صرف ملالہ ہی کیوں ؟ ِ کیا یہ پاکستان کی بیٹی نہیں ؟

قیصرانی

لائبریرین
جبکہ طالبان جہاد کر ہی نہیں رہے تو کوئی ان کے ساتھ مل کر جہاد کیوں کرے گا۔ بہتر ہو گا کہ حمایت ہی نہ کریں :)
تو پھر کاغذی ہمدردی میں کیوں یہ لوگ باؤلے ہوئے پھرتے ہیں؟

میں تو یہ مانتا ہوں کہ ملالہ کو گولی جس نے بھی ماری چاہے وہ امریکہ ہے یا طالبان، قابل ملامت ہیں۔ طالبان کے ترجمان نے جس طرح پھرتی سے ذمہ داری "چُکی" اور پھر اس کی وضاحت میں کتابچہ پیش کیا، وہ کافی معلوماتی فعل ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
رسی کے سہارے کے بعد بھی جانا تو چھ فٹ نیچے ہی ہے۔
بجا ارشاد۔ ویسے بھی اگر انجام "بخیر" ہے تو سب ٹھیک ہے :) ویسے میں اورنگزیب عالمگیر کے "فرمان" میں تصرف کرتے ہوئے کہوں گا کہ اگر ممکن ہو تو چھ فٹ سے بھی زیادہ گہری قبر بنانی چاہیئے
 
تو پھر کاغذی ہمدردی میں کیوں یہ لوگ باؤلے ہوئے پھرتے ہیں؟

میں تو یہ مانتا ہوں کہ ملالہ کو گولی جس نے بھی ماری چاہے وہ امریکہ ہے یا طالبان، قابل ملامت ہیں۔ طالبان کے ترجمان نے جس طرح پھرتی سے ذمہ داری "چُکی" اور پھر اس کی وضاحت میں کتابچہ پیش کیا، وہ کافی معلوماتی فعل ہے
جناب اب تو یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستانی طالبان یا افغانی طالبان تو درکنار، طالبان نام کا کوئی گروہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا۔۔۔یعنی بزبانِ پنجابی۔۔۔کھوتا ای کُھوہ وچ :D
اب نہ میں ہوں نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنّا کے سرابوں میں ملیں۔۔۔:)
 

ساجد

محفلین
جناب اب تو یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستانی طالبان یا افغانی طالبان تو درکنار، طالبان نام کا کوئی گروہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا۔۔۔ یعنی بزبانِ پنجابی۔۔۔ کھوتا ای کُھوہ وچ :D
اب نہ میں ہوں نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنّا کے سرابوں میں ملیں۔۔۔ :)
یہ کہاں کہا جا رہا ہے کہ طالبان کا وجود ہی نہیں ؟۔ انہی کے دم قدم سے تو وار آن ٹیرر چل رہی ہے ۔
 

