حسان خان
لائبریرین
گزشتہ برس ستمبر میں جب ایک بیمار ذہنیت نے اپنی ذہنی پسماندگی کا مظاہرہ یوٹیوب پر کیا تو ہم نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے تھپڑ مار مار کر اپنا ہی منہ لال کر لیا.
اگرچہ جلسہ جلوس اور مظاہرے تو ذات اقدس سے محبت کے اظہار کے نام پر کیے گئے لیکن اس کے پردے میں بنک اور اے ٹی ایم لوٹنے، سنیما جلانے اور حسب توفیق توڑ پھوڑ کرنے کی خواہشات کو پورا کیا گیا.
حکومت نے بھی اپنا حصّہ ڈالا اور اس ضمن میں چھٹی کا اعلان دے مارا اس پر تڑکا یو ٹیوب کو بند کر کہ لگایا گیا.
کسی کو خیال نہیں آیا کہ کہ اس جنونیت کو لگام ڈالی جائے اور دلیل سے اس بیمار ذہنیت کا مقابلہ کیا جائے یہاں تو حساب ہی الٹا تھا ایک طرف اس ‘مذہبی جوش و خروش’ پر تیل ڈالا گیا اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی جو اپنے تئیں لبرل نظریات کی علمبردار ہیں اور ووٹ بھی اسی نام پر بٹورتی ہیں کی اتحادی حکومت نے جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ذریعہ کو بند کر کے اسکا عملی ثبوت دیا.
اگرچہ یو ٹیوب کو بند کرنے یا نہ کرنے کا ان جماعت کے نظریات سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی اگر پاکستان کے اکثریتی عوام نے ان جماعتوں کو اقتدار سونپا تھا تو مجھے امید تھی کہ انکا ردعمل کم از کم یہ نہیں ہونا چاہیے تھا.
مہینہ بعد ہی لوگ اس ویڈیو کو بھول گئے اور جن لوگوں نے جلوس نکالے تھے وہ اپنی اپنی دکانوں کو بڑھا گئے اور دوسرے حلوے مانڈوں میں مصروف ہو گئے لیکن جس یرغمالیت کے تحت یہ اقدامات کیے گئے تھے اسکا شکنجہ اتنا مضبوط تھا کہ ذرا حکومت نے نظر بچا کر یو ٹیوب کھولا نہیں وہیں یہ خود ساختہ ٹھیکیدار اپنی نیند سے جاگ گئے نتیجہ یہ کہ چند گھنٹوں بعد ہی دوبارہ یو ٹیوب پابند سلاسل کر دیا گیا.
ایک دو کو چھوڑ کر اکثر مسلم ملکوں میں اس واقعہ کو چاند پر تھوکنے کے مترادف لیا گیا اور کسی جنونیت زدہ جذباتیت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گئے اور دلیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کیا گیا. خیر ہمارا کیا کہنا ہم تو اونٹ نگلنے اور مچھر چھاننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے!
میرا مقصد اس تحریر کو لکھنے کا ہرگز یہ نہیں کہ میں یو ٹیوب کی خوبیاں بیان کروں اور اسے کھولنے کے لئے تحریک کی بنیاد ڈالوں لیکن کیا ہم نے کبھی ٹھنڈے دل سے غور کیا کہ ہمارے اس عمل نے ہمیں فائدہ زیادہ پہنچایا ہے یا نقصان؟
کیا حکومت اس سلسلے میں کوئی سافٹ ویئر نہیں بنوا سکتی تھی جو صرف اس ویڈیو تک جانے والی ٹریفک کا راستہ روک دیتی؟
کیا دنیا کو ہم اپنا پیغام یو ٹیوب کو ہی استعمال کرتے ہوئے زیادہ بہتر طور پر نہیں پہنچا سکتے تھے؟
لیکن اسکے برعکس ہم نے ریت میں منہ ڈالنے کو ترجیح دیا جس سے اور تو کچھ حاصل نہیں ہوا صرف اس بیمار ذہنیت کی پیداوار کو اہمیت مل گئی، باقی دنیا بشمول مسلم ممالک تو اپنے روزمرہ کے مطابق چل رہے ہیں اور ہم بڑے فخر سے جہالت کا تاج پہنے سمجھ رہے ہیں کہ ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں شائد ہمارے اسلام کو کسی ایسی ہی سند کی ضرورت ہے. ویسے بھی مسلم دنیا میں ‘اصلی تے وڈے’ مسلم تو صرف ہم ہیں باقی کچھ کافر اور اور کچھ کا اسلام مشکوک ہے.
