( 2 ) جنت سے نکل کر دوبارہ شہید ہونے کی تمنا
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی شخص جنت میں داخل ہونے کے بعد یہ تمنا نہیں کرے گا کہ اسے دنیا میں لوٹایا جائے یا دنیا کی کوئی چیز دی جائے سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کریگا کہ وہ دنیا میں لوٹایا جائے اور دس بار شہید کیا جائے یہ تمنا وہ اپنی [یعنی شہید کی ] تعظیم [ اور مقام ] دیکھنے کی وجہ سے کر یگا ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
[ اس بارے میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض پیچھے گزر چکی ہیں ] ۔
(3 ) تمام گناہوں کا کفارہ
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قرض کے سوا شہید کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ ایک روایت میں الفاظ اس طرح ہیں اللہ کے راستے میں قتل ہو جانا قرض کے سوا ہر گناہ کا کفارہ ہے ۔ ( مسلم شریف )
لیکن علامہ ابن رشد فرماتے ہیں کہ ایک قول یہ بھی ہے کہ شہید کے لیے قرض کا معاف نہ ہونا ابتداء اسلام میں تھا بعد میں یہ فرما دیا گیا کہ اللہ تعالی اس کا قرضہ اداء کر دے گا ۔ ( مقدمات ابن رشد )
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ جو قرضہ جنت میں جانے سے روکتا ہے وہ قرضہ ہے جو کسی نے لیا ہو اور اس کے پاس ادائیگی کی گنجائش بھی ہو مگر نہ وہ اسے اداء کرے اور نہ مرنے کے بعد اداء کرنے کی وصیت کرے یا وہ قرضہ ہے جو بے وقوفی اور اسراف کے کاموں کے لئے لیا ہو اور پھر بغیر اداء کئے مرگیا ہو لیکن اگر کسی نے کوئی حق واجب اداء کرنے کے لئے قرضہ لیا ہو مثلا فاقے سے بچنے کے لئے یا زیادہ تنگ دستی کی وجہ سے قرضہ لیا اور اس نے ادائیگی کے لئےبھی کچھ نہ چھوڑا ہو تو امید ہے کہ انشاءاللہ یہ قرضہ اس کے لئے جنت سے روکنے کا باعث نہیں بنے گا وہ مقروض شہید ہو یا غیر شہید کیونکہ مسلمانوں کے حاکم کے ذمے اس طرح کے قرضے اجتماعی مال سے اداء کرنا لازم ہے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے کوئی قرضہ یا حق چھوڑا وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمے ہے اور جس نے کوئی مال چھوڑا وہ اس کے ورثہ کے لیے ہے ۔ (بخاری )
اور اگر مسلمانوں کے حاکم نے یہ قرضے ادا نہ کئے تو اللہ تعالی خود یہ قرضہ قیامت کے دن اداء فرمائے گا اور قرض خواہ کو اس کی طرف سے راضی کر دے گا۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے لوگوں سے مال لیا اور وہ ادائیگی کی نیت رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف سے اداء فرما دے گا اور جس نے مال لیا اور وہ اسے ضائع کرنے کی نیت رکھتا ہے تو اللہ تعالی اسے ضائع کر دے گا ۔ ( بخاری )
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ بھی دلائل لکھے ہیں ( التذکرہ للقرطبی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے اس فرمان کی تصدیق حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد کے واقعے سے بھی ہوتی ہے کیونکہ جب وہ غزوہ احد کے دن نکلےتھے تو ان پر قرضہ تھا پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر کو پریشان دیکھا تو خوشخبری سنائی کہ تمھارے والد کے ساتھ اللہ تعالی نے آمنے سامنے بغیر پردے کے بات کی ہے ۔ اب اگر ہر قرضہ جنت سے روکنے کا باعث ہوتا ہے تو حضرت جابر بن عبداللہ کے مقروض والد کو اتنا بڑا مقام کیسے ملتا اسی طرح حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی گزر چکا ہے کہ انہوں نے شہادت کے وقت بائیس لاکھ کا قرضہ چھوڑا تھا ۔
( 4 ) فرشتوں کے پروں کا سایہ
