صرف سچ بیتیاں

باباجی

محفلین
آج اپنی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں ایسا حادثہ جس میں ایک اچھے دوست سے محروم ہونا پڑا ، وہیں ایک سبق بھی
ملا ، میں اکثر اپنے ملنے والے لوگوں خاص طور سے جوانوں کو ضرور کہتا ہوں۔

یہ واقعہ اور حادثہ سنہ2000 میں پیش آیا
میں اور میرے دوست غلام رسول نے ایک میلہ دیکھنے کے لیئے دوسرے شہر جانے کا پروگرام بنایا
میں ان دنوں چھٹیاں منانے کے لیئے اپنے ماموں اور نانی کے پاس دیپالپور شہر گیا ہوا تھا ۔ تو ایک دن غلام رسول میرے پاس اور کہا کہ میلہ دیکھنے
چلنا ہے تو میں نے فوراً حامی بھر لی اور ہم دونوں چل دیئے۔ جس بس میں ہمیں جانا تھا وہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی تو ہم دونوں بس کی چھت پر
چڑھ گئے اور جگہ بنا کر بیٹھ گئے۔ جو کہ آج میں سوچتا ہوں کی کتنی غلط اور خطرناک جگہ تھی ۔ تو جناب بس اپنی منزل کی طرف چل پڑی میں اور
میرا دوست بس کے ٹول بکس پر بیٹھے تھے جو کہ اس کی چھت پر تھا اور ہماری پیٹھ بس کے مخالف رخ تھی یعنی جس طرف کو بس جا رہی تھی اس طرف ہماری کمر تھی۔ اور گاؤں دیہات کے رہنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں کی سڑکیں کتنی پتلی ہوتی ہیں اور سڑک پر درخت بھی
اپنا سایہ کیئے ہوتے ہیں جو کے بس کی چھت پر سفر کرنے والوں کے لیئے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہم دونوں اسی طرح بیٹھے گپ شپ کررہے تھے
ہمارے ساتھ ایک اور لڑکا بھی بیٹھا ہوا تھا اور ترتیب یوں تھی کہ میں دایئں ہاتھ والی سائیڈ پر تھا بیچ میں میرا دوست اور انتہائی بایئں جانب وہ لڑکا تھا
کچھ دیر بعد میرے دوست نے مجھے کہا کہ فراز بھائی آپ بیچ میں آجاؤ میں پان کھا رہا ہوں تو مجھے پیک تھوکنی ہے ۔ تو میں بیچ میں آگیا ۔ اور کچھ دیر
بعد ہی وہ المناک حادثہ پیش آگیا جس نے مجھ سے میرا دوست ایک ماں سے اس کا جوان بیٹا چھین لیا۔
ہمارے پوزیشن تبدیل کرنے بعد ہم خوش گپیاں کرتے جا رہے تھے کہ اچانک پتا نہیں کیا ہوا میرا دوست چشم زدن میں منہ کے بل گر کیا جیسے
پیچھے سے کسی نے بہت زور کا دھکا دیا ہو ، ایک دفعہ تو ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا پھر اچانک اس کے منہ ناک اور کان سے خون آنے لگ گیا
تو لوگوں نے شور مچایا ۔ بس رکوائی اور اسے نیچے اتارا، ہوا یہ کہ بس کی رفتار کافی تیز تھی اور ڈرایئور نے اوور ٹیک کرتے ہوئے بس کو سڑک سے
اتارا تو ایک درخت کا تنا بہت زور سے میرے دوست کی گردن کے پچھلے حصے میں لگا ۔
خیر جناب بس سے اتارا اس بیچارے کو ، اس زمانے میں موبائل صرف بڑے شہروں میں ہوتے تھے ، تو میرے ساتھ کچھ لوگ آتی جاتی گاڑی
والوں کی منت سماجت کرتے رہے ، اور مجھے آج بھی اس چیز کا بہت دکھ ہے کہ ہر گاڑی والے نے یہ جواب دیا کہ اس کا خون بہہ رہا ہے تو
گاڑی کی سیٹ خراب ہوجائے گی اور سب سے زیادہ دکھ تب ہوا جب ہم نے ایک وین والے کو روکا تو اس کچھ حضرات تھے جو حج کرنے جا رہو
تھے ۔ انہوں نے جب دیکھا تو شور مچادیا کہ ہمارے کپڑے ناپاک ہوجائیں گے حالانکہ اس گاڑی کا ڈرائیور ہمارا حامی تھا ۔ بہرحال میرے ساتھ
کچھ لڑکوں نے مل کر زبردستی اس وین میں جگہ بنا کر غلام رسول کو لٹایا اور مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا افسوس نہیں کہ ہم نے ان میں سے کچھ ہونے
والے حاجی حضرات کو کافی مارا بھی تھا۔ خیر جناب سرکاری ہسپتال گئے وہاں کی الگ کتھا ہے ، آپ لوگوں کو اچھی طرح پتا ہے ہمارے ہر طرح کے
سرکاری محکموں کا حال کیا ہے۔
خیر اُسے لاہور جنرل ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ چند روز موت و زیست کی کشمکش میں رہ کر وفات پا گیا۔(اللہ اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے اور والدین
کو صبر عطا فرمائے)۔
اس حادثہ نے بہت سے سبق دیے مجھے کہ، جس کی آئی تھی اسے اس کی جگہ لایا گیا کیونکہ اس سے پہلے میں اس جگہ بیٹھا تھا اور پھر اس کے بعد
یہ سبق ملا کہ لوگ کسی مذہبی فریضے کو بعض اوقات انسانی جان پر ترجیح دیتے ہیں اور گاڑی والے حضرات کا حال تو آپ کو پتا چل گیا ہوگا
لیکن سب سے اہم سبق یہ کہ سفر کرتے ہوئے بہت احتیاط کریں خاص طور اگر آپ بس کی چھت پر بیٹھتے ہیں تو ۔
اور اس کا اثر یہ ہوا کہ میں بھی آج کسی کو لفٹ نہیں دیتا بیشک یہ بری بات ہے کافی دفعہ کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا وہ حادثہ آج بھی
میری آنکھوں میں تازہ ہے ۔
 

