شگوفۂ محبت صفحہ 2
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد پروردگار بحر ذخار دریاے ناپید کنار ہے بڑی بڑی پیرا کون نے اس میں غواصی کی اپنے اپنی ظرف کے موافق بھر لیا شر پر دھر لیا نہ کسی کو تھاہ ملی نہ کنارا نظر آیا۔ زیادہ بڑھے تو غوطہ کھایا۔ جل جلالہ، بال سے باریک یہ راہ ہے خیرہ اس میں دور بینوں کی نگاہ ہے۔ مولوی معنوی
در بہاران زاد و مرگش دردی ست
پشہ کے داند کہ این باغ ازکی ست
لڑکپن میں تمیز نہیں ہوتی۔ صائب
گہ بپاے خم افتم گہ سبوز تن برسر
ساقیا مرنج ازمن عالم جوانی است
القصہ ان خرابیوں سے بچ گئی سوار کی تیاری ہوئی کوچ کی غل مچ گئی نشہ اوتری مُسن ہوے بڑھاپے کی ون ہوے سمجھنے بوجھنے کا جب موقع آیا تو ادھر ضعف نے جھکایا اِدھر قضا نے گور کے گڑھے کو جھکایا وہ قادر و توانا ہے علیم و دانا ہے جس نے دو حرف سنا کے ایک عالم کا جلوہ دکھایا اس میں بشر ہے جس کی طبیعت کا میلان یہ شر ہے یہ بہت پسند آیا
شگوفۂ محبت صفحہ 3
اسی میں نبی ہوئے ولی ہوے شاہ و گدا ہوئے بغور دیکھیے تو کیا تھے اور کیا ہوے کبھی رات ہوتی ہے کبھی دن ہے اسی کی امکان میں ناممکن ہے۔ ہر قطرہ اس بحر کا محیط ہے، دریا ہے ہر ذرا اس صحرا کا بسیط ہے دیکھنے کا تماشا ہے۔ اس گلشن خزاں مآل میں وہی خار ہے جو اٹکا سب کی آنکھ میں کھٹکا، کُمیت فکر بصد جولانی گشت سے رہ گیا۔ تازیانے کی چوٹ سہ گیا۔ اسکندری کھائی بھٹکا پھر کوئی پاس نہ پھٹکا مگر اس کائنات بے ثبات کے معاملوں سے سر رشتۂ محبت سلسلۂ اتحاد اگرچہ وہ بھی بے بنیاد ہے اس پر سب کو پسند آیا ہے۔ پاکبازوں نے لطف اٹھایا ہے۔ رم خوردہ اس میں رام ہوے ہیں۔ اسی دام میں گرفتار ددو دام مدام ہوے ہیں جب دوئی کو دور کیا یک رنگی نے ظہور کیا سُنا ہو گا لیلی کے ہاتھ پر گذر نشتر ہوا مجنوں کا تمام جسم لہو سے تر ہوا ایک کا دل خون ہوا تو دوسرے کی خانہ خرابی ہو گئی۔ جنون ہوا آخر کار رانا لیلی کی حالت جب ہو جاتی ہے وہ کیفیت بہر کیف تحریر تقریر میں نہیں آتی ہے۔ ہم سے کور باطنوں کی نظر میں دید کی طاقت کہاں حقیقت حال دریافت کرنے کی لیاقت کہاں ورنہ ہر برگ گل تر ہزار بلبل کے خون کا محضر ہے نخمہ سنجاں گلشن ایجاد کی بولنے کا کچھ اور ہی گھر ہے سرو کی دار پر لاکھ قمری کے قتل کا مدار ہے فاختہ کی کو کو گواہ تارا جی صبر و قرار ہے تلون پر اس کارگاہ بے بنیاد کی رونق ہے مستعا سب نقش و نگار ہے عبر الناظرین کو کافی تفرقۂ لیل و نہار ہے۔ یہ حیرت نگر جو طلسم خانہ ہے ہوشیار یہاں دیوانہ ہے۔ بے سقف و جدار ہے دیوار ہے نہ در ہے پھنسے ہوے کہتے ہیں گھر ہے اوجڑے ہوے بستے ہیں۔ رونے کو ہنستے ہیں۔ کون و فسا میں نئی طرح یہ مخمصہ پڑا ہے کہ شاہ کے محل سے ملا ہوا چور کا جھوپڑا ہے۔ ہر نفو گونوں کو کھٹکا رہتا ہے۔ دغدغہ اٹکا رہتا ہے کوئی بگڑتا ہے کوئی بنتا ہے کوئی اینٹھ جاتا ہے کوئی تنتاہی اگر منتظم اس کا غفلت پر مدار نہ رکھتا تو اس کارخانے میں سودائی بھی قدم زینہار نہ رکھت۔ ہوشیار یہاں پھونک پھونک کے قدم رکتھے ہیں۔ جھلاتے ہیں ٹھوکر کا مزا جب دکھتے ہیں، اور وہ جو مست صنم پرست ہیں بخدا جس دم بے دغدغہ باگ اٹھاٹی ہیں منزل مقصد پر پہونچ جاتے ہیں۔ جائے دم زون نہیں خموشی درکار ہے۔ منصور تو
شگوفۂ محبت صفحہ 4
لڑائی فتح کر گیا۔ اب تک اس دار ناپائدار میں ہزارہا دار ہے۔ عجز میں نباہ ہوتا ہے۔ غرور میں تباہ ہوتا ہے۔ سر رشتہ عقل کوتاہ ہے کہ آیہ گواہ ہے فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿
١٣﴾
نعت سرورِ کائنات ہے چھوٹا منہ بڑی بات ہے
وہ گروہ بہت خوش نصیب ہے جن کا حامی اور شفاعت کنندہ خدا کا حبیب ہے، خلقت میں اولین اور خاتم المرسلین اس کی ذات اور صفات کی کنہ یا حقیقت کون پائے جس کا سایہ تک نظر نہ آئے۔ تقرب میں اس درجہ پر چڑھ گیا کہ قاب قوسین رے مرتبہ بڑھ گیا۔ جس طرح پروردگار لاشریک ہے، اسی طور پر یہ پیمبر دوربینوں کے نزدیک ہے۔ نبی اور اس کی آل اور اصاحب پر شب و روز درود پڑھے بکھیڑے میں نہ پڑے آگے نہ بڑھے۔
صفب بادشاۃِ خجستہ خصال پری پیکر ماہ رو والی لکھنؤ رشک فریدون غیرت جم سلطان عالم خلد اللہ ملکہ
اور تاج سلطانی اریکۂ جہانبانی نے اس کے سر و پا سے زیب و زینت پائی ہے جس کے خاندان میں نسلاً بعد نسل فرمانروائی چلی آئی ہے، ہر چند کہ موسم شباب ہے، نور کی صورت نہایت آب و تاب ہے۔ زور شور پر عالم جوانی ہے نقاش قددرت کے ہاتھ کا نقشہ انتخاب ہے۔ اس پر جتنی خصلتیں فرمانرایان خجستہ خصال کی ماضی و حال کی ہیں سب میں لاثانی ہے ہمت و جرأت میں یکتا ہے جود و سخا میں حاتم سے بڑھ گیا ہے۔ عدل و داد میں یادگار نوشیروان ہے اس چمک دمک کی سلطنت زیر آسمان بروے زمین دوسری کہاں ہے۔ رفقا کو جاہ و حشمت سے نہال کیا۔ غریب و غربا کو مال اور دولت سے مالا مال کیا۔ شب شب برات ہر دم عیش و نشاط میں بسر ہوتی ہے۔ روز نو روز ہر صبح عید کی سحر ہوتی ہے۔ مکانات ایسے بنوائے کہ سمار کی عقل میں ہ آئے۔ ہر قطعہ فردوس بریں کا نمونہ ہے اور قیصر باغ تو حسن و لطافت میں گزار ارم سے دونا ہے جس چیز کا خیال آیا اسی انتہا کو پہونچایا یا طبع والا میں نہایت جودت ہے، جو شے ہے اللہ کی قدرت ہے ایسا کرم کارساز اور عنایت بے نیاز ہے کہ اولو العزمی کا سب سامان و ساز ہے۔ وزیر بے نظیر خود سلیمان زمان وہ آصفِ دوران باہم قضیہ لازم و ملزوم ہے یہ نکتہ سبکو معلوم ہے دیوان ہوشیار وابسہ فرمان سر دفتر خیر خواہان