٭ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب میرے شہید والد کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور ان کے ناک کان مشرکوں نے کاٹ دیئے تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ ان کے چہرے سے کپڑا ہٹا دو تو لوگوں نے مجھے منع کر دیا اسی دوران ایک چیخنے والی عورت کی آواز سنائی دی لوگوں نے کہا یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کیوں روتی ہو ابھی تک فرشتوں نے ان پر [ یعنی شہید پر ] اپنے پروں کا سایہ کیا ہوا ہے ۔
( 5 ) جنت میں داخلے کی پکی ضمانت
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[arabic]
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ[/arabic] ( التوبہ ۔ 111 )
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے خرید لیا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
[arabic]
وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ[/arabic] (محمد ۔ 4 ۔ 5 ۔ 6 )
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں اللہ کے ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا اللہ تعالی ان کو مقصود تک پہنچائے گا اور ان کی حالت سنوارے گا جس کی ان کو پہچان کرادے گا ۔ ( یا وہ جنت ان کے لیے خوشبو سے مہکا دی گئی ہے ) ۔
٭ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رات کو میں نے دیکھا کہ دو آدمی آئے اور انہوں نے مجھے ایک درخت پر چڑھایا پھر مجھے ایک گھر میں داخل کیا جو بہت حسین اور بہت اعلی تھا میں نے اس جیسا حسین محل پہلے نہیں دیکھا ان دونوں نے مجھے بتایا کہ یہ شہداء کا گھر ہے ۔ ( بخاری )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے سامنے ان تین آدمیوں کو پیش کیا گیا جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ( 1 ) شہید ( 2 ) حرام سے اور شبہات سے بچنے والا ( 3 ) وہ غلام جس نے اچھی طرح اللہ تعالی کی عبادت کی اور اپنے مالک کے ساتھ بھی خیر خواہی کی ۔ ( ترمذی )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی دو آدمیوں پر [خوشی سے ] ہنستا ہے ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا اور دونوں جنت میں داخل ہوگئے صحابہ کرام نے پوچھا وہ کس طرح اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان میں سے ایک دوسرے کے ہاتھ سے قتل ہو کر جنت میں داخل ہو گیا پھر دوسرے کو اللہ تعالی نے ہدایت دی اور وہ مسلمان ہو گیا اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کی رضا جوئی میں مارا گیا اللہ تعالی اسے عذاب نہیں دیگا ۔ ( مجمع الزوائد )
٭ حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک محل ہے جس کا نام عدن ہے اس میں پانچ ہزار دروازے ہیں اور ہر دروازے پر پانچ ہزار حوریں ہیں ۔ اس محل میں نبی ، صدیق اور شہید داخل ہوں گے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ موقوفاً رجالہ ثقات )
٭ حضرت اسلم بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کون جائےگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نبی جنت میں جائیں گے شہید جنت میں جائیں گے وہ بچہ جسے زندہ درگور کر دیا گیا ہو وہ جنت میں جائے گا ۔ ( ابوداؤد)
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام ربیع بن براء رضی اللہ عنہما حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے [ میرے بیٹے ] حارثہ کے بارے میں نہیں بتائیں گے ؟ وہ بدر کے دن ایک گمنام تیر سے مارے گئے تھے اگر وہ جنت میں ہیں تو میں صبر کر لوں گی اور اگر اس کے علاوہ کچھ ہے تو پھر میں ان پر خوب روؤں گی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حارثہ کی ماں جنت میں تو کئی باغات ہیں تیرا بیٹا تو فردوس اعلی [ یعنی جنت کے اعلی ترین درجے ] میں ہے ۔ ( بخاری)