باباجی

محفلین
بھئی ہم تو ہمت نہیں یہاں پر کوئی سچ بیتی شئیر کرنیکی۔پہلی سچ بیتیوں کا حال تو آپکے سامنے ہے
ہمتِ مرداں مدد خدا
یار یہ سب رکاوٹیں یا تنقید ہمارے ضبط کا امتحاں ہیں ، تو پاس ہوجاؤ نہ یار ۔
پی پیالہ صبر دا ، نہیں ساتھی کوئی قبر دا :)
ضبط پہ جناب "قتیل شفائی" صاحب کا ایک بہت خوبصورت شعر یاد آگیا

وہ حیراں ہیں ہمارے ضبط پہ، کہہ دو قتیل اُن سے
جو دامن میں نہیں گرتا، وہ آنسو دل پہ گرتا ہے
 
آج اپنی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں ایسا حادثہ جس میں ایک اچھے دوست سے محروم ہونا پڑا ، وہیں ایک سبق بھی
ملا ، میں اکثر اپنے ملنے والے لوگوں خاص طور سے جوانوں کو ضرور کہتا ہوں۔

یہ واقعہ اور حادثہ سنہ2000 میں پیش آیا
میں اور میرے دوست غلام رسول نے ایک میلہ دیکھنے کے لیئے دوسرے شہر جانے کا پروگرام بنایا
میں ان دنوں چھٹیاں منانے کے لیئے اپنے ماموں اور نانی کے پاس دیپالپور شہر گیا ہوا تھا ۔ تو ایک دن غلام رسول میرے پاس اور کہا کہ میلہ دیکھنے
چلنا ہے تو میں نے فوراً حامی بھر لی اور ہم دونوں چل دیئے۔ جس بس میں ہمیں جانا تھا وہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی تو ہم دونوں بس کی چھت پر
چڑھ گئے اور جگہ بنا کر بیٹھ گئے۔ جو کہ آج میں سوچتا ہوں کی کتنی غلط اور خطرناک جگہ تھی ۔ تو جناب بس اپنی منزل کی طرف چل پڑی میں اور
میرا دوست بس کے ٹول بکس پر بیٹھے تھے جو کہ اس کی چھت پر تھا اور ہماری پیٹھ بس کے مخالف رخ تھی یعنی جس طرف کو بس جا رہی تھی اس طرف ہماری کمر تھی۔ اور گاؤں دیہات کے رہنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں کی سڑکیں کتنی پتلی ہوتی ہیں اور سڑک پر درخت بھی
اپنا سایہ کیئے ہوتے ہیں جو کے بس کی چھت پر سفر کرنے والوں کے لیئے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہم دونوں اسی طرح بیٹھے گپ شپ کررہے تھے
ہمارے ساتھ ایک اور لڑکا بھی بیٹھا ہوا تھا اور ترتیب یوں تھی کہ میں دایئں ہاتھ والی سائیڈ پر تھا بیچ میں میرا دوست اور انتہائی بایئں جانب وہ لڑکا تھا
کچھ دیر بعد میرے دوست نے مجھے کہا کہ فراز بھائی آپ بیچ میں آجاؤ میں پان کھا رہا ہوں تو مجھے پیک تھوکنی ہے ۔ تو میں بیچ میں آگیا ۔ اور کچھ دیر
بعد ہی وہ المناک حادثہ پیش آگیا جس نے مجھ سے میرا دوست ایک ماں سے اس کا جوان بیٹا چھین لیا۔
ہمارے پوزیشن تبدیل کرنے بعد ہم خوش گپیاں کرتے جا رہے تھے کہ اچانک پتا نہیں کیا ہوا میرا دوست چشم زدن میں منہ کے بل گر کیا جیسے
پیچھے سے کسی نے بہت زور کا دھکا دیا ہو ، ایک دفعہ تو ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا پھر اچانک اس کے منہ ناک اور کان سے خون آنے لگ گیا
