طارق شاہ
محفلین
غزل
شورش آروی
آخر کو جان دینی پڑی مجھ کو آن پر
دل دے کے تم کو آ ہی بنی میری جان پر
سُرمہ نہیں لگا ہے پپوٹوں پہ یار کے
ہے تیغ پہ یہ تیغ، کماں ہے کمان پر
بے دید جلوۂ رُخِ روشن پِھرے نہیں
موسیٰ کی طرح جا پڑے جب آستان پر
مسجد، کنشت، دیر، حرم، مے کدہ، بہشت
پہنچا کہاں کہاں میں تمھارے گمان پر
شوقِ وصال، ہجر کا غم، انتظارِ وقت
کتنی مصیبتیں ہیں مِری ایک جان پر
سرگوشیاں ہیں جن سے سُنیں کان کھول کر
آیا جو دل میں، کھیل ہی جاؤں گا جان پر
بندہ تو ایسا ہوگا نہ شورش خدا گواہ
قربان جان حیدرِ صفدر کی شان پر
شورش آروی
شورش آروی
آخر کو جان دینی پڑی مجھ کو آن پر
دل دے کے تم کو آ ہی بنی میری جان پر
سُرمہ نہیں لگا ہے پپوٹوں پہ یار کے
ہے تیغ پہ یہ تیغ، کماں ہے کمان پر
بے دید جلوۂ رُخِ روشن پِھرے نہیں
موسیٰ کی طرح جا پڑے جب آستان پر
مسجد، کنشت، دیر، حرم، مے کدہ، بہشت
پہنچا کہاں کہاں میں تمھارے گمان پر
شوقِ وصال، ہجر کا غم، انتظارِ وقت
کتنی مصیبتیں ہیں مِری ایک جان پر
سرگوشیاں ہیں جن سے سُنیں کان کھول کر
آیا جو دل میں، کھیل ہی جاؤں گا جان پر
بندہ تو ایسا ہوگا نہ شورش خدا گواہ
قربان جان حیدرِ صفدر کی شان پر
شورش آروی