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالے شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں ایک بد بودار جسم والا بدصورت کالا آدمی ہوں اور میرے پاس مال بھی نہیں ہے اگر میں ان [ کافروں ] سے لڑتا ہوا ماراجاؤں تو میں کہاں جاؤں گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنت میں چنانچہ وہ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تو حضور اکرم صلی اللہ ان کے پاس آئے اور ارشاد فرمایا : اللہ نے تمھارے چہرے کو سفید جسم کو خوشبودار اور مال کو زیادہ فرما دیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یا کسی اور کے لیے فرمایا میں نے اس کی بیوی حور عین کو دیکھا کہ ان کے اونی جبے کو کھینچ رہی تھی اور ان کے اور جبے کے درمیان داخل ہو رہی تھی ۔ ( المستدرک ۔ بیہقی)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کالے شخص کا نام جعال رضی اللہ عنہ ہے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابو طالب کو جنت میں دو پروں والا فرشتہ دیکھا جو جنت میں جہاں چاہیں اڑے پھرتے ہیں اور ان کے پروں کے اگلے حصے پر خون لگا ہوا ہے ۔ ( الطبرانی ۔ مجمع الزوائد )
(6 ) شہداء کی ارواح سبز پرندوں میں
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمھارے بھائی [ احد کے دن ] شہید ہو گئے تو اللہ تعالی نے ان کی روحیں سبز پرندوں میں داخل فرما دیں وہ جنت میں نہروں پر اترتے ہیں اور جنت کے میوے کھاتے ہیں اور وہ عرش کے سائے کے نیچے سونے کی قندیلوں پر بیٹھتے ہیں جب انہوں نے بہترین کھانا پینا اور آرام گاہ پالی تو انہوں نے کہا کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہماری خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھا پی رہے ہیں تاکہ وہ جہاد کو نہ چھوڑیں اور لڑائی میں بزدلی نہ دکھائیں اللہ تعالی نے فرمایا میں تمھاری خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں جنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ امواتا ۔ الی آخرہ ۔ ( ابوداؤد ۔ مستدرک )
صحیح مسلم شریف میں ایسی ہی روایت موجود ہے اور دوسری کتابوں میں اس مفہوم کی کئی احادیث موجود ہیں ۔
( 7 ) قبر کے فتنے اور قیامت کے دن کی بے ہوشی سے نجات
احادیث صحیحہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ اللہ تعالی کے راستے میں اسلامی سرحدوں کی پہرے داری کرنے والا [ مرابط ] قبر کے فتنے سے محفوظ رہے گا جب اس کے لیے یہ نعمت ہے تو شہید اس نعمت کا بدرجہ اولی مستحق ہے ۔ کیونکہ وہ مرابط سے افضل ہے ، مرابط کو یہ نعمت اس وجہ سے ملتی ہے کہ وہ اپنی جان اللہ کے راستے میں قربانی کے لیے پیش کرتا ہے تو وہ شخص جس کی جان قبول کر لی گئی ہو وہ اس نعمت کا کس طرح سے مستحق نہیں ہو گا ۔
٭ راشد بن سعد کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو قبر کے فتنے کا سامنا ہوتا ہے سوائے شہید کے [ کہ اسے قبر کے فتنے سے نجات مل جاتی ہے ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے سرپر تلواروں کی چمک اسے ہر فتنے سے بچانے والی ہے ۔ ( نسائی )