تو لوگوں نے شور مچایا ۔ بس رکوائی اور اسے نیچے اتارا، ہوا یہ کہ بس کی رفتار کافی تیز تھی اور ڈرایئور نے اوور ٹیک کرتے ہوئے بس کو سڑک سے
اتارا تو ایک درخت کا تنا بہت زور سے میرے دوست کی گردن کے پچھلے حصے میں لگا ۔
خیر جناب بس سے اتارا اس بیچارے کو ، اس زمانے میں موبائل صرف بڑے شہروں میں ہوتے تھے ، تو میرے ساتھ کچھ لوگ آتی جاتی گاڑی
والوں کی منت سماجت کرتے رہے ، اور مجھے آج بھی اس چیز کا بہت دکھ ہے کہ ہر گاڑی والے نے یہ جواب دیا کہ اس کا خون بہہ رہا ہے تو
گاڑی کی سیٹ خراب ہوجائے گی اور سب سے زیادہ دکھ تب ہوا جب ہم نے ایک وین والے کو روکا تو اس کچھ حضرات تھے جو حج کرنے جا رہو
تھے ۔ انہوں نے جب دیکھا تو شور مچادیا کہ ہمارے کپڑے ناپاک ہوجائیں گے حالانکہ اس گاڑی کا ڈرائیور ہمارا حامی تھا ۔ بہرحال میرے ساتھ
کچھ لڑکوں نے مل کر زبردستی اس وین میں جگہ بنا کر غلام رسول کو لٹایا اور مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا افسوس نہیں کہ ہم نے ان میں سے کچھ ہونے
والے حاجی حضرات کو کافی مارا بھی تھا۔ خیر جناب سرکاری ہسپتال گئے وہاں کی الگ کتھا ہے ، آپ لوگوں کو اچھی طرح پتا ہے ہمارے ہر طرح کے
سرکاری محکموں کا حال کیا ہے۔
خیر اُسے لاہور جنرل ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ چند روز موت و زیست کی کشمکش میں رہ کر وفات پا گیا۔(اللہ اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے اور والدین
کو صبر عطا فرمائے)۔
اس حادثہ نے بہت سے سبق دیے مجھے کہ، جس کی آئی تھی اسے اس کی جگہ لایا گیا کیونکہ اس سے پہلے میں اس جگہ بیٹھا تھا اور پھر اس کے بعد
یہ سبق ملا کہ لوگ کسی مذہبی فریضے کو بعض اوقات انسانی جان پر ترجیح دیتے ہیں اور گاڑی والے حضرات کا حال تو آپ کو پتا چل گیا ہوگا
لیکن سب سے اہم سبق یہ کہ سفر کرتے ہوئے بہت احتیاط کریں خاص طور اگر آپ بس کی چھت پر بیٹھتے ہیں تو ۔
اور اس کا اثر یہ ہوا کہ میں بھی آج کسی کو لفٹ نہیں دیتا بیشک یہ بری بات ہے کافی دفعہ کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا وہ حادثہ آج بھی
میری آنکھوں میں تازہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آپ کا بتایا ہوا واقعہ ہمارے معاشرے کی بےحسی اور سنگدلی کوظاہر کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل عطا فرمائے آمین ثما آمین
 
میں نے بھی تقریبا 4،5 سال بسوں کی چھتوں پر،پیچھے اور سائیڈ پر لٹک کر سفر کیا ہے۔اور ایک دو واقعات میرے ساتھ بھی پیش آئے تھے
 

