ساغر صدیقی شعلہ رُخ مست نظر یاد آیا

ام اویس

محفلین
شعلہ رُخ مست نظر یاد آیا
رشکِ خورشید و قمر یاد آیا

اشک آنکھوں سے چھلکتے ہی رہے
جب کبھی وہ گُلِ تر یاد آیا

آج کھولی جو بیاضِ غالب
معدنِ لعل و گُہر یاد آیا

برق چمکی تو نشیمن دیکھا
شاخ ٹوٹی تو ثمر یاد آیا

چاند کی سمت جو دیکھا ساغر
اپنے ارماں کا سفر یاد آیا​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top