شریر بیوی- ص 46

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200046.gif
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
توشرارت کرے گی تو قلعی پولیس میں دی جائے گی۔ مگر وہ تو رات کے واقعات کے اوپر ہنسی کے مارے بیتاب تھی ۔ غرض اس چڑھائی کو ہم نے خوب لطف کے ساتھ ملے کیا۔
نینی تال پہنچ کر ہم نے ہمالیہ ہوٹل پر قیام کیا۔ دوسرے ہی روز سے ہلکے پیمانے پر چاندنی نے پھر کونین کا استعمال جاری کر دیا۔ ناممکن تھا کہ چائے آئے اور بقیہ شکر یا دودھ وغیرہ کڑوانہ کردے۔
روزانہ کا معمول تھا کہ ہم میلوں پیدل چلتے تھے اور دن بھر سیر و تفریح میں گزرتا۔ نہ معلوم کب کے اوور کہاں کے دوستوں سے ملاقات ہوئی تھی اور ہم اور ہماری بیوی جگہ جگی دعوتیں کھاتے تھے کونسل کا اجاس دیکھنے گئے۔ یہاں ہمارے ہم سفر دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان سے اپنی بیوی کا باضابطہ تعارف کرایا۔ یہ بھی عجیب مسخرے اور دلچسپ آدمی تھے۔ آتریبل نواب محمد یوسف سے کون ایسا بھلا آدمی ہو گا جو نپنی تال جائے اور کسی نہ کسی طرح واقفیت حاصل نہ کرے یا ان کے وسیع اور پرتکلف وسترخوان پر بیغر بلائے ہوئے طرح طرح کے انگریزی اور ہندوستانی کھانے نہ کھاآئے یہ حضرت بھی ان ہی کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے ان کو بریلی کا واقعہ ایسا یاد تھا کہ پھر ذکر کرکے ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ وہاں خوب ہی لطف رہا ۔ مگر یہ نہ معلوم ہوا کہ آخر کس کی شرارت تھی۔ دو تین ہی روز میں ان حضرت سے کافی واقفیت ہوگئی۔ کیونکہ ہم ضروری بالضرور کونسل کا اجلاس دیکھنے آتے تھے۔ چاندنی کو شرارت کئے کافی عرصہ ہو گیا تھا ۔ لٰہذا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وہ پھر ایک شرارت ایسی کر گذری کہ ہم سخت گھبراگئے ۔ کونسل کے ریفرشمنٹ روم میں ویسے تو کئی مرتبہ گئے بلکہ روزانہ حاضری کااتفاق ہوتا تھا۔ مگر ایک روز ہماری فرشتہ سیرت بیگم صاحبہ کو وہاں بھی موقعہ مل گیا۔ اور نہ معلوم کس طرح چائے شکر اور دودھ وغیرہ ایسا کڑوا کیا کہ ہم کو بھی پتہ نہ چلا ۔ پتہ تو ہمیں جب چلا جب کونسل کے وقفہ میں وہی حضرت ہنستے ہوئے ہمارے پاس دوڑے آئے اور کہنے لگے کہ “ لو بھئی! ہوشیار ہو جاؤ۔ بریلی والا آگیا ” ہم نے کہا کیا معاملہ ہے تو وہ ہمیں اور چاندنی کو کونسل کے ریفرشمنٹ روم میں لے گئے۔ جہاں چند آنریبل ممبران منہ کی کڑواہٹ دور کرنے کے لئے کلیاں کر رہے تھے۔ ہم نے چاندنی سے چپکے سے کان میں کہا کہ اب تیری شامت قطعی آگئی ہے۔ بہتر ہے کہ یہاں سے بھاگ چل۔ چنانچہ ہم فواََ واپس آئے،
جس روز ہم جانے والے تھے اس سے ایک روز قبل یہ کونسل کے ممبر صاحب ہمیں جھیل کے کنارے ملے ۔ اور ہم نے ان کے بارے کے تذکرہ سے اور ان کی طبیعت سے خوش ہو کر مناسب خیال کیا کہ ان کو اس کڑواہٹ کا راز بتا دیں۔ چنانچہ جب ہم نے ان سے چاندنی کی شرارت کی معافی مانگی تو ہکا بکا کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ اور پوری داستان سن کر کہنے لگے کہ اب ہم تمہیںدو تن روز نہ جانے دیں گے۔ انہوں نے دو تین رو میں اپنے دوستوں کو جو یا تو خود بریلی کے اسٹیشن پر کونین کا شکار ہوئے تھے اور یا دوسروں کو دیکھ چکے تھے ۔چاندنی سے ملایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری
 
Top