شوق انتظار

مژگان نم

محفلین
وہ اک فریب آگہی جو تھا
ترے دام الفت و خواب کا
تری محبتوں کے سراب کا
وہ نہیں رہا
وہ اک دلاسہ دل جو تھا
مری زندگی کی ضمان تھا
ترے وصل کا جو گمان تھا
وہ نہیں رہا
مرے یاس کی سرحدوں پہ
وہ جواک دیا تھا امید کا
تری آہٹوں کی نوید کا
وہ بھی بجھ گیا
وہ جو عہد تھا لاشعور میں
میرے دل سے جو تیرے دل کو تھا
وہ ان کہا سا اک مان بھی
اب بکھر گیا
کہ اب کہ تحت شعور میں
نہ فریب ہے جو تسلی دے
عہد و پیماں کی ضمان میں
نہ کوئ دیا ہے جو جلا رہے
دل مضطرب
دل بے قرار
لو فنا ہوا
شوق انتظار

(مژگاں بونگی)
 
Top