شگوفۂ محبت صفحہ 5
کائنات میں فرد ہے چہرم مورت نیک سیرت خوبصورت جوانمرد ہے حساب کیجیے تو سابقین کی نشانی باقی ہے اس فن میں بڑی مشاقی ہے فیض کی ندی اس کے دم سے بھی ہے۔ رشوت کھاتا نہیں بڑی بڑی جفا سہی ہے۔ سپاہی وضع ہر چند نہیں لیکن جان نثاری پر بند نہیں خلاصہ یہ ہے کہ ملازموں میں ایک سے ایک بہتر ہے۔ یادگار روزگار ہے اگر سب کی شرح کروں طول ہو منظور اختصار ہے جب تک گردش لیل و نہار ہے کہ جلسہ برقرار رہے۔
سبب تالیف اس قصے لاثانی کی لکھنے کی وجہ اس کہانی کی
متوقع عنایت امیدوار رحمت رب غفور مرزا رجب علی تخلص سرور ناظرین پر تمکین سامعان باریک بین کی خدمت میں عرض پیرا ہے کہ نامساعدت اور نیرنگی زمانہ سے نہ عربی میں دخل ہوا نہ فارسی میں کامل ہوا۔ دونوں سے ناآشنا رہا۔ ایک کا بھی علم نہ حاصل ہوا۔ پست ہمتی سے اردو کے لکھنے میں اوقات بسر کی۔ تردد کی شام سحر کی۔ کچھ دن نظم کا انتظام رہا۔ شہر کہنے کا خیال خام رہا۔ جب وہ بھی نہ ہو سکا، نثر کی طرف خیال آیا۔ اس کو اس سے زیادہ مشکل پایا۔ چنانچہ فسانۂ عجائب کہ قصۂ جان عالم ہی بہت مطبوع ساکنان عالم ہے بموجب مثل ع قبولِ خاطر و لطفِ سخن خدا دا دست، اور تحریر ثانی حسب ارشاد ہدایت بنیاد حضرت ظل سبحانی سرور سلطانی ہے۔ یہ بھی ہر شخص کو پسند ہے۔ جو سنجیدہ فہمیدہ ہے اس کا خواہشمند ہے اور چند حکایات مختصر و طول سامع قاری ان سے بھی ملول نہیں۔ جب ان تحریروں سے فرصت پا چکا تو قضیہ اتفاقیہ درپیش ہوا۔ ایک شفیق کہ مجمع صفات ان کی ذات ہے، جوان حسین رعنا جرات میں یکتا غیور ذی شعور جوہر شناش قاعدہ دان ہیں۔ قوم کے رئیس ہیں۔ نام نامی امجد علی خان ہے۔ ان کی حسب و نسب سے آگاہ جہان ہے۔ شگفتہ خاطر دل شاد ساکن سنڈیلہ ملیح آباد۔ جتنا کام اس ملک میں مشکل ہے وہ مالی ہے۔ خدا کی عنایت سے اس میں طبیعت کو رسائی ہے ۔ نہایت ذہن عالی ہے۔ ہمیشہ عمالان سرکار ابد قرار میں وثوق و اعتبار رہا ہے ۔ نظامت کے انتظام پر بلا جبر اختیار رہا ہے۔ راقم کے حال پر بہت نظر عنایت ہے۔ منظور سب طرح کی رعایت ہے۔ ایک قصہ مہر چند کھتری کا لکھا جو ان کی نظر سے گذرا۔ اکثر مضمون
شگوفۂ محبت صفحہ 6
اس کا پسندِ خاطر ہوا۔ لیکن وہ بیان اور زبان گذشتہ یعنی تقویم پارینہ ہے۔ اب جو ہندی کی چندی ہوئی ہے، اس سے سراسر خالی تھا۔ روزمرہ محاورہ لاوبالی تھا۔ فقیر نے باعث رغبت خان والا شان اس داستان کی جان جو کہ مطبوع طبع اس نکتہ دان کی تھی نکال لی، خوگیر کی بھرتی اُچھال دی۔ غالب کہ منظور نظر اہل بصر ہو۔ اور اس کا مطالعہ مدنظر ہو۔ حظ اٹھائیں یا کچھ لطف پائیں تو گنہگار کو دعائے خیر سے بھول نہ جائیں۔ یاد فرمائیں اگرچہ پڑھنے لکھنے والے کم نہ ہوں گے۔ تاسف اتنا ہے کہ ہم نہ ہوں گے۔ قصہ اگر پسند آئیے گا تو مشہور ہو گا۔ ہمارا ذکر ضرور ہو گا۔ اس وقت سہو اور غلطی معاف کر کے طبیعت کدورت سے صاف کر کے بنظر انصاف جو صاحب اوصاف کلام سرور سے مسرور ہو تو اتنا کلمہ فرمائے کہ عاصی غلامان حسین علیہ السلام کے ہمراہ محشور ہو۔ نہ فردوسی رہا نہ خاقانی، نہ عرفی نہ سعدی ہے۔ شہرۂ آفاق اس سرا کی سراسر بے بنیادی ہے۔ ہزاروں جنگل ایک دم میں آباد ہو گئے۔ لاکھوں بسے بسائے شہر اس عالم میں برباد ہو گئے۔ شادی کیسی بڑا غم تو یہ ہے کہ دوام غم نہیں رہتا۔ ایک وضع پر طرز عالم نہیں رہتا۔ عجیب و غریب یہاں کا لکھا ہے۔ ایک کا جنازہ چار کے کندھے پر دیکھا ہے۔ ہر چند اس کی بھی کس کو امید ہے۔ مگر جس کا نام یہاں بہ نیکی رہ گیا ہے وہ ہی زندۂ جاوید ہے۔ دنیا میں سخت جانی سے کڑی نرم سب سہہ جاتا ہے۔ عالم اسباب کا اسب اب سب چھوٹتا ہے۔ غیر مزے لوٹتا ہے لیکن نام ہو یا بد وہ رہ جاتا ہے۔ نہ کچھ ساتھ لاتا ہے نہ لے جاتا ہے۔ جیسا عمل سرزد ہوتا ہے اس کی جزا پاتا ہے قلم بشکن سیاہی ریز کاغذ سوز دم درکش۔ حسن ایں قصۂ عشق ست در دفتر تمیگنجد۔ خدا کی عنایت سے آغاز اس کا خوب ہوا، بخیر انجام ہے۔ شگورہ محبت اس کا نام ہے۔ امیدوار پروردگار سے ہے کہ جب یہ داستان تمام ہو، مقبول خاؤ و عام ہوا۔
ابردا اس کہانی کی ہے جس کے ہر فقرے میں انتہا خوش بیانی کی ہے اضطرار میں نکلنا آذر شاہ کا پہاڑ پر مل جانا ولی اللہ کا
محرران حال و مآل شاہان گذشتہ مورخان ذی اعتبار تاریخ دان دانستہ لکھتے ہیں کہ یہ جو چاردانگ عالم ہندوستان مشہور ہے، شہر تو کیا ہر دیہ و قریہ تک اس کا لطافت اور حسن و خوبی سے معمور ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کا تاجدار پُر صولت
شگوفۂ محبت صفحہ 7
باوقار آذر شاہ معدلت پناہ تھا۔ سزاوار اریکۂ جہان بانی بزم افروز محفل کیانی
بہت بادشاہ اس کو دیتی تھی باج
خطا و ختن تک تھا اس کا خراج
کوئی دیکھتا آ کے گر اس کی فوج
سمجھتا کہ ہے بحر ہستی کی موج
