شعلہ رُخ مست نظر یاد آیا
رشکِ خورشید و قمر یاد آیا
اشک آنکھوں سے چھلکتے ہی رہے
جب کبھی وہ گُلِ تر یاد آیا
آج کھولی جو بیاضِ غالب
معدنِ لعل و گُہر یاد آیا
برق چمکی تو نشیمن دیکھا
شاخ ٹوٹی تو ثمر یاد آیا
چاند کی سمت جو دیکھا ساغر
اپنے ارماں کا سفر یاد آیا
مدیر کی آخری تدوین: