شفیق خلش - " کِھلا نیا ہوکوئی گل تو ہرنظر میں رہے"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش
کِھلا نیا ہو کوئی گل تو ہر نظر میں رہے
کسی کے دل میں رہے وہ، کسی کے سر میں رہے
تمام عمر عذابوں کے ہم اثر میں رہے
نہ ذِکر میں رہے کِس کے نہ ہی نظر میں رہے
ہمارا دل نہ سُکوں سے اب ایسے گھر میں رہے
جہاں خیال تمہارا ہی بام ودر میں رہے
زبان رکھتے ہوئے اُن سے مُدّعا نہ کہا
ملال اِس کا ہمارے دل و جگر میں رہے
بلند جس کی طلب میں رہے ہیں دستِ دُعا
خُدا کرے، کہ دُعاؤں کے وہ ثمر میں رہے
تھی مُختصرسی محبت کی زندگی اتنیلگے کہ جیسے کسی پل، کسی شرر میں رہے
کسے بھی پیار ومحبت کا کچھ نہیں تھا دماغ سب اجنبی کی طرح ہی رہے، جو گھر میں رہے
کسی بھی بات سے ناراضگی نہ ہو اُن کی کہیں، کہ دُوروہ ہم سے اِسی ہی ڈر میں رہے
بغیرسایۂ گیسو کٹھن ہے دُھوپ خلش
چلے بھی آئیں، کہ پتے نہ اب شجر میں رہے
 

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش
کِھلا نیا ہو کوئی گل تو ہر نظر میں رہے
کسی کے دل میں رہے وہ، کسی کے سر میں رہے
تمام عمر عذابوں کے ہم اثر میں رہے
نہ ذِکر میں رہے کِس کے نہ ہی نظر میں رہے
ہمارا دل نہ سُکوں سے اب ایسے گھر میں رہے
جہاں خیال تمہارا ہی بام ودر میں رہے
زبان رکھتے ہوئے اُن سے مُدّعا نہ کہا
ملال اِس کا ہمارے دل و جگر میں رہے
بلند جس کی طلب میں رہے ہیں دستِ دُعا
خُدا کرے، کہ دُعاؤں کے وہ ثمر میں رہے
تھی مُختصرسی محبت کی زندگی اتنی
لگے کہ جیسے کسی پل، کسی شرر میں رہے
کسے بھی پیار ومحبت کا کچھ نہیں تھا دماغ
سب اجنبی کی طرح ہی رہے، جو گھر میں رہے
کسی بھی بات سے ناراضگی نہ ہو اُن کی
کہیں، کہ دُوروہ ہم سے اِسی ہی ڈر میں رہے
بغیرسایۂ گیسو کٹھن ہے دُھوپ خلش
چلے بھی آئیں، کہ پتے نہ اب شجر میں رہے
 
Top