عدل و داد کہ ملک جس سے آباد ہوتا ہے رعایا کا دل شاد ہوتا ہے اس میں بیمثل لاثانی تھا۔ فی الحقیقت زینت بخش سریر سلطانی تھا۔ گردن کچان دہر غاشیۂ اطاعت بر دوش رہتے تھے۔ سطوت و صولت سے باختہ سب کے ہوش رہتے تھے۔ فوج ظفر موج عدد اور شمار سے افزوں ہزراہا گنج رشک خزانۂ قارون وزیر امیر عقیل امانت دار دیانت شعار پسینے پر لہو بہانے والے جان نثار ندیم فہیم ادیب غریب فہمیدہ طبیب عجیب سنجیدہ زمانے کے چیدہ امورات جہان نیرنگی گردون گردان سے فارغ البال لاولدی کے غم چھٹ رنج نہ ملال، اکثر سلطنت کی ضرورت سے فرصت پا کے تخلیہ میں وہ ندیم تجربہ رسیدہ سیاہ روزگار اور وہ حکیم جہان دیدہ فلاطور شعار جو تھے سب کو بلا کے ان سے گفتگو رہتی تھی۔ کہ دنیا مقام گذران ہے۔ ہر شخص یہاں رواں دوان ہے۔ بجز ذات پروردگار یہان کے لیل و نہار کو ایک ڈھنگ پر دم بھر ثبات و قرار نہیں۔ یہاں کہ ہر شے سے پیدا ہے کہ پائدار نہیں۔ خدا نے ساز و سامان سلطنت اسباب شوکت و حشمت سب کچھ عطا کیا مگر وارث اس کا جو پیدا نہ ہوا تو ہم نے یہ سب جمع کر کے کیا کیا جو کچھ ہے، ہم تو اس کے چھوڑنے کی حسرت قبر میں لے جائیں گے۔ غیر اس پر قبضہ کر کے زندگی کے مزے اڑائیں گے۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ زیادہ بوجھ اپنے سر پر نہ لیجیے، چھوٹ جانے سے پہلے سلطنت کو چھوڑ دیجیے۔ اس کے جواب میں متفق اللفظ سب تسکین اور تشفی کے کلام عرض کرتے تھے کہ آپ اتنا نہ گھبرائیے۔ ایسے خیال مزاج مبارک میں نہ لائیں۔ ہر شے کے واسطے ایک وقت معین مقرر ہے۔ غیب کی کس کو خبر ہے۔ کسی کو دقت سے پیش اور مقدر سے بیش کچھ ملا نہیں حاکم کا گلہ نہیں۔ یہ سن کے چپ ہو رہتا۔ گو دل کا نہ ملال جاتا، کج بحثی نہ کرتا۔ ٹال جاتا۔ ایک روز نصف شب گزری، اس کی آنکھ کھل گئی، وہی خیال بہرحال رہتا تھا، صدمے سہتا تھا، الجھن میں نیند نہ آئی، دفعۃً زیادہ جو گھبرایا، سلطنت سے منہ کو موڑا، سرد آہ بھر کر گرم رفتار ہوا، شہر کو خالی چھوڑا، بے توشہ و زاد راہ وہ بادشاہ جنگل کی طرف
شگوفۂ محبت صفحہ 8
چل نکلا۔ شب تیرہ و تار رفیق نہ غمگسار اندھیری رات، میدان کی سائیں سائیں، عقل گم، ہوش حواس پران، نہ سواری کا اہتمام، نہ لوگوں کی دھوم دھام، نہ صدائے نقارہ، نہ ندائے بوق و کوس، پیادہ یایکہ۔۔۔ تنہا بصد حسرت و افسوس، بُری نوبت سے کئی کوس طے کیے کہ فلک جفا پسند پر گزند نے وہ خراب حال دکھانے کو شمع مومی و کافوری کے فراق میں جلانے کو مشعل ماہ آسمان اول پر روشن کی۔ اب جو کوئی ٹھوکر کھائے تو پستی و بلندی نظر آئے۔ پہاڑ دیکھا سر بفلک کشیدہ چوٹی اُس کی آسمان سے ملی، ہر قسم کا درخت خود رو پھلا پھلا تھا۔ جنگل تک پھولوں کی بو باس سے مہک رہا تھا، جس کو جینے سے یاس ہو، اس کو مرنے کا کب وسواس ہو۔ بادشاہ کو نہ درندے کا ڈر تھا نہ گزندہ سے خوف و خطر تھا۔ مردانہ وار قدم ہمت بڑھاتا تھا۔ بے تکلف اس نشیب و فراز میں چڑھا جاتا تھا، جب تھکتا تو کسی پتھر پر بیٹھ جاتا۔ دم لیکے آگے قدم اٹھاتا۔ القصہ بہزار خرابی راہ طے کی۔ اوپر پہونچا۔ اس عرصے میں صبح کا سپیدا چمکا۔ جانوران خوش الحان بذکر یزداںزمزمہ سنج اور نغمہ پرواز ہوئے۔ در اجابت حاجتمند و پنر باز ہوئے اور سجادہ نشین چرخ اول نے جانماز انجم لپیٹی۔ و الفجر کی صدا آئی۔ زاہد فلک چارم چونکا، اپنی چمک دمک دکھائی، جہاں تک نگاہ گئی گہلائے رنگا رنگ نظر آئے۔ چشمہ ہاے سرد و شیریں جا بجا جاری پائے۔ اس نے وضو کر کے نماز صبح پڑھی پھر دستِ دعا بدرگاہ خالقِ ارض و سما بلند کر کےبہت رویا، کہا اے پروردگار کل تو وہ شان و شوکت تھی آج عالم تنہائی اور یہ سامان ہے۔ تو قادر و توانا علیم و دانا ہے، اگر مژدۂ تمنا پاؤں گا تو مُنہ لوگوں کو دکھاؤں گا، وگرنہ اس پہاڑ سے نیچے گر کے جان دوں گا۔ دربدر بھٹکتا نہ پھروں گا۔ یہ تو اس شغل میں تھا، دفعۃً ایک مرد بزرگ سن رسیدہ گرم سرد زمانہ دیدہ نظر آئے۔ عمامہ سر پر عبا زیب دوش و بر داہنے ہاتھ کنٹھا بائیں میں عصا، زیتون کا وظیفہ پڑھتا قریب آیا۔ بادشاہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ سلام کیا۔ اس نے جواب دے کر کہا، اے شہر یار باوقار اتنے سے امتحان میں اس کی رحمت کی وسعت کو بھول گئے۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ آذر شاہ سمجھا کہ گو اس کا مسکن کہ وجبال ہے مگر یہ برگزیدہ مقرر صاحب کمال ہے۔ لجاجت اور سماجت سے اپنی گذشتہ داستان مشروحاً بیان کی۔ اس مقبول ذوالجلال شیریں مقال نے
شگوفۂ محبت صفحہ 9
فرمایا کہ یہ امور تقدیر ہیں۔ اضطراب اس میں بیجا ہے۔ بابا دنیا کا معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ حکومت تدبیر عقل مال و زر فوج لشکر یہاں سب کچھ بیکار ہے۔ حاکم احکم الحاکمین ہے، اس کا اختیار ہے بہر حال اسی سے التجا کرو۔ محتاجوں کی حاجت بر لاؤ، بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑے پہناؤ۔ سوال کسی کا نہ رد کرو۔ دعا مانگنے میں کد کرو، وہ ارحم الراحمین مشہور ہے۔ اس کی عنایت سے کیا دور ہے کہ نخل تمنا تمہارا گل و بار لاے۔ فرزند سعادتمند پروردگار مرحمت فرمائے۔ اس کلام سے بادشاہ کی یاش امید سے بدل گئی۔ طبیعت سنبھل گئی۔ پوچھا کہ آپ کون ہیں، جگہ یہ کیا ہے، بود و باس کیونکر ہے، معاش کیونکر ہے، تنہا ہو یا شریک اور کوئی بندہ خدا ہے۔ دن رات کس شغل میں بسر ہوتی ہے۔ شامِ تنہا کس طرح سحر ہوتی ہے۔ وہ مرد پیر باول دلگیر بیٹھ گیا، کہا اے سلطان ذی شان یہ بڑی داشتان ہے مگر عبر کرنے کا بیان ہے۔ اور تو مضطر ہے۔ تجھ سے کہنا بہتر ہے۔ بگوش ہوش سُن اے والا نزاد بندہ بھی آدم زاد ہے۔ یہ جو موسم جوانی عالم شباب ہوتا ہے بہت خراب ہوتا ہے۔ انسان بے خوف و خطر ہوتا ہے۔ نہ خدا سے شرم نہ حاکم کا ڈر ہوتا ہے۔ ان دنوں میرا پیشہ قضاقی کا تھا۔ انکار خدا کی رزاقی کا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں یہ طاقت تھی کہ ہزار جوان جرار کا یکہ و تنہا مقابلہ کرتا تھا۔ قتل اور غارت پر اوقات تھی۔ بہ تمنائے زر و مال بہرحال دن رات کشت و خون میں اوقات بسر ہوتی تھی۔ نفع دنیا میں عقبیٰ کا ضرر تھا۔ مجھ کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی۔ اتفاقات زمانہ ایک پری پیکر نوجوان بالباس پر زر سترہ اٹھارہ برس کا سن شباب کے دن برق دم گھوڑا طلائی مرصع کار ساز ویراق ہتھیار کی قسم سے فقط قرولی کمر میں۔ خود غرق دریائے جواہر مگر اس غزال چشم کے شیر سے بُرے تیور نین تو ہزار خونخوار کا تنہا شکار کرتا تھا۔ وہ جو نموو ہوا تو نظر میں جلوائے بے۔۔۔۔ ہوا۔ نرم آواز سے میں نے کہا یہ سب ساز و ساقمان اے نادان یہاں رکھ دے اور گھر کو سیدھ پھر جا۔ تیرے حال پر رحم آتا ہے۔ اس صورت کے انسان کو کون ستاتا ہے۔ اسے نہ خوف ہوا نہ ہراس ہوا۔ نہ مجھ سے ایذا پہنچنے کا وسواس ہوا۔ بکشادہ پیشانی میرے پاس آ کے جواب دیا کہ اے شخص تو بھی بشر ہے۔ بندۂ خدا ہے مگر یہ کام جو تون ے اختیار کیا ہے اس میں شر ہی بہت بُرا ہے۔ در توبہ باز ہے آقا بندہ نواز ہے۔ اس فعل لغو سے منفعل ہو۔ توبہ کر۔ میرے خیال سے درگذر کہ میں ستم رسیدہ یکہ و تنہا
شگوفۂ محبت صفحہ 10
جریدہ ہوں مورد رنج و محن غریب الوطن یارو دیار سے جدا اللہ اعلم ہے کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ا ور جو تجھ کو اپنے زور و طاقت کا گھمنڈ ہے تو بیجا ہے کہ ہر فرعون کے واسطے ایک موسیٰ خلق میں خلق ہوا ہے۔ مجھ کو اسکے کلام پر ہنسی آئی۔ ترش رو ہو کے اس سے کہا صاحبزادے ملک الموت سے درشت کلام کرتا ہے۔ کوئی ایسا کام کرتا ہے۔ مصلحت یہی ہے کہ اسباب اور گھوڑا مجھے دے، پیادہ پا اپنی راہ لے۔ کیوں بے گور و کفن طعمۂ زاغ و زغن ہوتا ہے۔ جان سی چیز جنگل میں کھوتا ہے۔ یہ بات سن کر اس نے تیور بدلے، کہا، اے مردک کیا جھک مارتا ہے۔ شیخی بگھارتا ہے۔ انکار قدرت خدا کرتا ہے۔ دیکھوں تو میرا کیا کرتا ہے۔ پھر تو بموجب مثل کمزور پر غصہ جلد آتا ہے۔ نزلہ برضعیف مے ریزد میں نے کمان کا حلقہ کاندھے سے اتار اور یہ سوچا دو چار تیر بے تاخیر بچا کے اس کو لگاؤ کہ ڈر جائے۔ مال اسباب یہاں دھر جائے۔ میں نے کمان کھینچی، اس نے قرولی جو تیر قریب آیا بوضع دلکش کاٹا۔ قصہ مختصر سارا ترکش کاٹا۔ پھر تو میں جھلایا، تلوار کھینچ کے اس کے برابر آیا۔ خبردار کہہ کے وار کیا۔ اس نے چالاکی سے تجب کار کیا کہ وہی قرولی قبضے میں ڈال کر جھٹکا جو دیا، تلوار نے ہاتھ سے نکل کے میدان کا رستہ لیا اور دفعتہً بایاں ہاتھ بڑھا کے میری گردن پکڑی۔ گویا ملک الموت کے پنجے میں آئی۔ دم گھٹنے لگا، گلے کا فشار ہوا۔ یقین ہو گیا کہ انگوٹھا اس کا حلق اور گردن میں دوسار ہوا۔ مجھ کو غش آ گیا۔ دو گھری کے بعد جو آنکھ کھلی، دیکھا سرنگوں باگ ڈور سے بندھا درخت میں لٹکتا ہوں۔ اس کو جو پاس پایا، آپ کو بدحواس پایا۔ ڈر کے مارے زار و نالے کرنے لگا۔ اپنا عجز اس فعل قبیح کا انکار، اس پر حالی کرنے لگا۔ جس دم قسمیں زبان پر لایا، اس جرار کو رحم آیا۔ فوراً مجھ کو درخت سے کھول دیا اور میرے ہتھیار اس اشجع روزگار نے مجھ کو دے کے قریب بلایا، فرمایا، خبردار جس بات کو تو انکار کرتا ہے، اس کام کو زینہار نہ کرنا۔ قضاقی کے قصد پر اس دشت میں قدم نہ دھرنا۔ جو روزی کی فکر ہو تو پروردگار صادق الاقرار ہے، اس نے فرمایا ہے، قرآن مجید میں آیا ہے, وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّ۔هِ رِزْقُهَا، اور رسول الثقلین لو کان تحت الجبلین فرماتے ہیں۔ بشر اپنی حماقت سے گھبراتے ہیں۔ خالق بہر کیف اپنے بندے کو روزی پہونچاتا ہے۔ بھوکا اٹھاتا ہے، پیٹ بھر کے
شگوفۂ محبت صفحہ 11
سُلاتا ہے۔ ع :
مگر نشنیدۂ بیدل خدا داری چہ غم داری،
جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو
اب دانت بھئے کا ان نہ دہیے
یہ فرما کے وہ تو چل نکلا۔ مجھ کو تمام دن حیرت رہی۔ وہ ذلت و خواری جو مجھ پر گذری تھی، اس کی غیرت رہی۔ تمام رات نیند نہ آئی۔ صبح کو وہ مال اسباب جو حرام کا جمع کیا تھا، اس کو لٹا کے ایک سمت چلا اور دل میں یہ عزم بالجزم ہوا کہ اگر اکل حلال بہ مشقت کمال میسر ہوا تو کھاؤں گا، ورنہ فاقے کر کے مر جاؤں گا۔ انسان تو سست اساس ہے، بہت بدحواس ہے۔ یہ خیال آیا کہ اب دیکھیے کیوں کر آب و دانہ ملتا ہے۔ اس دشت پُرخار میں کیا گل کھلتا ہے۔ چلتے چلتے جب تھکا، ایک درخت سایہ دار دیکھ کے بیٹھا۔ بسکہ وہ خوش قطع تھا، بغور اس کو دیکھنے لگا۔ عجب ماجرا نظر آیا۔ ایک کوا بے پر و بال بُرا حال اس کے کول میں گردن باہر نکالے پڑا تھا۔ مجھ کو پھر وہی خیال آیا کہ اس کے دانے اور پانی کی زندگانی کی صورت کیوں کر ہوتی ہو گی۔ یہ تو درخت سے نیچے آتا نہ ہو گا، کچھ پیتا کھاتا نہ ہو گا۔ ابھی یہ وسوسہ دور نہ ہوا تھا کہ ایک باز تیز پرواز جانور پنجے میں دبائے ٹہنی پر آ بیٹھا۔ وہ جو شکار لایا تھا، پنجے میں جسے دبایا تھا، اس کا گوشت نوچ نوچ کر کچھ کھانے لگا کچھ گرانے لگا۔ غور جو کرتا ہوں تو کیا دیکھا جو کچھ باز گراتا ہے وہ کوے کے مُنہ میں آتا ہے۔ بے تکلف کھاتا ہے۔ جب کوا سیر ہوا، گردن کو اندر کھینچا، باز اُڑ گیا، مجھ پر عجب حال طاری ہوا۔ بارے قائل قدرت باری ہوا۔ دل سے کہا جل جلالہ یہ جو سنتے تھے، درست ہے۔
بے مگس روزی نماند عنکبوت
رزق را روزی رساں پرمیدہد
