شفیق خلش "نہ بوجھ یوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش
نہ بوجھ یوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ
دُکھوں کوگوشوں میں اِس کے نہ تُو سنبھال کے رکھ
ہرایک شے پہ تو قدرت نہیں ہے انساں کو
شکستِ دل کوبصورت نہ اک وبال کے رکھ
گِراں ہیں رات کےآثار، ذہن دل کے لئے
سُہانے یاد کے لمحے ذرا نکال کے رکھ
میں جانتا ہوں نہیں دسترس میں وہ میری
ہَوا مہک سے نہ اُس کی یہ دل اُچھال کے رکھ
بہل ہی جائیں گے ایّام ہجرتوں کے خَلِش
خیال وخواب اُسی حُسنِ بے مثال کے رکھ
شفیق خلش
normal_post.png
 

طارق شاہ

محفلین

بہل ہی جائیں گے ایّام ہجرتوں کے خَلِش

خلیل صاحب
بالا غزل کے مصرع سے ٹائپو درست کردیں گے تو ممنون ہوں گا
تشکّر
 
Top