اس حدیث شریف کا معنی یہ ہے کہ قبر میں دو فرشتوں کا آدمی سے سوال کرنا قبر کا فتنہ ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے تاکہ مؤمن کے ایمان اور یقین کا امتحان لیا جاسکے لیکن وہ شخص جو میدان قتال میں نکلتا ہے اور وہ تلواروں کو چمکتا اور کاٹتا ، نیزوں کو کودتا اور پھاڑتا تیروں کو چلتا اور جسموں سے پار ہوتا دیکھتا ہے اور اس کے سامنے سر جسموں سے اڑائے جاتے ہیں اور خون کے فوارے بہتے ہیں اور جسموں کے ٹکڑے بکھیرے جاتے ہیں اور ہر طرف مقتول اور زخمی پڑے ہوئے لوگ اسے نظر آتے ہیں مگر پھر بھی وہ میدان میں ڈٹا رہتا ہے اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی بجائے اپنی جان اللہ کو سپرد کرنے کے لئے مکمل ایمان اور یقین کے ساتھ جما رہتا ہے تو یہی اس کے ایمان کے امتحان کے لیے کافی ہے کیونکہ اگر اس کے دل میں شک یا تردد ہوتا تو وہ میدان سے بھاگ جاتا اور ثابت قدمی سے محروم ہوجاتا اور منافقوں کی طرح شکوک میں پڑجاتا مگر ایسا نہیں ہوا تو ثابت ہوا کہ اس کا ایمان مکمل اور یقین مضبوط ہے تو پھرایسے شخص سے مزید کسی پوچھ تاچھ کی کیا ضرورت ہے ۔
[ اسی طرح قبر میں فرشتے جو کچھ پوچھتے ہیں شہید تو انہیں چیزوں کی عظمت اور حفاظت کے لیےجان کی قربانی دیتا ہے اور توحید ، رسالت اور دین اسلام کی خاطر مرمٹتاہے جب اس کی یہ حالت ہے تو پھر اس سے قبر میں کسی طرح کی پوچھ تاچھ کی ضرورت ہی نہیں رہتی ]
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا :
[arabic]
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الأرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ[/arabic] (لزمر ۔ 68 )
اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب بے ہوش ہوکر گر پڑیں گے مگر وہ جس کو اللہ چاہے۔
کہ وہ لوگ کون ہیں جنہیں اللہ تعالی بے ہوشی سے بچائے گا جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا وہ شہداء ہوں گے ۔ ( المستدرک )
٭ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا [arabic]
[وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الأرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ[/arabic] ] جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا یہ شہداء ہوں گے اللہ تعالی انہیں اس طرح کھڑا فرمائے گا کہ وہ اپنی تلواریں لئے اللہ کے عرش کے اردگرد ہوں گےفرشتے ان کے لیے یاقوت کے بنے ہوئے عمدہ گھوڑے لائیں گے جن کی لگام سفید موتی کی اور زین سونے کی ہوگی ان کی لگام کی رسی باریک اور موٹے ریشم کی ہوگی ان پر ریشم سے نرم کپڑے بچھے ہوں گے ان گھوڑوں کا قدم تاحد نظر پڑتا ہوگا شہداء ان گھوڑوں پر جنت میں گھومیں پھریں گے پھر لمبی تفریح کے بعد کہیں گے چلو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی لوگوں کا کس طرح فیصلہ فرماتا ہے [ جب وہ آئیں گے تو ] اللہ تعالی ان پر [خوشی سے ] ہنسے گا اور حشر کے میدان میں اللہ تعالی جس کے لیے ہنسے گا اس سے کوئی حساب نہیں ہوگا ۔ ( رواہ ابن ابی الدنیا ۔ الجامع الصغیرللسیوطی )
٭ شہر بن حوشب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی [ قیامت کے دن ] بادلوں میں فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے گا پھر ایک پکارنے والا آواز لگائے گا تمام اہل محشر ابھی جان لیں گے کہ آج اللہ کا کرم کن پر ہونے والا ہے اللہ تعالی فرمائے گا تم میرے ان دوستوں کو لے آؤ جنہوں نے میری رضا کے لیے اپنا خون بہایا تھا پھر شہداء آئیں گے اور قریب ہو جائیں گے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک)
( 8 ) اپنے گھر والوں میں سے ستر کی شفاعت
٭ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہید اپنے گھر والوں میں سے ستر کی شفاعت کرے گا ۔ ( ابوداؤد ۔ بیہقی)