جو تقدیر میں ہے اُڑ کے اسطرح آتا ہے۔ بے ہاتھ پاؤں ہلائے حلق میں اتر جاتا ہے۔ اسی دن اس پہاڑ پر پھرتا پھرتا آ نکلا۔ یہاں کی بہار جابجا چشمہ ہائے سرد و شیریں خوشگوار گل بوٹے کی دید مجمع خلق سے بعید تنہائی بہت پسند آئی۔ یہ مصرع پڑھ کے بیٹھ رہا۔ ع
اوقات مکن ضائع و تنہا بنشین
ازروے حساب بہر حال چالیس سال گذر گئے، دود دام سے صحبت رہتی ہے۔ جانوروں کی طرف رغبت رہتی ہے۔ جس لذیذ طعام پر خواہش ہوتی ہے، سرِ شام رازق مطلق اس مقام پر بھیج دیتا ہے۔ نہ جستجو کرتا ہوں نہ کاہش ہوتی ہے۔ سیر ہو کے کھاتا ہوں۔ ولی نعمت کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔ بعد نماز عشاء صدا کان میں آئی تھی، ہاتف نے تیرے آنے کی خبر سنائی تھی کہ آذر شاہ بحال تباہ فرزند کی حسرت میں
شگوفۂ محبت صفحہ 12
اس پہاڑ پر آئے گا اور مایوس ہو کے مر جانے کا خیال دل میں لائے گا تو اس کو منع کرنا، سمجھانا، لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّ۔هِ پڑھ کر سنانا، کہہ دینا کہ اپنے ملک کو پھر جا اور خاقان چین سے اس کی بیٹی کا پیام دے۔ عجب وہ یاسمین پیکر گل اندام ہے، سمن رخ اس مہر جبین کا نام ہے۔ نمونہ کلک قدرت صانع نادر نگا ہے۔ یکتائے روزگار ہے۔ جب اس کے ساتھ تیری شادی ہو گی، تخل تمنا بار لائے گا۔ خانہ آبادی ہو گی۔ لیکن تیری پہلی عورت جو زلالہ ہے وہ سخت دلالہ ہے۔ اس پر سحر کرے گی۔ چندے اس کو جنون ہو جائے گا۔ حال زار زبون ہو جائے گا۔ مگر با دعائے درویش وہ دلریش نجات پائے گی۔ تیری مراد بر آئے گی۔ یہ کلمہ کہہ کے وہ تو ایک سمت رواں ہوا، آنکھوں سے نہاں ہوا۔ آذر شاہ بہت شاد ہوا۔ بند فکر سے آزاد ہوا۔ دل میں سوچا کہ دن زیادہ آیا، واللہ اعلم شہر کتنی دور ہے۔ بندہ پیادہ راہ چلنے سے معذور ہے۔ یہ تو اس خیال میں لب چشمہ حیران تھا، ہر طرف نگران تھا، اب دو فقرے ان کی ملازمان خاص کے سینے کہ دم سحر بصد کروفر وزیر امیر ارکان سلطنت ترقیخوہاں دولت در دیوان خاص پر حاضر ہوئے۔ یہاں سناٹا نظر آیا۔ ہر ایک کو بحال یاس سراسیمہ و بدحواس پایا۔ معلوم ہوا کہ شب کو شاہ کیوان جاہ کسی سمت راہی ہوا۔ زمانہ سب کی نظر میں سیاہ ہو گیا۔ ہر شخص کا حال تباہ ہو گیا۔ وزیر صائب تدبیر نے پہلے تو شہر کا بند و بست کیا، کوتوال کو حکم نگہبانی ہوا وہ مصروف جانفشانی ہوا۔ سب نے بادلِ درد مند شہر کے دروازے بند کیے۔ فرمایا کہ بجز مسافر کوئی اندر آنے نہ پائے۔ شہر سے جانے نہ پائے۔ پھر اپنا سر اور منہ آغشہ بہ خاک کیا۔ تا دامن گریبان چاک کیا۔ کچھ سورا جرار تھوڑے سے پیادے ہمراہ لے کے بہ تلاش شاہ گم گشتہ وہ جگر برشتہ شہر سے باہر نکلا۔ جا بجا خاک اُڑاتا پتا لگاتا چلا۔ قضاے کار اتفاقات روزگار اسی پہاڑ کے قریب پہونچا۔ دل میں آیا اس کے اوپر چلو، کیا عجب ہے کہ اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے۔ بادشاہ یہیں مل جائے۔ القصہ بجد و کد پہاڑ پر چڑھا۔ دور سے بادشاہ اسی چشمہ پر نظر پڑا۔ تشنۂ دیدار نے غریق بحر ذخار نے ساحل کامیابی پایا۔ دوڑ کر لپٹ گیا۔ رونے لگا۔ داغ مہاجرت دھونے لگا۔ الغرض شوکت و شان ساز و سامان سے بادشاہ کو لے کے شہر میں داخل ہوا۔ جس مطلب کو جویا تھا حاصل ہوا۔ جان نثاروں نے نذریں دیں، خلعت و انعام پائے۔ خوش و خرم اپنے اپنے
شگوفۂ محبت صفحہ 13
گھر آئے۔ شاہ ذی جاہ امور سلطنت میں موافق معمول مشغول تو ہوا مگر ہر دم فراق سمن رخ میں انتظام شہر کا بھولا۔ یہ تازہ شگوفہ پھولا۔ گل رخسار کی بہار پر خزاں چھائی۔ زعفران زر کی کیفیت نظر آئی۔ نخلِ محبت نے سینہ میں لگاؤ کیا۔ الفت کے کانٹے نے جگر میں کھٹک کی۔ کلیجے میں گھاؤ کیا۔ نہ گل و گلزار کی سیر سے رغبت رہی، نہ معاملات سے کچھ کام رہا۔ نہ گانا سُنا، نہ ناچ دیکھا۔ نہ شرب بادہ علی الدوام رہا، جو کہیں کھڑا ہو گیا تو بت کی طرح کھڑا رہا۔ جو پلنگ پر گر پڑا تو بہ خدا گھڑیوں پڑا رہا۔ لب خشک آنکھیں پرنم ہوئیں۔ اندوہ کی کثرت خوشی کی صحبتیں برہم ہوئیں۔
کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے
تو کہنا کہ بہتر ہے منگوائیے
کسی کی تلاش میں خود رفتہ ہو حیرت زدہ ہر طرف نگاہ کرنے لگا۔ سوزش دل کی دم سرو نے تسکین کی۔ جی گھبرایا تو آہ آہ کرنے لگا۔ ہوش و حواس سر سے یکسر سرکے۔ عقل اور عشق میں لڑائی ہونے لگی۔ متاع صبر و خرد لُٹ گئی۔ عنان ضبط ہاتھ سے چُھٹ گئی۔ مملکت جسم کی تباہی ہونے لگی۔ دست جنوں تا گریباں پہونچا۔جیب کا چاک سرِ داماں پہونچا۔ بھوک پیاس پاس نہ آئی۔ غم کھا کے آنسو پینا اختیار کیا۔ فرقت جاناں میں مر مر کے جینا اخیتار کیا۔ جنگل سے رغبت ہوئی۔ بستی اجاڑ معلوم ہونے لگی۔ تنہائی کا دن تڑپ کے کاٹا۔ فرقت کی رات پہاڑ معلوم ہونے لگی۔ دربار میں آیا تو مجمع سے گھبرانے لگا۔ اکیلا ہوا تو سر پٹک کے پچھاڑیں کھانے لگا۔ صبح سے تا شام آہ و زاری کی۔ شام سے صبح تک تارے گنے۔ بیقراری کے دن کو گلزار میں اگر گذر ہوا، گل و بلبل کی صحبت کا خار ہوا۔ رات کا جلسہ مد نظر ٹھہرا تو شمع پروانے کی گرم جوشی دیکھ کے بخار ہوا۔ الغرض جب خلاف مقدموں کو طول ہوا تو سلطنت کی بربادی سے ہر ایک جان نثار نمکخوار ملول ہوا۔ زمانۂ سابق میں اس قدر لوگ بدنام نہ تھے۔ نرے خود کام نہ تھے۔ باہم سب نے جمع ہو کے بصد پریشانی عقل و دور اندیش سے کام لیا۔ ذہن جو لگایا تو بالاتفاق طبیعت کا میلان کسی جانب ٹھہرایا۔
مُنہ پر اس کے جو رنگ خوں نہیں
عشق ہے صاف یہ جنوں نہیں
