شفیق خلش شفیق خلش ::::: دوڑے آتے تھے مِرے پاس صدا سے پہلے :::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش

دوڑے آتے تھے مِرے پاس صدا سے پہلے
اب وہ شاید ہی، کبھی آئیں قضا سے پہلے

کوئی اور آ کے ہی بتلادے ہمیں حال اُن کا !
دردِ دل غم سا ہی ہو جائے سَوا سے پہلے

عادتیں ساری عِنایت کی بدل دیں اُس نے
اب تسلّی نہیں دیتے وہ سزا سے پہلے

روز و شب وہ بھی اذیّت میں ہُوئے ہیں شامِل
یادِ جاناں میں جو رہتے تھے جُدا سے پہلے

خواہشیں ساری جو پنہاں ہیں مِرے سینے میں
پُوری ہونے کی نہیں تیری وفا سے پہلے

ناز و انداز ہے کیا، حُسْن کے نخرے کیا ہیں
کچھ بھی معلوم نہ تھا، اُن کی ادا سے پہلے

کھولنے آئی مُصیبت تھی حقیقت اُن کی !
دوست بن بن کے جو مُلتے تھے ریا سے پہلے

اُن دِیوں نے بھی، سرِباد ہی اِلزام دھرے
جل بُجھے تھے جو چَلی تیز ہَوا سے پہلے

چا ہے جانے پہ ہی وہ، ہوگئے بدنام خلش !
کیا سزا پائی ہے نِسبت کی خطا سے پہلے

شفیق خلش
 
Top