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہید کے لیے اللہ تعالی کے ہاں سات انعامات ہیں ( 1 ) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے ( 2 ) اور اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے ( 3 ) عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے ( 4 ) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے ( 5 ) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ ( 6 ) بہتر حور عین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے ( 7 ) اور اپنے اقارب میں ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ ( مسند احمد )
امام قرطبی رحمہ اللہ نے ایک بہت ہی عجیب و غریب حدیث ذکر فرمائی ہے وہ حدیث اس طرح ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی شہداء کو ایسے پانچ اعزازات عطاء فرماتا ہے جو نہ کسی نبی کو ملےہیں اور نہ خود مجھے۔ ( 1 ) ان میں سے پہلا یہ ہے کہ تمام انبیاء کی ارواح کو ملک الموت نے قبض کیا ہے اور وہی میری روح کو بھی قبض کرے گا لیکن شہداء کی روح کو اللہ تعالی خود اپنی قدرت سےجس طرح چاہتا ہے قبض فرماتا ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت کو مقرر نہیں فرماتا ۔ ( 2 ) دوسرا یہ کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو موت کے بعد غسل دیا گیا اور مجھے بھی دیا جائے گا لیکن شہداء کو غسل نہیں دیا جاتا اور انہیں دنیا کی کسی چیز کی حاجت نہیں ہوتی۔ ( 3 ) تیسرا یہ کہ تمام انبیاء کو موت کے بعد کفن دیا گیا اور مجھے بھی دیا جائے گا لیکن شہداء کو کفن نہیں دیاجاتا بلکہ انہیں ان کے کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے ( 4 ) چوتھا یہ کہ انبیاء علیہم السلام کو موت کے بعد انتقال کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اور میرا شمار بھی انتقال کرنے والوں میں کیا جائے گا لیکن شہداء کو موت کے بعد مردہ نہیں کہا جاتا ۔ ( 5 ) اور پانچواں یہ کہ انبیاء کو قیامت کے دن شفاعت کا اختیار ہوگا لیکن شہداء ہر دن کسی کی شفاعت کر سکتے ہیں ۔ ( تفسیر القرطبی )
[ یہ حدیث اگر سند کے اعتبار سے درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شہداء کرام کو یہ پانچ جزوی اعزازات نصیب ہوں گے جو بظاہر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء علیہم السلام کو حاصل نہیں ہیں لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کرام کو جو اعزازات حاصل ہیں وہ ان اعزازات سے بے حد بلند ہیں اور ان کا رتبہ اور مقام بلاشبہہ شہداء سے بڑھ کر ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو مخلوق میں سب سے اعلی و افضل ہیں چنانچہ اس طرح کے جزوی فضائل کی وجہ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ شہداء کا مقام نعوذ باللہ انبیاء سے بلند تر ہو گیا ہے اور نہ اس طرح کی احادیث سے یہ سمجھنا چاہئے کہ جزوی فضائل کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کی شان میں نعوذ باللہ کوئی کمی یا بے ادبی لازم آتی ہے ۔ اگر کسی دفتر کا آفیسر یہ کہے کہ فلاں کلرک کو حسن کارکردگی پر ایک موٹر سائیکل انعام میں دی گئی ہے اور یہ ایسا اعزاز ہے جو مجھے بھی نہیں ملا تو یہ بات درست ہوگی ۔ کلرک کو انعام میں موٹر سائیکل ملنا اگرچہ ایک خصوصیت ہے کیونکہ یہ موٹر سائیکل آفیسر کو نہیں ملی ہوتی لیکن اس موٹر سائیکل کی وجہ سے وہ کلرک اپنے آفیسر سے زیادہ مقام والا نہیں ہوجاتا اور نہ اس کی موٹر سائیکل آفیسر کی کا ر کے برابر ہو سکتی ہے ۔ عام مسلمانوں کو جب اس طرح کی احادیث سنائی جائیں تو ساتھ مذکورہ بالا وضاحت بھی ضرور کر دی جائے تاکہ فضائل بیان کرنے کے نشے میں اسلام کے اہم قوانین پامال نہ ہوں جیسا کہ اکثر فضائل بیان کرنے والوں کا طریقہ بنتا جا رہا ہے ] ۔