ایک روز سر پاؤں پر دھر بجرأت تمامتر وزیر اعظم عرض پیرا ہوا کہ ہم لوگ خانہ زاد ہیں،۔ جان نثار ہیں، جس جا حضرت کا پسینہ گرے اپنا لہو بہانے کو تیار ہیں۔ لیکن کچھ اشارہ اگر پائیں، جان جوکھوں کر کے خدمت بجا لائیں، ورنہ ہم سب اپنا سر زیر قدم فدا کریں گے۔
شگوفۂ محبت صفحہ 14
اور تو کیا کریں گے۔ اس وقت چار و ناچار بجز اظہار حال آذر شاہ کو چارہ نہ ہوا، ذکر چھڑ جو گیا یارہ نہ ہوا۔ ابتدا سے انتہا تک پہاڑ پر جانا ملاقات کا ہونا جو حقیقت گذری تھی وہ سب کہہ سنائی۔ پھر فرمایا کہ بے وصل سمن رخ اپنا وصال ہے۔ فرقت میں جینا محال ہے۔ جب سرگذشت بادشاہ کی وُن لی، متفق اللفظ سب نے عرض کی کہ پیر و مرشد جو بادشاہ ہے، در دولت کا گدا ہے، اور جس جا جو حاکم ہے وہ حضرت کا محکوم ہے۔ چار دانگ میں اس سلطنت کا شہرہ ہے۔ صولت و سطوت کی دھوم ہے۔ کس کی مجال ہے جو نافرمانی کرے۔ تلخ چار دن کی زندگانی کرے۔ وزیر اعظم کی صلاح ہوئی کہ غلام پہلے ایلچی کے ہاتھ نامہ روانہ کرتا ہے۔ دیکھیے تو وہ راضی ہوتا ہے یا کوئی بہانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جو مصلحت وقت ہو گی وہ بات کریں گے۔ جو صلح میں مطلب بر آیا تو خیر نہیں شر ہو گا۔ لڑیں گے۔ پیر و مرشد خاطر مبارک بہر کیف جمع فرمائیں جس کام میں دل لگے، جی بہلائیں۔ ان شاء اللہ المستعان بفضل یزدان قریب تر حسب دلخواہ یہ امر ظہور میں آتا ہے۔ خدا نے چاہا تو پیک خوش قدم شادی کا پیام ادھر سے لاتا ہے۔ یہ رائے بادشاہ نے بہت پسند کی۔ ذہن کی رسائی پر تحسین و آفرین فرمائی اور وہ جو تڑپ دل میں بیقراری آب و گل میں تھی اس سے نجات پائی۔ پھر منشی بے نظیر جادو تحریر کو یاد فرمایا۔ اس نے نیزۂ واسطی ہاتھ میں اٹھا کے سمند طبع کو صفحۂ قرطاس پر مہمیز اور تازیانہ فکر کہ چھپکے تو سن ذہن رسا کی دوردمی دکھا کے زبان خامہ کو حمد و نعت میں گہر ریز کیا۔
صلاح سے دبیر خجستہ تدبیر کی ایلچی روانہ کرنا آذر شاہ کا خاقان چین کو اور نامہ مسلل لکھنا منشی ترقیخواہ کا، طلب کرنا او مہ جبین کو
پس از حمد و سپاس خالق دو جہان صانع انس و جان جس نے یہ خیمۂ رنگاری بے چوب ریسمان استاد کیا اور ستاروں کی گلکاری بے مدد دست و قلم دکھا کے خاک کا فرش بروے آب رواں ایجاد کیا۔ اور اپنی صنعت نادر نگار سے فیض ترشح ابر بہار سے زمین کو پہونچا کہ قوت نامیہ عطا کی۔ کیا کیا سرو شمشاد نسرین و نسترن نے اس بے بنیاد گلشن میں سر اٹھایا اور کون کون سا گل بوٹا اس خاکدان پر محن میں کھلایا اور اس کی بو باس اور جوبن سے کس کس پُر الم کا
شگوفۂ محبت صفحہ 15
آسمان ٹوٹا، کوئی غریب دیار ہوا، کوئی دام میں گرفتار ہوا، کسی سے گلشن چھوٹا پر وہ بہار اور خزان کا حائل کیا کسی کا حلقۂ اطاعت قمری کی گردن میں ڈالا، کسی پر بلبل کا دل مائل کیا۔ ایک محبت کی شمشیر آبدار اس کے زخمی ہزاروں ہزار اس رمز میں بڑے بڑے دور بینوں کو سرگردانی رہی۔ آخر کار آئینہ وار حیرانی رہی۔ جتنا چھانا کر کرایا یا جب آنکھیں بہم پہونچائیں کچھ نظر نہ آیا۔ مجبور ہو کے مبہوت ہوئے۔ جسقدر تخلیہ تھے منجربہ سکوت ہوئے۔ سر جھکانے اور خاموشی کے سوا چارہ نہوا۔ دم مارنے کا یارا نہ ہوا اور تحفہ درود و سلام اس برگزیدۂ خاص و عام کے وسطے ہے جس نے شمع ہدایت روشن کر کے تیرۂ باطن جو گم کردہ راہ تھے، صراط مستقیم سے نہ آگاہ تھے، ان کو اسلام سے مشرف کیا۔ کفر و ضلالت سے بچایا، جہالت سے چھڑایا۔ زندگی کا لطف اٹھانے کو سلسلہ اتحاد میں الجھایا، راحت اور آرام پانے کو سررشتہ محبت و داد میں پھنسایا کہ خیر و شر سے ماہر ہو کے باہم بود و باش کریں۔ ع
دو دل یک شود بشکند کوہ را
شراکت میں تلاش معاش کریں، چنانچہ کافۂ انام میں بلکہ خاص و عام میں بحکم شرع شریف قرابت قریبہ کا ظہور ہوا۔ وہ جو تہلکہ بیگانگی کا معاملہ خانہ بدوشی کا تھا باہم کی روپوشی کا تھا درمیان سے دور ہوا۔ ہر چند ہر ملت و مذہب میں محبت کا طریقہ مروت کا سلیقہ قرابت کا ہونا بیگانگی کا کھونا سب کو پسند ہے۔ دانا ہونا یہ نادان، اس کا بہت خواہشمند ہے۔ اس واسطے کہ ع
بنی آدم اعضاے یک دیگر اند
بدہین یا نیک ہیں، حقیقت میں دونوں ایک ہیں، نہ کہ دو سریر آراے اریکۂ جہان بانی اور دو تاجدار رونق افزاے دیہیم سلطانی یہ رسم مرسلان ذوالجلال اور طریقہ آبا و اجداد ستورہ افعال باہم بجا لائیں تو بندہ ہاے نیکو کردار کہ بدایع و وایع پروردگار ہیں، کسقدر منفعت اور مسرت پائیں۔ محتاجوں کی حاجت روا ہوا، اہل حرفہ کو نفع پہونچے بھلا ہو، گو صرف فی الحال زیادہ ہو مگر دو مملکت ایک ہوں تو دولت اور مال زیادہ ہو۔ جب دوستوں میں شادی ہوتی ہے تو بیشک دشمن کو غم ہوتا ہے۔ خانہ بربادی ہوتی ہے۔ ورنیولا دل صفا منزل کہ مرأت جہان نما ہی بقول مشہور خانۂ خدا ہے۔ اس میں یہ امر عکس افگن ہوا ہے کہ فیما بین سواے روابط دیرینہ کوئی سررشتہ جدید کا قرینہ پیدا ہو کہ اکثر جو مخفی امور ہیں ان کا نتیجہ اس کائنات بے ثبات میں ہویدا ہو جو کام ہو
شگوفۂ محبت صفحہ 16