اس سارے واقعہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے شروع شروع میں تو ذرا شرماتے شرماتے یو ٹیوب تک رسائی کے لئے کوششیں کی جاتی تھیں پھر کچھ عرصے بعد اس میں ڈھٹائی کا عنصر بھی شامل ہو گیا اب صرف حکومتی سطح پر یو ٹیوب بند ہے باقی عوام ہوں یا خواص انہوں نے اس تک رسائی کے طریقے ڈھونڈ لئے ہیں.
پاکستان میں اگر یو ٹیوب کو ‘google’ میں سرچ کیا جائے تو اس جستجو کے لئے google جو تجاویز دیتا ہے وہ بکثرت سرچ کیے جانے والے الفاظ ہوتے ہیں اسکا نتیجہ جو نظر آتا ہے وہ یو ٹیوب تک رسائی کے طریقے ہیں یعنی ہمارا مذہبی جوش و خروش لوٹ مار سے ہی ٹھنڈا ہو گیا تھا اب تو صرف رسما ہم نے اسے قید کیا ہوا ہے.
یو ٹیوب کو بند کرنے سے اور تو کچھ نہیں ہوا صرف ہماری اجتماعی منافقت کا پردہ چاک ہو گیا ہے اور ہم جہالت کا تاج پہنے ننگے کھڑے مسکرا رہے ہیں. جانے ہماری یہ منافقت کب ختم ہو گی؟
اپنا ہی منہ تھپڑوں سے لال کرنے کی اس عادت نے ہمارا چہرہ اتنا مسخ کر دیا ہے کہ آئینہ بھی اب جھوٹ بولنے سے قاصر ہے. خیر جو قوم حج کے نام پر کرپشن کرے کفر اور ایمان کے فتاویٰ کے چھاپہ خانے گھر گھر میں کھلے ہوں فرقہ کی بنیاد پر انسانی جاں لے لینے کو جنت میں جانے کی پرچی سمجھے اور دین کی روح کو منافقت کے مترادف جانے اور اقلیتوں کے جاں و مال کو پامال کرنے میں فخر محسوس کرے اسے اپنے ذہنی تعفن سے اٹھتی سڑاند عود و عنبر کی لپیٹیں نہ لگیں تو اور کیا لگیں!؟
آخر میں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ کچھ نہیں تو ہمیں کم از کم یو ٹیوب کا شکریہ ہی ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہماری منافقت پر لپٹے چند چیتھڑے بھی نوچ لئے ہیں اور اب ہم فخر سے اس منافقت کے سائے میں جی سکتے ہیں….شکریہ یو ٹیوب!
ربط
اگرچہ جلسہ جلوس اور مظاہرے تو ذات اقدس سے محبت کے اظہار کے نام پر کیے گئے لیکن اس کے پردے میں بنک اور اے ٹی ایم لوٹنے، سنیما جلانے اور حسب توفیق توڑ پھوڑ کرنے کی خواہشات کو پورا کیا گیا.
حکومت نے بھی اپنا حصّہ ڈالا اور اس ضمن میں چھٹی کا اعلان دے مارا اس پر تڑکا یو ٹیوب کو بند کر کہ لگایا گیا.
کسی کو خیال نہیں آیا کہ کہ اس جنونیت کو لگام ڈالی جائے اور دلیل سے اس بیمار ذہنیت کا مقابلہ کیا جائے یہاں تو حساب ہی الٹا تھا ایک طرف اس ‘مذہبی جوش و خروش’ پر تیل ڈالا گیا اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی جو اپنے تئیں لبرل نظریات کی علمبردار ہیں اور ووٹ بھی اسی نام پر بٹورتی ہیں کی اتحادی حکومت نے جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ذریعہ کو بند کر کے اسکا عملی ثبوت دیا.
اگرچہ یو ٹیوب کو بند کرنے یا نہ کرنے کا ان جماعت کے نظریات سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی اگر پاکستان کے اکثریتی عوام نے ان جماعتوں کو اقتدار سونپا تھا تو مجھے امید تھی کہ انکا ردعمل کم از کم یہ نہیں ہونا چاہیے تھا.
مہینہ بعد ہی لوگ اس ویڈیو کو بھول گئے اور جن لوگوں نے جلوس نکالے تھے وہ اپنی اپنی دکانوں کو بڑھا گئے اور دوسرے حلوے مانڈوں میں مصروف ہو گئے لیکن جس یرغمالیت کے تحت یہ اقدامات کیے گئے تھے اسکا شکنجہ اتنا مضبوط تھا کہ ذرا حکومت نے نظر بچا کر یو ٹیوب کھولا نہیں وہیں یہ خود ساختہ ٹھیکیدار اپنی نیند سے جاگ گئے نتیجہ یہ کہ چند گھنٹوں بعد ہی دوبارہ یو ٹیوب پابند سلاسل کر دیا گیا.