( 9 ) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے نجات
٭ حضرت مقداد بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہید کے لیے اللہ تعالی کے ہاں چھ خصوصی انعامات ہیں۔
( 1 ) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور جنت میں اس کا مقام اس کو دکھلا دیا جاتا ہے ( 2 ) اسے عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے ( 3 ) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ رہتا ہے ( 4 ) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے ( 5 ) بہتر ( 72 ) حور عین سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے ( 6 ) اور اس کے اقارب میں ستر ( 70) کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ ( ترمذی ۔ مصنف عبدالرزاق ۔ ابن ماجہ)
( 10) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی بخشش اور جنت کامقام آنکھوں کے سامنے :
[ اس بارے میں کئی روایات پہلے بھی بیان ہو چکی ہیں مزید روایات ملاحظہ فرمائیں ]
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اللہ کے راستے میں قتل کیا جاتا ہے تو زمین پر اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی بخشش کر دی جاتی ہے پھر اس کی طرف جنت کا رومال بھیجا جاتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال کر ایک جنتی جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے پھر وہ فرشتوں کے ساتھ اس طرح اوپر چڑھتا ہے گویا کہ وہ پیدا ہوتے وقت سے فرشتوں کے ساتھ رہتا ہو پھر اسے آسمانوں پر لے جایا جاتا ہے وہ آسمانوں کے جس دروازے سے گزرتا ہے وہ دروازہ کھول دیا جاتاہے اور جس فرشتے کے پاس سے گزرتا ہے وہ فرشتہ اس کے لیے رحمت کی دعاء اور استغفار کرتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ تعالی کے حضور پیش کیا جاتا ہے جہاں پہنچ کر وہ فرشتوں سے پہلے سجدہ کرتا ہے پھر اس کے بعد فرشتے سجدہ کرتے ہیں پھر اللہ تعالی کی طرف سے اسے بخشش اور پاکی عطاء فرمائی جاتی ہے پھر اسے دوسرے شہداء کے پاس لایا جاتا ہے وہ ان شہداء کو ہرے بھرے باغات میں سبز کپڑے پہنے ہوئے دیکھتا ہے ان شہداء کے پاس ایک بیل اور مچھلی ہوتی ہے جس سے وہ کھیل رہے ہوتے ہیں اور انہیں ہر دن کھیلنے کے لیے نئی چیزیں دی جاتی ہیں دن کو مچھلی جنت کے نہروں میں تیرتی رہتی ہے شام کے وقت بیل اسے سینگ مار کر کاٹ دیتا ہے اور شہداء اس مچھلی کا گوشت کھاتے ہیں اور اس کے گوشت میں جنت کی تمام نہروں کا مزہ پاتے ہیں اور بیل رات کو جنت میں چرتا رہتا ہے اور وہاں کے پھل کھاتا ہے جب صبح ہوتی ہے تو مچھلی اسے اپنی دم سے ذبح کر دیتی ہے شہداء اس کا گوشت کھاتے ہیں اور جنت کے سب پھلوں کا مزہ اس میں پاتے ہیں وہ اپنے مقامات کو دیکھتے رہتے ہیں اور اللہ تعالی سے قیامت قائم کرنے کی درخواست کرتے ہیں ۔ ( الطبرانی ۔ مجمع الزوائد )
( 11) خون خشک ہونے سے پہلے حور عین کی زیارت
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شہداء کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زمین پر شہید کا خون خشک نہیں ہوا ہوتا کہ اس کی دونوں بیویاں [ یعنی حوریں ] اس طرح اس کی طرف دوڑتی ہیں جس طرح دودھ پلانے والی اونٹنیاں کھلے میدان میں اپنے بچے کی طرف دوڑتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایسا جوڑا ہوتا ہے جو دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہوتا ہے ۔ ( مصنف عبدالرزاق ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ۔ ابن ماجہ )
٭ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کی قیمت زیادہ ہو اور اپنے مالک کے ہاں پسندیدہ ہو ۔ میں نے عرض کیا سب سے افضل جہاد کون سا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس میں مجاہد کا گھوڑا بھی مارا جائے اور خود اس کا خون بھی بہہ جائے [ یعنی وہ شہید ہو جائے ] ( مسند احمد )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ان لوگوں کی بات غلط ثابت ہو گئی جو یہ کہتے ہیں کہ جہاد میں غالب رہنے والا شہید ہونے والے سے افضل ہے ۔
٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرو بن العاص سے پوچھا گیا کہ آپ افضل ہیں یا حضرت ہشام ابن العاص ؟ انہوں نے فرمایا ہم دونوں [ بھائی ] غزوہ یرموک میں شریک تھے رات کو میں بھی شہادت کی دعاء مانگتا رہا اور وہ بھی جب صبح ہوئی تو انہیں شہادت نصیب ہوگئی جبکہ میں محروم رہ گیا ۔ پس اسی س تمہیں ان کی فضیلت معلوم ہو جانی چاہئے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
( 12 ) چیونٹی کے کاٹنے جیسا درد اور سکرات الموت سے حفاظت
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہید کو قتل ہوتے وقت صرف اتنا درد ہوتا ہے جتنا تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ۔ ( ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ ۔ ابن حبان ۔ بیہقی )
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور صبر نازل ہوتا ہے تو مجاہد کے لیے قتل ہونا گرمی کے دن ٹھنڈا پانی پینے سے زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ ( شفاء الصدور )
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : موت کا درد تلوار کی دس لاکھ ضربوں سے زیادہ سخت اور فلاں پہاڑ کو سر پر اٹھانے سے زیادہ بھاری ہے اور یہ [موت ] شہید پر اور مظلوم قتل کئے جانے والے پر مچھر کے کاٹنے کے درد سے بھی زیادہ آسان ہے اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہر رات سحری کے وقت آواز لگاتا ہے ۔ اے قبر والوں! تم کسی پر رشک کرتے ہو ؟ وہ کہتے ہیں شہید پر اور شہید ہر روز دو بار اپنے رب عزوجل کی زیارت کرتا ہے اسے نہ دنیا کی رغبت ہوتی ہے اور نہ اس کے چھوٹنے کا غم ۔ ( ابن عساکر )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ کے والد محترم کی طرف منسوب کتاب مجموع اللطائف میں پڑھا ہے کہ ایک شخص یہ دعاء کیا کرتا تھا کہ یا اللہ میری روح جلدی سے قبض فرمایئے گا اور مجھے درد سے بچایئے گا ایک دن وہ شخص تفریح کے لیے نکلااور ایک باغ میں جاکر سو گیا اچانک وہاں کافروں کا ایک گروہ آگیا اور انہوں نے اس کا سر کاٹ دیا ۔ اس شخص کے جاننے والوں میں سے کسی نے اسے خواب میں دیکھا تو اس کا حال پوچھا اس نے جواب دیا میں باغ میں سویا تھا جب میں نے آنکھ کھولی تو میں جنت میں تھا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے بھی اس حکایت کو کچھ تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک)
اس بارے میں کچھ واقعات پچھلے ابواب میں بھی گزر چکے ہیں۔
( 13 ) فرشتوں کا داخلہ اور سلام
٭ پہلے روایت گزر چکی ہے کہ جب اللہ تعالی شہداء کو بلا کر بغیر حساب کتاب جنت میں داخل فرما دے گا تو فرشتے آکر اللہ تعالی کو سجدہ کریں گے اور عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار ہم رات دن آپ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے تھے یہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ نے ہم پر ترجیح دی ہے ۔ اللہ تعالی فرمائے گا ۔ یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میرے راستے میں قتال کیا اور انہیں میرے راستے میں تکلیفیں پہنچائی گئیں پھر [ یہ سن کر ] فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیا پس آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ۔ ( مسند احمد ۔ المستدرک صحیح الاسناد )
