکھنے کے بعد ممکن ہے سوالات اس سے زائد ہو جائیں۔
 

یاز

محفلین
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، یہ لڑی واقعی اسم بامسمی قسم کی لڑی ہے کہ عمرانیات سے متعلق ہر ایک نظریے اور تقریباً ہر ایک موضوع کی (لفظی) لڑائی یہیں لڑی جا رہی ہے۔
:thinking2:
 

یاز

محفلین
بارہا گزارش کر چکا ہوں کہ انٹرنیٹ پر بحث (خصوصاً جواب در جواب پر مبنی بحث) لاحاصل ہے کہ اس سے نہ آج تک کسی کو قائل ہوتے دیکھا اور نہ کسی کا بھلا ہوتے دیکھا۔ ہاں دیکھا ہے تو آپس کے تعلقات میں دراڑیں پڑتے دیکھا ہے، فاصلوں کو بڑھتے دیکھا ہے، اپنوں کو بیگانے ہوتے دیکھا ہے۔
اس لئے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ کبھی بھی اپنے دلائل کو منطقی انجام تک پہنچانے کی سعی سے گریز کریں۔ بس اتنا کافی ہے کہ ایک دو مراسلے میں اپنا موقف بیان کر دیں ، اس مقصد سے کہ اس سے فقط دوسروں کی فکری خوراک کا اہتمام ہو جائے۔
 
آخری تدوین:
Top