ایک دو کو چھوڑ کر اکثر مسلم ملکوں میں اس واقعہ کو چاند پر تھوکنے کے مترادف لیا گیا اور کسی جنونیت زدہ جذباتیت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گئے اور دلیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کیا گیا. خیر ہمارا کیا کہنا ہم تو اونٹ نگلنے اور مچھر چھاننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے!
میرا مقصد اس تحریر کو لکھنے کا ہرگز یہ نہیں کہ میں یو ٹیوب کی خوبیاں بیان کروں اور اسے کھولنے کے لئے تحریک کی بنیاد ڈالوں لیکن کیا ہم نے کبھی ٹھنڈے دل سے غور کیا کہ ہمارے اس عمل نے ہمیں فائدہ زیادہ پہنچایا ہے یا نقصان؟
کیا حکومت اس سلسلے میں کوئی سافٹ ویئر نہیں بنوا سکتی تھی جو صرف اس ویڈیو تک جانے والی ٹریفک کا راستہ روک دیتی؟
کیا دنیا کو ہم اپنا پیغام یو ٹیوب کو ہی استعمال کرتے ہوئے زیادہ بہتر طور پر نہیں پہنچا سکتے تھے؟
لیکن اسکے برعکس ہم نے ریت میں منہ ڈالنے کو ترجیح دیا جس سے اور تو کچھ حاصل نہیں ہوا صرف اس بیمار ذہنیت کی پیداوار کو اہمیت مل گئی، باقی دنیا بشمول مسلم ممالک تو اپنے روزمرہ کے مطابق چل رہے ہیں اور ہم بڑے فخر سے جہالت کا تاج پہنے سمجھ رہے ہیں کہ ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں شائد ہمارے اسلام کو کسی ایسی ہی سند کی ضرورت ہے. ویسے بھی مسلم دنیا میں ‘اصلی تے وڈے’ مسلم تو صرف ہم ہیں باقی کچھ کافر اور اور کچھ کا اسلام مشکوک ہے.
اس سارے واقعہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے شروع شروع میں تو ذرا شرماتے شرماتے یو ٹیوب تک رسائی کے لئے کوششیں کی جاتی تھیں پھر کچھ عرصے بعد اس میں ڈھٹائی کا عنصر بھی شامل ہو گیا اب صرف حکومتی سطح پر یو ٹیوب بند ہے باقی عوام ہوں یا خواص انہوں نے اس تک رسائی کے طریقے ڈھونڈ لئے ہیں.
پاکستان میں اگر یو ٹیوب کو ‘google’ میں سرچ کیا جائے تو اس جستجو کے لئے google جو تجاویز دیتا ہے وہ بکثرت سرچ کیے جانے والے الفاظ ہوتے ہیں اسکا نتیجہ جو نظر آتا ہے وہ یو ٹیوب تک رسائی کے طریقے ہیں یعنی ہمارا مذہبی جوش و خروش لوٹ مار سے ہی ٹھنڈا ہو گیا تھا اب تو صرف رسما ہم نے اسے قید کیا ہوا ہے.
یو ٹیوب کو بند کرنے سے اور تو کچھ نہیں ہوا صرف ہماری اجتماعی منافقت کا پردہ چاک ہو گیا ہے اور ہم جہالت کا تاج پہنے ننگے کھڑے مسکرا رہے ہیں. جانے ہماری یہ منافقت کب ختم ہو گی؟
اپنا ہی منہ تھپڑوں سے لال کرنے کی اس عادت نے ہمارا چہرہ اتنا مسخ کر دیا ہے کہ آئینہ بھی اب جھوٹ بولنے سے قاصر ہے. خیر جو قوم حج کے نام پر کرپشن کرے کفر اور ایمان کے فتاویٰ کے چھاپہ خانے گھر گھر میں کھلے ہوں فرقہ کی بنیاد پر انسانی جاں لے لینے کو جنت میں جانے کی پرچی سمجھے اور دین کی روح کو منافقت کے مترادف جانے اور اقلیتوں کے جاں و مال کو پامال کرنے میں فخر محسوس کرے اسے اپنے ذہنی تعفن سے اٹھتی سڑاند عود و عنبر کی لپیٹیں نہ لگیں تو اور کیا لگیں!؟
آخر میں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ کچھ نہیں تو ہمیں کم از کم یو ٹیوب کا شکریہ ہی ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہماری منافقت پر لپٹے چند چیتھڑے بھی نوچ لئے ہیں اور اب ہم فخر سے اس منافقت کے سائے میں جی سکتے ہیں….شکریہ یو ٹیوب!
ربط