ساجد

محفلین
اس لئے کہ ہم منافق ہیں۔ منہ پر کچھ ہوتا ہے اور اعمال کچھ اور!
متفق کہ منافقت کی بیماری ہے ہمارے اندر۔ اگر سبھی منافق ہیں تو پھر ہم سب کو منہ بند رکھنے چاہئیں کیونکہ سب منافق بھائی ہیں اور بھائی بھائی کا پردہ رکھتا ہے۔:)
اگر سب منافق نہیں ہیں تو ان عوارض کی طرف دھیان دینا چاہئیے جو ہمیں تقسیم در تقسیم کے عمل سے دو چار کئے جا رہے ہیں۔ یعنی تقسیم کے نتائج ضرب کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں ، جو ہمیں طالبان کی طرف سے بھی لگ رہی ہے اور غیر ملکی جارحین کی طرف سے بھی ۔:D
سرسری نتائج اخذ کر کے تو ہم کبھی بھی طالبان اور طالبانی نظریہ ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی غیر ملکی جارحیت روک سکتے ہیں۔ مجھے آپ دوستوں کے ناراض چہرے اچھے نہیں لگیں گے اس لئے بہت ہلکے انداز میں لکھے دیتا ہوں کہ صرف پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کا حل تجویز کریں۔ گروہی و مسلکی مفادات کو پیچھے پھینک دیں۔ جنہوں نے اس طالبانی گروپ کو بنایا ان کی وزیر خارجہ خود اعتراف کرتی ہے کہ We funded them. اور ان کے اعلی سطحی اجلاسوں میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سخت گیر وہابی اسلام کے ورژن کو پروموٹ کیا جائے۔ اب دیکھئے تصویر کا دوسرا رخ چند ماہ قبل اسی امریکہ نے ایک اور تنظیم کو امن کے لئے جلسے کرنے کے نام پہ ڈالروں سے نوازا ۔ پہلے تو اس تنظیم نے انکار کیا ۔ پھر تحقیق کا وعدہ کیا اور جب معاملہ کھل گیا تو اپنے 6 لوگوں کو عہدوں سے فارغ کر دیا۔ یہ تنظیم کم از کم وہابی ازم کی قائل نہیں ہے لیکن سنی ہے۔ اب ایک اور جھلک امریکی فنڈ سے اب پاکستان میں صوفی ازم کا بہت پرچار کیا جا رہا ہے۔ یعنی وہ صوفی ازم جو دنیا داری اور مادیت کی ضد ہے اسے ڈالروں کے ذریعے مشتہر کیا جا رہا ہے۔ ارے بھئی جو صوفی ہے یا ان کے جیسی زندگی گزارنا چاہتا ہے وہ کیوں کر ڈالروں کے ذریعے صوفی بنے گا جو اس نظرئے کے بالکل متصادم ہے۔ لیکن پیش نظر ہے ایک اور طبقے کو تقویت دینا جو اس تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید تیز کر دے اور پھر یہ مراعات یافتہ طبقے ایک دوسرے سے باہم بھڑیں باقی کا کام مزید ڈالر خرچ کر کے آسان ہو جائے گا۔ جب ان کے ڈالر بند کرنے کی دھمکی دی جائے گی تو یہ ان کے حصول کے لئے اپنے ہی وطن اور ہم وطنوں کے خلاف سب کچھ کر گزریں گے۔ اب یہ ڈالروں ، ریالوں اور دیناروں کا چکر ہمیں ایسے مخمصے میں ڈال چکا ہے کہ حقائق ہی ٹھیک طریقے سے نظر نہیں آتے اور ہمیں مذہب کے نام پر جو نشہ اب مل رہا ہے یہ مسلکی منافرت ہے۔ مذہب یہ نہیں کہتا کہ کسی کو قتل کرو تو تمہیں جنت ملے گی۔ طالبان بھی یہی کام کر رہے ہیں اور جب اس ٹریڈ مارک کی ان کے مالکوں کو ضرورت نہیں رہے گی تو یہ شدت پسندی کسی نئے نام سے اور نئے گروہ کے ہاتھوں پھر سے متعارف کروائی جا سکتی ہے ۔
مین سمجھ سکتا ہوں کہ شمالی وزیرستان کے حوالے سے میرے مؤقف کو میرے کچھ دوست طالبان کی حمایت سمجھ رہے ہیں۔ مجھے بہت کچھ جاننے کا دعوی نہیں ہے اور نہ ہی میں ملکی مفاد پر کسی مسلک کو ترجیح دے کر یہ بات لکھتا ہوں لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وسیع پیمانے پر طاقت کا استعمال مسئلے کو بہت خراب کر دے گا۔ طالبان اب ایک گروہ کی صورت میں نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ امریکہ کے طرفدار ہیں اور انہی سے امریکہ مذاکرات کر رہا ہے جو اس کی بات نہیں مانتے وہ یا تو اپنی قیمت بڑھانا چاہ رہے ہیں یا پھر امریکہ کے جانے کے بعد اپنی عددی قوت کے بل پر افغانستان میں اقتدار پر قابض ہونے کے متمنی ہیں۔ پاکستان کی طالبان اور امریکہ کے اس قضئے میں ٹانگ پھنسانے کی پالیسی پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دے گی جس سے نکلنا آسان نہ ہو گا۔ قبائلی علاقہ نیم خود مختار حیثیت کا حامل ہے اور یہ لوگ اپنی حفاظت کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ آپ وہاں کے عمائدین کی مرضی کے خلاف وہاں فوج کشی نہیں کر سکتے اور اگر ہم نے امریکہ کے دباؤ پر یہ کام کر لیا تو اس کا نتیجہ پاکستان سے ناراضی کی صورت میں نکلے گا اور امریکہ ہی کی پارلیمنٹ میں کل کو بلوچستان کی طرح قبائلی علاقوں کے بارے میں کوئی تحریک پیش کی جا سکتی ہے اور یہ ترپ کا ایسا پتہ ہو گا جس کے جواب میں پاکستان کچھ نہیں کر سکے گا۔ امریکہ ہیرو بنے گا اور پاکستان کو بنگلہ دیش کی طرح ایک اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یا د رہے کہ یہ علاقہ قانونی طور پر نیم خود مختار ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کا الحاق ہے جبکہ بنگلہ دیش پاکستان کا جزو تھا ، اسے پاکستان سے الگ کرنا بنگلہ دیش کی نسبت بہت آسان ہو گا۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسی نیٹ پر 2015 تک پاکستان کے علاقے بکھرے کرنے کے نقشے کیا کہتے ہیں۔
طالبان کا پاکستان میں زور اب کم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کی وجوہات حربی سے زیادہ سیاسی ہیں۔ کیوں کہ اب امریکہ واپسی کا رخت باندھ رہا ہے اور ان کو اب وہ صرف خیبر پختونخواہ ، ان سے ملحقہ علاقوں یا قبائلی علاقے میں زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ جیسے جیسے اس کی واپسی کے دن قریب آئیں گے یہ مزید کمزور ہوں گے اور یہی وقت ہے کہ پاکستانی حکومت سیاسی بصیرت سے کام لے کر ان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرے۔ ان کی فنڈنگ بند کروائے اور مدارس کی نگرانی کرے۔ ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دے ۔ یہ مسئلہ وقت طلب ہے اور سیاسی طریقے سے حل ہو گا ۔ جنگ اور تصادم اس کا حل نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو امریکہ اور نیٹو کی نصف صد ترقی یافتہ افواج اب تک افغانستان میں فتح یاب ہو چکی ہوتیں۔ ہمیں بھی جذبات کی بجائے حقائق کی بنیاد پر اس مسئلے کا جائزہ لینا چاہئیے۔
 
Top