تعبیر

محفلین
ہم لوگوں کی یہ حسرت ہی رہے گی جنوں سے ملاقات کی۔ اب تو جن بھی اپنے بچوں کو شہر میں بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ یہ موئے سائنسدان کہیں اسے پکڑ کر ریسرچ ہی شروع نہ کردیں کہ اس کے جسم کی کیمسٹری کیا ہے۔:)
ہا ہاہا
بالکل صحیح کہا پہلے انسان جنو سے ڈرتے تھے اور نصیحت کرتے تھے کہ فلاں جگہ نا جانا وہاں آسیب ہے اور اب جن انساںوں سے ڈرتے ہونگے اور وہ نصیحت کرتے ہونگے کہ فلاں جگہ نا جانا وہاں خطرناک انسان رہتے ہیں :p


نہ صرف طاقت آجاتی ہے بلکہ بعض اوقات آواز بھی بالکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اتنا صحت مند پہلے ہی سے ہو جیسی وہ عورت تھی۔ عام زندگی میں ہی دیکھ لیں کہ غصے کی حالت میں انسان میں غیرمعمولی طاقت آجاتی ہے کہ اسے قابو کرنا ہی مشکل ہوجاتاہے۔ اوپر سے اگر وہ دہری شخصیت کا بھی شکار ہوجائے تو پھر کیا کہنے۔ دہری شخصیت پر کراچی کے ڈاکٹر سید مبین اختر کا ایک مضمون پڑھا تھا کافی عرصہ پہلے۔ اس میں انہوں نے بہت تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ اور اپنے مریضوں کے عجیب عجیب واقعات بتائے تھے کہ کوئی اپنے آپ کو خلائی مخلوق کے کنٹرول میں خیال کررہا تھا کہ وہ اسکے ذریعے دنیا پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔:)
بہت بہت شکریہ صحیح کہا آپ نے
ویسے انٹرسٹنگ بیماری ہے
کیا وہ آرٹیکل مل سکتا ہے :)
 

رانا

محفلین
بہت بہت شکریہ صحیح کہا آپ نے
ویسے انٹرسٹنگ بیماری ہے
کیا وہ آرٹیکل مل سکتا ہے :)
ہاں مل تو سکتا ہے تھوڑی سی کوشش کرنی پڑے گی۔ کہ ڈاکٹر سید مبین اختر کے "کراچی نفسیاتی اسپتال" کی کراچی میں اب تو بہت جگہوں پر شاخیں کھل چکی ہیں اور یہ ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے حوالے سے کافی مشہور ہیں۔ بلکہ ان کے اسپتالوں کے باہر جو بورڈ لگا ہوتا ہے اس میں خاص طور پر لکھا ہوتا ہے کہ جنوں بھوتوں سے متاثرہ افراد کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔:) کسی دن آتے جاتے ان کے کسی اسپتال کا چکر لگا لوں گا وہاں سے امید ہے کہ وہ آرٹیکل مل جائے گا۔ بس کوئی جاننے والا مجھے اندر جاتے ہوئے نہ دیکھ لے ورنہ میری ذہنی کیفیت کے حوالے سے شک میں پڑ جائے گا۔:)
 

تعبیر

محفلین
اللہ خیر کرے، کہیں یہ بیماری پسند تو نہیں آ گئی۔
ہاہاہا
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
دلچسپ بیماری بولے تو پڑھنے کی حد تک لیکن اللہ بچائے اس سے کہ بندے کو خود اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کیا کرتا ہے
ویسے مجھے schizophrenia کے بارے میں بھی جانے کا شوق ہے
 

تعبیر

محفلین
ہاں مل تو سکتا ہے تھوڑی سی کوشش کرنی پڑے گی۔ کہ ڈاکٹر سید مبین اختر کے "کراچی نفسیاتی اسپتال" کی کراچی میں اب تو بہت جگہوں پر شاخیں کھل چکی ہیں اور یہ ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے حوالے سے کافی مشہور ہیں۔ بلکہ ان کے اسپتالوں کے باہر جو بورڈ لگا ہوتا ہے اس میں خاص طور پر لکھا ہوتا ہے کہ جنوں بھوتوں سے متاثرہ افراد کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔:) کسی دن آتے جاتے ان کے کسی اسپتال کا چکر لگا لوں گا وہاں سے امید ہے کہ وہ آرٹیکل مل جائے گا۔ بس کوئی جاننے والا مجھے اندر جاتے ہوئے نہ دیکھ لے ورنہ میری ذہنی کیفیت کے حوالے سے شک میں پڑ جائے گا۔:)
ہاہاہا
خیر ہے کوئی بات نہیں
آپ اتنا بڑا رسک نا ہی لیں تو بہتر ہے :p
ویسے افسوس کے بات ہے کہ ہمارے ملک میں ذہنی بیمار کو پاگل ہی کیوں سمجھا جاتا ہے؟؟؟
جب جسم بیمار ہو سکتا ہے تو کیا دماغ بیمار نہیں ہو سکتا؟؟؟
 
Top