حسب احکام خدا ورسول ہو کہ خاص و عام کو گفتگو کی جگہ نہ ہو۔ قبول ہو یہ جو حکم مثنے و ثلث و رباع آیا ہے، یہ اشارہ گروہ سلاطین کی طرف شارع متین نے فرمایا ہے۔ لہذا خالق کا فرمان بجا لانا مخلوق کو پر ضرور ہے۔ انکار میں فتور ہے اور یقین ہے کہ وقائع نگاروں سے گوش حق نیوش تک یہ خبر پہونچی ہو کہ مملکتِ دکن میں چند اشرار سرگشتۂ بادیۂ ادبار متفق ہو کے راہزنی کرتے تھے۔ کچھ مال حرام اور بدمعاش قلاش بد انجام بصد پریشانی جمع کر کے سیاحان رو نورد کو تاجران جہان گرد کو ایذا دیتے تھے۔ مال اسباب چھین لیتے تھے۔ جس وقت یہ خبر بیجا متکفلان اخبر ہر شہر و دیار سے گوش زد ہوئی۔ بیخ کنی اس گروہ دنی کی منظور ہوئی۔ قلع و قمع کی کد ہوئی۔ مقربان بارگاہ قلیل سپاہ ہمرہ لیکے روان ہوے۔ جلوریز ان خود سروں کو یلان خنبر گذارنے بہ تیغ آبدار کیا۔ مسافر گل چھرے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ تمام راہوں کو بنچار کیا۔ دوسرے فتح ملک زنگبار اور تنبیہ اس فرقۂ تیرہ روزگار کی خاطر والا پر روشن ہوئی ہو گی۔ یہ امانت پروردگار جو ہماری ظل عنایت تحت حکومت ہے دن رات ان کی پاسبانی اور راحت رسانی میں بسر ہوتی ہے۔ تامظلوم کو ظالم سے، محکوم کو حاکم سے گزند و ضرر نہ پہونچے۔ تافلک ان کا شور و شر نہ پہونچے۔ انہیں مشغلوں کے باعث چندے رسل و رسائل میں توقف ہو اور نہ بیشتر دل خیریت طلب جویاے خبر صحت و سلامت ذات خجستہ صفات ہر اوقات میں رہتا ہے۔ والسلام نامہ تمام ہوا۔ کچھ اور تحفہ ہاے شہر و دیار نو اور روزگار مع نامہ جان نثار خان کابلی کو دے کے رخصت کیا اور یہ فرمایا جسقدر سریع السیری جانے آنے میں ہو گی، ناموری زمانے میں ہو گی۔ باعث تقرب بارگاہ آسمان جاہ ہو گا۔ خورسند مزاج ظل اللہ ہو گا۔ ایلچی برق و باد سے چست و تیرزہ نورد گرم خیز ہو کے عرصۂ قلیل میں برسر منزل مقصد پہونچا۔ وہاں اس کی آمد کی خبر ورود سے پیشتر ہو چکی تھی۔ سرِ راہ ناظموں کو فرمان اہالیان سلطانے بھیجدیے تھے۔ ہر منزل و مقام میں صبح و شام اسے آسائش ملی جو شے درکار ہوئی بے فرمائش ملی۔ جس دم بیت السلطنت میں داخل ہوا، وزیر کے روبرو ہاتھوں ہاتھ لوگ لے گئے۔ پہلے سے بود و باش کو مکان اکل و شرب کا
شگوفۂ محبت صفحہ 17
سامان تیار تھا۔ اس میں اس کو اتارا۔ ملازمت کا وعدہ دو دن کے وقفے پر ہوا۔ القصہ بروز معہود و ساعت مسعود وزیر اعظم نامہ بر کو ہمراہ لیکے حضور میں حاضر ہوا۔ طریقہ ملازمت شہر یار و شاہ سے یہ دستور دان آگاہ تھا۔ بعنوان شائستہ نامہ پیشکش کیا۔ تحائف گذرانے اور تقریر زبانی اپنی خوش بیانی سے بادشاہ کو بہت راضی کیا۔ تادیر ذکر حال و ماضی کیا۔ منشی بدیع نگار داناے روزگار طلب ہوا۔ نامہ سربستہ کھول کے زر و جواہر میں تول کے پڑھنے لگا۔ شہریار کا مگارنے حمد و نعت کو بہ کشادہ پیشانی سنا۔ وہ نکتہ جو مطلب خیز تھا، وہاں تجاہل عارفانہ کر کے بگوش نادانی سُنا۔ سطوت و صولت پر فرمایا۔ بادشاہوں کا یہی کام ہے۔ فتح و شکست کی جازبان پر آیا۔ گردش ایام ہے۔ القصہ حرف حرف وہ ماجراے شگرف سن کے ایلچی کو بقدر لیاقت خلعت و انعام دیا۔ چندے حکم قیام دیا۔ یہ تو رخصت ہو کر اپنے مکان پر آیا۔ وہاں مقربان بارگاہ دانایان ترقی خواہ کو خلوت میں یاد فرمایا۔ بعد رد و قدح یہ بات نکلی کہ اگر اس کام کا انکار ہو تو ملک الموت کی گرم بازاری کیجیے۔ مرنے کی تیاری کیجیے۔وہ الوالعزم ہے۔ آمادۂ نبرد مستعد پیکار ہو گا۔ بندہ ہائے خدا کا ناحق کشت و خون ہو جائے گا۔ ملک ویران رعیت نالاں سب کا حالِ زار و زبون ہو جائے گا۔ مناسب یہی ہے کہ بخوشی و خرمی اس امر کا اقبال ہو۔ موقوف جنگ و جدال ہوا۔ اس راے کو بادشاہ نے بھی پسند کیا۔ نامہ کا جواب القاب آداب محرر نے قلمبند کیا۔
انشا پردازی دبیر خاقان چین کی ظاہر انکار باطن میں اقرار کس خوبصورتی سے نہیں نہیں کی
مستوجب حمد قابل ثنا وہ صناع عجائب نگار ہے جو ۔۔۔۔ سے سلیمان کا جن و انساں کا پرودگار ہے، جس نے یہ ہفت گنبد بے ستون ودر ہموار اور مدور بناے اور مشعل مہر و ماہ سے شام و پگاہ میں فرق کیا۔ ستاروں کی چراغاں سے کیا کیا جھمکڑے نظر آئے، جو دن ہے تو کسقدر روشن ہے کہ بال کی کھال نظر آتی ہے۔ اگر رات ہے تو ظلمات ہے وہ تاریکی ہے کہ اپنا ہاتھ سرِ دست ہیہات سوجھتا نہیں ۔ طبیعت گھبراتی ہے، ہماری عجز سے اور کا اختیار ثابت ہوتا ہے۔ وہ قدرت کردگار ہے، دعوی وہم غلط بیکار ہے۔ جسدم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے۔
شگوفۂ محبت صفحہ 18
مور ضعیف سے فیل مست کو پست کرتا ہے۔ اینٹ کی خاطر مسجد ڈھاتا ہے۔ پشے نے نمرود سے سرکش کے دماغ پُر باد میں جاپائی فرعون کی قضا موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپی پانی میں ڈوبا کہ جہنم کی آگ دکھائی۔ بجز عجز و قصور فتور اس درگاہ میں پسند نہیں۔ کام اس کا کسی چیز پر بند نہیں۔ جس نے گردن کشی سے سرتابی کی۔ طرفۃ العین میں خانہ خرابی کی قدرتین اس کی قابل اظہار لائق بیان نہیں کا الشمس نصف النہار عالم پر روشن ہیں۔ نہاں نہیں اور سزاوار درود و سلام نبی ہمارا علیہ السلام ہے جس نے ایک انگلی کے اشارے سے قمر کو دو کیا۔ فرماں برداروں نے اس کی جو چہا سو کیا، وہ شرع کی شاہراہ نکالی کہ عاصیوں نے مغفرت کی سبیل پائی، ہر کلمہ گو کو اس کے پیرو کو اطاعت و فرمانبرداری اس خجستہ صفات کی سند ہے۔ وسیلہ نجات کی لہذا اس وادی ناپیدا کنار سے عنان شبدیز خامہ معطوف کر کے گرم خیز دشت مدعا کیا۔ محبت نامہ عطوفت شمامہ مع تحائف مرسلہ بہ ساعت سعید ذریعہ برید سے ملاحظہ میں آیا۔ ہر فقرے نے اتحاد کا لطف دکھایا۔ مضمون مکتوب سے خیر و شر کے بھی پہلو ظاہر ہوے۔ حقیقت حال کیفیت مآل سے ماہر ہوے۔ مجبور ہیں کہ تم نے کلام خدا کی اس پر میں پناہ لی ہے۔ گواہی مخبر صادق علیہ السلام کی حدیث سے دی ہے۔ مجبور چارا نہ ہوا۔ انکار گوارا نہ ہوا۔ کہ آدم علیہ السلام کے زمانے سے تا ایندم بے بیش و کم یہی سلسلہ چلا آیا ہے۔ اور نسلاً بعد نسل، بطناً بعد بطن اس گُتھی کو کسی نے نہیں سلجھایا ہے۔ اور اظہار قدرت پروردگار آبادی شہر و دیار منحصر اس کار پر ہے جو امور شرعیہ خدا اور رسول کے احکام سے اجتناب کرے۔ مثل شیطان واجب اللعن ہو۔ آبرو کو خراب کرے۔ ورنہ اے مہربان یہی گویہی میدان ہوتا، خدا نہ دکھائے جو سامان ہوتا۔ دوسری یہ بات ہے کہ بددِ شعور سے آجتک تا مقدور طبیعت جویاے صلح رہی۔ جنگ سے انکار رہا۔ مروت اور محبت پر دارمدار رہا۔ آج نہیں کل اس وادی میں قدم دھرنا تھا۔ بار دوش اتارنے کو یہی کام کرنا تھا۔ اب بے جستجو یہ معاملہ رو برو آگیا۔ آیہ و حدیث پر عمل کیا، گردن جھکائی، تمہارے تمنا بر آئی۔ جس وقت جی چاہے۔ بے تردد رہ نور و منزل مقصد ہو۔ حست امکان جو کچھ ہو سکے گا۔ ظہور میں آئے گا۔ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ لطف دکھاے گا۔ وہ جو جنگ و جدال کا حال
شگوفۂ محبت صفحہ 19
لکھا تھا۔ شاہان نامدار کا شب و روز یہی کار ہے۔ راحت خلق اپنا آزار ہے۔ پاسبان بدایع دوایع کردگار ہیں۔ یہی مشغلے ہمارے لیل و نہار ہیں۔ مجبور ہیں کہ اسی کام پر مامور ہیں۔ نامہ تمام ہو کے بند ہوا۔ درِ امید کھلا۔ سربمہر ایلچی کو حوالے کیا۔ دم رخصت اور خلعت گراں بہا نوادرات جا بجا دوستانہ دے کر روانہ کیا۔ تامنہ دار فائز المرام شاد کام نسیم صبا سے تیز تر دشت و کوہسار طے کر کے در دولت پر حاضرو ہوا۔ بشرہ شناسوں نے مژدہ بشاشت مشتاق لیل و نہار سلطان ذی وقار کو دیا۔ روبرو طلب کیا۔ نامے کا جواب سن کے آذر شاہ فرط مسرت سے بت ہو گیا۔ وزیر سے فرمایا کہ یہ ماجرا سچ ہے یا بات کی پچ ہے۔ وہ قسم شدید بے تامل کھانے لگا۔ اس وقت شہریار کو یقین آنے لگا۔ اسی دم بے اندیشہ و غم تیاری سفر گھر گھر ہونے لگی۔ منجمان دقیقہ رس اختر شناساں پاکیزہ نفس کو یاد فرمایا۔ متفق اللفظ سبنے دیکھ بھال کے ایام بدی میں ٹال کے ایک روز مقرر کیا۔ وزیر صائب تدبیر نے بلا توقف و تاخیر علم و کمال کے مطابق فرد فرد کو مالا مال دنیا کی احتیاج سے فارغ البال کیا۔ بروز معین ساعت مقرر بڑے کر و فر سے مع فوج و لشکر شاہ خجستہ نہاد روانہ ہوا۔ نت نیا مد نظر آب و دانہ ہوا۔
روانہ ہونا آزر شاہ کا شوکت و شان سے جلو میں فوج و سپاہ گرد ترقی خواہ بڑے تزک اور سامان سے
قصہ کوتاہ سب مرحلے طے کر کے جس دم چین کی سرحد میں لشکر کا گذر ہوا۔ آمادہ کار براری سرگرم خدمتگذاری ہر جگہ کا اہلکار ہوا۔ القصہ کوہ و دشت بلند و پست طے کر کے بیت السلطنت کے متصل خیام ذوی الاحترم نصب ہوے۔ آمد کا غلغلہ ساکنان شہر کے گوش زد ہوا۔ چھوٹا بڑا مسرور از حد ہوا۔ وزیر اعظم بصد جاہ و حشم مقربان بارگاہِ آسمان جاہ کو ہمراہ لے کے حاضر ہوا۔ دست بستہ سب نے نذر دی۔ ملازمت کی سعادت حاصل کی اور بادشاہ کا تشریف نہ لانا بموجب رسم زمانا عرض کیا۔ رات اسی جگہ گذری۔ بڑے تکلف سے تمام لشکر کی دعوت کی۔ دمِ سحر وزیر شاہ کو شہر میں لایا۔ مکاناتِ مرتفع عالی سجے سجاے ان کے واسطے خالی ہوے تھے۔ رہنے کو وہ مقام ملا۔ رنج و سفر سے آرام ملا۔ کچھ دنوں میں تعب راہ سے حرج شام و
شگوفۂ محبت صفحہ 20
پگاہ سے فرصت پائی۔ ساچق مہندی برات کی رات آئی۔ اگر اس کا بیان قلیل ہو، داستان طول طویل ہو، موافق آئین شاہان نامدار بڑے عز وقار سے شادی ہو گئی۔ مشتاق کی خانہ آبادی ہو گئی۔ کچھ دن بہر کیف راحت اور آرام میں بسر ہوئے۔ جلسے ہمدگر ہوے۔ بعذ لانتظامی شہر مملکت کی نطع و ضرر میں مصلحت سفر میں دیکھی۔ رخصت کا پیام ہوا۔ سامان سب مہیا ہوا۔ چلنے کا اہتمام ہوا۔ دم رخصت فرمانرواے چین نے اس قدر مال و اسباب نقد و جنس سیم و زر الماس و گہر اس رقم خاص کے سوا اور ایسا کچھ دیا کہ چشم ہمت آذر شاہ نے اس سے پہلے نہ دیکھا تھا۔ صدہا غلام زریں کمر، ہزاروں لونڈیاں، گل اندام یاسمین پیکر سمن رخ کی خدمت کو دے کر بادیدہ تر وداع کیا۔ اس سانحہ کی خبر شہروں میں جو دور تر تھے، گھر گھر پہنچی۔ غرضیکہ روز و شب قطع راہ بسان خورشید و ماہ آذر شاہ نے کی۔ بعد چندے بوے وطن دماغ میں آئی۔ فلک نے اپنے شہر کی صورت دکھائی۔ مطلب دلی حاصل ہوا۔ مع الخیر شہر میں داخل ہو اور باری سے بازاری تک مسرور دیکھا۔ دل سب کا شاد ہوا۔ از سر نو اتنا پرانا شہر آباد ہوا۔ جان نثار اور ترقی خواہوں نے اپنے حوصلے سے افزوں جلسےکیے۔
سمن رخ کا حاملہ ہونا، زلالہ کے باعث جنون کا معاملہ ہونا، حکماے حاذق کا بلانا وحشی کو صحت نہ پانا، شاہ صاحب کا بڑی جستجو سے ہاتھ آنا، ان کی دعا سے اچھا ہو جانا
محرر سحر بیان راقم داستان لکھتا ہے کہ اب آذر شاہ شام و پگاہ امورات سلطنت سے فرصت پا کے نئی محلسرا میں جا کے شام کو بعیش و نشاط سحر کرنے لگا۔ بڑے لطف سے زیست بسر کرنے لگا۔ ہنوز وہ فصل تمام نہ ہونے پائی کہ شاخ آرزو پھولی اور ثمر لائی۔ سب کے دست قابلہ نے خلوت میں آذر شاہ سے عرض کیا کہ مبارک ہو خوشی کا معاملہ ہے۔ سمن رخ شاہزادی حاملہ ہے۔ بادشاہ کو انتہا کی مسرت ہوئی۔ حد سے زیادہ سرور ہوا۔ وہ جو ملک کے انتقال کا بغیر اولاد خیال تھا، دل سے دور ہوا، درِ خزانہ وا ہوا۔ محتاجوں کا بھلا ہوا۔ فقرا مساکین گوشہ نشین کامیاب ہوے۔ ہزارہا کار ۔۔۔اب ہوے۔ رفتہ رفتہ یہ خبر وحشت اثر زلالہ جو پہلی بی بی تھی اس کے گوش زد ہوئی۔آتش رشک میں بُھن کے منہ کو پیٹ سر کو دھن کے خور و خواب وہ خانہ خراب بھولی