شریر بیوی صفحہ 92

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200092.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 180

سابقہ پڑنے کا اندیشہ تھا۔

دراصل یہ اس ظالم کا ڈر ہی تھا جو اس جھٹپٹے وقت میں اس کو اس قبرستان میں کسی نامعلوم سمت میں لئے جا رہا تھا۔ ورنہ وہ سہم کر بے ہوش ہو گئی ہوتی۔ دور دور سناٹا تھا اور ایک متنفس بھی نظر نہ آتا تھا۔ وہ اب کچھ نڈر سی تھی۔ کیونکہ موت کی خواہاں تھی وہ تیزی سے اس مقام سے دور ہونا چاہتی تھی۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ مردوں کے مسکن میں تھی۔ بلکہ وہاں وہ خوفناک اور تاریک تہہ خانہ تھا۔ وہ اسی طرح تیزی سے چلی گئی۔ اُس کی آنکھیں کسی خاص چیز کو تلاش کر رہی تھیں اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے ایک بری کنویں کی چبوتری دیکھی۔ وہ تیزی سے دوڑ کر وہاں پہنچی۔ یہ پرانے زمانہ کا نہ معلوم کن وقتوں کا ایک زبردست کنواں تھا۔ اس نے جھانک کر کنویں کے اندر عمر میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ اور اندر کی سیاہی دیکھ کر اس کا دل کانپ گیا۔ مرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اور پھر اس کے لئے جو جوان اور تندرست ہو۔ اس نے اپنے آپ کو عجیب شش و پنج میں پایا۔ اس کو اپنی جوانی کا خیال آیا اور ساتھ ہی اصغر کا خیال آیا۔ پس دل ہی تو مل کر رہ گئی۔ وہ کوشش کر کے اس سے ضرور مل سکتی تھی۔ مگر یہ کیونکہ ہو سکتا تھا۔ "نہیں نہیں میں اب کبھی اصغر کو منہ نہ دکھاؤں گی۔" تو پھر آخر کیا ہو گا۔ دنیا اس کے لئے فوراً اندھیری ہو گئی۔

اس کے لئے مرنا ہی بہتر ہے اور یہ طے کر کے اس نے صندوقچی کو کنویں میں پھینک دیا۔ اس کے گرنے کی صدائے بازگشت ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ سامنے سے کوئی آدمی اندھیرے میں آتا معلوم ہوا۔ وہ سہم سی گئی اور اس نے جلدی سے اسی طرح گریاں و بریاں اپنے کو اس خوفناک کنویں میں ڈال دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 181

ایک دھماکہ ہوا اور وہ تہ آب تک چلی گئی۔ کہ اس کو پانی نے اوپر پھینکا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اس کے کپڑوں میں الجھ گئے تھے۔ مگر اس نے بے اختیاری کے عالم میں زور سے چلا کر ہاتھ پاؤں مارے۔ کیونکہ اس کو دراصل اب معلوم ہوا کہ مرنا کیسا ہے۔ مگر اس کی چیخ کو پانی کے ریلے نے خاموش کر دیا۔ اور وہ تھوڑی ہی دیر کی کشمکش کے بعد ایک بے خبری کے عالم میں ڈوب گئی۔

(4)

جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے کو حسین بخش کے گھر میں ایک چارپائی پر پڑا پایا اور تیمارداری کے لئے اس کی بہن تھی۔ اس نے وہاں ہر طرح کا آرام پایا۔ حسین بخش جب سے یہ آئی تھی، چپکے سے گھر میں آتا اور اسی طرح چلا جاتا۔ سوا سات مہینہ بعد اس کے بچہ پیدا ہوا۔

حسین بخش نے جب سے اب تک اس کو اچھی طرح رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ فلک کی ستائی ہوئی ہے۔ اور مظلوم ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت غمگین اور اُداس رہتی اور اس کی بہن ہر طرح اس کا غم دور کرنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی۔ لیکن پھر بھی حسین بخش کو پوری امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کا غم دور ہو گا اور تب یہ میری گھر والی بن کر رہے گی۔ وہ اپنی بہن کے ذریعہ سے کئی مرتبہ عندیہ لے چکا تھا اور ہر مرتبہ معصومہ کو اپنی راہ پر پختہ پایا تھا۔ کہ وہ اسی طرح زندگی بسر کر دے گی۔ وہ جانتی تھی کہ حسین بخش کے دل کی کیا حالت ہے۔ وہ غلاموں کی طرح اس کی خدمت کرتا تھا اور معصومہ کو بھی اس سے وہ محبت ہو گئی تھی۔ جر کو بردرانہ کہتے ہیں۔ اس کا منہ اس کو بھائی کہتے کہتے سوکھتا تھا اور وہ اس سے بے حد ہمدردی رکھتی تھی۔ کیونکہ
 
Top