مطلب بن حنطب فرماتے ہیں کہ شہید کے لیے جنت میں ایک بالا خانہ ہے جو صنعا [ یمن ] سے جابیہ [ شام ] کی مسافت جتنا ہے اس کے اوپر کا حصہ موتیوں اور یاقوت سے بنا ہوا ہے اور اس کے اندر مشک اور کافور ہے ۔ فرشتے شہید کے پاس اللہ تعالی کا ہدیہ لے کر آئیں گے اور ابھی یہ فرشتے وہاں سے نہیں نکلے ہوں گے کہ مزید فرشتے دوسرے دروازے سے اللہ تعالی کا ہدیہ لے کر آجائیں گے۔ ( کتاب الجہاد الابن المبارک )
(14) اللہ کی ایسی رضا اور خوشنودی جس کے بعد ناراضگی نہیں ہوگی
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہمارے ساتھ ایسے آدمی بھیج دیجئے جو ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم دیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ انصار میں سے ستر( 70) حضرات جو قراء کہلاتے تھے بھیج دیئے ان میں میرے ماموں حضرت حرام رضی اللہ عنہ بھی تھے [ مدینہ منورہ میں ]یہ لوگ قرآن پڑھتے تھے اور راتوں کو قرآن مجید سیکھتے سیکھاتے تھے اور صبح کے وقت مسجد میں آکر پانی ڈالتے تھے پھر لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچتے اور اصحاب صفہ اور دوسرے فقراء کے لیے کھانا خریدتے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو ان لوگوں کے ساتھ روانہ فرما دیا راستے میں ان پر حملہ کردیا گیا اور انہیں اپنے مقام پر پہنچنے سے پہلے شہید کر دیا گیا انہوں نے [شہادت کے بعد] عرض کیا اے ہمارے پروردگار ہماری خبر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیجئے کہ ہمیں اللہ تعالی کی ملاقات نصیب ہو چکی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں اور وہ ہم سے راضی ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ کافروں میں سے ایک شخص حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ماموں حضرت حرام رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور نیزہ ان کے جسم سے پار کردیا حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے [ صحابہ کرام سے ] فرمایا : تمھارے بھائی شہید کر دیئے گئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے اے ہمارے پروردگار ہماری خبر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیجئے کہ ہمیں اللہ تعالی سے ملاقات نصیب ہو چکی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں اور وہ ہم سے راضی ہے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ جب بئر معونہ پر [ ستر 70 قراء ] حضرات شہید ہو گئے اور حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ گرفتار ہوگئے تو کافروں کے سردار عامر بن طفیل نے ان سے ایک شہید کی طرف اشارہ کرکے پوچھا یہ کون ہیں تو انہوں نے فرمایا یہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس نے کہا میں نے انہیں قتل ہونے کے بعد دیکھا کہ انہیں آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا ۔ یہاں تک کہ مجھے آسمان ان کے اور زمین کے درمیان نظر آرہاتھا ۔ پھر انہیں واپس زمین پر رکھ دیا گیا ۔ ( بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بئر معونہ پر شہید ہونے والے [ ستر 70] حضرات کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی جو ہم پڑھا کرتے تھے :
ترجمہ : ہماری قوم کو خبر دے دو کہ ہم اپنے رب سے ملاقات کا شرف پاچکے ہیں
اور وہ ہم سے راضی ہو چکا ہے اور ہم اس سے راضی ہو چکے ہیں ۔ پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی ( بخاری)۔