فیض شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ۔نظم

یاسر شاہ

محفلین

موتی ہو کہ شیشہ جام کہ در
جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا

تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

شاید کہ انھی ٹکڑوں میں کہیں
وہ ساغر دل ہے جس میں کبھی
صد ناز سے اترا کرتی تھی
صہبائے غم جاناں کی پری

پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ ساغر لے کر پھوڑ دیا
جو مے تھی بہا دی مٹی میں
مہمان کا شہپر توڑ دیا

یہ رنگیں ریزے ہیں شاید
ان شوخ بلوریں سپنوں کے
تم مست جوانی میں جن سے
خلوت کو سجایا کرتے تھے

ناداری دفتر بھوک اور غم
ان سپنوں سے ٹکراتے رہے
بے رحم تھا چومکھ پتھراؤ
یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے

یا شاید ان ذروں میں کہیں
موتی ہے تمہاری عزت کا
وہ جس سے تمہارے عجز پہ بھی
شمشاد قدوں نے رشک کیا

اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت رہزن بھی کئی
ہے چور نگر یاں مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی

یہ ساغر شیشے لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط
چبھتے ہیں لہو رلواتے ہیں

تم ناحق شیشے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

یادوں کے گریبانوں کے رفو
پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک بخیہ ادھیڑا ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے

اس کار گہ ہستی میں جہاں
یہ ساغر شیشے ڈھلتے ہیں
ہر شے کا بدل مل سکتا ہے
سب دامن پر ہو سکتے ہیں

جو ہاتھ بڑھے یاور ہے یہاں
جو آنکھ اٹھے وہ بختاور
یاں دھن دولت کا انت نہیں
ہوں گھات میں ڈاکو لاکھ مگر

کب لوٹ جھپٹ سے ہستی کی
دوکانیں خالی ہوتی ہیں
یاں پربت پربت ہیرے ہیں
یاں ساگر ساگر موتی ہیں

کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے لٹکاتے پھرتے ہیں
ہر پربت کو ہر ساگر کو
نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں

کچھ وہ بھی ہیں جو لڑ بھڑ کر
یہ پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی کے اٹھائی گیروں کی
ہر چال الجھائے جاتے ہیں

ان دونوں میں رن پڑتا ہے
نت بستی بستی نگر نگر
ہر بستے گھر کے سینے میں
ہر چلتی راہ کے ماتھے پر

یہ کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں

سب ساغر شیشے لعل و گہر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
اٹھو سب خالی ہاتھوں کو
اس رن سے بلاوے آتے ہیں​
 

سیما علی

لائبریرین
یادوں کے گریبانوں کے رفو
پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک بخیہ ادھیڑا ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے
واہ واہ
بہت عرصے بعد دوبارہ پڑھی اُتنا ہی لطف آیا پڑھنے میں !!!!
جیتے رہیے یاسر میاں اللہ اپنی امان میں رکھے آمین
کچھ نظمیں فیض صاحب ہی کا خاصہ ہیں رضا کو اردو شاعری میں مزا فیض صاحب کو ہی پڑھ کر آیا !!!!
شکر ہے ہم نے کچھ چیزیں اُنکو پڑھائیں !!!ویسے رضا کو اُردو شاعری مشکل بہت لگتی ہے ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
واہ واہ
بہت عرصے بعد دوبارہ پڑھی اُتنا ہی لطف آیا پڑھنے میں !!!!
جیتے رہیے یاسر میاں اللہ اپنی امان میں رکھے آمین
کچھ نظمیں فیض صاحب ہی کا خاصہ ہیں رضا کو اردو شاعری میں مزا فیض صاحب کو ہی پڑھ کر آتا شکر ہے ہم نے کچھ چیزیں ہم نے اُنکو پڑھائیں !!!ویسے رضا کو اُردو شاعری مشکل بہت لگتی ہے ۔۔۔۔
جزاک اللہ خیر سیما خالہ۔
فیض اور جون جیسے شعرا نے اردو شاعری کے قارئین اور شائقین میں اضافہ کیا ہے۔چنانچہ مجھے بھی جون ایلیا کا مجموعہ کلام "شاید" ایک ایسے دوست نے دیا جو خاصے مغرب زدہ تھے اور اردو ادب سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔کتاب پہ جا بجا لگے نشانات بتا رہے تھے کہ نہ صرف کتاب پڑھی گئی ہے بلکہ بڑے غور سے پڑھی گئی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ایسے دوست نے دیا جو خاصے مغرب زدہ تھے اور اردو ادب سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔کتاب پہ جا بجا لگے نشانات بتا رہے تھے کہ نہ صرف کتاب پڑھی گئی ہے بلکہ بڑے غور سے پڑھی گئی ہے۔
فیض صاحب کے اب رضا بھی بڑے فین ہیں بلکہ ہم سے دستِ صبا فرمائش کرکے منگوائی اور شکر ہے کہ پڑھی بھی البتہ جون صاحب سے کوئی شناسائی نہیں !!!کبھی ہم کوئی شعر سنائیں تو فرمائش بھی کرتے ہیں تو 🤩🤩🤩🤩
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتں
اس پر ہمیشہ کہتے ہیں ماں !!!!اباّجان یعنی ہمارے والد صرف اماّں کو سیما کی اماّں کیوں کہتے تھے ۔۔۔یہ شعر پہلے لوگوں پر بڑا فٹ ہوتا ہے !!!پر جون تو نئے زمانے کے آدمی تھے آپ کہتیں ہیں 🤓
 

سیما علی

لائبریرین
سب سے زیادہ جو شعر ہم سے سنتے ہیں وہ چچا کا ہے ماں پلیز وہ سنادیں ؀
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
مزے کی بات ہے کہ یہ مشکل شعر اُنکی سمجھ میں خوب آتا ہے !!!!!!ہم اکثر کہتے رضا تمکو اور رباب کو اردو ہم نے پڑھائی ہے تم نے کچھ لاج رکھ لی پر رباب کو تو اردو پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے ۔۔۔
 
Top